گل افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خوں فشاں کیا کیا
گل افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خوں فشاں کیا کیا
ہمارے زیب دامن ہے بہار گلستاں کیا کیا
کشود مطلب عاشق کے ہیں لب پر گماں کیا کیا
ادائے خامشی میں بھر دیا رنگ بیاں کیا کیا
فقط اک سادگی پر شوخیوں کے ہیں گماں کیا کیا
نگاہ شرمگیں سے ہے نہاں کیا کیا عیاں کیا کیا
دل خوں گشتہ حسرت نے کیا کچھ گل کھلائے ہیں
بہار آگیں ہے کچھ اب کی برس فصل خزاں کیا کیا
جنوں سے کم نہیں ہے کچھ ہجوم شادمانی بھی
ہوائے گل میں ہے جامہ سے باہر باغباں کیا کیا
تصور میں وصال یار کے سامان ہوتے ہیں
ہمیں بھی یاد ہیں حسرت کی بزم آرائیاں کیا کیا
چلی آتی ہے اترائی ہوئی کچھ کوئے جاناں سے
بسی ہے رشک کی بو میں نسیم بوستاں کیا کیا
قدم رکھتے نہیں ہیں وہ زمیں پر بے نیازی سے
بڑھا جاتا ہے یاں شوق سجود آستاں کیا کیا
ظہیرؔ خستہ جاں سچ ہے محبت کچھ بری شے ہے
مجازی میں حقیقی کے ہوئے ہیں امتحاں کیا کیا
مأخذ:
Intekhab-e-Sukhan(Jild-2) (Pg. 195)
- مصنف: Hasrat Mohani
-
- اشاعت: 1983
- ناشر: uttar pradesh urdu academy
- سن اشاعت: 1983
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.