اک جوانی کا سبب اور پر ارماں ہونا
سخت مشکل ہے مری موت کا آساں ہونا
میں کہاں نظم کہاں جاہل مطلق ہوں میں
اس کی قدرت ہے مرا صاحب دیواں ہونا
کارگر پند و نصیحت نہیں ہوتی اس کو
جس کی تقدیر میں لکھا ہو پریشاں ہونا
وقت زینت ہے مجھے ان پہ ہنسی آتی ہے
آئنہ دیکھنا اور آپ ہی حیراں ہونا
یاد آتی ہیں مجھے ان کی وہ بھولی باتیں
خود مجھی کو سنا اور خود ہی پشیماں ہونا
تو نے صیاد قفس پر جو رکھے پھول تو کیا
موت بلبل کی ہے دورئ گلستاں ہونا
گر اسی طرح ہیں غارت گر دنیا ترے ظلم
میری نظروں میں ہے عالم کا بیاباں ہونا
ہر رگ دل میں مری روز خلش ہوتی ہے
اس میں ممکن ہے ترے تیر کا پیکاں ہونا
ایک دن آنے کا اک سوئے عدم جانے کا
رسم ہے خلق میں دو روز کا مہماں ہونا
دل یہ کہتا ہے مرا سلسلہ گیسو سے رہا
میں نے سیکھا ہے پریشاں سے پریشاں ہونا
روشنی قبر پہ کر دے کوئی اتنا بھی نہیں
قہر ہے دل کا چراغ تہ داماں ہونا
اے جنوں تیری ہی خصلت ہے مری رگ رگ میں
اب کبھی مجھ سے نہ تو دست و گریباں ہونا
لاش بھی تیری گلی سے نہ نکلنے دے گا
ہجر میں دم کا مرے صورت ارماں ہونا
دل بیتاب مرا سینہ سے باہر آیا
اب تو ممکن ہی نہیں راز کا پنہاں ہونا
بولا جلاد کہ ہم باتوں میں کرتے ہیں قتل
ہم کو شرماتا ہے شمشیر کا عریاں ہونا
بے کسی کہتی ہے ویرانہ رہے اس جا پر
جس سے ظاہر ہو کبھی گور غریباں ہونا
میرے احباب یہ کہتے ہیں کہ جاہل ہے شفیقؔ
ہے بہت جائے عجب اس کا غزل خواں ہونا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.