مطلوب دل نہ کیوں نگہ تند یار ہو
ایسا تو تیر ہو جو کلیجے کے پار ہو
بعد فنا جو قبر میں دل بے قرار ہو
شق جا بجا سے سقف و زمین مزار ہو
تیر نگاہ شوق جو سینے کے پار ہو
ہو پاش پاش دل تو کلیجہ فگار ہو
سایہ فگن جو قبر پہ ابر بہار ہو
مجھ پر نزول رحمت پروردگار ہو
پہلو سے اپنے پھینک دوں تجھ کو نکال کے
اے دل جو امتحان پہ تو بے قرار ہو
روشن نہ کیوں ہو داغ جگر میرا قبر میں
کوئی تو تیرگی میں چراغ مزار ہو
جلوہ فگن جو آپ ہوں مرقد میں یا علیؑ
شام مزار یہ مری صبح مزار ہو
ہو جاؤں ناجیوں ہی میں یا عاصیوں ہی میں
یا رب مرا کسی نہ کسی میں شمار ہو
مد نظر مجھے ہے ترا امتحان آج
اے تیر آہ گنبد گردوں کے پار ہو
کہتے ہیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے وہ میری قبر کو
یوں بے نشاں کسی کا نہ یا رب مزار ہو
ملتے ہو قبر پر کف افسوس کس لیے
منظور ہے تمہیں کہ دوبارہ فشار ہو
خلد و سقر میں اہل قیامت چلے گئے
مجھ کو بھی حکم کچھ مرے پروردگار ہو
بجلی گری کبھی کبھی بارش لحد پہ ہو
خنداں کوئی ہو اور کوئی اشک بار ہو
گیسو کرو جو آ کے پریشاں سر لحد
پھر کیوں نہ زیر قبر مجھے انتشار ہو
تم تڑپو مثل موج میں تڑپوں مثال برق
تم کو نہ ہو قرار نہ مجھ کو قرار ہو
اے شمع مجھ غریب کا باقی کوئی نہیں
تو ہی ذرا لحد پہ مرے اشک بار ہو
تیر نگاہ آپ کا اتنا تو ہو بھلا
دل توڑ کر بڑھے تو کلیجے کے پار ہو
سنتا ہوں بعد مرگ کے ہوتی ہے دید دوست
دے دوں میں اپنی جان اگر اختیار ہو
پہلو سے دل نکال کے لے جائیے گا بعد
پہلے ہمارے آپ کے قول و قرار ہو
طرفہ ہے یہ نشیب و فراز طریق عشق
پیدل جلو میں قیس ہو لیلیٰ سوار ہو
جاتی ہیں گر بلند تری ناوک خیال
فاخرؔ فلک پہ طائر مضموں شکار ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.