مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا
مجھے ساقیٔ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا
کہ نشہ نے جس کے غم جہاں مرے دل سے صاف بھلا دیا
کروں کیا بیان میں وصف اب مئے ناب عشق کا دوستو
کہ خودی کی قید سے یک قلم بخدا کہ مجھ کو چھڑا دیا
اثر اس کی چشم کرم کا اب کروں کس زبان سے میں بیاں
کہ بہ ہر مکان و بہ ہر طرف مجھے حق کا جلوہ دکھا دیا
کسی آرزو کی رہی نہیں ہے مرے دل میں کچھ بھی سمائے اب
مجھے ساقیا مے لطف سے تو نے کیا ہی خوب چکھا دیا
تری تیغ غمزۂ چشم نے جو ہیں قتل مجھ کو کیا صنم
تو وہیں پہ عیسیٰ ناز نے مجھے ایک دم میں جلا دیا
نہ فقط تمہاری نگاہ نے مرے دل کو ہاتھ سے لے لیا
کہ تمہاری زلف دراز نے مجھے سو بلا میں پھنسا دیا
نہ تھی چشم مجھ کو یہ اے صنم کہ تمہاری چشم نے یک قلم
مرے رخت عقل و شکیب کو برق نگہ سے جلا دیا
مجھے تو نے اپنے جمال کے دکھلا کے طرحیں نو بنو
کبھو مثل ابر رلا دیا کبھو مثل برق ہنسا دیا
میں فدائے خادم شاہ ہوں دل و جان سے آثمؔ جس نے اب
جسے بوجھنا ہی محال تھا اسے ایک پل میں سوجھا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.