صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے
صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے
میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے
اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا
ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے
پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ
تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے
وو بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لیے ہوئے
کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا یاد ہے
اک شہر جس نے کل مری آواز چھین لی
وو شہر بےنوا تھا مجھے اتنا یاد ہے
میں جیسے مدتوں سے اسی رہ گزر میں ہوں
پل بھر کا فاصلہ تھا مجھے اتنا یاد ہے
جانے پھر اس کے باد مجھے اس نے کیا کہا
حافظ خدا کہا تھا مجھے اتنا یاد ہے
چہرہ کسی کا اب بھی تصور میں ہے نفسؔ
اک اجنبی ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.