وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا
وہ سرد دھوپ ریت سمندر کہاں گیا
یادوں کے قافلے سے دسمبر کہاں گیا
کٹیا میں رہ رہا تھا کئی سال سے جو شخص
تھا عشق نام جس کا قلندر کہاں گیا
طوفان تھم گیا تھا ذرا دیر میں مگر
اب سوچتی ہوں دل سے گزر کر کہاں گیا
تیری گلی کی مجھ کو نشانی تھی یاد پر
دیوار تو وہیں ہے ترا در کہاں گیا
چائے کے تلخ گھونٹ سے اٹھتا ہوا غبار
وہ انتظار شام وہ منظر کہاں گیا
اس کی سیاہ رنگ سے نسبت عجیب تھی
وہ خوش لباس ہجر پہن کر کہاں گیا
رکھا نہیں تھا لوح محبت پہ آج پھول
کس بات پر خفا تھا مجاور کہاں گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.