زاروں سے ڈریے پھولیے زر پر نہ زور پر
کیجے نگاہ حال سلیمان و مور پر
روک اپنے نفس بد کو کہ حاصل ہے اختیار
بیمار پر حکیم کو حاکم کو چور پر
ہو آبرو بڑھانی تو یہ کہہ اب بحر کو
ملتا ملائمت سے ہے کس زور و شور پر
اک عمر سے وظیفہ ہے صاحب کے نام کا
ناخن کے خط ہیں انگلیوں کے پور پور پر
نرگس کے چشم بد کا ہے ناحق تمہیں خیال
الزام بد نگاہی کا تہمت ہے کور پر
پاؤں اپنا میرے سینہ پہ رکھ دیجے ایک بار
اک لات بھی تو ماریے حاتم کی گور پر
الفت میں دل امڈتے ہی سر تن سے اڑ گیا
سرپوش جوش مے سے نہ ٹھہرا مٹھور پر
کل تک جو شمع محفل عیش و نشاط تھے
جلتا نہیں چراغ ہے آج ان کی گور پر
بلبل سے ہم نے لڑکے کیا سر عشق فاش
واقف ہزار تھے تو کھلا اب کرور پر
ہوتے ہو باغ میں جو غزل خواں تم اے نسیمؔ
خندہ گلوں کو آتا ہے بلبل کے شور پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.