Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرے پہلے دوست خلیل الرحمن اعظمی کا ایک ادھورا خاکہ

باقر مہدی

میرے پہلے دوست خلیل الرحمن اعظمی کا ایک ادھورا خاکہ

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

    کاغذی پیراہن کا ایک شعر ہے،

    رو دھوکر چپ رہنے پربھی

    دل چھلکے ہے پیمانہ سا

    (کاغذی پیراہن ص ۱۷۶)

    خلیل کی اچانک موت سے جو صدمہ پہنچا تھا وہ فزوں تر ہے۔ بقول میر ع اک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں اور اس عمر میں اپنے پہلے دوست کی موت پر متصل رونے کی فرصت ملے بھی تو اپنے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ خلیل سے میری دوستی شدید، گہری اور چند برسوں پر مشتمل تھی۔ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء تک۔ ان چار برسوں میں ہم نے ایک دوسرے کو بےاختیار چاہا تھا اور پھر میں لکھنؤ چلا گیا اور خلیل علی گڑھ میں رچ بس گئے تھے مگرمیں اس دور کی یاد میں آنکھیں بند کرکے سالہا سال کے مناظر یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ساری یادیں دھندلاگئی ہیں۔

    بند آنکھوں میں آنسو آہستہ آہستہ ابھرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کی بازیافت میں مجھے تھوڑی بہت کامیابی بھی مشکل سے حاصل ہوگی۔ البتہ خلیل کے خطوط میرے پاس موجود ہیں، یہی ان کا تحفہ ہیں جسے میں نے گردش ایام سے بچاکر رکھ لیا ہے، شاید ان کی مدد سے ایک ادھورا سا خاکہ بن سکے۔

    اصل میں ہماری طالب علمی کی دوستی ہماری تعلیم کے بعد باقی نہ رہ سکی۔ آج اس کا تجزیہ کرتا ہوں تو مجھے اپنا قصور زیادہ نظر آتا ہے۔ خلیل کی شخصیت کے پروان چڑھنے کے لیے میری دوستی کا خاتمہ ضروری تھا۔ اس لیے کہ جب تک میں ان کے ساتھ تھا تو وہ میری بیشتر باتیں مانتے تھے اور ہم یاجوج ماجوج کے نام سے مشہور تھے۔ ہم نے ایک ہی مضامین لیے تھے۔ اکثر ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے تھے۔ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ جیب خرچ بھی ایک ہی تھا۔ اس طرح کی دوستی زیادہ دنوں نہیں چلتی اورختم ہو گئی۔ خلیل کو اور مجھے بہت افسوس ہوا تھا مگر آج اپنے تعلقات کا تجزیہ کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ ہونا ضروری تھا۔

    خلیل ایک متوسط طبقے کے مولوی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلوب احمد انصاری نے ’’کاغذی پیراہن‘‘ کے اختتامیہ میں لکھا ہے: ’’جاننے والے جانتے ہیں کہ اعظمی صاحب نے اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں کتنی صبر آزما مشکلات اور شکیب طلب آزمائشوں سے اپنے آپ کو گذارا ہے۔ وہ مولویوں کے ایک مشہور خاندان کے چشم وچراغ ہیں مگر ان کی افتاد طبع نے انہیں گھٹے ہوئے مذہبی ماحول کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔‘‘ ۱۹۲)

    اور میں بھی ایک خوشحال، جاگیردارانہ مولوی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ہماری دوستی کم عمری کے کچے پن کا شکار ہو گئی مگر براہو ہماری جذباتیت کا کہ ہم ایک مختصر عرصے تک ایک دوسرے کے شدید مخالف بھی رہے تھے۔ میں ’نفرت‘ کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ اس عمر میں ہم اس لفظ کی معنویت سے اچھی طرح واقف بھی نہ تھے۔ بس دوست تھے، مخالف ہو گئے اور پھر وقت نے اپنا کام کیا اور ہم ایک دوسرے سے سالہاسال تک بےخبر رہے تھے۔ آج میں خلیل کے خطوط، خلیل کی تحریر کردہ اپنی ابتدائی غزلوں اور نظموں کی مدد سے اس دور کی چند جھلکیاں ہی پیش کر سکتا ہوں۔

    (۲)

    خلیل سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی مجھے یاد نہیں۔ ’نیا عہدنامہ‘ میں خلیل نے جان بوجھ کر میرا ذکر نہیں کیا ہے مگر میرا قیاس کہتا ہے کہ ان کی پہلی آزاد نظم ’’نقش ناتمام‘‘ سب سے پہلے میں نے پڑھی تھی۔ وہ دیباچہ میں لکھتے ہیں،

    ’’ایک روز بغیر ارادے کے سب سے پچھلی بنچ پر جا بیٹھا۔ میں اس سے پہلے اس بنچ پر کبھی نہیں بیٹھا تھا۔ کیوں کہ عام طورسے وہاں وہ ساتھی بیٹھتے تھے جنہیں نصاب کی کتابوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ میں بھی اپنی نوٹ بک پر ساتھیوں کی نظریں بچاکر کچھ لکھنے لگا، بعض نے میری طرف توجہ کی لیکن یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ میں شاید استاد کے دیے ہوئے لکچر کے نوٹس لے رہا ہوں۔ کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے اپنے چندبے تکلف دوستوں سے یہ انکشاف کیا کہ میں نے ابھی ابھی ایک نظم لکھی ہے۔ نظم کا عنوان تھا: نقش ناتمام۔‘‘

    خلیل نے یہ نظم اپنے مجموعے میں شامل نہیں کی۔ مگر جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ ہماری ملاقاتوں اور دوستی کاسلسلہ شاید یہیں سے شروع ہوا تھا۔ یہ ۱۹۴۶ء کا زمانہ تھا۔

    مجھے ایک اور دھندلی سی دوپہر یاد آتی ہے۔ علی گڑھ سے مونس رضا کی رہنمائی میں بیس پچیس طالب علموں کا جتھہ دہلی میں ایک جلوس میں شرکت کرنے آیا تھا اور خلیل اور میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے نعرے لگاتے سڑکوں پر سے گزرے تھے۔ شاید کرنل رشید I.N.A کی رہائی کا جلوس تھا۔ مجھے اکثر دہلی کی سڑکوں پر تنہا چلتے ہوئے وہ دوپہر یاد آتی ہے، یوں ہی۔۔۔ شاید اس لیے کہ پھرمیں کبھی دہلی میں کسی جلوس میں شامل نہیں ہوا۔

    مگر جامعہ ملیہ کی سلور جوبلی کے موقع پر جو تقریریں ہوئی تھیں وہ یادہیں۔ گاندھی جی اور محمدعلی جناح پلیٹ فارم پر اکٹھا بیٹھے تھے۔ شام کو مشاعرے میں پہلی بار فیض کی نظم بھی ہم دونوں نے سنی تھی، ’سیاسی لیڈر کے نام‘ وہیں ڈاکٹر تاثیر، جوش اور جگر کا کلام سننے کا موقع ملا تھا۔ دوسرے دن ہم بڑی کوششوں کے بعد ڈاکٹر تاثیر سے ملنے گئے تھے۔ اب یہ یاد نہیں آتا ہے کہ کیا گفتگو ہوئی تھی مگردہلی کے دو تین یادگار دن اب بھی یادوں کے البم میں جگمگاتے ہیں۔

    اور پھر ۱۶ ستمبر ۱۹۴۷ء کی دوپہر، یہ دن بھی اب اپنی جھلکیاں چھوڑ گیا۔ اسی دن ہم دونوں کو دہلی سے علی گڑھ سفر کرتے ہوئے زخمی کرکے چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا تھا۔ ٹرین میں ہندو مسلم فساد ہو گیا تھا۔ عہدنامے کے دیباچے میں خلیل نے اس دن کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ستمبر۴۷ء میں دہلی سے علی گڑھ آتے ہوئے ٹرین میں میں نے اپنی موت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس منظر کی تاب نہ لا سکا۔ ہوش آیا تو اپنے آپ کو جامع مسجد کے ایک ریلیف کیمپ میں پایا۔‘‘ (صفحہ ۱۴)

    خلیل نے یہ نہیں لکھا کہ کون انہیں اٹھاکر جیپ میں لٹاکر جامع مسجد لے گیا تھا۔ خلیل نے یہ دیباچہ ۶۵ء میں لکھا تھا۔ ممکن ہے وہ میر ا نام بھول گئے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ میرا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھتے ہوں، اس لیے کہ دوستی ختم ہونے کے بعد سے ایک طویل عرصے تک خلیل مجھے ایک ’’فالتو آدمی‘‘ ہی سمجھتے تھے اور مجھے شکایت بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم زندگی کی بالکل متضاد سمتوں میں سفر کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا تقریباً فطری لگتا ہے مگر سالہا سال کے بعد میں نے خلیل کے خطوط پڑھے تو ایسا لگا کہ شاید وہ میرا ذکر کرنا کسرشان سمجھتے تھے۔ اپنے ۱۹سمبر ۱۹۴۹ء کے خط میں وہ لکھتے ہیں،

    ’’میں ۱۶ ستمبر سے بے خبر نہیں تھا۔ یہ کمرہ جس پر ہر وقت ایک اداسی چھائی رہتی ہے اور جہاں ’’سکون‘‘ نے اب ’’سکوت‘‘ کی صورت اختیار کر لی ہے، ویسے بھی پرانے زخموں کو کریدتا رہتا ہے اور میں ان زخموں کی مہک سے اپنے حال کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن تم نے جس طرح اس دن کو یاد کیا ہے، اس سے ایک بار میرا دل بھر آیا اور میں اب تک اس کسک کو محسوس کر رہا ہوں۔۔۔‘‘

    میں نے اس دن پر ایک افسانہ بھی لکھا تھا، ’’کافر‘‘ جو ایشیا (ایڈیٹر ساغر نظامی) کے پرچے میں ۴۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یہی نہیں ’ہمایوں کا مقبرہ‘ پر بھی ایک افسانہ لکھا تھا جہاں میں نے کچھ دنوں ریلیف ورک بھی کیا تھا۔ یہ بلونت سنگھ کے ’فسانہ‘ (الہ آباد) میں شائع ہوا تھا۔ فسادات میں زخمی ہونا میرے لیے بہت بڑا تجربہ تھا۔ اس نے مجھے وہ بصیرت بخشی کہ آج تک میں تنگ نظری کا شکار نہیں ہو سکا ہوں۔ البتہ میں شعر میں اس کے بارے میں کچھ نہ لکھ سکا۔ خلیل بھی اس موضوع کو شعری قالب نہ دے سکے۔ ان ہی دنوں جامعہ ملیہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین سے ہماری ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ جب وہ علی گڑھ کے وائس چانسلر بن کر آئے تو تعارف کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ شروع شروع میں وہ رشید صاحب (رشید احمد صدیقی) کے یہاں ہی مقیم تھے اور خلیل اور میں ان سے ملا کرتے تھے۔

    اور ایک صبح بھی میرے ذہن میں جاگ سی اٹھتی ہے۔ پچھلے پہر دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ خلیل اورمیں ان دنوں جذبی صاحب کے مکان کے ایک باہری کمرے میں رہتے تھے۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ پولس کے سپاہی خلیل کو دریافت کر رہے تھے۔ خلیل انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری تھے اور تلنگانہ تحریک کا زور تھا۔ کمیونسٹ اوران کے ہمدرد بھی گرفتار ہو رہے تھے۔۔۔ خلیل تھوڑا سا گھبرا گئے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے بکس میں کپڑے اور چند کتابیں رکھیں اور پولس جیپ میں جا بیٹھے۔ میں ایک لمحے تک چپ رہا۔ پھر میں تنہا نعرے لگانے لگا۔ ترقی پسند مصنفین زندہ باد، خلیل زندہ باد اور انقلاب زندہ باد۔۔۔ میرے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے نعرے، امیر نشاں کا ابر آلود ماحول، عجیب سوگواری سی چھائی تھی۔

    مجھے بہت دنوں تک خلیل سے یہ شکایت رہی کہ وہ میرے نعروں کے درمیان میں چپ رہے۔ جب وہ رہا ہوکر واپس آئے تھے تو میں نے ان سے خاموشی کی وجہ دریافت کی تھی۔ انہوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا تھا، شاید ان الفاظ میں: ’’باقر ایک تو مجھے نیند بہت آ رہی تھی، اس کے علاوہ میں کچھ گھبرا گیا تھا۔ اس لیے تمہیں حیرت ومسرت سے چپ چپ تکتا رہا تھا۔‘‘

    خلیل تو جیل چلے گئے اور میں فوراً اپنے دوستوں کی تلاش میں نکل پڑا۔ علی حماد عباسی (جو میجر ہو گئے ہیں اور اب شبلی کالج میں انگریزی کے استاد ہیں) محمد مثنیٰ رضوی، مرزا ممتاز، خورشید الاسلام اور سلامت اللہ وغیرہ سے ملنے چلا گیا تھا۔ اسی رات میں نے خلیل کی گرفتاری پر ایک نظم لکھی، آج بھی یہ نظم خلیل کی تحریر میں میرے پاس موجود ہے۔ میں نے یہ نظم ’’شہرآرزو‘‘ میں شامل نہیں کی۔ دوسرے دن ہم نے یونیورسٹی کے انجینئرنگ ہال میں جلسہ کیا تھا، جہاں میں نے یہ نظم پڑھی تھی۔۔۔ آج ان گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو طالب علموں کی سیاسی سرگرمیوں کی اہمیت کا کچھ زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں کیوں مارکوز نے طالب علموں کو انقلاب کے ہر اول دستوں میں شامل سمجھ لیا تھا۔ شاید مئی ۶۸ء کے پیرس کے ہنگاموں کی وجہ سے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے مستقبل اور زندگی سے بے خبر تھے اور آگ میں جل جانا چاہتے تھے۔ یہ نہیں جانتے تھے کہ۔۔۔ جل گئے کتنے خلیل آگ گلستاں نہ بنی۔

    پھر میں نے بڑی مشکل سے ڈاکٹر ذاکر حسین سے ملاقات کی تھی۔ وہ جیلر سے ملنے گئے تھے۔ ہم چند طالب علم اپنے اپنے دوستوں سے ملنے گئے تھے۔ وہ جیل سے باہر نکل رہے تھے کہ میں نے دریافت کیا، کیا خلیل کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت ملےگی؟ وہ کوئی جواب دیے بغیر اپنی کار کی طرف چل دیے اور میں نے ان کا راستہ روک کر کہا آپ اتنا کرم کریں Please خلیل کو امتحان میں شرکت کی اجازت دلا دیں۔ وہ چاہتے تو میری درخواست رد کر دیتے مگر پلٹ کر جیلر سے پھر ملے اور مجھے تسلی دی کہ انہیں جلد ہی اجازت مل جائےگی اور واقعی امتحان سے کچھ دن پہلے خلیل پھر مجھ سے مل گئے۔

    میں نے انہیں اپنی ساری کتابیں اور نوٹس دے دیے۔ ان کے پرچے مجھ سے بہت اچھے ہوئے۔ یوں بھی خلیل مجھ سے کہیں اچھے طالب علم تھے۔۔۔ امتحان ختم ہوتے ہی خلیل جیل واپس چلے گئے اور جلد ہی علی گڑھ سے سینٹرل جیل لکھنؤ بھیج دیے گئے۔ میں ان دنوں اکیلا تھا، اپنے وطن ردولی واپس آ گیا اور خلیل کی رہائی کا انتظار کرتا رہا۔ خلیل سے ملنے لکھنؤ جیل بھی گیا تھا۔ کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد دس پندرہ منٹ کے لیے خلیل سے ملاقات ہوئی تھی۔ آج اس ملاقات کے نقوش تک مٹ گئے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ کیا باتیں ہوئیں۔ باتیں ہوئیں بھی یا نہیں۔ یا میں چند معمولی سے تحفے دے کر ہی پلٹ آیا؟ کچھ بھی یاد نہیں۔ مگر خلیل رہا ہوکر لکھنؤ سے ردولی آئے اور وہ ان کی اتفاقیہ آمد مجھے کچھ کچھ یاد ہے۔ پھر وہ کچھ عرصے میرے گھر ہی میں رہے اور ہم ادبی صورت حال پر گفتگو کرتے رہے تھے۔ خلیل میرے پہلے دوست ہیں جن کی دوستی اور ان کی مخالفت دونوں سے میں نے ’ذہنی فائدے حاصل کیے ہیں مگر مجھے تو ان کی زندگی کے اور چند واقعات بیان کرنا ہیں۔

    (۳)

    میں بار بار اپنے مضمون میں لکھ رہا ہوں کہ ’’یاد نہیں، اچھی طرح یاد نہیں‘‘ اس لیے کہ واقعی واقعات، باتیں اور ماحول ان کی بازگشت تو کی جا سکتی ہے مگر تقریباً ہوبہو ان کا پیش کرنا ناممکن ہے اور پھر خلیل سے میری دوستی جتنی شدید تھی، ان سے مخالفت بھی اتنی ہی شدید تھی۔ مگر دونوں کی اہمیت زیادہ نہیں ہے۔ آج تو صرف ان باتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن سے ان کی شخصیت کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکتی ہے۔ اگر ان سے میری نبھ نہ سکی تو اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ان میں وفا تھی ہی نہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے،

    دیکھئے غیر سے کیا خوب نبھائی اس نے

    گر نہیں ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی

    آخر ان کے گہر ے تعلقات کنور اخلاق احمد شہریار سے آخری دم تک قائم رہے۔ اس لیے کچھ دوستیاں زیادہ دن رہ بھی نہیں سکتیں۔ ان سے الگ ہونے کے بعد میں نے ایک شعر کہا تھا،

    دوستی ہی تھی بڑھی اور خشک ہوکر رہ گئی

    دل کی دھڑکن سے نظر کا سلسلہ جاتا رہا

    البتہ میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ وہ میرے اتنے شدید کیوں مخالف ہو گئے تھے کہ جذبی کا میرے نام خط ’’نقوش‘‘ کے مکاتیب نمبر میں شائع کرا دیا۔ اس میں جذبی صاحب نے مجھے بہت سخت وسست کہا تھا۔ (میرے پاس خلیل کے کتنے ہی خط موجود ہیں جو جذبی کی شدید مذمت کرتے ہیں، مگر میں نے انہیں ذاتی امانت سمجھ کر رکھا ہوا ہے) اور میں نے یہ خط خلیل کو پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ گم ہو گیا ہوگا مگر مکاتیب میں جذبی کا ایک ہی خط شامل ہے اور وہ بھی میرے نام۔ جذبی میرے دوست نہیں تھے، وہ ایک سرپرست بھی نہیں تھے۔ ان کی دوستی سردار جعفری، مجاز، سبط حسن وغیرہ سے تھی اور ہے۔ بھلاان کے ایک خط کی اشاعت کے اس کے سوا اور کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ خلیل مجھے رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے تھے۔ مگر مجھے اب جاکے معلوم ہوا کہ دوستی کی طرح دشمنی بھی اہم اور ضروری ہے، گو کہ غالب بہت پہلے کہہ چکے تھے،

    قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے

    کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

    میں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کیوں؟ شاید میں علی گڑھ سے عاجز آ گیا تھا۔ شاید مجھے مسلم ماحول پسند نہیں تھا۔ شاید مجھے خلیل سے تعلقات ختم ہونے کا ڈر تھا اور بھی کئی وجوہ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ۱۹۵۰ء کے بعد خلیل سے میری خط وکتابت ختم ہو گئی۔

    (۴)

    سالہا سال گزر گئے۔ کبھی کبھی اتفاقیہ ملاقات ہو جاتی تھی مگر ہماری تلخی اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو نظرانداز ہی کر دیتے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی شاعری اور تنقید پسند نہیں تھی۔ ہم ایک دوسرے سے مختلف سمتوں میں سفر کرنے لگے تھے۔ خلیل کو مستقل ملازمت، خاندان، شہرت، عزت غرض کہ جو ایک عام خوش حال ہندوستانی کی خواہشات ہوتی ہیں، وہ سب میسر آ گئی تھیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے ان چیزوں کی تلاش نہیں تھی مگر میں نے اپنا مطمح نظر بدل دیا تھا۔ خاندان کو میں بورژوا استحصال کا مرکز سمجھنے لگا تھا۔ معاشی ترقی کو ذہنی فروخت اور اس طرح میں نے ’’بالغ نظر‘‘ ہونے کی کوشش ہی ترک کر دی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ فیض کا تلخ تجربہ تھا،

    بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے

    خلیل ایک انتہاسے دوسری طرف چلے گئے تھے۔ ترقی پسندی کے شدید مخالف ہو گئے۔ شاید انہوں نے مارکسزم کا مطالعہ کم کیا تھا۔ پھر انہیں اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب پڑھنے کا ’’چسکا‘‘ بھی نہیں تھا۔ ممکن ہے وامق جونپوری اورغلام ربانی تاباں سے کج بحثی کی وجہ سے وہ ترقی پسندی کے مخالف ہو گئے ہوں۔ مگروہ سوویت مارکسزم اور مارکسزم کو الگ الگ نہ دیکھ سکے تھے۔ ان میں ان کا قصور نہیں ہے۔ کتنے ہی دانشور اس کا شکار ہوئے ہیں۔ سارتر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سوویت یونین کی مخالفت کرکے مارکسی رہنا بڑا دشوار تھا۔ میں بھی مارکسی نہیں ہوں، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ سماجی تبدیلیوں کو صرف انقلاب سے نہیں لایا جا سکتا اور یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین میں آج پھر نئے طبقات نے جنم لے کر انقلابیوں کو سوویت یونین کا مخالف بنا دیا ہے۔

    اس بحث کو میں اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ جب اردو میں جدیدیت کا سیلاب آیا تو خلیل شروع میں اس کے بہت حامی نہ تھے مگر ’شب خون‘ کے نکلنے کے بعد انہوں نے زورشور سے جدیدیت کے ان رجحانات کی حمایت کی جن کا میں مخالف تھا، جیسے کمٹ منٹ کا مسئلہ، ترسیل کا المیہ، اظہار کی اولیت۔۔۔ خلیل میں گروہ بناکر اپنے قریبی دوستوں کو آگے لانے کی بڑی صلاحیت تھی اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان کا حلقہ ڈھاکہ سے کراچی تک پھیلا ہوا تھا اور میں اس حلقے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری مخالفت کی عمر ہماری دوستی کی عمر سے بڑی تھی۔ جیسا کہ میں نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ میں نے ان کی ’’دشمنی‘‘ سے بھی ’’ذہنی فائدہ‘‘ اٹھایا ہے۔

    میں نے مشہور رسائل ’’نقوش‘‘ اور’’فنون‘‘ وغیرہ میں لکھنا ہی ترک کر دیا اور بالکل ہی جداگانہ روش پر چلا گیا تھا۔۔۔ مگر یہ دنیا کتنی چھوٹی ہے، یہاں نئے پرچے نکلتے ہیں، نئے حلقے بنتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم گھوم پھر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دوست یا دشمن کے بجائے نیم اجنبی یا صرف آشنا رہ جاتے ہیں۔

    (۵)

    خلیل بیمار پڑے۔ میں نے انہیں کوئی خط نہ لکھا۔ میں ایک حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچا تھا، انہوں نے بھی تومجھے خط نہیں لکھا مگر آج سوچتا ہوں کہ مجھے انہیں خط لکھنا چاہئے تھا، اس لیے کہ بمبئی میں ایک عرصے تک رہنے کے بعد میں دوستی اور دشمنی دونوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، یہ جانتے ہوئے کہ دوست مشکل سے ملتے ہیں مگر دشمن بھی کہاں ہیں؟ میرا ایک شعر ہے،

    مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے

    میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں

    پھر خلیل دسمبر ۷۷ء میں بمبئی آئے اور وہ ام ال اے ہوسٹل میں ٹھہرے تھے۔ میں ان سے ملنے گیا تھا۔ ان کے لب ولہجے میں میرے لیے حقارت تقریباً ختم ہو چکی تھی، مگر اس کی جگہ ایک قسم کی بیگانگی تھی۔ وقت اور فاصلے نے اپنا کام کر دیا تھا۔ اب ہم ایک دوسرے کے مخالف بھی نہیں تھے۔ نیم اجنبی یا صرف آشنا۔ دیر تک ادھرادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے انہیں بہت سی مزاحیہ باتیں سنائیں اور وہ خوب ہنسے۔

    پھر دوسرے دن شام کو وہ میری کھولی پرآئے تھے۔ ڈاکٹر نارنگ، ڈاکٹر ظ۔ انصاری، ڈاکٹر ظفر وگانوی بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس شام میرے کمرے میں عزیز قیسی، فضیل جعفری، محافظ حیدر، محمود چھابڑا وغیرہ موجود تھے۔ کچھ دیر شغل مے ہوا، مگر انہوں نے صرف چکھ کے گلاس چھوڑ دیا۔ ان کی طبیعت اچھی نہیں تھی۔ تیسرے دن میں پورے دن اور رات دیر تک ان کے ساتھ رہا۔ مدتوں بعد ان کے ساتھ بارہ گھنٹے رہا تھا۔ کچھ کچھ بیگانگی ختم ہو چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ دوبارہ دوستی کب ہوتی ہے؟ سیف نے کہا تھا،

    شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں

    وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے

    اور پھر میری ان سے آخر ی ملاقات ۷ جنوری ۷۸ء کو ایک ریڈیو مشاعرے (نئی دہلی) میں ہوئی تھی۔ پہلی بار ہم نے مشاعرے میں ایک ساتھ شرکت کی تھی۔ ۸ جنوری کی شام محمد علوی کے کمرے میں دیرتک گفتگو ہوتی رہی تھی۔ اس شام شمس الرحمن فاروقی اورمیں ایک دوسرے کو ہدف (ہدف بغیر ملامت کے اچھا نہیں لگتا) ملامت بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خلیل بھی اس محفل میں بڑے خوش تھے، وہ صرف چائے پی رہے تھے۔ جاتے ہوئے انہوں نے کہا، اب ہماری تمہاری خط وکتابت پھر شروع ہوگی۔۔۔ علی گڑھ پہنچ کر انہوں نے میرے خط کا جواب بھی دیا تھا جو ایک ماہ سے ان کے جواب کا منتظر تھا۔ پہلی اور آخری بار خلیل نے خط کے آخر میں لکھا تھا، ’’تمہارا پرانا خلیل۔۔۔‘‘ اور اس کے باوجود میری ان کی خط وکتابت نہ شروع ہو سکی۔۔۔

    ۱۴ مئی ۶۸ ء کی رات نئی دہلی میں محمد علوی کے کمرے میں شہریار نے مجھ سے کہا، ’’علی گڑھ چلتے ہیں۔‘‘ مگر میں نے کہا، وہاں میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ شاید میں نے سچ نہیں کہا تھا۔ خلیل زندہ تھے، میں ان سے مل سکتا تھا، مگر میں نہیں گیا۔۔۔ اور آج ان پر مضمون لکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ ہم ہمیشہ کھوکر ہی لوگوں کی قدروقیمت جانتے ہیں۔ کیا پتہ ان سے مل کر ناممکن، ممکن ہو جاتا اور ہم پھر دوست بن جاتے!

    حاشیے

    (۱) مونس رضا، راہی معصوم رضا کے بڑے بھائی ہیں۔ ان دنوں جواہر لال یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر ہیں۔

    (۲) ’’کاغذی پیراہن‘‘ کے آخر میں ایک بھجن شامل ہے، یہ کنور اخلاق کی نذر ہے جو آگے چل کر شہریار کے نام نامی سے مشہور ہوئے۔

    (۳) جذبی صاحب نے مجھے ۱۹۶۰ءمیں لکھا تھا کہ اگر ایڈیٹر نقوش مجھ سے پوچھتے تو میں اس کو شائع نہ کرنے دیتا۔

    مأخذ:

    تنقیدی کشمکش (Pg. 235)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: خیاباں پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے