Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا جنم

MORE BYخلیل الرحمن اعظمی

    ابھی اک سال گزرا ہے یہی موسم یہی دن تھے

    مگر میں اپنے کمرے میں بہت افسردہ بیٹھا تھا

    نہ کوئی سانولے محبوب کی یادوں کا افسانہ

    نہ ایوان زمستاں کی طرف جانے کی کچھ خواہش

    کسی نے حال پوچھا تو بہت ہی بے نیازی سے

    کہا جی ہاں خدا کا شکر ہے میں خیریت سے ہوں

    کوئی یہ پوچھتا کیوں آج کل کوئی غزل لکھی

    نہ جانے بات کیا ہے ان دنوں کچھ ایسا لگتا ہے

    تمہاری ہر غزل میں میر کا انداز ملتا ہے

    ہر اک مصرعے سے جیسے دھیمی دھیمی آنچ اٹھتی ہے

    تمہارے شعر پڑھ کر جانے کیوں محسوس ہوتا ہے

    کہ کوئی ساز پر مدھم سروں میں گنگناتا ہے

    مگر اک بات پوچھوں تم خفا تو ہو نہ جاؤگے

    یہ آخر کیا سبب ہے آج کل نظمیں نہیں لکھتے

    تمہاری آپ بیتی بھی ابھی تک نا مکمل ہے

    اسے تو ناقدان فن نے سنتے ہی سراہا ہے

    میں سب سنتا مگر یہ دل ہی دل میں سوچتا رہتا

    مرے احباب کیا جانیں کہ مجھ پر کیا گزرتی ہے

    مرے افکار پہ یہ کیسی ویرانی سی چھائی ہے

    بہت کچھ سوچتا ہوں پھر بھی اب سوچا نہیں جاتا

    بہت کچھ چاہتا ہوں پھر بھی کوئی بس نہیں چلتا

    مگر اس بے بسی میں بھی مرے دل کی یہ حالت تھی

    کبھی جب کوئی اچھی چیز پڑھنے کے لیے ملتی

    تو پہروں روح پر اک وجد کی سی کیفیت ہوتی

    رگوں میں میری جیسے خوں کی گردش تیز ہو جاتی

    لہو کا ایک اک قطرہ یہ کہتا میں تو زندہ ہوں

    مری پامالیوں میں پل رہی ہے اک توانائی

    یہی عالم رہا تو جانے میں کس روز اٹھ بیٹھوں

    بسنت آیا تو یوں آیا کہ میں بھی جیسے اٹھ بیٹھا

    سویرا ہوتے ہی ہر سمت سے جھونکے ہواؤں کے

    نئی خوشبو لیے مجھ کو جگانے کے لیے آئے

    جدھر بھی آنکھ اٹھاتا ہوں شفق کی مسکراہٹ ہے

    وہی سورج ہے لیکن اور ہی کچھ جگمگاہٹ ہے

    نہ جانے کیسے کیسے پھول اب مجھ کو بلاتے ہیں

    نہ جانے کتنے کتنے رنگ سے دل کو لبھاتے ہیں

    فضا میں دور تک پھیلے ہوئے وہ کھیت سرسوں کے

    یہ کہتے ہیں کہ اب ارماں نکالو اپنے برسوں کے

    تمہارے سامنے پھیلا ہوا میدان سارا ہے

    کوئی آواز دیتا ہے کہ آؤ تم ہمارے ہو

    مری دھرتی کے بیٹے میری دنیا کے دلارے ہو

    تمہاری آنکھ میں جو خواب سوئے ہیں وہ میرے ہیں

    تمہارے اشک نے جو بیج بوئے ہیں وہ میرے ہیں

    اسی وادی میں پھر سے لوٹ کر اب تم کو آنا ہے

    تمہاری ہی یہ بستی ہے تمہیں کو پھر بسانا ہے

    اب اس بستی میں رکھتے ہی قدم کچھ ایسا لگتا ہے

    کہ اس کا ذرہ ذرہ پتہ پتہ کچھ نیا سا ہے

    ہر اک رستے پہ جیسے کچھ نئے چہرے سے ملتے ہیں

    یہی جی چاہتا ہے جو ملے اب اس سے یہ پوچھیں

    تمہارا نام کیا ہے؟ تم کہاں کے رہنے والے ہو

    کچھ ایسا جان پڑتا ہے کہ پہلے بھی ملے ہیں ہم

    رہے ہیں ساتھ یا اک دوسرے کو جانتے ہیں ہم

    اگر تم ساتھ تھے تو تم بھی شاید دوست تھے میرے

    مجھے یاد آیا دونوں ساتھ ہی کالج میں پڑھتے تھے

    وہ سارے دوستوں کا جمع ہونا میرے کمرے میں

    وہ گپ شپ قہقہے وہ اپنے اپنے عشق کے قصے

    وہ میرس روڈ کی باتیں وہ چرچے خوب رویوں کے

    کبھی آوارہ گردی اپنی ان ویران سڑکوں کی

    کبھی باتوں میں راتیں کاٹنا سنسان جاڑوں کی

    کبھی وہ چاندنی میں اپنا یوں ہی گھومتے رہنا

    کبھی وہ چائے کی میزوں پہ گھنٹوں بیٹھنا سب کا

    وہ باتیں علم و حکمت کی کبھی شکوہ شکایت کی

    تمہیں تو یاد ہوگا ان میں ہی اک دوست شاعر تھا

    ذرا دیکھو تو مجھ کو غور سے شاید وہ میں ہی تھا

    بہت دن میں ملے ہیں ہم تو آؤ آج جی بھر کر

    ہنسیں بولیں کہیں آوارہ گردی کے لیے نکلیں

    چلیں اور چل کے سارے دوستوں کو پھر بلا لائیں

    سجائیں آج پھر محفل کہیں پینے پلانے کی

    میں تم کو آج اپنی کچھ نئی باتیں بتاؤں گا

    میں تم کو آج اپنی کچھ نئی نظمیں سناؤں گا

    مأخذ :
    • کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 136)
    • Author : خلیل الرحمن اعظمی
    • مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
    • اشاعت : First

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے