دیوالی
دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایان ہے
اس طرح ہیں کوچہ و بازار پر نقش و نگار
ہو عیاں حسن نگارستاں کی جن سے خوب رے
گرم جوشی اپنی با جام چراغاں لطف سے
کیا ہی روشن کر رہی ہے ہر طرف روغن کی مے
مائل سیر چراغاں نخل ہر جا دم بدم
حاصل نظارہ حسن شمع رویاں پے بہ پے
عاشقاں کہتے ہیں معشوقوں سے با عجز و نیاز
ہے اگر منظور کچھ لینا تو حاضر ہیں روپے
گر مکرر عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں وہ شوخ
ہم سے لیتے ہو میاں تکرار و حجت تا بہ کے
کہتے ہیں اہل قمار آپ میں گرم اختلاط
ہم تو ڈب میں سو رپے رکھتے ہیں تم رکھتے ہو کے
جیت کا پڑتا ہے جس کا دانوں وہ کہتا ہے یوں
سوئے دست راست ہے میرے کوئی فرخندہ پے
ہے دسہرے میں بھی یوں گو فرحت و زینت نظیرؔ
پر دیوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے
مأخذ:
Kulliyat-e-nazeer akbarabadi (Pg. B-443 E-666)
- مصنف: نظیر اکبرآبادی
-
- ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ
- سن اشاعت: 1951
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.