Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نورجہاں کا مزار

تلوک چند محروم

نورجہاں کا مزار

تلوک چند محروم

MORE BYتلوک چند محروم

    دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے

    کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے

    مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے

    اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے

    جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم

    تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم

    اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے

    کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے

    کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے

    ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے

    یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے

    قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!

    تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے

    غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے

    کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے

    دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے

    ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی

    ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی

    تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر

    یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر

    آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر

    اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر

    ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے

    اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے

    حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا

    ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا

    نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا

    اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا

    یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا

    ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا

    چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر

    آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر

    اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر

    اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر

    معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی

    آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی

    آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے

    جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے

    جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے

    شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے

    پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے

    خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے

    رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے

    جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے

    محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے

    تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے

    جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں

    ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں

    دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں

    ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں

    باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں

    آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں

    ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے

    دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے

    مأخذ:

    meri behtareen nazam (Pg. 37)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے