دوستی کا ہاتھ
دلچسپ معلومات
ہندوستانی دانشوروں کے نام , اس کے جواب میں سردار جعفری نے بھی ایک نظم کہی
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہیں کو نہیں رنج چاک دامانی
کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرور کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ امن لئے فاختہ کوئی آئی
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمہیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب
تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے
نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری
نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے
ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے
چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں
چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے
چراغ جن سے دیئے بے شمار روشن ہوں
تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.