وہی کار دنیا
وہی کار دنیا کے اپنے جھمیلے
وہی دل کی حالت
وہی خواہشوں آرزوؤں کے میلے
وہی زندگی سے بھری بھیڑ میں چلنے والے سبھی لوگ
اپنی جگہ پر اکیلے
کئی گرد آلود منظر نگاہوں کی دہلیز پر جم گئے ہیں
مجھے یوں لگا جیسے چلتے ہوئے وقت کے قافلے تھم گئے ہیں
ذرا سیڑھیوں سے ادھر میں نے دیکھا
وہی شہر ہے اور وہی شہر کی بے کرامت فضا ہے
وہی خلق ہے اور وہی خلق کے بھول جانے کی اپنی ادا ہے
وہی راستے ہیں وہی بے سہولت سفر کی سزا ہے
وہی سانس لینے کو جینے کو بے مہر آب و ہوا ہے
وہی زندگی ہے وہی اس کے چاروں طرف بے تحفظ ردا ہے
وہی سیڑھیوں سے ادھر راہداری کے بائیں طرف خالی کمرہ
تری گفتگو سے بھرا خالی کمرہ
ترے قہقہوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا آنسوؤں کا جزیرہ
جزیرے میں اڑتا ہوا اک پرندہ
منڈیروں دریچوں درختوں کی تنہائیوں کا مداوا پرندہ
تری چاہتوں اور وفاداریوں کے افق پر ستارہ نما اک پرندہ
ترے گیت گاتا
تمناؤں کی بارشوں میں نہاتا
کسی تازہ امکان کو جگمگاتا
کہیں دور پھیلی ہوئی کہکشاؤں میں گم ہو گیا ہے
ذرا سیڑھیوں سے ادھر میں نے دیکھا
کئی لکھنے والے
خوشامد کا کاسہ لئے اپنے غیبت کدے میں کھڑے ہیں
سیاسی وڈیرے
مساوات کا نام لے کر ہمیشہ غریب آدمی کی انا سے لڑے ہیں
کئی اہل دانش
جو مظلوم کی آہ و زاری پہ دکھتے تھے
ظالم کے در پر پڑے ہیں
یہاں کوئی چھوٹا نہیں ہے
سب اک دوسرے سے بڑے ہیں
تری شاعری کا خمیر اپنے جذبوں کی سچائیوں سے اٹھا تھا
تو اپنے اصولوں کے آتش فشاں پر کھڑا
زندگی کی ریا کاریوں سے نبرد آزما تھا
تو اپنے رویوں کی سب حالتوں میں
محبت سے لکھی ہوئی اک دعا تھا
تو اہل وفا کا ضمیر آشنا تھا
ابھی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے میں رک سا گیا ہوں
وہاں کون ہے
کون ہے اب جو دستک کی پہلی کرن کی حکایت سنے گا
نئے رتجگوں کی مسافت میں الجھے ہوئے آنے والے دنوں کی
روایت سنے گا
چراغوں کی آواز میں
آئنوں کی تلاوت سنے گا
مرے شاعر خوش نوا
تو کہ دشمن بھی اچھا تھا
اور دوستی میں بھی تیرا یہاں کوئی ثانی نہیں ہے
جسے اہل دل بھول جائیں گے
تو وہ کہانی نہیں ہے