Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شرارت کا مزا

محمد شفیع الدین نیر

شرارت کا مزا

محمد شفیع الدین نیر

MORE BYمحمد شفیع الدین نیر

    رشیدہ تھی یوں تو بڑی نیک لڑکی

    مگر اس میں یہ ایک عادت بری تھی

    وہ ہر چیز کو چھوتی اور چھیڑتی تھی

    یہ بات اس کی گھٹی میں گویا تھی

    برائی ہو اک بھی تو کیسی بری ہے

    بھلائی کی رگ کاٹنے کو چھری ہے

    کبھی چائے دانی کا ڈھکنا اٹھاتی

    وہ یہ جھانک کر دیکھتی اس میں کیا ہے

    کبھی کیتلی کو الٹ کر گراتی

    سمجھتی جو دھیان آپ کا بٹ گیا ہے

    اسے روکتے بھی تو رکتی وہ کب تھی

    بری اس میں عادت پڑی یہ عجب تھی

    یہ اک دن کا ہے ذکر قصہ ہوا کیا

    تپائی پہ دادی نے عینک کو رکھا

    تھی نسوار کی بھی وہیں ایک ڈبیا

    رشیدہ نے ان دونوں چیزوں کو تاکا

    یہ سوچا کہ دیکھوں گی چیزیں یہ کیا ہے

    ذرا دادی اماں ہٹیں یاں سے جائیں

    غرض ان کے ہٹتے ہی اس کی بن آئی

    اسی وقت آنکھوں پہ عینک لگائی

    وہ ڈبیا بھی نسوار کی اس کو بھائی

    کہ رنگین ڈھکنے میں تھی خوش نمائی

    وہ عینک تو پہلے لگا ہی چکی تھی

    ہوئی فکر ڈبیا کو اب کھولنے کی

    کہا دل میں مجھ سے کہیں گی یہ دادی

    کہ بیٹی نہ چھونا اسے بھول کر بھی

    مگر شکر ہے اس گھڑی وہ نہیں ہیں

    نہ ابا نہ اماں نہ آپا کہیں ہیں

    ذرا کھول کر دیکھ لوں اس میں کیا ہے

    ابھی بند کر دوں گی پھر حرج کیا ہے

    رشیدہ نے ڈبیا کا ڈھکنا جو کھولا

    تو اس میں لگا زور کا ایک جھٹکا

    ہوا میں وہ نسوار ہر سمت پھیلی

    رشیدہ کے چہرے پہ اڑ اڑ کے آئی

    نہ آنکھیں نہ نتھنے نہ منہ اور ٹھوڑی

    جگہ ایک بھی اس نے باقی نہ چھوڑی

    ہوئی ناک نسوار سے اس کی لت پت

    نہ پوچھو بنی اس گھڑی اس کی کیا گت

    وہ گھبرا کے ہر ہر طرف خوب دوڑی

    مگر پھر بھی چھینکوں سے فرصت نہ پائی

    نہ آرام اس کو ملا ایک پل بھی

    نہ مل پائی اس کو ذرا دیر کل بھی

    وہ گھبرائی اتنی کہ عینک کو پھینکا

    چلی پھر وہ پانی سے دھونے کو چہرا

    نہایت ہی نازک تھے عینک کے شیشے

    وہ گرتی ہی بس ہو گئے ٹکڑے ٹکڑے

    ملی اس کو اپنے کیے کی سزا یہ

    کہ ملتی ہے پھوٹے ہیئے کہ سزا یہ

    پھر اتنے میں دادی کو آتے جو دیکھا

    ہوا حال ابتر بہت پھر تو اس کا

    رشیدہ اری تجھ کو یہ ہو گیا کیا

    یہ دادی نے تیوری چڑھا کر جو پوچھا

    تو بس شرم سے گڑ گئیں بی رشیدہ

    عجب سوچ میں پڑ گئیں بی رشیدہ

    رشیدہ کی حالت ہوئی غیر دکھ سے

    رہا کام اس کو خوشی سے نہ سکھ سے

    کیا اس نے وعدہ یہ کھا کھا کے قسمیں

    کہ اب بھول کر بھی نہ چھیڑوں گی چیزیں

    سنا ہے یہ نیرؔ نے لوگوں کا کہنا

    رشیدہ نے وعدہ کیا اپنا پورا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے