Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahtamam Sadiq's Photo'

اہتمام صادق

1993 | بلرامپور, انڈیا

اہتمام صادق کے اشعار

2.3K
Favorite

باعتبار

مسلسل سوچتے رہتے ہیں تم کو

تمہیں جینے کی عادت ہو گئی ہے

اب اپنا انتظار رہے گا تمام عمر

اک شخص تھا جو مجھ سے جدا کر گیا مجھے

ایک دن اس کو منہ لگایا اور

اور سگریٹ چھوڑ دی میں نے

سو اپنے شہر کے رونق کی خیر مانگنا تم

میں اپنے گاؤں سے اک شام لے کے آ رہا ہوں

اے اشک نہ کر ظلم ذرا دیر ٹھہر جا

اک شخص ابھی میری نگاہوں میں بسا ہے

مجھ کو تھی محفلوں کی بہت آرزو مگر

تنہائیوں کے خوف سے تنہا رہا ہوں میں

میری راتوں سے پرے دور وہ مہتاب سا جسم

اس کو سوچوں تو مرے خواب بھی جل جاتے ہیں

اب عبادت میں بھی آ جاتے ہو لب پر میرے

اتنا پڑھتا ہوں تمہیں ہجر کے لمحوں میں کہ بس

کون سا درد اتر آیا ہے تحریروں میں

سارے الفاظ جنازے کی طرح لگتے ہیں

تو تم سمجھنے لگے ہجر کے معانی کو

تمہاری بھی کوئی شے تم سے چھین لی گئی کیا

کیا کہوں کیفیت دل کس قدر ٹوٹا ہوں میں

اب اگر چاہا گیا تو ریت میں مل جاؤں گا

وہ شخص یادوں کا مجھ کو غلام کرتے ہوئے

گیا بھی تو مری نیندیں حرام کرتے ہوئے

وہ اس نظر کا تصادم وہ ہونٹ کی جنبش

تمام کر گیا مجھ کو کلام کرتے ہوئے

سر محفل وہ پھر سے آ گئے ہیں آج بے پردہ

نہ جانے کون سی شے پھر مری تقسیم ہونی ہے

نہیں ہے زندگی تجھ سے کوئی بھی واسطہ لیکن

تلاشے گی تو مل جاؤں گا تیری ہر کہانی میں

حد نظر تک ایک دریچے سے آج پھر

میں جا رہا تھا اور کوئی دیکھتا رہا

میرا سقراط کو پڑھنا بھی قیامت ٹھہرا

زہر دے کر مرے اپنوں نے مجھے مار دیا

دل کی لگی سے جان بھی چھوٹی تو یوں ہوا

وہ شخص زندگی کے تقاضوں سے مر گیا

ڈراتے ہو ہمیں کیا شیخ تم روز قیامت سے

در جاناں پہ ہم نے حشر برپا خوب دیکھا ہے

لبوں نے اس کے بھی گستاخیاں بہت کی ہیں

یہ اور بات کہ ہونٹوں کی سرخیاں نہ گئیں

آئینہ توڑ ڈالا ہے اب تیرے عکس کو

تصویر کر رہا ہوں تری یاد جوڑ کر

اگر ٹوٹوں تو میری کرچیاں ماضی کو دے دینا

کہ مستقبل میں پھر میری نئی تجسیم ہونی ہے

وصل نے تو مجھے شدت کی تپش میں رکھا

ہجر تھا جس نے مجھے سایۂ دیوار دیا

پیراہن باقی ہے میرے جسم پہ اب بھی اجلا سا

شاید عشق مکمل نازل ہونا اب بھی باقی ہے

کسی کے دید کا پیغام لے کے آ رہا ہوں

طواف کے لئے احرام لے کے آ رہا ہوں

تیز بارش میں کہیں دور سڑک پر بیٹھے

ہم ترے چھوڑ کے جانے کا سبب سوچتے ہیں

ایک حسرت نے ہمیں رب کا مقرب رکھا

ہم اگر عشق نہیں کرتے تو کافر ہوتے

اس شخص کو بلا کی محبت تھی مجھ سے دوست

پھر ایک روز اس نے ارادہ بدل لیا

دار پہ کھینچنا لازم ہے زمانے مجھ کو

میں نے متروک محبت کو جلا بخشی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے