aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آڈیو

کلام شاعر بہ زبان شاعر

عبد الاحد ساز

عبد الاحد ساز

16

ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے

درخت روح کے جھومے پرند گانے لگے

کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن

بہت ملول بڑے شادماں گئے ہوئے ہیں

کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے

خراب درد ہوئے غم پرستیوں میں رہے

جیتنے معرکۂ دل وہ لگاتار گیا

مزاج سہل طلب اپنا رخصتیں مانگے

لفظوں کے صحرا میں کیا معنی کے سراب دکھانا بھی

جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا

بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں

یوں بھی دل احباب کے ہم نے گاہے گاہے رکھے تھے

بے مصرف بے حاصل دکھ

ہر اک لمحے کی رگ میں درد کا رشتہ دھڑکتا ہے

سبق عمر کا یا زمانے کا ہے

موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا

عبد الحمید

عبد الحمید

12

ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں

کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا

پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا

کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا

کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں

اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا

ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے

کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی

کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے

عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

دل میں جو بات ہے بتاتے نہیں

ابو الحسنات حقی

ابو الحسنات حقی

2

شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

تمام ہجر اسی کا وصال ہے اس کا

ادیب سہارنپوری

ادیب سہارنپوری

1

بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے

احمد فراز

احمد فراز

15

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ

ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

جان سے عشق اور جہاں سے گریز

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے

دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے

خوابوں کے بیوپاری

ہچ ہائیکر

اے میرے سارے لوگو

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی

9

پابندی

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی

جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں

قلم دل میں ڈبویا جا رہا ہے

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

مداوا حبس کا ہونے لگا آہستہ آہستہ

پتھر

لب خاموش سے افشا ہوگا

ہر لمحہ اگر گریز پا ہے

احمد سلمان

احمد سلمان

3

جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو

عین تابش

عین تابش

11

اک شہر تھا اک باغ تھا

آنسوؤں کے رتجگوں سے

خاکساری تھی کہ بن دیکھے ہی ہم خاک ہوئے

حیات سوختہ ساماں اک استعارۂ شام

میری تنہائی کے اعجاز میں شامل ہے وہی

وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا

آوارہ بھٹکتا رہا پیغام کسی کا

غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں

گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے

یہاں کے رنگ بڑے دل پذیر ہوئے ہیں

بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

اجمل سراج

اجمل سراج

4

گھوم پھر کر اسی کوچے کی طرف آئیں گے

پیش جو آیا سر ساحل شب بتلایا

ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں دم میں دم جیسے

دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا

اخلاق احمد آہن

اخلاق احمد آہن

2

اکیلے اکیلے ہی پا لی رہائی

تری آشنائی سے تیری رضا تک

اختر مسلمی

اختر مسلمی

1

کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے

اختر الایمان

اختر الایمان

18

اتفاق

دور کی آواز

راہ فرار

ایک لڑکا

تبدیلی

سلسلے

اعتماد

بنت لمحات

کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام

عمر گریزاں کے نام

عروس البلاد

ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر

نیا آہنگ

شیشہ کا آدمی

آخری ملاقات

باز آمد ۔۔۔ ایک منتاج

میرا دوست ابو الہول

گونگی عورت

عالم خورشید

عالم خورشید

2

ہر گھر میں کوئی تہہ خانہ ہوتا ہے

جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی

عالم تاب تشنہ

عالم تاب تشنہ

1

گنتی میں بے شمار تھے کم کر دیے گئے

علی سردار جعفری

علی سردار جعفری

6

میرا سفر

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

شکست شوق کو تکمیل آرزو کہیے

چاند کو رخصت کر دو

تم نہیں آئے تھے جب

عقیدے بجھ رہے ہیں شمع جاں غل ہوتی جاتی ہے (ردیف .. ی)

علامہ اقبال

علامہ اقبال

1

ابلیس کی مجلس شوریٰ

آلوک مشرا

آلوک مشرا

6

جانے کس بات سے دکھا ہے بہت

جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے

چیخ کی اور میں کھنچا جاؤں

ہم مسلسل اک بیاں دیتے ہوئے

وہ بے اثر تھا مسلسل دلیل کرتے ہوئے

بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا

آلوک یادو

آلوک یادو

1

سراپا ترا کیا قیامت نہیں ہے؟

امیر امام

امیر امام

10

وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا

مزید اک بار پر نار گراں رکھا گیا ہے

کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے

بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی

کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا

کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے

خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے

شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے

یوں مرے ہونے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا

یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے

انیس اشفاق

انیس اشفاق

3

روئے گل چہرۂ مہتاب نہیں دیکھتے ہیں

کب عشق میں یاروں کی پذیرائی ہوئی ہے

ہمیشہ کسی امتحاں میں رہا

انور جلال پوری

انور جلال پوری

4

قیام گاہ نہ کوئی نہ کوئی گھر میرا

میں ہر بے جان حرف و لفظ کو گویا بناتا ہوں

زلف کو ابر کا ٹکڑا نہیں لکھا میں نے

پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے

انور مسعود

انور مسعود

1

سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے

انور شعور

انور شعور

1

یادوں کے باغ سے وہ ہرا پن نہیں گیا

ارشد کمال

ارشد کمال

16

زمانہ کچھ بھی کہے تیری آرزو کر لوں

ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح

سچ کی خاطر سب کچھ کھویا کون لکھے گا

تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے

درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے

سمندر سے کسی لمحے بھی طغیانی نہیں جاتی

اے دل ترے طفیل جو مجھ پر ستم ہوئے

کبھی جو اس کی تمنا ذرا بپھر جائے

ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح

تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے

اے دل ترے طفیل جو مجھ پر ستم ہوئے

درد کی ساکت ندی پھر سے رواں ہونے کو ہے

سمندر سے کسی لمحے بھی طغیانی نہیں جاتی

زمانہ کچھ بھی کہے تیری آرزو کر لوں

سچ کی خاطر سب کچھ کھویا کون لکھے گا

کبھی جو اس کی تمنا ذرا بپھر جائے

آرزو لکھنوی

آرزو لکھنوی

8

مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں

دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں

حسن سے شرح ہوئی عشق کے افسانے کی

ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے

دور تھے ہوش و حواس اپنے سے بھی بیگانہ تھا

کیوں کسی رہ رو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا

وہ سر بام کب نہیں آتا

اشفاق حسین

اشفاق حسین

5

ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں

دل اک نئی دنیائے معانی سے ملا ہے

گرتی ہے تو گر جائے یہ دیوار سکوں بھی

اتنا بے نفع نہیں اس سے بچھڑنا میرا

تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے

اشوک لال

اشوک لال

15

نیند

روشنائی

مہکتی ہوئی تنہائیاں

گھر واپسی

یتیم انصاف

باسی رشتے

پریکرما طواف

میرے احساس میرے وسواس

رگھوپتی راگھو راجا رام

اپنے اشعار بھول جاتا ہوں

جانے کیوں

آئینے میں خم آیا

بنیادیں

سفر

وراثت

اسرار الحق مجاز

اسرار الحق مجاز

2

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

عطا عابدی

عطا عابدی

7

سانسوں کے تعاقب میں حیران ملی دنیا

تماشا زندگی کا روز و شب ہے

تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی

پس دیوار حجت کس لئے ہے

تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی

کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے

خواب کی دلی

اطہر نفیس

اطہر نفیس

1

بے نیازانہ ہر اک راہ سے گزرا بھی کرو

اظہر عنایتی

اظہر عنایتی

10

گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا

وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا

قیامت آئے گی مانا یہ حادثہ ہوگا

حقیقتوں کا نئی رت کی ہے ارادہ کیا

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

کتابیں جب کوئی پڑھتا نہیں تھا

تمام شخصیت اس کی حسیں نظر آئی

فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں

نظر کی زد میں سر کوئی نہیں ہے

عزیز انصاری

عزیز انصاری

2

ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

گھٹ گھٹ کر مر جانا بھی

عزیز نبیل

عزیز نبیل

4

آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں

میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں

صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی

بدنام نظر

بدنام نظر

2

دیوار و در کا نام تھا کوئی مکاں نہ تھا

حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

بیکل اتساہی

بیکل اتساہی

1

ادھر وہ ہاتھوں کے پتھر بدلتے رہتے ہیں

فہمیدہ ریاض

فہمیدہ ریاض

12

طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی

خاکم بدہن

ایک زن خانہ بدوش

نذر فراق

باکرہ

میگھ دوت

زبانوں کا بوسہ

عالم برزخ

اس گلی کے موڑ پر

اقلیما

دلی تری چھاؤں…

پتھر کی زبان

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

37

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا

پاس رہو

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

دو عشق

تیری صورت جو دل نشیں کی ہے

ختم ہوئی بارش سنگ

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

سوچنے دو

جب تیری سمندر آنکھوں میں

چند روز اور مری جان

کہاں جاؤ گے

ملاقات

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو

ترانہ

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام (ردیف .. ے)

زنداں کی ایک شام

درد آئے گا دبے پاؤں

یہاں سے شہر کو دیکھو

نثار میں تیری گلیوں کے

لہو کا سراغ

اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے

بول

دریچہ

طوق و دار کا موسم

بنیاد کچھ تو ہو

رہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

اے روشنیوں کے شہر

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

دعا

صبح آزادی (اگست 47)

کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا

زنداں کی ایک صبح

رنگ ہے دل کا مرے

فنا نظامی کانپوری

فنا نظامی کانپوری

1

یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے

فرحت احساس

فرحت احساس

9

تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا

جسم کے پار وہ دیا سا ہے

اب دل کی طرف درد کی یلغار بہت ہے

میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

سونے سیاہ شہر پہ منظر پذیر میں

اس طرف تو تری یکتائی ہے

جسم کی کچھ اور ابھی مٹی نکال

ہر گلی کوچے میں رونے کی صدا میری ہے

کبھی ہنستے نہیں کبھی روتے نہیں کبھی کوئی گناہ نہیں کرتے

فاروق بخشی

فاروق بخشی

6

اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں

وہ بستی یاد آتی ہے

وہ چاند چہرہ سی ایک لڑکی

اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں

یہ سودا عشق کا آسان سا ہے

ریزہ ریزہ سا بھلا مجھ میں بکھرتا کیا ہے

فرزاد علی زیرک

فرزاد علی زیرک

12

جوکر نہیں جو ہنسنے ہنسانے کا کام ہے

پاؤں زنجیر پرکھنے میں ابھی کچے ہیں

یہاں تو صرف کپاسوں کے رنگ اڑنے لگے

جب آنسوؤں کے بھروسے کا ذکر چلتا ہے

تمام رات سڑک پر ہمیں بٹھایا گیا

شوق بجھتے نہیں نوابی کے

ترے حسد کے مقابل کوئی صفائی نہیں

چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے

پرسہ داری کے فن میں طاق نہیں

خدا سے عشق ہو اچھی دعا سلام نہ ہو

کن اشاروں سے مدعا پوچھے

یہ ہم جو آئنے چمکا رہے ہیں

فصیح اکمل

فصیح اکمل

12

دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے

غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے

مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی

کچھ نیا کرنے کی خواہش میں پرانے ہو گئے

کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے

مضطرب دل کی کہانی اور ہے

یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے

کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی

پیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گا

چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا

جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے

منور جسم و جاں ہونے لگے ہیں

فاطمہ حسن

فاطمہ حسن

9

مناظر خوبصورت ہیں

مری زمیں پہ لگی آپ کے نگر میں لگی

کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں

اچھا لگتا ہے

میری بیٹی چلنا سیکھ گئی

کون خواہش کرے کہ اور جیے

آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں

خواب گروی رکھ دیے آنکھوں کا سودا کر دیا

نظم

فاضل جمیلی

فاضل جمیلی

5

خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا

سخن جو اس نے کہے تھے گرہ سے باندھ لیے

سرحدیں

درختوں کے لیے

کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں

غفران امجد

غفران امجد

3

کب سے بنجر تھی نظر خواب تو آیا

عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے

ابھی آئنہ مضمحل ہے

حبیب جالب

حبیب جالب

8

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

مشیر

دستور

بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ریفرنڈم

ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم

حماد نیازی

حماد نیازی

1

دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی

حسین ماجد

حسین ماجد

4

دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر

شام چھت پر اتر گئی ہوگی

لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

افتخار عارف

افتخار عارف

66

غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے

حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

ایک رخ

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

گمنام سپاہی کی قبر پر

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

تار شبنم کی طرح صورت خس ٹوٹتی ہے

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

فضا میں وحشت سنگ و سناں کے ہوتے ہوئے

بدشگونی

مکالمہ

سر بام ہجر دیا بجھا تو خبر ہوئی

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

محبت کی ایک نظم

دعا

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

آخری آدمی کا رجز

کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

شکستہ پر جنوں کو آزمائیں گے نہیں کیا

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی

ایک سوال

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے

میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے

کوچ

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا

انتباہ

منظر سے ہیں نہ دیدۂ بینا کے دم سے ہیں

بارہواں کھلاڑی

ابوطالب کے بیٹے

سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

پرانے دشمن

ایک اداس شام کے نام

بیلنس شیٹ

ایک خواب کی دوری پر

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

ابھی کچھ دن لگیں گے

بن باس

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

صحرا میں ایک شام

تھکن تو اگلے سفر کے لیے بہانہ تھا

شہر آشوب

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

اور ہوا چپ رہی

التجا

یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے

شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا

یہ قرض کج کلہی کب تلک ادا ہوگا

عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

شہر علم کے دروازے پر

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

ملک سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا

سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے

غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

شکست

اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

Recitation

aah ko chahiye ek umr asar hote tak SHAMSUR RAHMAN FARUQI

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے