غالب سے معذرت کے ساتھ: غالب پر منتخب مزاحیہ تحریریں
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
راوی، یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں، ’’مرنے سے کئی برس پہلے چلنا پھرنا موقوف ہوگیا تھا۔ اکثر اوقات پلنگ پر پڑے رہتے تھے۔ غذا کچھ نہ رہی تھی۔‘‘ ۱۸۶۶ء میں خواجہ عزیز لکھنوی لکھنو سے کشمیر جاتے وقت راستے میں غالب سے ملے تھے، مرزا صاحب کے پختہ مکان میں
آل احمد سرور
مرزا نوشہ اور چودھویں
مرزا غالب اپنے دوست حاتم علی مہر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغل بچے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں، میں نے بھی اپنی جوانی میں ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھا تھا۔‘‘ سنہ بارہ سو چونسٹھ ہجری میں مرزا غالب چوسر کی بدولت قید
سعادت حسن منٹو
غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں
دور جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیل القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیراجیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما
کنہیا لال کپور
غالب اپنے کلام کے آئینے میں
’’تنقید عالیہ‘‘ کا دور دورہ ہے اور تحقیق و تدقیق کی سنگلاخ زمین میں نئے نئے پھول اور پودے اگا کر ویرانوں کو گلزار بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اس ضمن میں مصنّفوں اور شاعروں کی سوانح حیات، ان کے کلام اور تصانیف سےمرتب کرنے کا شغل عام ہو چکا ہے۔ بعض لوگوں
ہری چند اختر
غالب پھر اس دنیا میں
جب میں اس دنیا میں تھا تو میں نے بے چین ہوکر ایک بار کہا تھا، موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آج موت کی نیند پھر اچٹ گئی۔ کیا نیند، کیا موت، دونوں میں کسی کا اعتبار نہیں، جب زندہ تھے تو زندگی کا رونا تھا اور موت کی تمنا تھی،
فراق گورکھپوری
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔ ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے
ابن انشا
غالب کے دو سوال
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘ مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اسکی کوئی دوانہیں، بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجئے کیونکہ
کنہیا لال کپور
غالب کے گھر میں ایک شام
تاریخ، شب قدر اور دیوالی کا دن۔ قبل غدر دلی میں، وقت، مابین عصر و مغرب۔ سایہ ڈھل رہا ہے۔ کردار، ۱- میرزا غالب ۲- بیگم غالب (ایک مردانہ کمرہ۔ دیواروں پر تازہ سفیدی پھری ہوئی، بوسیدہ ایرانی قالین جس پر چیتے کی کھال کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا
محمد دین تاثیر
نجات کا طالب، غالب
(چند خطوط) (۱) ’’لو مرزا تفتہ ایک بات لطیفے کی سنو۔ کل ہر کارہ آیا تو تمہارے خط کے ساتھ ایک خط کرانچی بندر سے منشی فیض احمد فیض کا بھی لایا جس میں لکھا ہے کہ ہم تمہاری صدسالہ برسی مناتے ہیں۔ جلسہ ہوگا جس میں تمہاری شاعری پر لوگ مضمون پڑھیں گے۔
ابن انشا
غالب کی محفل
(مقام دہلی ۱۸۵۶عیسوی) راوی ۱۸۵۰ء تک دہلی اور لکھنؤ کی محفلوں پر بہار تھی، ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طور پر آزاد کے الفاظ میں درخت اقبال کو دیمک لگ چکی تھی۔ لیکن ابھی برگ و بار کی شگفتگی اور تازگی کو دیکھتے ہوئے گمان
سید عابد علی عابد
مرزا غالب سے انٹرویو
میں کیا یہ واقعہ ہے کہ آپ کے والد محترم عبداللہ بیگ آپ کی طرح اہل قلم یا اہل خرابات میں سے نہیں بلکہ اہل سیف میں سے تھے۔ اور ان کا انتقال بھی ایک مہم میں بندوق کی گولی کھا کر ہوا تھا۔ نیز آپ کا سلسلۂ نسب شاہانِ توراں افسرا سیاب اور پشنگ سے ملتا
نریش کمار شاد
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
اس گردش ِ ایام نےکسی اورکو بگاڑا ہو یا نہ بگاڑا ہو مگرعشق کوعرش سےفرش پروہ پٹخنی دی ہےکہ اگراس دورمیں آنسوؤں پراتنا شدید پہرہ نہ ہوتا تو یقیناً اس کی بے کسی پررونا آجاتا۔ یوں دہائی دیتےتو پھربھی لوگ نظر آ ہی جاتے ہیں، پھرتے ہیں دشت دشت دوانے کدھر
شفیقہ فرحت
ترقی پسند غالب
پہلا منظر (باغ بہشت میں مرزا غالب کامحل۔ مرزا دیوان خانہ میں مسند پر بیٹھے ایک پری زاد کو کچھ لکھوا رہے ہیں، ساغر و مینا کا شغل جاری ہے۔ ایک حور ساقی کے فرائض انجام دے رہی ہے) (منشی ہر گوپال تفتہ داخل ہوتے ہیں) تفتہ آداب عرض پیرومرشد۔ یہ آج
کنہیا لال کپور
مرزا غالب کا خط پنڈت نہرو کے نام
جان غالب۔ بین الاقوامی صلح کے طالب، میاں جواہر لال خوش فکر و خوش خصال جگ جگ جیو، تا قیامت آب حیات پیو۔ سنو صاحب! امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد آئے ہیں، اور اپنے ہمراہ دو نسخے دیوان غالب کے لائے ہیں، جو مجھے ابھی موصول ہوئے ہیں۔ ایک نسخہ علی سردار
فرقت کاکوروی
غالب جنت میں
غالب کی موت پس منظر، ایک سہ درہ دالان ہے جس کے سامنے ایک بڑا صحن ہے۔ دالان کے دروں میں اندرونی جانب پردے آدھی محراب تک بندھے ہوئے ہیں۔ دالان کے وسط میں ایک پلنگ ہے جس کا سراہنا شمال کی سمت ہے، پلنگ پر گدا بچھاہوا ہے۔ اور سفید چادر چاروں طرف کلابتوں
سراج احمد علوی
غالب اور شریک غالب
ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد
وجاہت علی سندیلوی
غالب کے ساتھ اعراف میں
الف، آداب عرض کرتا ہوں قبلہ! غالب، جیتے رہو، جیتے رہو۔۔۔ عالم خاکی سے آرہے شاید۔۔۔ کیسے آنا ہوا۔ الف، بس شوق زیارت کھینچ لایا! فرمائیے اس عالم لاہوت میں کیسے بسر ہو رہی ہے۔ غالب، اجی یہاں دھرا کیا ہے! الف، اچھا تو پھر وہی کچھ سنائیے
حزب اللہ
غالب کے اڑیں گے پرزے
باغ بہشت میں مرزا غالب اپنے محفل میں ایک پر تکلف مسند پر بیٹھے دیوان غالب کی ورق گردانی کر رہے ہیں۔ اچانک باہر سے نعروں کی آواز آتی ہے۔ غالب کے اڑیں گے پرزے۔ غالب کے۔۔۔ اڑیں گے پرزے۔۔۔ مرزا گھبرا کر لاحول پڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لوگ جنت میں بھی
کنہیا لال کپور
مرزا غالب ہاسٹل میں
(ذیل میں مرزا غالب کے تین غیرمطبوعہ مکاتیب ہیں جو مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل ایس ایم ایسٹ سےلکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کی تواریخ نامعلوم ہیں۔) ۱- دوست کے نام میری جان کن اوہام میں گرفتار ہے۔ جہاں سے بی اے کامیاب کیا ہے وہیں سے ایم اے بھی کر ڈال۔ ڈبل کورس
ضیا الدین احمد شکیب
غالب انڈ گوئٹے
مجھ سے روایت کیا کامریڈ باری علیگ نے اور انہوں نے سنا اپنے دوست مرزا کاظم سے اور مرزا کاظم نے سنائی آپ بیتی اور اب آپ مجھ سے سنیے ’’مرزا بیتی‘‘ میرے الفاظ میں اور اس کا ثواب پہنچائیے غالب اور گوئٹے کی ارواح کو اور دعا کیجیے میرے حق میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حاجی لق لق
اسد اللہ خاں تمام ہوا
غالب کی زندگی اپنے آغاز و انجام اور درمیانی واقعات کی ترتیب و ارتقاء کے لحاظ سے ایک ڈرامائی کیفیت رکھتی ہے۔ دنیائے شعر میں تو مرزاغالب خلاق معانی اور فن کار تھے ہی، لیکن ان کی شخصی زندگی کے مرقع کو بھی رنگ اور روشنی اور سائے کی آمیزش نے ایک مستقل
حمید احمد خاں
نتیجہ غالب شناسی کا
مرزا غالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی دانشمند اور دور اندیش آدمی تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کے وطن میں ان کا کلام سخن فہموں کے ہاتھوں سے نکل کر ہم جیسے طرف داروں کے ہاتھ پڑجائے گا اس لیے انہوں نے باکمال
یوسف ناظم
غالب داور محشر کے سامنے
صور کی مہیب اور ہیبت ناک آواز سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ مردوں کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ سب کے سب ایک دوسرے کو دھکادے کر آگے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’قیامت آگئی، قیامت آگئی‘‘ کا روح فرساشور۔ اس ریلے میں میں بھی آگے بڑھا۔ قبروں سے جلدی
محی الحق فاروقی
غالب قید میں
تفتہ، قبلہ! کل آپ مفتی صدر الدین آزردہ کے مشاعرے میں شریک نہ ہوئے۔ غالب، ایک تو درد کمر دوسرے بارش، شرکت نہ کرسکا۔ مفتی صاحب کو معذرت نامہ بھیج دیا تھا۔ کیوں مشاعرہ کیسا رہا؟ تفتہ، بڑا کامیاب رہا۔ لالہ مکندی لال بھی تو وہاں موجود تھے۔ غالب،
مظفر حسین شمیم
غالب اور تیلن
میر مہدی مرزا صاحب بھی بہت برہم ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان نااہلوں کو اب میں ہرگز اپنا کلام نہیں سناؤں گا۔جو شاعرانہ نکات ورموز سے واقف ہیں نہ علمی استعداد رکھتے ہیں۔ عزل میں صرف معاملہ بندی اور چونچلا چاہتے ہیں۔ نواب نیر ان کا یہ فرمانا بالکل بجا