aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "بتاو"
حضرت سلطان باہو
مصنف
گوپال کرشن شفق
born.1933
شاعر
مولانا اعجاز احمد بداؤ
باہو ولد بایزید سروری قادری
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لیکن مصیبت یہ تھی انسان کو پیٹ بھر نے کے لئے روٹی کے علاوہ پیٹ ڈھانکنے کے لئے کپڑا بھی چاہئے، چودھری فتح داد ہر نئی فصل پر مولوی ابل کو ایک پوشاک بھی پیش کرتا تھا۔ لیکن جب بھی یہ پوشاک گھر میں آئی، ایکا ایکی درزی کی دکان سج گئی۔ زیب النساء، مہرن، زبدہ اور شمسن کو پاس بٹھا کر لٹھے کے تہبند کا تیا پانچا کر کے رکھ دیتی اور یوں ننھوں کے بہت سے چولے نک...
امریکن نما لڑکی نے جو خالص امریکن تجسس سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ کون سی زبان ہے، اس خوب صورت آدمی کو اخبار پڑھنے والے نوجوان سے باتیں کرتے سنا۔ وہ بھی کسی اجنبی زبان میں بول رہا تھا۔ لیکن وہ زبان ذرامانوس سی معلوم ہوئی۔ لڑکی نے قیاس کیا کہ یہ شخص ایرانی یا ترک ہے۔ وہ اپنے شہرٹورانٹو میں چندایرانی طلباء سے مل چکی تھی۔ چلو یہ تو پتہ چل گیا کہ یہ ف...
حکیم جی نے کہا، ’’بوا جب تم سب کچھ سننے کو تیار ہو تو سنو۔ تمھارا مرض بہت بڑھ گیا ہے۔ دِق ہے اور تیسری درجہ پر پہنچنے والی ہے۔ اگر احتیاط نہیں کی گئی تو زندگی مشکل ہے۔ تمھیں سب سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ طبیعت پر بار پڑنا اس مرض کے لیے زہر ہے۔‘‘ یہ کہہ انھوں نے نسخہ لکھ دیا۔ کہاروں نے ڈولی اٹھائی۔ انھوں نے رحیم الدین کو پاس بلاکر کہا کہ ’’مجھے بھ...
’’زنده رہا۔۔۔؟ اچھا۔۔۔؟‘‘ تیسرا آدمی مزید حیران ہوا۔ ’’ ہاں، میں نے یہ کہا، میں نے یہ دیکھا، اور میں زندہ رہا۔ میں یہ دیکھنے کے لیے زندہ رہا کہ اس نوجوان نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا۔ دہشت میں بھاگتی ہوئی ایک برقعہ پوش کو اس نے دبوچ رکھا تھا۔ ایک بوڑھے آدمی نے زاری کی اورچلایا کہ اے جوان ہماری آبرو پررحم کر۔ سانولے نوجوان نے لال پیلی نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا، یہ تیری کون ہے، وہ بوڑھا بولا کہ بیٹے یہ میری بہو ہے۔ اس پر سانولے نوجوان نے دانت کچکچائے اور چلا یا کہ بوڑھے تو اسے برہنہ کر۔ یہ سناہی تھا کہ وہ لرزتا کا نپتا بوڑھا آد می ایک دم سے سن ہوگیا اور دہشت میں اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تب نوجوان غصے سے دیوانہ ہوا اور بوڑھے کی گردن پکڑ کے چلایا کہ بوڑھے اپنی بہو کوبرہنہ کر۔۔۔ اس نے یہ کہا اور میں۔۔۔‘‘
مسکراہٹ کو ہم انسانی چہرے کی ایک عام سی حرکت سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ہمارے منتخب کردہ ان اشعار میں دیکھئے کہ چہرے کا یہ ذرا سا بناؤ کس قدر معنی خیزی لئے ہوئے ہے ۔ عشق وعاشقی کے بیانیے میں اس کی کتنی جہتیں ہیں اور کتنے رنگ ہیں ۔ معشوق مسکراتا ہے تو عاشق اس سے کن کن معنی تک پہنچتا ہے ۔ شاعری کا یہ انتخاب ایک حیرت کدے سے کم نہیں اس میں داخل ہویئے اور لطف لیجئے ۔
اردو شاعری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس میں بہت سی ایسی لفظیات جو خالص مذہبی تناظر سے جڑی ہوئی تھیں نئے رنگ اور روپ کے ساتھ برتی گئی ہیں اور اس برتاؤ میں ان کے سابقہ تناظر کی سنجیدگی کی جگہ شگفتگی ، کھلے پن ، اور ذرا سی بذلہ سنجی نے لے لی ہے ۔ دعا کا لفظ بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے ۔ آپ اس انتخاب میں دیکھیں گے کہ کس طرح ایک عاشق معشوق کے وصال کی دعائیں کرتا ہے ، اس کی دعائیں کس طرح بے اثر ہیں ۔ کبھی وہ عشق سے تنگ آکر ترک عشق کی دعا کرتا ہے لیکن جب دل ہی نہ چاہے تو دعا میں اثر کہاں ۔ اس طرح کی اور بہت سی پرلطف صورتیں ہمارے اس انتخاب میں موجود ہیں ۔
’’وقت وقت کی بات ہوتی ہے‘‘ یہ محاورہ آپ سب نے سنا ہوگا ۔ جی ہاں وقت کا سفاک بہاؤ ہی زندگی کو نت نئی صورتوں سے دوچار کرتا ہے۔ کبھی صورت خوشگوار ہوتی ہے اور کبھی تکلیف دہ۔ ہم سب وقت کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تو آئیے وقت کو ذرا کچھ اور گہرائی میں اتر کر دیکھیں اور سمجھیں ۔ شاعری کا یہ انتخاب وقت کی ایک گہری تخلیقی تفہیم کا درجہ رکھتا ہے
عین الفقر
مطبوعات منشی نول کشور
ابیات باہو
شاعری
باہو
دیوان باہو
دیوان
گنج الاسرار
اسرار قادری
قادریہ
ابیات سلطان باہو
عبدالمجید بھٹی
چند تصویر بتاں
صابر دت
اردو ترجمہ محک الفقر کلاں
تحقیق
ابیات باہ
حجت الاسرار
اسلامیات
چھوٹی بہو
ابن فرید
معاشرتی
دیدار بخش خورد
تصوف
کلام حضرت سلطان باہو
راحیلہ بشیر
مرتب
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مولوی صاحب چونکہ کئی زبانوں پر حاوی تھے اس لیے ان کو کہیں نہ کہیں سے مناسب لفظ ادائے مطلب کے لیےضرور مل جاتا تھا۔ مثلاً اسی جشن تاج پوشی کی کتاب میں ایک جگہ لفظ Stallion آیا۔ ڈکشنری میں جو دیکھا تو اس کے معنی ’’سیاہ بڑا جنگی گھوڑا‘‘ نکلے، یاروں نے ترجمے میں وہی لفظ ٹھونک دیے۔ جب مولوی صاحب نے یہ الفاظ سنے تو بہت ہنسے، ...
پدما نے جلدی جلدی سوچا ان لوگوں سے اگر کہوں کہ انڈین ڈانسر ہوں، فارن ٹور پر نکلی ہوں۔ کیا پتہ لے جاکر بازار میں بیچ ڈالیں۔ ’وہ دیبی حاثور کی داسی‘ والی بات بہتر ہے۔ مگر کسی مندر میں پہنچا کر ناک میں اتنی دھونی دیں گے کہ پانچ دس منٹ میں دم نکل جائے گا۔ اصل واقعہ بتاؤں تو ان کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ ان کی کیا خود میری سمجھ میں نہیں آرہا۔امیر زادہ ثوث اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ’’لڑکی تم کون ہو؟‘‘ اس نے ذرا ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’اور ہماری باتیں اتنے غور سے کیوں سن رہی ہو؟ کس ملک کی جاسوس ہو؟ ایلام۔۔۔ اسوریہ۔۔۔؟ ار اَر تو۔۔۔؟‘‘
(رودابہ Tis the last rose of summer left blooming alone بجانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔) ہومائے: روڈی۔۔۔ آج پورنماشی کی رات ہے اور میں آج ہی وضو کرنے میں گڑبڑا گئی۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ منہ دھونے سے پہلے واشیمؔ ووہو پڑھتے ہیں نا۔۔۔ پھر کلّی کرنا۔ پھر تین دفعہ پنجے دھونا۔۔۔ پھر تین دفعہ کہنیوں تک ہاتھ۔۔۔ ہاتھ کی طرف کہنیوں تک نا۔۔۔؟ پھر پاؤں۔۔۔ ذرا سی بھول چوک میں گناہ ہوگا۔
جیب بھی پھٹ گئی تھی، بٹن بھی ٹوٹ گئے تھے۔ ’’اب بتاو تمہیں تو بڑے کراٹے آتے تھے تم تو کئی لوگوں سے لڑ سکتے تھے اب بتاو۔‘‘ اور وہ لڑکے چلے گئے اس نے بٹن تلاش کیے، جب سارے بٹن مل گئے تو اسے احساس ہوا کہ اس کی کہنی سے خون بھی بہہ رہا ہے۔۔۔
وہ مجھے تقریباً کھینچتا ہوا کیبن میں لے گیا۔ ’’اب بتاؤ یہ اکتارا تمہیں کب اور کس نے دیا۔‘‘ وہ قطعی سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
’’اچھا یہ بتاؤ تمہارا دل کرتا ہے کہ تم آزاد دنیا میں گھومو۔۔۔ ایک مرتبہ مَیں ایوبیا سے بھی کہیں آگے نکل گیا۔ وہاں مَیں نے ایک کپل دیکھا دونوں نے جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ لڑکا لڑکی کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔۔۔ لڑکی ذرا جھکتی تو اس کے بال لڑکے کے چہرے کو چھو جاتے تھے۔ مجھے بہت ہی اچھا لگا۔ میری تو خواہش ہی رہی۔۔۔ بہرحال۔۔۔ کبھی تم نے ایسا کچھ دیکھا۔۔۔‘‘
جواب ملا۔۔۔ ’’دیکھ منّی۔۔۔ دنیا میں اس قدر تفرقہ ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ میری جب اس لڑکی سے ملاقات ہوئی تو وہ میرے نام کی وجہ سے۔ مجھے مسلمان سمجھی اور میرے سامنے ہندوؤں کی اور ہندوستان کی خوب خوب برائیاں کیں۔ اس کے بعد اگر میں اسے بتا دیتا کہ میں ہندو ہوں تو اسے کس قدر خجالت ہوتی، اور پھر اس میں میرا کیا ہرج ہے۔ میرے خاندا...
حکیم صاحب کہنے لگے، میاں عارف! خدا کے لیےایسی مایوسی کی باتیں نہ کیا کرو۔ ابھی جوان ہو، انشاء اللہ خود طبیعت مرض پر غالب آ جائے گی۔ اورتمہیں مرض ہی کیا ہے وہم ہی ہے، مگر ہاں یہ تو بتاؤ مجھ سے کس قسم کی مدد چاہتے ہو؟ نواب صاحب نے کہا، حکیم جی! اور کچھ نہیں اتنا کر دو کہ میاں کریم الدین کو بار گاہ جہاں پناہی تک پہنچا دو۔ میں خود جاتا مگر ہمت نہیں ہو...
’’میرا نام کارمن ہے۔ میں ایک دفتر میں ملازم ہوں اور شام کو یونیورسٹی میں ریسرچ کرتی ہوں۔ کیمسٹری میرا مضمون ہے۔ میں وائی ڈبلیو کی سوشل سکریٹری بھی ہوں۔ اب تم اپنے متعلق بتاؤ؟‘‘ میں نے بتایا۔۔۔ ’’اب سو جاؤ‘‘، مجھے اونگھتے دیکھ کر اس نے کہا۔ پھر اس نے دو زانو جھک کر دعا مانگی اور فرش پر لیٹ کر فوراً سو گئی۔ صبح کو عمارت جاگی۔ لڑکیاں سروں پر تولیہ لپیٹے اور ہاؤس کوٹ پہنے غسل خانوں سے نکل رہی تھیں۔ برآمدے میں سے گرم قہوے کی خوشبو آرہی تھی۔ دو تین لڑکیاں آنگن میں ٹہل ٹہل کر دانتوں پر برش کر رہی تھیں۔
اسی زمانے میں ایک دن داروغہ نبی بخش نے مجھے پاس بلایا۔ کئی دن سے وہ مجھ کو رمنوں کے پاس آوارہ گردی کرتے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کچھ ایسی دل سوزی سے میرا حال دریافت کیا کہ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ انھوں نے بڑی تسلی دی لیکن مہاجنوں سے قرض لینے کی بات پر بہت ناراض ہوئے۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں جو کچھ ہونا تھااس کا ایسا نقشہ کھینچا کہ میں بدحواس ہو گ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books