aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "بعد_انفصال"
ہمارے خوں بہا کا غیر سے دعویٰ ہے قاتل کویہ بعد انفصال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا
سیلاب اس کے خون سے اس خاک پر بہاانصاف کر کنھوں نے نہ افسوس ہی کہا
ہم غریبوں کے طرف دار بہت ہیں لیکنبات انصاف کی آئے تو مکر جاتے ہیں
بقا طلب تھی زندگی شفا طلب تھا زخم دلفنا مگر لکھی گئی ہے باب اندمال میں
نعرہ کرے تو تن سے کرے روح انتقالاہل سلاح ترس سے گر گر پڑیں بہت
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
बाद-ए-इन्फ़िसालبعد انفصال
after separation
مشاہدات
ہوش بلگرامی
خود نوشت
سمندر بات کرتا ہے
افضال نوید
غزل
سند باد جہازی
حفیظ جالندھری
داستان
بچوں کا باغ
نظم
بہت خوب
مائل خیرآبادی
افسانہ
اونچے درختوں کا باغ
محمد شاہد رفیع
ادب اطفال
دم باز دم ساز
انتصار حسین
باز اور کوا
طاہر اختر میمن
باغ عجیب
نواب سلطان جہاں بیگم
ہماری بال واڑی
رکمنی بنرجی
پرتھم بکس
تذکرۂ اہل دہلی
سر سید احمد خاں
تذکرہ
پھول باغ
سید امتیاز علی تاج
بالک باغ
محوی صدیقی
ہونہار بیٹی
بال کرشن
بادل کے بچے
شیخ فیروز الدین
آ جاؤ اب خدا کے لئے بہر اتصالمعمورۂ وفا پہ اداسی محیط ہے
ایک آنسو بھی بہت ہے بہر ایصال ثوابہم غریبوں کے لئے دریا بہایا مت کرو
پاس کھڑا انگریز مجسٹریٹ کاغذ سے پڑھ رہا تھا۔ لوگوں نے تو مقدمہ جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی۔ سناہے، انگریز بہت انصاف پسند قوم ہے، لیکن۔۔۔ اور مجھے زیادہ سے زیادہ عمر قید ہوگی یا کالا پانی۔۔۔ لیکن انگریز کا قانون۔۔۔ اور پھر میں بھی تو...
اگلے ہی لمحے، یہ لوگ اندر تھے۔۔۔ سامنے اکثریت اور اقلیت کے سہمے ہوئے 9 افراد ان کے فیصلے کے منتظر تھے۔ ’’آہ، فنتاسی۔‘‘ دانشور چلایا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آواز بدل گئی۔۔۔ تہذیب ہر بار انصاف کرتی ہے۔ جیسے کوتیا۔ یہ تہذیب کا اصول ہے۔ یہ، یہ بہت...
اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ ہم داستان کا مطالعہ صرف و محض زبانی روایت کے حوالے سے کرنے کے بجائے ایک ایسی تحریر کے طور پر کریں جس میں زبانی روایت کے تقریباً تمام اوصاف پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ معلوم ہے کہ زبانی بیانیہ کے...
یہاں سے کورا جواب مل گیا تو میں نے دل میں کہا کہ چلو خود ہی قانون دیکھ ڈالو۔ انہیں وکیل صاحب میں کیا سرخاب کا پر ہے کہ یہی قانون سمجھتے ہیں، دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ راستے میں آتے آتے تعزیرات ہند اور ضابطہ فوجداری خرید لیا۔ گھر پر...
بظاہریہاں ’’مرزا‘‘ سے مراد مرزا محمد رفیع سودا ہیں۔ سودا کا انتقال جون ۱۷۸۱ء میں ہوا۔ لہٰذا قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ شعر جون ۱۷۸۱ء کے پہلے کاہوگا۔ لیکن کتناپہلے کا، یہ بات صاف نہیں ہوتی۔ نیرکاکوروی نے ’’نور اللغات‘‘ جلد اول (اول طباعت ۱۹۲۴ء) میں لفظ ’’اردو‘‘ بطور...
پہلے تو ایسا ہوا کہ پتلوں کی حرکت کسی ڈور کے سہارے ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ بعد از آں پتلوں کی آنکھوں میں گہری چمک سی رونما ہوئی۔ بڑی پر معنی چمک۔ پتلے ایک دوسرے کی آنکھوں کے شیشے میں جھانک کر دیکھنے لگے۔ اندر کی دنیا عجیب و غریب...
زوناش گھبرا گئی، ’’کیا انتقال کرگئے؟‘‘ ’’ابھی نہیں‘‘ میں افسردہ لہجہ میں کہنے لگی، ’’ابھی نہیں مگر کچھ دنوں بعد انتقال کریں گے۔ اب سمندری شان دار شہر میں جانے کا پروگرام ملتوی کرو آج شام جو جہاز نکلتا ہے۔ اس میں ہمیں سوار ہو جانا چاہیے۔ یہ کوہ فیروز...
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بیانیہ چاہے جتنا بھی خیالی اور غیرواقعی ہو، اس کی تعبیر ہمیں دنیا کے حقیقی اور واقعی قضایا کی طرف کھینچتی ہوئی لے جاتی ہے۔ بیانیہ کو انسانی دنیا میں کچھ ایسا مرتبہ حاصل ہے کہ اسے پڑھتے وقت ہمیں بار بار پوچھنا...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books