Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

داستان کی نئی قرات: ساحری، شاہی، صاحب قرانی

قاضی افضال حسین

داستان کی نئی قرات: ساحری، شاہی، صاحب قرانی

قاضی افضال حسین

MORE BYقاضی افضال حسین

    ادب کے مابعد جدید تصور میں فوق بیانیہ (Meta-Narrative) کے انکار سے مطالعۂ متن کی بعض نئی جہات روشن ہوئیں۔ ان میں سب سے اہم ادب کے آفاقی اصولوں سے انکار ہے، متن کی قرات یا اس کی تقدیر کے ایسے اصول ممکن ہی نہیں، جن کی رو سے ہر زبان اور ہر زمانے کے ادب کا محاکمہ کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ اگر ادب کے اصول آفاقی نہیں، بلکہ ہرزبان، ہر معاشرہ اور بعض صورتوں میں مخصوص زمانی عرصہ کی اپنی فکری و فنی ترجیحات سے نمو کرتے ہیں تو ان میں کوئی ترجیحی ترتیب قائم ہی نہیں ہو سکتی یعنی کسی ایک زبان یا ادبی روایت کے اصول دوسری زبان یا روایت کے اصولوں سے برتر یا فروتر نہیں ہو سکتے۔ ’’کم ترقی یافتہ‘‘ بلکہ ’’غیرترقی یافتہ‘‘ افریقی اور ایشیائی زبانوں کے جو مطالعات شائع ہو رہے ہیں ان سے ان زبانوں کی غیرمعمولی تخلیقی اپج اور اپنے معاشرے کے اجتماعی شعور و معتقدات کے اظہار پر پوری قدرت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ اس لیے جب شمس الرحمٰن فاروقی یہ اصرار کرتے ہیں کہ،

    ’’ہر صنف ادب کو انہیں قوانین اور ضوابط اور اصولوں کی روشنی میں پڑھنا چاہیے، جن کی رو سے وہ بامعنیٰ ہوتی ہے۔‘‘ (۱)

    (۱) فاروقی، شمس الرحمٰن: ساحری، شاہی، صاحب قرآنی، جلد اول قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص۱۰۵، اشاعت اکتوبر دسمبر ۱۹۹۹ء

    تو وہ نقد ادب کے ایک جدید تر (اصلاً مابعد جدید) تصور کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جس میں ایک مخصوص زبان کے بولنے والوں کے معتقدات اور تہذیبی تصورات کو اساسی اہمیت دی جا رہی ہے۔ احتیاطاً یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ادب کی قرات کا یہ نیا موقف، کسی قدیم تر اصول یا طریقہ کار کی بازیافت نہیں۔ بلکہ ادب کے جدید تر مطالعات کو مختلف علوم (بہ طور خاص بشریات، لسانیات اور نفسیات) سے حاصل ہوئی تائید سے قائم ہوا ہے۔ اس لیے اسے محض اجتہاد، احیاپرستی یا فیشن کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ مجھے تو یہ عرض کرنا ہے کہ اپنے کلاسیکی متون کی معنویت، جتنی مابعد جدید فکری حوالوں سے روشن ہو رہی ہے، اس کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔ اس لیے فاروقی کا یہ موقف کہ

    روسی ہیئت پسندی (Russian- Formalism) اور بیانیہ کی فرانسیسی وضعیاتی تنقید سے معاملہ کیے بغیر ہم ناول اور داستان دونوں کی تنقید میں ناکام رہیں گے۔‘‘ بالکل صحیح ہے اور اردو تنقید اسے جلد یا بہ دیر تسلیم کر لےگی۔ (ص۷۱)

    لیکن یہ مطالعۂ متن کی دوسری منزل ہے۔ تحسینِ فن کی پہلی شرط تو خود ان اصولوں سے واقفیت ہے جن کی بنیاد پر کوئی متن ایک مخصوص معاشرے میں بامعنی بنتا ہے کہ انہیں اصولوں کی روشنی میں نقاد تقدیر متن کے اصول مرتب کرتا اور فن پارے کے حسن و قبح کا جائزہ لیتا ہے۔

    فاروقی صاحب نے ساحری، شاہی اور صاحب قرانی، کی پہلی جلد کے پہلے دو ابواب میں وہ اصول مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، جن کی رو سے داستان اپنے مخصوص معاشرے میں بامعنی تصور کی جاتی تھی۔ داستان کی یہ شعریات، ہند اسلامی معاشرے کے جن فکری امتیازات پر قائم ہے ان میں سب سے نمایاں اس معاشرے کا تصورِ کائنات (World-View) ہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں

    ’’داستان کی دنیا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ Teleological ہے‘‘ یعنی اس کے قاعدے قانون ہیں جنہیں جانا جا سکتا ہے۔ کائنات اور اس کا منتظم یعنی خدا اٹل اور تغیر نا پذیر ہیں۔ خدا ہمیشہ سے ہے اور اس نے کائنات کو جن اصولوں پر بنایا ہے وہ اصول اٹل ہیں۔‘‘ ص۸۹

    ’’داستان کا تصور کائنات یہ ہے کہ کائنات غیر حرکت پذیر یعنی Static ہے۔ اس کائنات میں خدا حسب مرضی داخل ہوتا اور اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ خدائی مداخلت براہ راست بھی ہو سکتی ہے اور انسان کے ذریعہ بھی، لیکن جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں وہ عارضی اور غیرحقیقی ہیں۔ کائنات کا عام توازن ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ اس میں ہر چیز اپنی جگہ پر رہتی ہے جو اس کے لیے ازل سے مقرر ہے۔‘‘ ص۸۳

    ’’اس اصول کائنات کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے ہے اور ہر بات تقدیر کی پابند ہے۔‘‘ ص۸۴

    ’’داستان کی کائنات میں انسان کے وجود کا مقصد اس کے مرتبے اور منصب کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے۔ عام طور سے بنی نوع انسان کا مقصود وجود یہ ہے کہ وہ محبت کرے لڑے مرے اور اپنی سچائی کا اعلان کرے۔ باطل پرست، ساحر اور خودپرست اور شجرپرست، آفتاب پرست، اپنے کو خدا کہنے والے یہ سب اپنی اپنی طرح کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں اور خداپرست (اہل اسلام یا کوئی اور) اپنی طرح کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں۔ فتح بالآخر خداپرستوں کی ہوتی ہے کیوں کہ خدا ہی ساری کائنات کا خالق اور حاکم ہے۔‘‘ ص ص ۸۷۔ ۸۸

    ’’ایسی تہذیب جو کسی کائناتی اصول کی کارفرمائی ہر چیز میں دیکھتی ہو اور جو اس کائناتی اصول کو انسان کی سعی اور کوشش کا پابند نہ قرار دیتی ہو اس میں المیاتی ناکامی۔۔۔ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘ ص۲۶۱

    ’’وہ تہذیب جس میں انسان کی جبلت میں ہبوط (Fall) کے باعث پیدا ہونے والا کھوٹ نہیں متصور کیا جاتا وہاں انسان کو ذاتی قوتِ فیصلہ نہیں بلکہ ہدایت درکار ہوتی ہے۔‘‘ ص۲۶۳

    ’’داستان کی دنیا کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ وہ دنیا جو دکھائی دیتی ہے اور بہ ظاہر سمجھ میں آتی ہے یعنی ہماری محسوسات اور ادراکات کی دنیا اور وہ دنیا جو دکھائی نہیں دیتی یعنی طلسم کی دنیا Interpenetrate کرتی ہے ’‘ ص۸۸

    خدا، کائنات اور فرد کے متعلق، کلاسیکی معاشرے میں جاری ان بنیادی تصورات سے اگر ہم واقف نہیں ہیں یا اپنے وقوف کے باوجود مطالعہ داستان میں اسے نظرانداز کرتے ہیں تو داستان کے مقاصد، اس کے عناصر ترکیبی اور فنی امتیازات کے متعلق انصاف پر مبنی تنقیدی فیصلہ کرنے میں ناکام رہیں گے۔ داستان کی تنقید میں اس ناکامی کے نشانات جگہ جگہ ملتے ہیں۔ مثلاً داستان کے پلاٹ کے متعلق تقریباً سبھی نقادوں کا خیال ہے کہ اس میں کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا اور بیشتر غیرمرئی یا آسمانی قوتیں قصہ میں مداخلت کرتی اور واقعہ کے فطری ارتقا میں حارج ہوتی ہیں۔ حالاں کہ معاملہ یہ ہے کہ جب کائنات کا اپنا ایک مستقل Design ہے جس میں اکثر باتیں تقریباً طے ہیں تو ایسے تصور کائنات پر خلق کی گئی داستان میں سبب اور نتیجہ کی منطق سے مربوط ارتقائی پلاٹ کی جستجو بے معنی ہے۔ داستان میں تو واقعات ترتیب ہی اس طرح دیے جائیں گے کہ وہ اس موجود و متعین مقاصد کی توثیق و تکمیل کرتے ہوں۔ داستان کی ساخت کے متعلق فاروقی کی انتہائی موزوں تمثیل ملاحظہ ہو،

    ’’داستان اپنی وضع کے لحاظ سے خانہ بہ خانہ یعنی Modular یا زنجیر نما ہوتی ہے۔ خانہ بہ خانہ وضع میں ایک خانہ کے اوپر، نیچے یا دائیں بائیں خانے اس طرح رکھے جا سکتے ہیں کہ وہ آپس میں مربوط ہوں اور ایک سے ایک کو طاقت بھی ملتی ہو، لیکن انہیں الگ بھی کیا جاسکے۔ اس طرح کسی بھی زنجیر میں کڑیاں کم یا زیادہ کی جا سکتی ہیں، لیکن زنجیر کی Quality میں فرق نہیں آتا صرف Quantity میں فرق آتا ہے۔‘‘ (ص۱۶۷)

    ’’چوں کہ داستان کی فطرت بنیادی طور پر منظراتی (Episodic) اور سلسلہ جاتی (Paratactic) ہے اس لیے اس میں واقعات کی کمی بیشی کرنے میں صرف یہ دیکھ لینا پڑتا ہے کہ وہ واقعہ اس داستان کی نوعیت اور عمومی فضا سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں۔‘‘ (ص۴۴۰)

    یہ سلسلہ جاتی کردار ناول یا افسانے کا نہیں ہوتا۔ ان کی شعریات میں تعقل اور سبب اور نتیجہ کی منطق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے ناول کے پلاٹ کی خوبی یا خامی کے معیار پر داستان کے پلاٹ کا جائزہ کس طرح بھی مناسب نہیں۔

    یہی صورت کرداروں کی بھی ہے۔ داستان میں بیشتر تو کردار بعض تصورات مثلاً صاحب قرانی، ساحری یا فیاضی کی تجسیم ہوتے ہیں یعنی ان کرداروں کے ذریعہ نیکی یا بدی کے اوصاف کی مختلف شکلیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس بنیاد پر داستان کے نقاد انہیں کردار (Character) کہنے کے بجائے بجاطور پر عامل (Actent) کہتے ہیں اور اگر کہیں مخصوص تصورات کردار میں بہت واضح طور پر نمایاں نہیں ہیں وہاں بھی ان کے ذاتی اوصاف ان کے وجودی/تعمیری خمیر کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے خارجی واقعات کے سبب ان کرداروں کے بنیادی اوصاف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ داستان کے بعض نقاد (مثلاً عابد علی عابد) کردار کی اس ناتغیر پذیری کی بنیاد پر ان کو مثالی کہتے ہیں، داستان کی تنقید میں مثالی کا افلاطونی تصور اس قدر حاوی نہیں، جتنا کرداروں کے بنیادی اوصاف کا از اول تا آخر یکساں ہونا ہے۔ اور چوں کہ داستان کا مزاج بھی تخیلاتی اور تکبیر و تشدید کا ہے اس لیے اکثر صورتوں میں ان اوصاف کا بیان خاصے مبالغے کے ساتھ ہوتا ہے۔ داستان کی حد تک، اوصاف و خصوصیات کی انتہائی شکلوں سے مزین یہ غیرارتقا پذیر کردار مثالی کہلاتے ہیں۔

    یہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلانی ضروری ہے کہ داستان میں مثالیت کا تصور صرف اس کے کرداروں تک محدود ہے۔ خود داستان میں بیان کردہ دنیا، مبالغے اور تشدید اور تکبیر کے سبب بہ قول فاروقی ’’خیالی ہوتی ہے مثالی نہیں‘‘ ۔ اس خیالی دنیا کی ایک صفت تو اس کی ہماہمی بھرا بھرا ہونا یا فاروقی کے الفاظ میں Worldliness ہے کہ کثرت و ہمہ رنگی داستان کی بنیادی صفات ہیں۔ یہاں ہمارے تخیل کی حد میں آسکنے والے ہر طرح کے لوگ ہرنوع کا عمل اور ہر قسم کا وقوعہ، صرف ممکن ہی نہیں ہوتا بلکہ واقعتاً ہوتا ہے۔ اپنی منزہ صورت میں داستان کی یہ دنیا حواس کی حقیقت یا تعقل کی حدود سے ماوریٰ خود اپنی مخصوص تخیلاتی منطق کی زائیدہ ہوتی ہے، جسے داستان گو کا غیرمعمولی زرخیز تخیل خلق کرتا اور اس کے سامعین کا مشترکہ تصور کائنات بے چوں و چرا قبول کرتا ہے۔ داستان میں ہماری معروضی دنیا سے لی گئی جزئیات صرف یہ کرتی ہیں کہ داستان کی اس تخیل کائنات کو ہمارے ادراک کی حدود میں رکھتی ہیں اور یہ جو داستان نویس اشخاص یا افراد کے معاصر حوالے داستان میں شامل کرتا ہے وہ صرف اس لیے کہ اس طرح ضمناً وہ اپنے سامع کی قصے میں دلچسپی قائم رکھتا اور حقیقت کے اس غیرکے بعض اجزا کو سامع کے مشاہدے کے قریب تر رکھتا ہے۔ داستان کی دنیا کے بنیادی فکری تصورات میں ’’حقیقی دنیا‘‘ کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔

    کائنات کے اس مخصوص تصور کے علاوہ داستان کی شعریات کا دوسرا بنیادی ماخذ اظہار کی ’’زبانی روایت‘‘ (Oral-tradition) ہے۔ پلاٹ کی Modular اور سلسلہ جاتی نوعیت اور کردار کی غیرارتقاپذیری اور خاص تصورات سے منسوب ہونے کے علاوہ داستان کے جتنے امتیازات ہیں وہ بیان کی اسی زبانی روایت، سے پھوٹتے ہیں۔

    اپنی اسی زبانی روایت کے سبب، داستان بقول فاروقی ’’تصنیف بےمصنف‘‘ ہوتی ہے۔ اس کا کوئی متعین یا مخصوص مصنف نہیں ہوتا۔ خود داستان امیرحمزہ کی تصنیف کے متعلق اتنے بیانات موجود ہیں کہ اس کے مصنف کے متعلق کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔ یہ داستانیں سینہ بہ سینہ بلکہ زبان بہ زبان ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتی رہتی ہیں اور ایک داستان گو سے دوسرے تک منتقل ہوتے ہوئے اس میں تقریباً ہمیشہ تبدیلی، اضافہ یا تخفیف ہوتی رہتی ہے اس لیے داستان کا جس طرح کوئی مخصوص مصنف نہیں ہوتا، اسی طرح (جب تک وہ ضبط تحریر میں نہ آئے) اس کا کوئی متعین متن بھی نہیں ہوتا۔ بس کہانی، خاکہ اشارے یا داستان سنانے والوں کی اصطلاح میں ’’پتے‘‘ ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر داستان سرا اپنی اور بیشتر اپنے سامعین کی دلچسپی اور ضروریات کے پیش نظر قصے اختراع کرتا جاتا ہے۔ خود اپنی فطرت میں اختراع کے اس تقاضے کے سبب داستان لازماً طویل ہوتی جاتی ہے یعنی اگر بہ قول سہیل بخاری ہم ’’مغازی حمزہ‘‘ کو داستان امیر حمزہ کا ماخذ تسلیم کر لیں تو اس کے بعد تشکیل دی گئی چھیالیس جلدی داستان امیرحمزہ اس بات کی شافی شہادت ہے کہ اختراع داستان کی زبانی روایت کی لازمی صفت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ داستان کے اختراعی حصے اچانک ظہور نہیں کرتے بلکہ داستان کے انہیں ’’وقوعوں‘‘ سے نموکرتے ہیں جو اشاروں یا پتوں کی شکل میں داستان گو کو وراثت میں ملتے ہیں یا جن کا کوئی اشارہ ماقبل کی داستان کے کسی Version میں موجود ہوتا ہے۔ اس طرح داستان کی طوالت یکسر بے اصول نہیں۔ داستان میں نئے وقوعوں، کا اضافہ اصلاً بین المتونیت (Inter-textuality) کی ایک آزاد صورت ہے جہاں ایک متن یا ایک جیسے بہت سارے متون کسی متن کے نئے اجزا تشکیل دینے میں معاون ہوتے ہیں۔

    داستان کی طوالت اصلاً تو انہیں ’اختراعی واقعات‘ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ لیکن اس طوالت میں واقعات کے علاوہ روئداد (Description) (جو ’’داستان روکنے‘‘ کی ایک صورت ہے) جذبات اور مناظر کی تفصیل کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔ زبانی پن کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ داستان کے لیے مقررہ وقت اور سامعین کے ذوق و ضرورت کے مطابق بیان کنندہ منظر کی تفصیل یا معشوق کے حسن کی تعریف یا جنگل و بیابان کی ویرانی اور سناٹے کا بیان اتنا طویل کر سکتا ہے کہ بیان کا Movement یا داستان میں رواں وقت بالکل رک جائے۔

    داستان کی آخری نمایاں خصوصیت تشدید اور تکبیر ہے۔ داستان میں ہر شے، ہر واقعہ، ہر منظر، ہمارے تجربے میں آنے والے اشخاص، مقامات اور مناظر سے شدید تر اور کبیر تر ہوتا ہے۔ داستان میں بیان کی نمایاں قوت اور شدت، بیانیہ کی اسی تشدید و تکبیر رہین منت ہے۔ باغ و بہار جو ہمیں اردو یا ایرانی داستانوں سے مختلف نظرآتی ہے اس کا سبب باغ و بہار میں کسی مخصوص Worldview کی غیرموجودگی نہیں بلکہ اسی تکثیر، تشدید اور تکبیر کا نمایاں فقدان ہے کہ وہ باغ و بہار میں یکسر مفقود اور امیرحمزہ میں اپنی انتہائی شکلوں میں موجود ہے۔

    داستان کی تعریف مقرر کرتے ہوئے فاروقی لکھتے ہیں،

    ’’داستان ایسا بیانیہ ہے جو زبانی سنانے کے لیے تصنیف کیا جائے چاہے فی البدیہہ، چاہے سوچ سوچ کر، خواہ دن رات کی محنت سے لکھ کر یا دل میں گھڑکر، پھر زبانی یاد کرکے صرف سنانے کے لیے یا چھپوانے اور سنانے کے لیے یعنی طریقہ تصنیف و تشکیل جو بھی ہو لیکن مقصود یہی ہوتا ہے کہ اس بیانیہ کو زبانی سنایا جائے گا۔‘‘ ص۳۵

    اس طرح داستان میں بیان کی دو سطحیں قائم ہو جاتی ہیں۔ ایک سطح پر وہ زبانی بیانیہ ہے، جسے بیان کنندہ اپنے فوری سامعین کو سناتا ہے۔ اور داستان کے بیانیہ کی دوسری سطح وہ تحریری متن ہے جو ایک منضبط جلد کی صورت میں داستان زبانی بیان کرنے سے پہلے یا بیان کرلینے کے بعد بھی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے۔

    بیانیہ کی ان دونوں شکلوں میں مطالعہ متن کے اپنے مخصوص تقاضے ہیں، جنہیں داستان کا نقاد نظر انداز نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ داستان کا نقاد ایک استبعادی صورت حال سے دوچار ہے اور وہ یہ کہ داستان اصلاً سننے سنانے کی چیز ہے لیکن اس پر کوئی بھی گفتگو صرف ان متون کے حوالے سے ہو سکتی ہے، جو ہمارے پاس تحریری شکل میں موجود ہیں۔ یعنی ہم داستان کی شعریات صرف ان متون کے حوالے سے مرتب کرسکتے ہیں جو لکھے ہوئے ہیں۔ یہ نقاد کے لیے ایسی تحدید ہے جس سے گریز ممکن نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبانی بیانیہ کے متعلق وہ باتیں جو زبانی بیان کے ساتھ مخصوص یا اس کے Performance سے متعلق ہیں کسی طرح اس کی شعریات میں جگہ نہیں پاتیں۔ مثلاً بالکل سامنے کی بات ہے کہ لفظ مرکزی (Logo centric) روایت میں بولنے والے کا Self-Presence اس کی نمایاں بلکہ شناختی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے بیان کے معنی کا منصرم اور اس پر پوری طرح حاوی ہوتا ہے جس کا اظہار وہ دوران بیان اپنے سامعین سے قائم رابطہ میں مختلف Variation کے ذریعہ کرتا ہے۔ یعنی وہ صرف واقعہ بیان نہیں کرتا بلکہ اس واقعے کے تئیں اپنے جذباتی/فکری موقف اور اس کے تئیں اپنے نقطۂ نظر کا اظہار بھی کرتا جاتا ہے۔

    اس طرح اس واقعہ کو مفہوم کی ایک ایسی سطح بھی مل جاتی ہے جو واقعے کی تحریری صورت میں مفقود ہوتی ہے۔ اس میں معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ میر باقر کی آواز میں Modulation کی کیا کیفیت تھی یا ان کے Performance میں ڈراما کتنا تھا۔ بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ سماعت کے ذریعہ جو مفاہیم بیان کنندہ اپنے سننے والوں تک پہنچاتا ہے کیا وہی مفہوم بصارت کے ذریعہ ترسیل کیے جارہے متن میں بھی ممکن ہے؟ لاتشکیلی (Deconstructionist) نقطۂ نظر تو یہ ہوگا کہ اگر ان زبانی خصوصیات میں دہرائے جانے کی صلاحیت موجود ہے تو اس کے ضوابط (گرامر) مرتب کرنا بھی ممکن ہے اس لیے یہ تقریر بھی اصلاً تحریر کی ابتدائی شکل ہوگی۔ لیکن لفظ مرکزی (Logo centric) تصور لسان کے داعی، جو تحریر کو مردہ، خود اپنی تصحیح سے عاجز، بولے ہوئے لفظ کا نشان محض تصور کرتے ہیں، ان کے نزدیک تو اصل معنی بولے ہوئے لفظ ہی میں ہیں اس لیے کم از کم ان کے نزدیک تقریر اور تحریر کے ذریعہ وصول ہونے والے مفہوم میں فرق ہوگا۔ ایک فرق کا ذکر خود فاروقی نے کیا ہے۔

    ’’تحریری متون کی صفت یہ ہے کہ وہ بدل نہیں سکتے، لیکن معنی کے اعتبار سے وہ جامد نہیں ہوتے۔۔۔ یعنی تحریری متن کے الفاظ غیرمتبدل ہیں، لیکن وہی غیر متبدل الفاظ جذب معنی کی صفت سے بھی متصف ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف داستان کے الفاظ سیال ہوتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ داستان کی یہی صفت، کہ اس کے متن میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس میں کثرت معنی کے امکانات کو راہ دیتی ہے۔‘‘ ص۵۳۹۔ ۵۳۸

    مزید گفتگو سے قبل اس اقتباس کے ایک معمولی سے خلط مبحث کی وضاحت ضروری ہے۔ تحریری متن کے موجود متن میں جتنے الفاظ ہیں معنی کی نئی جہتیں انہیں سے پھوٹتی ہیں جب کہ زبانی بیانیہ میں نئے الفاظ کی شمولیت سے مفہوم کی نئی شکلیں اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ اس طرح دونوں قسم کے متون میں معنی کے اضافے کی نوعیت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ مجھے مزید یہ عرض کرنا ہے کہ داستان میں شامل ہونے والے نئے الفاظ اصلاً کسی نئے معنی کا اضافہ نہیں کرتے بلکہ اکثر ایک موجود مفہوم کی تشدید، تکرار یا توثیق مزید کا سبب بنتے ہیں۔ جس چیز کو ہم تحریری متن میں معنی کا اضافہ کہہ رہے ہیں اس کی نوعیت اس سے بالکل مختلف ہے۔

    داستان اس اعتبار سے ایک منفرد بیانیہ متن ہے کہ اس کی تحریر اور زبانی دونوں شکلیں بیک وقت فعال اور اس لیے قابل توجہ ہوتی ہیں۔ خود ہمارے داستان نویس تحریر و تقریر کے درمیان اس کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ داستان نویس کبھی لکھے ہوئے موجود متون کا حوالہ دیتا ہے، کبھی اپنی داستان کے ’’ناظرین‘‘ اور کبھی ’’سامعین‘‘ کو مخاطب کرتا ہے، کبھی اپنی داستان کے ’’پڑھے‘‘ جانے کا اور کبھی اس کے ’’سنے‘‘ جانے کا ذکر کرتا ہے اور ان سب کی مثالیں خود فاروقی صاحب کے فراہم کردہ اقتباسات میں موجود ہیں مگر اس سے زیادہ دلچسپ صورت خود داستان کے بیانیہ میں ملتی ہے۔ شیخ تصدق حسین کی ’’لعل نامہ جلد دوئم‘‘ سے خواجہ عمر و عیار کی موت کا بیان نقل کرنے کے بعد فاروقی صاحب لکھتے ہیں،

    ’’تحریری بیان کے اصولوں پر یہ عبارت بھلے ہی پوری نہ اترے، لیکن زبانی بیانیہ کے اعتبار سے تو یہ غیرمعمولی ہے، کیا لہجے کا ٹھنڈاپن اورغیرجذباتیت، کیا لطیف مزاح، کیا فضول جذبات سے پرہیز، کیا عمر و عیار کی چالاکی اور لالچی پن کا دوٹوک بیان، کیا تکرار سے فائدہ اٹھانا اور آخر میں پھر بات کو گول مول چھوڑ دینا، ہر لحاظ سے یہ عرابت شاہکار ہے۔‘‘ ص۴۷۲

    خوف طوالت کے باوجود فاروقی صاحب کا ایک اور بیان ملاحظہ ہو۔ یہ بیان شیخ تصدق حسین کی ’’نوشیرواں نامہ جلد دوئم‘‘ سے قباد شہریار کی موت کے بیان پر تبصرہ ہے۔

    فاروقی صاحب لکھتے ہیں،

    ’’اس عبارت کی سب سے بڑی صفت اس کا ٹھنڈاپن اور مبالغے سے حتی الامکان گریز ہے۔ قباد نشے میں چور ہو جاتا ہے تو اس کے لیے ’’ربودگی‘‘ جیسا لطیف اور اشاراتی لفظ آنا اور پھر قباد کے خراٹوں کا برملا ذکر قاتل کے لیے ’’مردود ازلی‘‘ اور اس کے ہاتھوں کے لیے ’’دست نجس‘‘ جیسے گھریلو فقروں کا استعمال یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس داستان گو کا طریقہ کار (کم از کم اس جگہ پر) بات کو اس طرح ادا کرنا ہے کہ واقعے کی ثقالت باقی رہے، لیکن انداز سہل نویسی کا ہو۔‘‘ ص۴۷۵

    ’’لعل نامہ‘‘ سے پہلے عمر و عیار کی موت اور پھر نوشیرواں نامہ سے قباد شہر یار کی موت کے اقتباسات اس بات کی شہادت میں نقل کیے گئے ہیں کہ ’’داستان کی دنیا میں موت کوئی ایسا واقعہ نہیں جس کی روئداد میں الفاظ یا زور بیان صرف کیا جائے‘‘ (۴۶۴) اس لیے فاروقی اگر ان بیانات کے غیرجذباتی لہجہ کی تعریف کرتے ہیں تو اصلاً وہ داستان میں ایک واقعہ کے تئیں ایک مخصوص فکری رویے کی مناسبت سے اختیار کی گئی زبان کی داد دے رہے ہیں۔ مگر یہ کہنا کہ لہجہ کا ٹھنڈاپن، بیان کی غیرجذباتیت، لطیف مزاح، مبالغے سے گریز اور ایک صورت حال کے لیے مبادلات میں سے لطیف تر لفظ کاانتخاب اور استعمال، زبانی بیانیہ کے حساب سے غیرمعمولی کارنامہ ہے زبانی بیانیہ کی روایت میں معنی کے ساتھ خود بولنے والے کی موجودگی کے بنیادی تصور سے انکار کے مترادف ہے۔

    فاروقی کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے وقوع سے قطع نظر صرف کسی کردار کی موت کے لیے ہی ایسی زبان استعمال کی گئی ہے، جس کا انداز ’’سہل نویسی‘‘ کا ہے۔ لیکن مبالغے، جذبے اور جزئیات سے حتی الامکان عاری یہ زبان اور اصلاً تحریر کی بنیادی صفات سے مزین ہے۔ ایک زبانی بیانیہ میں، بعض مخصوص ضرورتوں کے تحت اس تحریری زبان سے فائدہ اٹھایا گیا ہے تاکہ واقعہ کی ’’ثقالت باقی رہے، لیکن انداز سہل نویسی کا ہو‘‘ ۔ جہاں غور و خوض کی یہ سطح ہو کہ متبادلات کے درمیان لطیف تر لفظ کا انتخاب کیا جا رہا ہو، اس کی پوری احتیاط کی جارہی ہو کہ بیان بولنے والے کی موجودگی سے پوری طرح آزاد ہو اور بیان میں ثقالت بھی باقی رہے مگر تاثر ’’سہل نویسی‘‘ کا ہو وہاں داریدا کا حوالہ دیے بغیر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ داستان گونے اپنے زبانی بیانیہ میں تحریر کی بنیادی صفات سے فائدہ اٹھایا ہے۔

    یہی معاملہ داستانوں میں ’’تکرار‘‘ کا ہے۔ تکرار داستان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ داستان سناتے ہوئے، داستان سرا اکثر ایک ہی واقعہ کو تھوڑی بہت ترمیم یا بعض جزئیات کے اضافے یا تخفیف کے بعد دہراتا ہے اور اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ اس کے سامعین اس تکرار سے بےلطف ہوتے ہوں لیکن جب یہی تکرار ضبط تحریر میں آتی ہے تو داستان کا نقاد اس کے قیاسی اسباب تلاش کرنے لگتا ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ زبانی سنائی جانے والی داستان میں تکرار کا مفہوم یہ ہے ہی نہیں کہ جلد فلاں کے صفحہ فلاں پر جو واقعہ بیان ہوا یہی واقعہ اس سے پہلے جلد فلاں صفحہ فلاں پر بیان ہو چکا ہے۔ زبانی بیانیہ میں ’’ورق الٹنے‘‘ کی گنجائش نہیں اور جہاں ورق نہیں الٹے جا سکتے وہاں ’’تکرار‘‘ کا مفہوم کتاب میں مخصوص واقعہ کی تکرار سے مختلف ہوتا ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ لکھی ہوئی کتاب ایک شخص بیٹھ کر پڑھتا ہے جب کہ سنائی جارہی داستان کی ہر شب کے سامعین مابعد یا ماقبل کی شب کے سامعین سے کسی نہ کسی درجہ میں مختلف ہوتے ہیں، کچھ نئے شامل ہو گئے، کچھ پرانے اٹھ گئے۔ کچھ نے یہ واقعہ دو رات پہلے سنا تھا اب اس کے حافظے میں نہ رہا یا قصہ تو اس کے حافظہ میں ہے مگر ’’بیان‘‘ اسے یاد نہیں۔ داستان ہر شب اس کے سننے والوں کے لیے نئی ہوتی ہے۔ ہمارے زمانے میں فلم یا ڈرامے کے ناظرین بدلتے رہتے ہیں ڈراما نہیں بدلتا اور داستان میں تو فلم یا ڈرامے کے علی الرغم خود متن ہی متعین نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں قصہ کی طرح خود سامعین غیرمتعین ہوں وہاں تکرار کبھی بے لطف نہیں کرتی۔ یہ تو تقریر میں تحریر کی نمائش ہے جو ہمیں چونکاتی اور یاد دلاتی ہے کہ ہم داستان کا یہ واقعہ دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ رہے ہیں۔ زبانی بیانیہ کا یہ عام انداز ہے۔ انگشت نمایا نشان زد تو یہ تحریر میں آکر ہوا۔

    ’تکرار‘ کی بالکل متضاد صورت تنوع یا ندرت یعنی ایک موتیف (محرک) یا موضوع کے لیے ہر مرتبہ ایک نیا بیان ہے۔ شیخ تصدق حسین نے طلسم ہوشربا کے مکمل ہونے کی جو تاریخ کہی ہے اس میں رزم، بزم، روئداد منظر، طلسم، عیاری، ہجرووصال کے بیان کی تعریف کرتے ہوئے ایک شعر یہ بھی کہا ہے،

    نرالی صورت ہے ہر جگہ پر بیان کیا ہے جو دن کا ہونا

    تو رات ہونے کے وصف میں بھی نیا ہی انداز ہے نکالا

    یعنی وہ جہاں جہاں دن کے نکلنے یا رات ہونے کا بیان کرتے ہیں وہاں بیان کی نئی صورت نکالتے ہیں۔ اب تحریر کی گئی داستان کا پڑھنے والا ان تمام مقامات کے تقابل سے اس فن کی جو داد دے سکتا ہے وہ زبانی بیانیہ میں ممکن نہیں۔ بلکہ اپنے اس فن کی طرف متوجہ کرنے والا (مصنف) یہ جانتا ہے کہ داستان کے ناظر ہی اس کی داد دے سکتے ہیں۔ یہ داستان کی روانی، بیحان کے جوش یا تنوع، واقعات و اشیا کی کثرت یا تحیرات کے اختراع کا معاملہ نہیں، جس کی ایک سامع اپنے بیان کنندہ سے توقع رکھتا ہے بلکہ دومقامات بیان کے تقابل اور ان کی ندرت تخلیق پر غور و خوض کی صورت ہے جو ان بیانات کی تحریری صورت میں ممکن ہے۔

    اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ ہم داستان کا مطالعہ صرف و محض زبانی روایت کے حوالے سے کرنے کے بجائے ایک ایسی تحریر کے طور پر کریں جس میں زبانی روایت کے تقریباً تمام اوصاف پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ معلوم ہے کہ زبانی بیانیہ کے بعض اوصاف ضبط تحریر میں نہیں آسکتے (مثلاً نغمہ، بیان کا جوش یا وہ طنز جو صرف لہجہ کی مدد سے پیدا ہوا ہو) یا لکھے جانے کے بعد ان کی قوت یا معنویت مجروح ہوتی ہے۔ (آخر حسن عسکری صاحب سے داستان میں اوقاف (Punctuation) لگانے کا سہو تو اسی وجہ سے ہوا۔) لیکن اس کے ساتھ ہی داستان کے بعض وہ اوصاف بھی نمایاں ہوں گے جن پر زبانی روایت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پورا انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک داستان میں راوی کے وجود عدم کا مسئلہ ہے۔

    اس کتاب میں اس موضوع پر خلط مبحث کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ فاروقی صاحب نے زبانی بیانیہ کے اصولوں کی روشنی میں داستان پر گفتگو کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ داستان کی شعریات، اس کے متن پر زبانی بیانیہ کے اوصاف کی نشاندہی، اس طویل بیانیے میں واقعات کا مخصوص Pattern تلاش کرنے کی کوشش اور اس میں تکرار کے جواز کے متعلق تمام گفتگو، لکھی ہوئی داستان کے حوالے سے ہو رہی ہے اور کسی بیانیہ کے تحریری Version کے اضافے اور صفات بالکل وہی نہیں ہوں گے جو اس کے زبانی بیان کے ہیں۔ مثلاً طلسم فتنۂ نور افشاں جلد سوئم از احمد حسین قمر یا طلسم ہوش ربا جلد سوئم مصنفہ محمد حسین جاہ یا ’’نوشیرواں نامہ‘‘ جلد دوئم مصنفہ شیخ تصدق حسین ایک باقاعدہ اور خاص وضع کا متن ہے جس کا ’’نفس مطلب‘‘ (Sujet) ایک خاص شکل پکڑ چکا اس لیے اب یہ زبانی بیان کی کہانی کی طرح غیرمتعین نہیں رہا بلکہ اس کا تعین اور تنظیم اس درجہ سوچی سمجھی ہے کہ اس Fabula سے، داستان نویس جو نیا (Sujet) آئندہ مرتب کرےگا، اس کے اشارے بھی متن میں موجود ہیں۔ (ص۱۱۱۔ ۱۱۰)

    اب اس نقطۂ نظر سے غور کیجیے کہ داستان کی یہ تمام جلدیں تحریر میں منضبط ہونے کے بعد ایک مستقل متن کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں تو ان میں راوی کی موجودگی سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ راوی کی تعریف متعین کرتے ہوئے Mieke-Bal لکھتی ہے،

    “By narrator” “I mean the I linguistic Subject, a function and not a person, which expresses it self, in the Language that constitute the text. It hardly needs mentioning that this agent it not the (Biographical) author of the narrative.”-1

    1-Mieke-Bal, Narratology. p.119 University of Toronto Press,1985

    وہ تو Wayen c-Booth کے مجوزہ implied author کے تصور کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ راوی کو وہ agent کہتی ہیں ’’جو متن کی تعمیر میں الفاظ ادا کر رہا ہے۔‘‘

    (The agent which utters the Linguistic sign, which constitute the text.120)

    اس لیے یہ دلیل موزوں نہیں کہ ان متون کا مصنف معلوم نہیں ہے اس لیے اس میں راوی نہیں ہوتا۔ وہ چیز جسے علم بیانیہ (Narratology) کی اصطلاح میں ’راوی‘ کہتے ہیں متن کے باہر ہوتا ہی نہیں اور اکثر صورتوں میں مصنف تو اپنے فکشن کا راوی شاذ ہی ممکن ہے بلکہ Mieke Bal یہاں تک جاتی ہے، کہ اگر Sujet کا کوئی اپنا کوئی تجربہ بیان کر رہا ہے تو وہ شخص جو بحیثیت کردار ان واقعات کا تجربہ کرتا ہے اور وہی کردار جو بحیثیت راوی وہ واقعہ بیان کرتا ہے دونوں ایک ہی نہیں ہوتے۔ راوی کے حوالے سے اس کے بعد یہ گفتگو کوئی معنی نہیں رکھتی کہ داستانوں کے اصل مصنف نامعلوم یا غیریقینی ہیں۔ مصنف داستانوں یا کسی بھی افسانوی بیانیہ کا راوی، تھا ہی کب کہ وہ نہ معلوم ہو تو راوی بھی باقی نہ بچے ’’طلسم ہفت پیکر‘‘ جلد دوئم کے اس اقتباس سے چند جملے پیش ہیں جو اس کتاب کے ص۱۵۶ پر نقل ہوا ہے

    ’’لندھور نے کہا اگر سامنا ہو تو کب میں صاحب قران کو چھوڑ دوں گا۔۔۔

    نقاب دار نے حکم دیا مشکیں باندھ لو لوگوں نے آکر لندھور کو گھیرا ہے۔۔۔ جب کئی کوس سے بھاگے تب پکار کر نقاب دارنے آواز دی،

    اے لندھور خبر دار اگر ملزمان امیر کو تونے ستایا تو سرمیدان آکر قتل کردوں گا‘‘

    ان میں خط کشیدہ فقرے (لندھور نے کہا، نقاب دار نے حکم دیا، تب پکار کر نقاب دار نے آوازدی) کس نے کہے۔ بشمول Mieke Bal تقریباً تمام ماہرین بیانیات متن میں ان فقروں کو ادا کرنے والے کو راوی کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اس پورے واقعہ کو پڑھ کر سناتا یا زبانی یاد کرکے سناتا یا سنانے کے دوران Sujet میں تخفیف/اضافہ کرتا جاتا ہے تو اس سے اصل متن میں راوی کا وجود ختم نہیں ہوتا۔ اب رہا بیان کنندہ تو وہ، ایسا قصہ سنانے والا ہوگا جو اس متن کو سامعین کو زبانی سناتا ہے اس زبانی بیان میں داستان کے وہ حصے بھی شامل ہوں گے جن سے راوی کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ بیان کنندہ متن کے اس راوی کو بے دخل نہیں کرتا بلکہ اپنے بیان کے ذریعہ اسے مزید روشن اور پرمعنی بناتا ہے بہ قول فاروقی،

    ’’واقعہ یہ ہے کہ داستان میں راوی بیان کنندہ اور سامعین مل کر ایسی وحدت خلق کرتے ہیں کہ ایک کے ذریعہ دوسرے کے معنی ظاہر ہونے لگتے ہیں اور ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ معنی اتنے غیردلچسپ نہیں ہیں، جتنا ہم سمجھتے تھے۔‘‘ ص۳۹۷

    اردو میں بیان کی زبانی روایت پر کوئی قابل ذکر متن موجود نہیں۔ داستان کے حوالے سے پہلی مرتبہ فاروقی صاحب نے اتنی جامع اور Exhaustive گفتگو کی اور داستان امیر حمزہ میں موجود زبانی بیانیہ کے تمام شناختی اوصاف و امتیاز کی نشاندہی کی۔ اس سے مشکل ترکام داستان کی شعریات مرتب کرنا ہے۔ امیرحمزہ کی چھیالیس جلدیں (جو تقریباً چالیس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں) پڑھنا خود جوئے شیر لانے سے کم نہیں مجھے تو اس شوق مطالعہ اور تاب مقاومت پر رشک آتا ہے) چہ جائیکہ اس طویل ترین متن کی فکری اساس دریافت کرنا جو بڑی دیدہ ریزی اور باریک بینی کا کام ہے اور پھر ان فکری بنیادوں پر داستان کے پلاٹ اور اس کے کرداروں کا طرز وجود متعین کرنا میرے نزدیک ایک غیرمعمولی تنقیدی کارنامہ ہے جس کی ہمارے عہد کے اس غیرمعمولی نقاد اور دانشور کو پوری داد ملنی چاہیے اور کسی کتاب کی تحسین کا مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے۔

    مأخذ:

    سہ ماہی الفاظ (Pg. 43)

      • ناشر: الفاظ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے