aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "تولید"
توحید زیب
born.1997
شاعر
کہکشاں توحید
مصنف
ادارۂ توحید، علی گڑھ
ناشر
مطبع توحید، حیدرآباد
ملّا توحید
مجلس احیائے توحید و سنت، حیدرآباد
ڈاکٹر توحید خاں
توحید پبلیشر، لکھنؤ
توحید روڈ، کراچی
مولوی محمد توحید
توحید ربانی
محمد توحید انور
توحید پبلکیشن، سری نگر
حسین نوشہ توحید بلخی فردوسی
’’پر۔۔۔ پر۔۔۔ چھوٹے لالہ جی وہ۔۔۔ وہ آپ کی پتنی ہو چکی ہے۔۔۔ بچے کی ماں بننے والی ہے اور بچہ آپ ہی کا تو ہو گا۔۔۔ آپ ہی کا تو ہو گا۔‘‘ نتھو نے تتلاتے ہوئے کہا۔تو روپا حاملہ ہو چکی تھی۔۔۔ ستیش کو قدرت کی یہ ستم ظریفی سخت ناپسند تھی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حمل کا سلسلہ کیوں جوڑ دیا ہے۔ مرد جب کسی عورت کی خاص خوبی کا معترف ہوتا ہے تو اس کی سزا بچے کی شکل میں کیوں طرفین کو بھگتنا پڑتی ہے۔۔۔ روپا بچے کے بغیر کتنی اچھی تھی۔ اور وہ خود اس بچے کے بغیر کتنے اچھے طریقے پر، روپا کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتا تھا۔ اس سلسلہ تولید کی وجہ سے کئی بار اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عورت ایک بیکار شے ہے یعنی اس کو ہاتھ لگاؤ اور یہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہے۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس بچے کا کیا کرے جو پیدا ہو رہا تھا تھوڑی دیر غور کرکے اس نے نتھو کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے آرام سے کہا۔
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کااور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائش جمال سےفارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتےدیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے بگاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبط تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
چونکہ عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے، اس لئے ہم یہاں بھی جسمانی لذتوں ہی کو عشق کے اس جذبے کا محرک سمجھیں گے گو اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں اس کی تخلیق و تولید کی مہیج ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویشیا جو اپنے کوٹھے پر ہر مرد پر حکم چلانے کی عادی ہوتی ہے، غیر مختتم ناز برداریوں سے سخت تنگ آ جاتی ہے۔ اس کو آقا بننا ...
میں نے تو اپنی ساری زندگی اس شعر کی تولید سے پہلے خطروں میں گزاری ہے اور اب بھی گزار رہا ہوں۔جو موضوع آپ کے ذہن میں ہے، کوئی نیا نہیں ہے۔۔۔ اس پر عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے ’’لحاف‘‘ میں لکھ چکی ہے کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی۔ اس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس عورت نے دوسری عورتوں سے ہم جنسی شروع کردی۔
چیچک کا ٹیکہ بیماری کو روکے رکھتا ہےضبط تولید اسقاط وغیرہ
तौलीदتولید
begetting, reproduction
जनना, पैदा कराना, पालन- पोषण करना, उत्पन्न करना, पैदा करना, उत्पत्ति, पैदाइश।।
مرزا رسوا کے ناولوں کے نسوانی کردار
ناول تنقید
توحید کا قرآنی تصور
الطاف احمد اعظمی
اسلامیات
توحید و معرفت
سید اقبال احمد جونپوری
تقلید سے پرے
ابوبکر عباد
فکشن تنقید
عصمت چغتائی فکر و فن
مسدس توحید
محب حسین
اسلامی توحید
محمد یوسف اصلاحی
توحید و شہادت
ابوالکلام آزاد
امام حسن (ایک قابل تقلید عبقری شخصیت)
محمد اسماعیل آزاد فتح پوری
فدائے توحید
علی بہادر خاں
خواجہ حسن نظامی
تنقید
نغمہ توحید
خواتین کے تراجم
مسلئہ توحید
سید امیر اجمیری
نظریہ توحید
برہان احمد فاروقی
سوانح حیات
غالب تقلید اور اجتہاد
خورشید الاسلام
شاعری تنقید
۱۹۰۵ء کے انقلاب کے بعد گورکی کی جوئے فکر ایک تندوتیز سمندر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ وہ اب دنیا کا نہایت متانت سے مطالعہ کرنے کے بعد نظام حیات کی پہنائیوں تک پہنچتا ہے کہ اپنے پیش نظر مقاصد کی تخلیق و تولید کرے۔ ان کتابوں میں جو گورکی نے اس زمانے میں سپرد قلم کیں، ’’ماتا‘‘ سب سے مشہور ہے۔ یہ کتاب جو روسی انقلاب کے زیراثر لکھی گئی۔ انقلابی تحریک کی...
یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پربڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے کہ حسرت صاحب بڑی دل فریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقہ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شا...
زمین کسی کی بھی ہو، کیسی بھی ہو، مگر بیج تو آپ ہی کا ہوگا۔ زمین کا پٹہ آپ کے پاس نہیں تھا۔ یہ بھی کوئی عذر نہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں رنڈی جس کے بطن سے آپ کے خون کا قطرہ لڑکی یا لڑکا بن کر پیدا ہوا ہے، آپ کی اولاد نہیں، اس کی تخلیق و تولید کی ذمہ داری یکسر آپ کی ہے۔ آپ اس کے وجود سے انحراف نہیں کر سکتے۔ گورنمنٹ نام نہاد عصمت فروشی کے انسداد کی تدبیریں سوچتی ہے۔ اندھا دھند وہ اس عمارت کو ڈھانے کے لئے ہتھوڑے چلاتی ہے۔ جس کی بنیادوں کو معاشرے کے بڑے بڑے اونچے ستونوں نے سیسہ پلایا ہے۔ اس عمارت میں، اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ہمیں بڑی بڑی تقدس مآب ہستیوں کے ماتھے کی محرابیں مل جائیں گی اور گناہ کی ان بیٹیوں کی شکل و صورت میں کئی جانے پہچانے ناک نقشے ابھر آئیں گے۔ کیوں نہ مردم شماری کی طرح ان منڈیوں میں جہاں گناہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے دیگر اجناس کی طرح باقاعدہ حساب کتاب رکھا جائے، کیوں نہ ایک رجسٹر میں ان لوگوں کا نام درج ہو جو وہاں محض عیاشی کے لئے جاتے ہیں، جو بیویوں کے ہوتے ہوئے اور صاحب اولاد ہونے کے باوصف ان کسبیوں کو اپنی عورتیں بناتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں، پھر ان بچوں کو انہی سے کیوں نہ موسوم کیا جائے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ قحبہ خانوں میں کون سی رنڈی کس کی بیٹی ہے۔
سحر کے اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم دوبارہ حاملہ عورت کی مورتیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں کہ پرانی قومیں عمل تولید اور پودوں کے نامیاتی عمل کو ایک ہی چیز سمجھتی ہیں۔ چنانچہ بعض پسماندہ قومیں اب تک اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً جزائر نکوبار (بحر ہند) کے باشندوں کا اعتقاد ہے کہ اگر حاملہ عورت کھیت میں بیج بوئے تو فصل بہت اچھی...
یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی جب سے وہ اس قصبہ میں مڈ وائف ہو کر آئی تھی یہ سب کچھ روز ہوتا تھا یہی چیخیں، یہی دھڑ دھڑاہٹ فرض اور آرام کی یہی تلخ کشمکش یہی جھلاہٹ اور پسپائی سب اسی طرح، اسے صبح ہی اٹھ کر جانا پڑتا تھا اور پھر اس کا سارا دن نو واردوں کو احتجاجاً چیختے چلاتے، ہاتھ پاؤں پھینکتے دنیا میں آتے ہوئے دیکھنے میں، کچھ دن آئے ہوؤں کی رفتار...
گو نمرود کی شخصیت کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر جانے کا قصہ قدیم بابلی (بیسویں صدی قبل مسیح) اشوری اور نواشوری عہد کے کئی نوشتوں میں ملا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گدھ کی داستان بہت پرانی ہے۔ سومیر کی فہرست شاہان میں کیش کے ایک بادشاہ اتانا کا ذکر آیا ہے جو گڈریا تھا اور آسمان پر گیا تھا۔ قدیم عکادی عہد کی ای...
دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوْں کا یہ ملغوبہ پرانی دِلّی کے بازاروْں، حصاروْں اور خانقاہوْں میْں تقریباً سو سال تک اپنی ابتدائی شکل میْں ارتقا پاتا رہا تا آْں کہ چودھویْں صدی کے ربعِ اول میْں یہ فتوحاتِ علائی و تغلق کے ذریعہ گجرات کے راستے دکن تک پہنچ جاتا ہے۔ گجرات میْں اس کا مقامی نام ’گجری‘‘ پڑا جو غالباً ’’گذری‘‘ کا مہنّد ہے۔ ’’گذری‘‘ بازار کو ک...
لوگوں نے میرے مادۂ تولید سےدیواروں پر پھول بنا لیے
لیکن محبت میں اماوس سے پورنیما اور انکار سے اقرار کا سفر ایک جست میں طے ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں اندو پورے چاند کی صورت ’’مدن کا ہاتھ پکڑ کر اسے ایسی دنیاؤں میں لے جاتی ہے جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔‘‘ اگرچہ عورت کا یہ ہمہ گیر آفاقی تصور اپنی اصل کے اعتبار سے شیومت کے شکتی اور تانترک عقائد سے ملتا جلتا ہے لیکن کہانی کی ساری فضا ویشنو مت س...
عزیز احمد، احمد علی، محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں ادب کی وہ شخصیات ہیں جن میں اسکالر اور فنکار کے بیچ ایک مسلسل کشمکش رہی اور سوائے احمد علی کے تینوں کی ا سکالر شپ فنکاری پر غالب آئی۔ احمد علی تخلیقی کام کرتے رہے لیکن اردو میں نہیں انگریزی میں۔ جنہوں نے احمد علی کے افسانے پڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہیں دہلوی اردو پر کیسا عبور حاصل تھا۔ ان کی ناول...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books