aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "جولاہے"
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
1864 - 1916
شاعر
جواہر لعل نہرو
1889 - 1964
مصنف
جواہر سنگھ جوہر
died.1913
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی ہند
ناشر
جواہر ریزے، دہلی
حکیم جواہر لعل اکبرآبادی
جواہر میوزیم واسلامیہ انٹر کالج، اٹاوہ
دانشگاہ جواہر لال نہرو،نئی دہلی
جواہر لال نہرو
جواہر پریس، دہلی
جواہر بک ڈپو، میرٹھ
جواہر لال گپتا
مطبع جواہر اکسیر، بنارس
جواہر خاں مسلم یونیورسٹی پریس، علی گڑھ
منشی جواہر لال
نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرلیا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہوگئی۔کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لوگوں نے پوچھا، ’’اے جولاہے تو کیوں روتا ہے؟‘‘کبیر نے رو کر کہا، ’’کپڑا دوچیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہوگیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘
تین بھائی تھے مگر تینوں سے لڑائی ہو چکی تھی۔ اور وہ غصہ ہوتیں تو تینوں کی دھجیاں بکھیر دیتیں۔ بڑے بھائی بڑے اللہ والے تھے، انہیں حقارت سے فقیر اور بھیک منگا کہتیں۔ ہمارے ابا گورنمنٹ سروس میں تھے۔ انہیں غدار اور انگیزوں کا غلام کہتیں، کیوں کہ مغل شاہی انگریزوں نے ختم کر ڈالی، ورنہ آج۔ ’’مرحوم‘‘ پتلی دال کے کھانے والے جولاہے یعنی میرے پھوپا کے بجائے ...
کانوں کی سنی نہیں کہتا آنکھوں کی دیکھی کہتا ہوں۔ کسی بدیسی واقعے کا بیان نہیں اپنے ہی دیس کی داستان ہے۔ گاؤں گھر کی بات ہے۔ جھوٹ سچ کا الزام جس کے سر پر چاہے رکھیے۔ مجھے کہانی کہنا ہے اور آپ کو سننا۔دو بھائی تھے چنو اور منو نام۔ کہلاتے تھے پٹھان۔ مگر نا نہال جولاہے ٹولی میں تھا اور دادیہال سید واڑے میں۔ ماں پرجا کی طرح میر صاحب کے ہاں کام کرنے آئی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی صاحب نے اس سے کچھ اور کام بھی لئے اور نتیجے میں ہاتھ آئے چنو منو۔ وہ تو یاد گاریں چھوڑ کر جنت سدھارے اور خمیازہ بھگتا بڑے میر صاحب نے۔ انھوں نے بی جولاہن کو ایک کچا مکان عطا کیا اور چنو منو کی پرورش کے لئے کچھ روپے دیے۔ وہ دونوں پلے اور بڑے اچھے ہاتھ پاؤں نکالے۔ چنو ذرا سنجیدہ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی میر صاحب کے کارندوں میں ملازم ہوا اور ہم سن میر صاحبان کا مصاحب بنا۔ منولاابالی تھا۔ اہیروں کے ساتھ اکھاڑوں میں کشتی لڑا کرتا اور نام کے لئے کھیتی باڑی کرنے لگا۔
لکھنے والے کو اغلام مساحقے کے ذکر میں کوئی مزا نہیں آتا۔ مگر اسی کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کرنے سے ڈرتا بھی نہیں۔ اگر یہ چیزیں دنیا میں ہوتی ہیں تو چپ رہنے سے ان میں اصلاح نہ ہوگی۔ نہ یہ طے ہو سکےگا کہ کہاں تک یہ چیزیں فطری ہیں اور کہاں تک اسباب زمانہ سے پیش آتی ہیں۔ کسی جولاہے کے پاؤں میں تیر لگا تھا۔ خون بہتا جاتا تھا۔ مگر دعائیں مانگ رہا تھا کہ ال...
وہ خوبصورت نہیں تھی۔ کوئی ایسی چیز اس کی شکل و صورت میں نہیں تھی جسے پرکشش کہا جاسکے، لیکن اس کے باوجود جب وہ پہلی بار فلم کے پردے پر آئی تو اس نے لوگوں کے دل موہ لیے اور یہ لوگ جو اسے فلم کے پردے پر ننھی منی اداؤں کے ساتھ بڑے نرم و نازک رومانوں میں چھوٹی سی تتلی کے مانند ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تھرکتے دیکھتے تھے، سمجھتے تھے کہ وہ خوبصورت ہے۔...
ریختہ نے جواہر لال نہرو کی اردو ترجمہ شدہ کتابوں کا انتخاب تیار کیا ہے جس سے ان کی سیاست، فلسفہ اور فکروفن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے
जोलाहेجولاہے
weavers
اصلی جواہر خمسہ کامل
شاہ محمد غوث گوالیاری
تصوف
جواہر انیس
میر انیس
مرثیہ
جولائی-ستمبر: شمارہ نمبر-003
محمد سہیل عمر
اقبالیات، لاہور
دی ڈسکوری آف انڈیا
خود نوشت
آج بازار میں پابہ جولاں چلو
عزیز حامد مدنی
تنقید
آزادی کی منزل تک
ہندوستانی تاریخ
منتخب التواریخ
مطبوعات منشی نول کشور
بھارت کا آئین
ترقی اردو بیورو، نئی دہلی
دستور
یادگار شخصیتیں
تذکرہ
جواہر العلوم
طنطاوی جوہری
اسلامیات
جواہر فریدی
محمد علی اصغر
سوانح حیات
لیمپ جلانے والے
صدیق عالم
افسانہ
جواہر خمسہ مترجم
غوث گوالیاری
میری کہانی
بھارت آج اور کل
لیکچر
پک وک‘ کا نام ایک شکرم گاڑی کے مسافروں کی زبان سے ڈکفلس کے کان میں آیا۔ بس نام کے آتے ہی کردار صورت، لباس، سب کی تخلیق ہوگئی۔ ’سائلس ماریز‘ بھی انگریزی کا ایک مشہور ناول ۱ ہے۔جارج ایلیٹ نے لکھا ہے کہ اپنے بچپن میں انہوں نے ایک پھیری لگانے والے جولاہے کو اپنی پیٹھ پر کپڑے کے تھان لادے ہوئے کئی بار دیکھا تھا۔ اس کی تصویر ان کے دل پر نقش ہوگئی تھی اور پھر اس ناول کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ’اسکارلٹ لٹر‘ بھی ہاتھارن کی بہت خوبصورت اور قابل قدر تخلیق ہے۔ اس کتاب کا بنیادی خیال انہیں ایک پرانے مقدمے کی مسل سے ملا۔ ہندوستان میں ناول نگاروں کی زندگی کے حالات ابھی لکھے نہیں گئے۔ اس لئے ہندوستان کے افسانوی ادب سے کوئی مثال دینا مشکل ہے۔
پرماتما کی کرنی، پرسادی کی پیدائش کے ڈیڑھ دو سال بعد چمبا رام کال بس ہو گئے، مگر جگت گوروجی نے بھاوج کو بیٹی کر کے جانا اور پرسادی کو اپنا بیٹا کر کے پہچانا اور تائی اماں بھی تو یوں بُری نہ تھیں۔ اساڑھی اور ساونی کے دو موقعوں کے سوا جب کہ بٹوارہ گھر میں آتا، وہ پرسادی کی اماں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتیں۔ کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا جیسے دونوں ماں...
کئی دفعہ کوئی بھولا بھالا بچّہ اچانک اپنی ماں سے سوال کر دیتا ہے کہ میں اس دنیا میں کہاں سے آیا، تو ماں گھبرا کر جواب دیتی ہے۔ بیٹا! نرالی پورنما کے روز اِندر بھگوان نے بہت سا مینہ برسایا۔ اس وقت بہت سے بچّے آکاش سے گرے تھے، ان میں سے ایک تم تھے۔ مجھے بہت من موہنے لگے اور میں نے تمھیں صحن میں سے اٹھا لیا۔ یا کہتی ہے تمھارا باپ ایک سو بیالیس گھنڈیوں...
یہ بات اہم نہیں ہے کہ کبیر داس جُلا ہے کے بیٹے تھے یا کسی برہمنی کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور جُلاہے کے گھرمیں پرورش پائی تھی اہم یہ ہے کہ رامانج (بارہویں صدی) اور ان کے سلسلہ فکر کی ایک معنوی اولاد رامانند (چودھویں اور پندرہویں صدی) کے خیال سے کبیرکے خیال کا کیا رشتہ ہے۔ بھگتی کے انتر گیان کا تصوف کے وجدان سے کیا تعلق ہے۔ ایران کے صوفی شعرا عطار، ...
بھادوں بھی آ گیا ہے۔ خدائی ننگے پیر پھرتی ہے۔ پرندوں نے اپنی چونچیں گھونسلوں میں چھوڑ دی ہیں۔ حاملہ عورتوں کی آنکھوں میں حیرانی تنی ہوئی ہے۔ نیکیاں سبزی والے کی دکان پر توریوں کے بھاؤ بکتی ہیں۔ بچے الٹی سلیٹوں پر تقویم کے سوال نکالتے ہیں۔ رنگدار کلینڈر چھپ رہے ہیں۔ آٹے کے ٹین پر کاکروچوں نے ہلہ بول دیا ہے۔ سیلن نے گھروں اور عورتوں کو پچ پچا کر دیا ...
کاٹتے ہیں سوت کو تحقیق کے اتنا مہینآپ کے آگے جولاہے مات ہیں ایران کے
بوند بھر ہریالی نہیں کھلیہم ساری عمر اپنے خوابوں کے جولاہے بنے رہے
جولائی ۱۹۵۳ءڈھاکہ کے اخبار ’’پاسبان‘‘ اور لاہور کے ’’امروز‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں ۹۰فیصدی لوگ بھوک، بیکاری اور گرانی کاشکار ہو رہے ہیں۔‘‘ لیکن باقی دس فیصدی سرمایہ دار اتنے ہی امیر بھی تو ہوگئے۔ پس اے پاکستان کے ہندو مسلمان بھائیو! ان دس فیصدی کے بال بچوں کا خیال کرو۔ کیونکہ یہ بے چارے اقلیت میں ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ نوے فیصدی غریبوں کی اکثریت دس فیصدی سرمایہ داروں کی اقلیت پر قربان ہوجائے۔
بلونت گارگی تو اپنے کسی ڈرامے، (غالباً’’لوہا کُٹ) پر ایک شارٹ فلم بنوانے کی تجویز لے کر آیا تھا، جلدی ہی واپس چلا گیا، لیکن میں بیدی صاحب کے پاس پندرہ بیس دن رہا۔ ان کی’’ایک چادر میلی سی“ کو فلمانے کے بارے میں کچھ تجاویز بھی دیں، جو انہوں نے مسکراتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے رد کر دیں، ’’تمہیں فلموں کی کیا سمجھ! تم اپنی کہانیاں لکھو یا شاعری کرو!“راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کو ایک بار پھر پڑھنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔ جب وہ کام کر رہے ہوتے یا کسی سٹڈیو میں گئے ہوتے تو میں ان کی کتابوں کو چھان رہا ہوتا۔ ان کے افسانوں پر بات چیت رات سونے سے پہلے ہوتی۔ وہ میری کہانیوں کی قدر کرتے تھے اور اپنی کہانیوں کے بارے میں میرے رائے کو بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اس پر بات چیت کی جائے۔ ’’دانہ و دام“ میں مشمولہ افسانے مجھے اس لیے پسند تھے کہ ان میں ہندوستان (پنجاب) کی دیہاتی بو باس ہے، جو میرے اندر بھی رچی بسی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک کہانی کا عنوان ’بھولا‘ ہے۔ ایک بیوہ ماں کا یہ بچہ اپنے نانا سے کہانی سنتا ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ دن کو کہانی سننے سے مسافر رستہ بھول جاتے ہیں۔ وہ خود اپنے ماموں کو لاتے ہوئے جب راستہ بھول جاتا ہے تو اسے اپنا یہ ’گناہ‘ یاد آتا ہے کہ اس نے دن کے وقت نانا سے کہانی سنی تھی۔ اس طرح ایک بچہ جب اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، تو اس کی ماں اسے بتاتی ہے، ’’تمہارا باپ ایک سو بیالیس گھنڈیوں والا جال لے کر رام تلائی یا شاہ بلّور کے جوہڑ میں مچھلیاں پکڑنے گیا، وہا ں نہ مچھلی تھی، نہ کچھوا، صرف جونکیں تھیں۔ ایک ننھا سا مینڈک، عمر جولاہے کے گھر کے سامنے روئی کے ایک گالے پر آرام سے بیٹھا ہوا برسات کی خوشی میں گا رہا تھا۔ وہ تم تھے۔ تمہارا باپ تمہیں اٹھا لایا اور ہم نے پال لیا۔‘‘
نہ ربڑ کی ٹانگ لگوائی نہ لکڑی کی۔۔۔ صبر کی ٹانگ لگوائی۔ اس دن سےآج تک ان ہی ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں اور صبر کی ٹانگ سے گزارہ کر رہا ہوں۔ صبر ہو تو بیساکھیوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے صاحب۔ اللہ نے ہاتھ دیے ہیں، کولہے دیے ہیں۔ وہ سامنے دیکھیے نا۔ لولے رولدو کی تو دونوں ٹانگیں بےکار ہیں۔ پھر بھی ہاتھوں اور کولہوں کے سہارے مزے سے گھسٹ گھسٹ کر چل لیتا ہے۔۔...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books