aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "دریافت"
مکتبہ دریافت، کراچی
ناشر
موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی
محمد عمیر صدیق دریا بادی ندوی
مصنف
مطبع دریائے لطافت، کانپور
اردو بکس دریا گنج، دہلی
ترسیل پبلی کیشنز، دریا گنج، نئی دہلی
بیسویں صدی دریا گنج، دلی۔6
پرنٹ سینٹر دریا گنج، نئی دہلی
مطبع محب ہند، دریا گنج
تسنیم اکیڈمی، دریا گنج، دہلی
سردار دریائی لال کپور
عقد سریا، دریا گنج
موہن سنگھ مالک پنج دریا، لاہور
موج دریا پبلشر
مخدوم شیخ احمد لنگر دریا بلخی فردوسی
اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لا ئے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔ مہینے میں ایک بارملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اور یوں سج کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپر دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا، اس کے پاس ہی کچھ گڑبڑسی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بےہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں۔ سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گیے۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی ...
رب نوازاب بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک باتیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنا چاہئیں۔ اس کی عقل موٹی ہونی چاہیے۔ کیونکہ موٹی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے، مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر غور کر ہی لیتا تھا اور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کے لیے، جو مظفر آباد سے کرن جاتی ہے، کچھ عرصے سے لڑائی ہورہی تھی۔۔۔ عجیب وغریب لڑائی تھی۔ رات کو بعض اوقات آس پاس کی پہاڑیاں فائروں کے بجائے گندی گندی گالیوں سے گونج اٹھتی تھیں۔ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پلاٹون کے جوانوں کے ساتھ شب خون مارنے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دور نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اٹھا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں اور زور زور کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ بڑبڑایا،’’خنریز کی دُم۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے۔‘‘ ایک جوان نے گونجتی ہوئی آوازوں سے مخاطب ہو کر یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا،’’ صوبیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنی ماں کے یار۔‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا۔ اور چابک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا۔ مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا۔ اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے ...
چنانچے گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں داخل کرایا جایا لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور، مگر ہاسٹل میں ہر گز نہیں۔ کالج مفید، مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک، مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب ہی سوچی جائے، جس سے لڑکا ہوسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کوئی ایسی ترکیب کا سوجھ جانا کی...
رغیبی شاعری زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے ۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی ۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
ترغیبی شاعری زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
ترغیبی شاعری زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے ۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی ۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
दरयाफ़्तدریافت
discovery, investigation, inquiry
खोज
जाँच, टोह, जिज्ञासा, अनुसंधान, गवेषणा, तहक़ीक़।।
عروض
سید کلیم اللہ حسینی
علم عروض / عروض
اردو نظم کی دریافت
حامدی کاشمیری
نظم تنقید
آگ کا دریا
قرۃالعین حیدر
ناول
دید و دریافت
نثار احمد فاروقی
تنقید
دل دریا سمندر
واصف علی واصف
مضامین
شمارہ نمبر ۔004
رشید امجد
دریافت
آزادی کی دریافت
جواہر لعل نہرو
تاریخ
شمارہ نمبر ۔005
شمارہ نمبر۔ 012
روبینہ شہناز
دریائے لطافت
انشا اللہ خاں انشا
زبان
شمارہ نمبر ۔003
چھٹا دریا
فکر تونسوی
ڈائری
پیاس کا دریا
بی کے ورما شیدی
غزل
اس سے دریافت نہ کرنا کبھی دن کے حالاتصبح کا بھولا جو لوٹ آیا ہو گھر شام کے بعد
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آکر گرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی،’’کہنا ہم اسی قسم، اسی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے،فرق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی ہٹا لیا ہو۔ بدن کی بُو بھی اس میں...
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی، دو اخلاقی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں سے ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کے نام کی مناسبت سے ’’حسن آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کر دی گئی۔ یعنی بجائے ’’حسن آباد‘‘ کے ’’حسن آباد‘‘ کہلانے لگا۔ مگر یہ نام چل نہ سکا کیونکہ عوام حسن اور حسن میں امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا، جس سے یہ بستی آج سے سیکڑوں برس قبل اجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے ’’آنندی۔‘‘
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار جانور ہے۔‘‘ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار...
راوی، ۱۸۶۰ء۔ غدر کا ہنگامہ فرو ہو چکا ہے، مگر دہلی پر ہر سو ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ جان و مال، آبرو کچھ محفوظ نہیں۔ غالب نے میر مہدی مجروح کو خط لکھا ہے۔ مجروح اپنے احباب کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ مجروح، بھائی کیا پوچھتے ہو۔ کیا لکھوں۔ دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلا پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دلی کہاں۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنووں کا حال دریافت کرنے گیا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بلامبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں تو ایک ہوکا عالم ہوجائے۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہوگیا۔ اب جو کنویں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہوگیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہوجائے گا۔ اللہ اللہ دلی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہتے ہیں واہ رے حسن اعتقاد۔ بندۂ خدا۔ اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں۔ دلی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے۔ کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ نہ شہر۔ نہ بازار۔ نہ شہر۔
کبھی وصل سے، بیٹھنا پھول پھولداستان پری کے دریافت کرنے کی۔
گلیلیو نے کہا، ’’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔‘‘ گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ نہ لکھ دینا کہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ ’’پانی ابل رہا تھا داؤ جی خوش ہو رہے تھے۔ اسی خوشی میں جھوم جھوم کر وہ اپنا تازہ بنایا ہوا گیت گا رہے تھے۔ او گولو! او گولو! گلیلیو کی بات مت بھولنا، گلیلیو کی بات مت بھولنا۔ انہوں نے چائے کی پتی کھولتے ہوئے پا...
تازہ دریافت پرہر فرد کی مٹھی گرم ہوتی ہے
مجھے یقین تھا کہ اسے کسی ضروری کام سے نہیں جانا ہے۔ مگر میں نے اسے نہ روکا اور جانے دیا۔ اس دفعہ پھر اس کا نام دریافت نہ کر سکا۔ لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ ذہنی اور روحانی طور پر بے حد پریشان تھا۔ وہ اداس تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اداسی اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھاکہ اس کی اداسی کا دوسروں کو علم ہو۔ وہ دو زندگیاں بسر کرنا...
’’ابا، یہ جہاز بہت خوف ناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے، یہ کسی نہ کسی روز ہمارے گھر پر گولہ پھینک دیں گے۔۔۔ کل صبح ماما امی جان سے کہہ رہی تھی کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی، تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔۔۔ وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے دی تھی۔‘‘ خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معمولی جسارت پر ہنسا، ’’ماما تو پاگل ہے، میں اس سے دریافت کروں گا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا کرتی ہے۔۔۔ اطمینان رکھو، وہ ایسی بات ہرگز نہیں کریں گے۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books