aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "لبالب"
کلونت کور بھنا گئی۔ ’’یہ بھی کوئی مو یا جواب ہے؟‘‘ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا۔ جواب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا، ’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے لا سےمگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ الا
بس اک ستارۂ شنگرف کی جبیں پہ جھمکوہ چال جس سے لبالب گلابیاں چھلکیں
طلعت مسکرائی، ’’آپا، ایک پھل ہے،مالٹے اور میٹھے کی طرح۔۔۔ اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔۔۔ اور رس۔۔۔ ایک نچوڑیئے۔۔۔یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے، لبالب بھر جائے۔‘‘شفقت نے گلاس کی طرف دیکھا اوراندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہوگا، ’’ایک مچنگے سے اتنا بڑا گلاس بھر جاتا ہے؟‘‘
تیرے انوار سے لبالب ہےدل کا سب سے عمیق گوشۂ راز
लबा-लबلبا لب
full up to brim
लबालबلبالب
brimfull
लबरेज़, मुहाँमुँह ।।
لباب الاخبار
محمد مصطفی خاں
اسلامیات
لب لباب
ولیم منگٹائن
ہندو ازم
لباب
حکیم محمد کبیرالدین
لباب المعارف العلمیہ
عبدالرحیم
اشاریہ
تاریخ لب لباب
مولوی رحیم بخش
لباب الاحادیث
محمد مصباح الدین احمد
میں اور کچھ نہیں کہتا مگر یہ سن رکھئےعدو کا دل ہے لبالب حسد سے کینے سے
پیالہ ہائے فلک روحوں سے لبالب تھے گیا جو فوق سے تحت الثری کو آب حسام
برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیز ایرانی قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ پیر صاحب نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا، ’’یار اس دلہن کا گھونگٹ تو کھولو۔۔۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔‘‘ جمیل مطلب سمجھ گیا، ’’سو پیر صاحب گلاس اور سوڈے منگوائیے۔ پھر دیکھیے کیا رنگ جمتا ہے۔‘‘فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آگئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے آئے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تین گلاس اٹھالایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبالب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انھوں نے رومال سے اپنا منہ صاف کیا، ’’سگریٹ نکالو یار!‘‘
جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا،’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلی تھی، لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔۔۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہ...
فسانوں سے اس کے لبالب ہے دہرجلائے ہیں اس تند آتش نے شہر
اے رندؔ لبالب ہو جو عرفان کی مے سےساغر وہ بجز ساقیٔ کوثر نہیں ملتا
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہمجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
ولیکن لبالب ہو اس میں رحیقرکھے آپ میں جس کی آمد مجھے
’’کچھ نہیں، میں بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کروہ اٹھا، ’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘کرپا رام بوتل میں بچی ہوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔حمید گھر پہنچا تو اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ کمرے میں چونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اس لیے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اس کی آنسوؤں سے لبالب بھری ہوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔
لبالب ہے وہ حسن معنی سے سارانہ دیکھا کوئی اس نزاکت سے اب تک
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books