aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مبسوط"
غالب، ہے، مگر مولانا اگر خدا لگتی سنو تو میں یہ کہوں کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہ ذات باری کی قدرت کاملہ سے انکار ہے۔ شاہ اسماعیل کے پیرو اس پر چراغ پا نہ ہوں تو کیوں؟مولانا، ارے میاں! یہ کیا کفر بکنے لگے ہو؟ کون خدا کی قدرتِ کاملہ کا منکر ہے۔ تمہارے نزدیک تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کے قوانین کو خود ہی توڑے، حالانکہ اس طرح اس کی قدرت محدود ہوجاتی ہے۔ میرے رسالہ بحث ’’قاطیغوریاس‘‘ میں یہ ذکر موجود ہے۔ ہاں جس کی طبیعت معقول کے بجائے غیرمعقول کی طرف راغب ہو، اس کاراستہ مجھ سے جدا ہے (ذرا ٹھہر کر) تو میں آج اس لیے تمہارے پاس آیا تھا کہ تم سے ایک مبسوط اور مدلل مثنوی لکھنے کو کہوں جس سے نظیر خاتم النبیین کا امتناع ثابت ہو۔ کاش مجھے بھی بیان پر وہی قدرت حاصل ہوتی، جو تمہیں ہے تو میں یہ خدمت خود انجام دیتا۔
سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظرآتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرے سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ا...
اصول بالکل صحیح، لیکن اس کو برتنے میں اتنی لاپروائی برتی گئی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ لاپروائی ہی صاحبان ’’لغت‘‘ کا اصول تھا۔ اور جہاں تک سنین کے دریافت کرنے میں ’’پوری کاوش‘‘ کا معاملہ ہے، تو ’’لغت‘‘ دیکھ کر تمنا ہوتی ہے کہ کاش ارباب ’’لغت‘‘ نے پوری نہ سہی، صرف چوتھائی یا محض سرسری کاوش سے تو کام لیا ہوتا۔ موجودہ صورت میں سنین کے اندراجات اغلاط کی پ...
میرے اس سوال کے جواب میں انہوں نے بڑی سنجیدگی سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ایک عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، سیکڑوں علاج کرچکے ہیں، مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ میو روڈ پرکوئی ہومیو پیتھ ہے، اب وہ اس سے رجوع کررہے ہیں۔ میں نے ان سے ازارہِ مذاق کہا، ’’یہ رسد گاہ باقی رہ گئی تھی جہاں آپ اپنے ستاروں کا مطالعہ فرمانے ج...
سلسلہ تصوف اور بھگتی پر لکھے گئے ان مضامین سے بھی ان کی عرق ریزی اور محنت مترشح ہے۔ انہوں نے شیخ محمد غوث گوالیاری، مجدد الف ثانی، امام قشیری، شاہ ولی اللہ، جنید بغدادی، شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہر وردی، خواجہ بہاء الدین نقشبندی، شرف الدین یحیی منیری، شیخ عبد الواحد بلگرامی، فرید الدین عطار اور دیگر ارباب علم و تصوف کے حوالے سے تصوف ک...
मब्सूतمبسوط
spread out, stretched, expanded
विस्तार के साथ कहा हुआ, विस्तृत।।
تاریخ جمّوں
مولوی حشمت اللہ لکھنوی
ہندوستانی تاریخ
تذکرۃ الشعراء
مصحفی غلام ہمدانی
تذکرہ
جیساکہ شاطر گورکھپوری نے اپنے مبسوط دیباچے میں لکھا ہے، لوگ عام طور پر ’’فحش‘‘ اور ’’برازیات‘‘ میں فرق نہیں کرتے یعنی ہم لوگ عموماً ’’برازیات‘‘ کو بھی ’’فحش‘‘ کے زمرے میں رکھتے ہیں اور یہ کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، کیونکہ اردو میں ایسے کلام کے لئے کوئی اصطلاح ہی نہیں ہے جس میں بول وبراز کے مضامین وارد ہوئے ہوں۔ انگریزی میں اسے Scatology اور مختصر ال...
23گھنٹے کا شہر، سے شناخت قائم کرنے والے افسانہ نگار احمد یوسف نے ترقی پسند فکر کو اپنی تخلیقی فکر کا سر نامہ بنایا او راستحصالی سماج کے خلاف لکھا۔ اپنے افسانوں میں اس کرب کو پیش کیا جو مزدوروں اور غریبوں کا مقدر ہے۔ ان کے افسانوں میں احتجاج بھی ہے اور وہ آگ بھی جو خرمن باطل کو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ ان کے مسائل اور موضوعات وہی ہیں جوآج کے صارفی ...
مقالاتِ شبلی، جلدہفتم مضامینِ عالم گیران میں سب سے زیادہ مبسوط حواشی سیرةالنعمان کی دونوں جلدوں پر ہیں، اس کے بعد ’’مضامینِ عالم گیر‘‘ پر۔ اس کے علاوہ مولانا سیدسلیمان ندوی کی ’’حیات ِشبلی‘‘ پر تحریر کردہ بہت سے حواشی کا تعلق بھی علامہ شبلی کی سیرت و شخصیت سے ہے۔ مولاناآزاد اور علامہ شبلی کے فکری اختلافات کو جاننے کے لیے ان حواشی کا مطالعہ بھی ازبس ضروری ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ علامہ شبلی نے ائمۂ مجتہدین اور محدثین کے درمیان فرق کرتے ہوئے سیرةالنعمان میں یہ الفاظ تحریر کیے ہیں،
مجھے اس نظریہ حیات کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ میرے خیال میں کچھ نیم شعوری اور کچھ شعوری طور پر میری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے اور شاید مجھ سے زیادہ میری دادی کو، جو میری تمام ابتدائی تعلیم و تربیت اور مزاج و کردار کی تشکیل کی ذمہ دار تھیں، یہ احساس کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا کہ میری جسمانی ساخت خطرناک حد تک نازک اور کمزور ہے۔ میرا تو...
(۱)یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ ہمارے بزرگوں نے بھی ترقی پسند ادب کے متعلق غور کرنا شروع کر دیا ہے اور پہلا سنجیدہ، مبسوط اور اہم مضمون جو اس سلسلے میں شائع ہوا ہے وہ اردو ادب کے ایک ذمے دار نقاد اور پرخلوص خدمت گذار کے قلم سے نکلا ہے۔ میری مراد پروفیسر رشید احمد صدیقی (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) کے اس مضمون سے ہے، جو آفتاب، علی گڑھ اور آج کل، دہلی میں شائع ہوا اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں نقل کیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پرانے لکھنے والوں نے ترقی پسندی کے متعلق کوئی رائے نہیں دی۔ ضرور دی لیکن تقریباً ان سب میں خلوص کی کمی، غیض وغضب کی زیادتی، غور وفکر سے گریز اور سنی سنائی باتوں پر یقین کے پہلو اتنے واضح ہیں کہ تنقید میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اسی وجہ سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مقالے کو پہلا سنجیدہ اور اہم مقالہ کہا جا سکتا ہے۔ اس مضمون کی تہہ میں خلوص کی ایسی کارفرمائی ہے کہ موصوف کے جن خیالات کے متعلق سخن گسترانہ طور پر کچھ کہا بھی جا سکتا ہے وہ مناظرے یا مخالفت کے انداز میں نہیں بلکہ واقعی تبادلۂ خیال کے طور پر عرض کیا جا سکتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اول اول انہوں نے میر کی غزلوں کا انتخاب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں ان کے مختلف اشعار کا تجزیہ بھی شامل کرنے کا خیال تھا لیکن جلد ہی انہیں محسوس ہوا کہ میر کی غزلوں میں معنی کی پرتیں اور فنکاری کی با ریکیاں ہیں اور یہی نہیں بلکہ جو اشعار زیادہ سادہ اور سلیس ہونے کا احساس دلاتے ہیں وہ بھی اپنے اندر بڑی پیچیدگیاں رکھتے ہیں اور ہمی...
ان جرائد کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہو لیکن مخصوص طور پر وہ اپنی زبان کے نگراں ہوں، یعنی وہ اپنی زبان کے متعلق ہرقسم کی خبریں مہیا کریں، مختلف علاقوں میں زبان کی جو حالت ہے اس سے آگاہ کریں اور ان مقامات میں جن اصلاحوں اور کوششوں کی ضرورت ہے ان پر بحث کریں، اردو تالیفات کا جائزہ لیں، انصاف کے ساتھ تنقید و تبصرہ کرکے ان کے حسن و قبح کو ظاہر کریں۔...
ہندوستانی فن تصویر تاریخی حیثیت سے تین فرقوں میں منقسم ہوتا ہے۔ متقدم، متوسط اور جدید۔ پہلا دور سنہ عسوی کے دو سال قبل سے عیسیٰ کی ساتویں صدی تک ختم ہوتا ہے۔ یہ زمانہ بودھوں کے عروج کا تھا۔ بودھوں نے نقاشی اور تعمیر کے فنون کو جس کمال تک پہنچایا اس پر آج ساری دنیا کے لوگ حیرت کرتے ہیں۔ مگر وہ مزاولت جو فن تصویر میں انہیں حاصل تھی، عام طورپر معلوم ...
اردو کی ادبی صحافت کی حتمی تاریخ کا تعین مشکل ہے ۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور جی ڈی چندن وغیرہ اس کا نقطۂ آغاز گلدستوں کو قرار دیتے ہیں۔ کچھ محققین ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘، ’محب ہند‘ ، ’نور نصرت‘ اور ’مخزن الفوائد‘ کو ادبی صحافت کا نقش اول بتاتے ہیں۔ میری رائے میں منطقی طور پر ان بیانات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ جہاں تک گلدستوں کی بات ہے تو اس ...
ڈاکٹر محمداشرف کمال نے ڈاکٹر محمد حسن شکیل مظہری کی شاعری پر بہت مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے، جو مخزن برطانیہ 7 میں شائع ہوا۔ ان کی رائے ہے کہ،’’غزل ہو یا نظم حسن شکیل مظہری قنوطیت پسندی اور مایوسی سے کام نہیں لیتے، بلکہ ان کے شعروں میں زندگی کی ایک توانا اور تر و تازہ تصویر نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرے میں پھیلے جبرو استبداد، ناانصافی، ظلم و بربریت، سفاک بے رحم آمریت کے پنجوں اور سامراجی ہتھکنڈے کے خلاف واضح جذبات پائے جاتے ہیں۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books