Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولانا آزاد اور علامہ شبلی نعمانی

ظفر احمد صدیقی

مولانا آزاد اور علامہ شبلی نعمانی

ظفر احمد صدیقی

MORE BYظفر احمد صدیقی

    مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ نابغۂ روزگار تھے۔ ان کی غیرمعمولی ذہانت و ذکاوت، مسحورکن خطابت، بے مثال انشاپردازی، اس کے ساتھ ہی دانش وری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلّمات کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی وسعت ِمطالعہ، قوتِ حافظہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ اسلامیات، شعروادب، تاریخ و جغرافیہ اور طب جیسے متنوع اور مختلف الجہات علوم و فنون سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی جزئے ات بھی اکثر و بیشتر انھیں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر انھیں کامل عبور تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعے میں بھی انھیں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    مولانا آزاد کے خاندان، آباو اجداد، مولد و منشا، سالِ ولادت اور تعلیمی مراحل جیسے احوال و کوائف پر بڑی حدتک ابہام و غموض کا پردہ پڑا ہوا ہے اور تھوڑی بہت معلومات جو اُن امور سے متعلق ہم تک پہنچ سکی ہیں وہ انتہائی محیرالعقول ہیں۔ بہرحال جناب مالک رام کی تحقیق کے مطابق ۱۸۸۸ء کو اگر ان کا سالِ ولادت تسلیم کرلیا جائے تو وہ علامہ شبلی نعمانی سے اکتیس سال چھوٹے تھے۔ انھوں نے علامہ کے نام پہلا خط ۱۹۰۱ء میں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ دوسری جانب علامہ شبلی اس وقت اپنی عمر کی ۴۴ویں منزل میں تھے۔ ان کی تصانیف میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرةالنعمان، رسائل شبلی اور الفاروق منظرعام پر آچکی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کے طول و عرض میں ہرطرف مشہور ہوچکے تھے اور قیامِ علی گڑھ کا دور ختم کرکے ناظم سررشتۂ علوم و فنون کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد سے وابستہ اور شہر حیدرآباد میں مقیم تھے۔ اِدھر مولانا آزاد کا یہ حال تھاکہ باوجود کم سنی وہ نصابی و درسی تعلیم سے گزرکر اب علوم جدیدہ کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں پہلے انھوں نے انگریزی، عربی اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ان کی خواہش ہوئی کہ عربی میں ترجمہ شدہ علومِ جدیدہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ غالباً وہ علامہ شبلی کی تصانیف سے واقف تھے۔ اس لیے انھیں خیال آیاکہ اس سلسلے میں علامہ ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ’’آزاد کی کہانی‘‘ میں فرماتے ہیں،

    اب مصر و شام کی کتابوں کا شوق ہوا۔ مولانا شبلی کو ایک خط لکھا اور ان سے دریافت کیاکہ علومِ جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اور کہاں کہاں ملیں گے؟ انھوں نے دو سطروں میں یہ جواب دیاکہ مصرو بیروت سے خط و کتابت کیجیے۔ ۱

    جنوری ۱۹۰۳ء میں علامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی سال کے آخر میں مولاناآزاد نے کلکتہ سے ’’لسان الصدق‘‘ جاری کیا۔ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا۔ یہ علامہ شبلی سے مولانا آزاد کے غائبانہ تعارف اور قربت کا ذریعہ بنا۔ کیونکہ مولانا اس میں انجمن سے متعلق خبریں، رپورٹیں اور اس کی کارگزاریوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کرتے رہتے تھے، جو علامہ شبلی انھیں وقتاًفوقتاً بھیجتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا کی دلچسپی اور مستعدی کو دیکھ کر علامہ نے کچھ دنوں بعد انھیں انجمن کے ارکان انتظامیہ میں شامل کرلیا اور لسان الصدق کو ایک طرح انجمن کا ترجمان بنالیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۰۴ء میں اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ علامہ انجمن کی ذمے داریوں سے سبک دوش نہ ہوگئے۔ اس پورے عرصے میں ان دونوں شخصیتوں کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔

    مولانا آزاد کی علامہ شبلی سے پہلی ملاقات غالباً ۱۹۰۴ء کے اواخر یا ۱۹۰۵ء کے اوائل میں بمبئی میں ہوئی۔ اب مولانا سولہ سال کے تھے اور علامہ کی عمر ۷۴ سال تھی۔ اس دوران ان کی تصانیف میں الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم بھی شائع ہوچکی تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں جو لطیفہ پیش آیا، اس کا بیان مولانا آزاد کی زبانی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں،

    مولانا شبلی سے میں ۱۹۰۴ء میں سب سے پہلے بمبئی میں ملا۔ جب میں نے اپنا نام ظاہر کیا تو اس کے بعد آدھہ گھنٹے تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت انھوں نے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں؟ میں نے کہا نہیں میں خود ہوں۔ ۲

    علامہ شبلی کے لیے دراصل باعث ِاستعجاب یہ تھاکہ یہ کم سن لڑکا ’لسان الصدق‘ جیسے علمی و ادبی رسالے کا مدیر کیوں کر ہوسکتاہے؟ علامہ ان دنوں دو تین ہفتے تک بمبئی میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران مولانا کی ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں علامہ ان سے حددرجہ متاثر ہوئے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں،

    ’’جب چند دنوں میں گفتگو و صحبت سے انھیں میرے علمی شوق کا خوب اندازہ ہوگیا تو وہ بڑی محبت کرنے لگے۔ بار بار کہتے کہ مجھے ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ تم اگر کسی طرح حیدرآباد آسکو تو ’’الندوہ‘‘ اپنے متعلق کرلو اور وہاں مزید مطالعہ و ترقی کا بھی موقع ملے گا۔ ۳

    اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں،

    سب سے زیادہ مولانا شبلی پر میرے شوقِ مطالعہ اور وسعت ِمطالعہ کا اثر پڑا۔ اس وقت تک میرا مطالعہ اتناوسیع ہوچکا تھاکہ عربی کی تمام نئی مطبوعات اور نئی تصنیفات تقریباً میری نظر سے گزر چکی تھیں اور بہتیر کتابیں ایسی بھی تھیں کہ مولانا ان کے شائق تھے اور انھیں معلوم نہ تھاکہ چھپ گئی ہیں، مثلاً محصل امام رازی۔ ۴

    انھیں ملاقاتوں کے دوران فن مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے مولاناآزاد نے جب ایک مدلل تقریر کی تو اسے سن کر علامہ نے فرمایا،

    تمہارا ذہن عجائب روزگار میں سے ہے۔ تمھیں تو کسی علمی نمائش گاہ میں بہ طورایک عجوبے کے پیش کرنا چاہیے۔ ۵

    فروری ۱۹۰۵ء میں علامہ شبلی حیدرآباد کی ملازمت سے مستعفی ہوکر ندوةالعلماءکے معتمد ِتعلیمات کی حیثیت سے لکھنؤ آگئے۔ اس وقت علامہ کی پیش کش اور اصرار کی بناپر ’الندوہ‘ کے نائب مدیر بن کر مولاناآزاد نے بھی لکھنؤ کا قیام اختیار کیا۔ اس طرح انھیں علامہ کے ساتھ مسلسل قیام اور ان کی علمی و ادبی صحبتوں سے مستفید ہونے کا موقع ہاتھ آیا۔ لکھنؤ میں مولانا کے قیام اور ’الندوہ‘ کی ادارت کا زمانہ ستمبر ۱۹۰۵ء سے مارچ ۱۹۰۶ء تک متعین کیا گیاہے۔ ان صحبتوں میں وہ علامہ سے کس قدر متاثر ہوئے، اس کا بیان خود انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام خط میں لکھتے ہیں،

    ’’آپ کی غزل پر علامہ شبلی رحمة اﷲ علیہ کی تحسین بڑی سے بڑی سند ہے جو اس عہد میں مل سکتی تھی۔ علامہ مرحوم کی یاد میں آپ کو کتنا برمحل شعر یاد آیا،

    و لیس من اﷲ بمستنکر

    أ ن یجمع العالم فی واحد

    خواجہ حالی مرحوم نے کیا خوب کہاہے،

    بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی

    وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہیں

    فی الحقیقت مولانا مرحوم کی ذات نبوغ و کمالات کے رنگارنگ مظاہر کا ایک عجیب مجموعہ تھی اور جیساکہ فارسی میں کہتے ہیں سرتاسر مغز بے پوست تھی۔ بہ مشکل کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہے کہ ان کی یاد ناخن بہ دل نہ ہوتی ہو۔ وہ کیا گئے کہ علم و فن کی صحبتوں کا سرتاسر خاتمہ ہوگیا۔ مولانا مرحوم سحرخیزی کے عادی تھے۔ والد مرحوم کی سحرخیزی نے مجھے بھی بچپن سے اس کا عادی بنا دیاہے۔ اس اشتراکِ عادت نے ایک خاص رشتۂ انس پیدا کردیا تھا۔ جب کبھی یکجائی ہوتی تو صبح چاربجے کا وقت ہوتا۔ چائے کا دور چلتا اور علم و فن اور شعر وادب کے چرچے رہتے۔ ہروادی میں وہ اپنے ذوق و فکر کی ایک خاص اور بلندجگہ رکھتے تھے اور یہ کتنی بڑی خوبی تھی کہ باوجود ملّا یا نہ طلب علم کے ملّائیت کی پرچھائے ں بھی ان پر نہیں پڑی تھی۔ خشکی ِطبع جو اس راہ کے مہالک و آفات میں سے ہے، انھیں چھوبھی نہیں گئی تھی۔ شاعری کے ذوق و فہم کا جو اعلیٰ مرتبہ ان کے حصے میں آیا تھا، اس کی تو نظیر ملنی دشوار ہے۔‘‘ (مورخہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۰ء)

    مولانا آزاد کے قیامِ لکھنؤ کے حوالے سے جناب ضیاءالدین اصلاحی نے لکھاہے کہ علامہ شبلی نے اپنے سرسے ادارتِ الندوہ کا بوجھ کم کرنے کے علاوہ ’’مولانا آزاد کی علمی تربیت کے خیال سے بہ اصرار انھیں لکھنؤ بلایا۔‘‘ اس بیان پر استدراک کرتے ہوئے ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کہتے ہیں،

    حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعلیم کا دور ختم ہوچکا تھا اور مطالعہ و نظر کے جس مقام پر تھے، تربیت حاصل کرنے کے خیال سے بے پروا ہوچکے تھے۔ ۶

    راقم حروف کے خیال میں یہ استدراک بالکل درست ہے۔ خود علامہ شبلی نے اس سلسلے میں مہدی اِفادی کے نام خط میں یہ الفاظ تحریر کیے ہیں،

    آزاد کو تو آپ نے مخزن وغیرہ میں ضرور دیکھا ہوگا۔ قلم وہی ہے، معلومات یہاں رہنے سے ترقی کرگئے ہیں۔ (مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۶ء) ۷

    مارچ ۱۹۰۶ء کے بعد ’الندوہ‘ کی ادارت سے مولانا کا تعلق باقی نہ رہا۔ اوائل مئی ۱۹۰۶ء تک وہ لکھنؤ میں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد ’’وکیل‘‘ کے مدیر ہوکر امرتسر چلے گئے۔ لیکن علامہ شبلی سے ان کا ربط و تعلق علامہ کی آخرحیات تک باقی رہا۔

    بعض اہلِ علم نے اپنی تحریروں میں یہ تاثر دیاہے کہ مولانا آزاد اگرچہ علامہ کے باضابطہ شاگرد نہ تھے، لیکن اخذو استفادے کے لحاظ سے وہ ان کے شاگرد معنوی ضرور تھے۔ ہمارے خیال میں یہ تاثر درست نہیں۔ بلکہ اس باب میں سب سے متوازن اور حقائق پر مبنی راے ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں،

    ایک طرف بے پایاں شفقت تھی اور دوسری جانب عقیدت و احترام اور سعادت کا اظہار تھا۔ یہ ابوالکلام کی انفرادیت تھی کہ ان کا رویہ روایتی شاگرد کے بجاے برابری کا نظر آتا ہے۔ یہ حضرت شبلی کی عظمت ہے کہ انھوں نے اپنے اس خرد کی عزتِ نفس کا ہمیشہ خیال رکھا اور ابوالکلام کی یہ سعادت مندی تھی کہ انھوں نے اپنے بزرگ کے علمی مقام کا ہمیشہ اعتراف و احترام کیا۔ ۸

    یہاں ڈاکٹر شاہ جہاں پوری کی تائید میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ علامہ شبلی اپنے مکاتیب میں عام طورپر مولانا آزاد کو ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف سیدسلیمان ندوی اور اپنے دیگر تلامذہ کو ہمیشہ ’’تم‘‘ کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں۔

    ڈاکٹرشاہ جہاں پوری نے مولانا آزاد اور علامہ شبلی کے درمیان ربط و یگانگت کے اسباب اور اس کی مختلف جہات پر بھی بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں،

    شبلی اور ابوالکلام کے تعلقات کی پائیداری کی وجہ اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ دونوں بے غرض اور ذاتی مفاد و مصالح سے ناآشنا تھے اور دونوں ایک دوسرے کے فضائل و کمالات کے قدرداں اور ذوقِ علمی اور مطالعہ و نظر کی وسعت و گیرائی کے معترف تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ہم ذوق و ہم فکر تھے۔ ادب، مذہب، تاریخ، تعلیم، سیاست میں دونوں کا نقطۂ نظر یکساں یا قریب قریب تھا۔ ندوةالعلما دونوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ سیرةنبوی کے منصوبے میں ابوالکلام شبلی کے مشیرومعاون تھے اور الہلال کی تعلیمی، سیاسی اور اصلاحی تحریک میں شبلی آزاد کے ممدومعاون تھے، بلکہ الہلال کی سیاسی تحریک کے فروغ اور اس کے رنگ کونمایاں کرنے میں آزاد کی تحریروں ہی کا نہیں، شبلی کی سیاسی و تاریخی منظومات کا حصہ بھی ہے۔ ۹

    یہیں سے ان حضرات کے نقطۂ نظر کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مولاناآزاد کی سیاسی فکر علامہ شبلی سے ماخوذ تھی، کیونکہ یہاں بھی معاملہ اخذ و استفادے کا نہیں، بلکہ مسلک و مشرب کے اتحاد اور فکرونظر کی ہم آہنگی کا تھا۔

    یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خطوطِ شبلی موسوم بہ مولانا آزاد کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ عمر کے خاصے تفاوت کے باوجود علامہ شبلی اور مولانا آزاد کے درمیان دوستانہ بے تکلفی بھی تھی۔ مثال کے طورپر ان خطوط سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں،

    (الف)

    اب کی مولوی خلیل الرحمن وغیرہ نے جلسۂ انتظامیہ میں میری علاحدگی کی تجویز پیش کی۔ اس لیے کہ جب سے میں ندوے میں آیا، لوگوں کی توجہ کم ہوگئی اور ندوہ کو نقصان پہنچ رہاہے۔ کیوں آپ بھی اس راے سے متفق ہیں یا نہیں؟ افسوس کہ ان کے ووٹ نہیں آئے، ورنہ بمبئی میں آکر ٹھکانہ ملتا اور خوب صحبت رہتی۔ ماہ و اختر سب وہیں ہیں، افق ذرا بدل گیاہے۔

    ہاں اور سنی، افتخارعالم صاحب مولوی نذیراحمد کی لائف لکھ کر انھی آلودہ ہاتھوں سے حیاتِ شبلی کو چھونا چاہتے ہیں، اجازت اور حالات مانگے ہیں۔ میں نے لکھ دیاہے کہ ظاہری حالات تو ہرجگہ سے مل جائے ں گے، لیکن عالم السرائر خدا کے سوا ایک اور بھی ہے، وہاں سے منگوائیے۔ بھئی بتا تو نہ دوگے۔ (مورخہ ۵۱جون ۱۹۰۹ء) ۱۰

    (ب)

    برادرم!

    جس قدر آپ کی عنایت و محبت کا یقین زیادہ ہوتا جاتاہے، اسی قدر آپ کی نکتہ سنجی اور نقادی کی طرف سے بے اعتباری بڑھتی جاتی ہے کہ آپ میری صحبت کو لطف انگیز اور نسبتہً دوسرے کے مقابلے میں قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔

    مٹیابرج کا شانِ نزول بالکل سمجھ میں نہ آیا، ذرا کھول کر لکھیے۔ دونوں مکانوں کا فاصلہ اس قدرکہ ایک ہی وقت میں گویا دو ملک میں رہتا۔ پھر وہاں کی ویرانی، دلچسپی کا کوئی سامان نہیں۔

    بے شبہ میری خواہش ہے کہ چند روز دنیا سے الگ بسر کروں، ایسی حالت میں ایک تصنیف بھی انجام پائے۔ لیکن متصل دن رات تو وحشت کدے میں بسر نہیں ہوسکتی۔ شیعوں کے عملی فلسفے کی کوئی صورت پیدا ہو تو البتہ ممکن ہے۔ (مدرخہ ۵دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۱

    (ج)

    جنوری میں آپ کہیں اور چلے جائے ں گے، دسمبر میں آؤ ں اور دوچار روز رہ کر چلاجاؤ ں۔ شباب ہوتا تو ایسی جست و خیز ممکن تھی۔ اب تو بہرجاکہ نشستم وطن شد، وہ زمانہ بتائیے کہ آکر ایک آدھ مہینہ رہ سکوں، گوبار خاطر بن جاؤں۔

    برج خاکی پر قبضہ ہوجائے تو لکھیے گا۔ ہاں ایک روایت تھی کہ ماہ تمام بنگال کے افق پر نکلا۔ تلاش سے شاید پتہ لگ جائے۔ (مورخہ ۰۱دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲

    (د)

    برادرم!

    میں بخیریت پہنچا۔ مغل سرا میں گاڑی نہ صرف بدلی، بلکہ مجھ کو پل صراط کی مصیبتیں جھیلنی پڑی کلکتہ کی پُرلطف گھڑیاں، اب دیکھیے کب نصیب ہوں۔ (مورخہ ۹جون ۱۹۱۰ء) ۱۳

    ’’آپ کو اب زیادہ مولویت کی صورت میں رہنا چاہیے۔ اس سے بہت اچھے اچھے کام لے سکتے ہیں۔‘‘ (مورخہ۲۱جون ۱۹۱۰ء) ۱۴

    (ہ)

    برادرم!

    اچھا کہیں نہیں جاؤ ں گا،

    بندہ را فرماں نباشد، ہرچہ فرمائی بر آنم

    لیکن کیا شبلی کو رابعہ کا درجہ مل سکتاہے۔ لیس الذکر کالأ نثیٰ۔ ماسٹردین محمد وطن گئے تھے اور سخت جانگزاخبر لائے۔ یعنی بدرِکامل حیدرآباد سے دلّی پہنچ کر غروب ہوگیا۔ مرتبۂ ابراہیمی کہاں سے ہاتھ آئے کہ ’’لا اُحب الآفلین‘‘ کہہ سکوں۔ (مورخہ ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۰ء) ۱۵

    ان خطوط میں شوخی، بے تکلفی اور دوستانہ چھیڑچھاڑ کا جو انداز ہے وہ شرح و بیان کا محتاج نہیں۔

    مولانا آزاد نے علامہ شبلی سے تمام تر عقیدت و محبت کے باوجود ان پر بعض تنقیدیں بھی کی ہیں۔ مثلاً ’’تذکرہ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں،

    اﷲ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اعلیٰ علّیین میں جگہ دے، ان کی طبیعت میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی معاملہ ہو، وہ اس کی ابتدا ہمیشہ شک اور تردد سے کیا کرتے تھے۔ اس چیز نے ان کی عملی زندگی کو بھی (یعنی کاروبار و انتظامات کی زندگی کو) بہت نقصان پہنچایا اور وہ کوئی عملی کام جم کر نہ کرسکے۔ ندوہ کے معاملے میں جو اُلجھاؤ لوگوں نے ڈالے، وہ ان کے اسی ضعف ِیقین و عدم جزم و صلابت ِارادہ کا نتیجہ تھا، ورنہ ان سے مخالفت کرنے والوں میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو ان کو ان کی جگہ سے ہٹاسکتا۔ ۱۶

    مولانا آزاد کے ذاتی کتب خانے میں دس گیارہ ہزار کتابیں تھیں۔ یہ اب انڈین کونسل فارکلچرل ریلیشنز، آزاد بھون، نئی دہلی کے کتب خانے کا حصہ ہیں۔ مولانا کی عادت تھی کہ وہ زیرِمطالعہ کتاب پر جہاں ضرورت محسوس کرتے حواشی لکھ دیتے تھے۔ جناب سید مسیح الحسن نے، جو ایک عرصے تک اس کتب خانے کے مرتب و منتظم رہے تھے، ان حواشی کو ’’حواشیِ ابوالکلام‘‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے۔ اس میں علامہ شبلی کی دس کتابوں پر بھی مولانا کے حواشی موجود ہیں۔ ان میں مولانا نے جگہ جگہ علامہ سے اختلاف کیاہے اور بعض مقامات پر ان کا لہجہ سخت بھی ہوگیاہے۔ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ علامہ شبلی سے محبت و عقیدت اور ربط و تعلق کے باوجود بہت سے مذہبی، تاریخی، علمی اور ادبی مسائل میں وہ علامہ سے اختلاف رکھتے تھے اور اس کے اظہار میں بھی انھیں کچھ باک نہ تھا۔ علامہ کی جن کتابوں پر مولانانے حواشی لکھے ہیں، ان کے نام یہ ہیں،

    سیرةالنعمان، جلد اوّل سیرةالنعمان، جلددوم

    الغزالی رسائل شبلی، (نسخۂ اوّل)

    رسائل شبلی، (نسخۂ دوم) شعرالعجم، جلد اوّل

    مقالاتِ شبلی، جلد اوّل مقالاتِ شبلی، جلد دوم

    مقالاتِ شبلی، جلدہفتم مضامینِ عالم گیر

    ان میں سب سے زیادہ مبسوط حواشی سیرةالنعمان کی دونوں جلدوں پر ہیں، اس کے بعد ’’مضامینِ عالم گیر‘‘ پر۔ اس کے علاوہ مولانا سیدسلیمان ندوی کی ’’حیات ِشبلی‘‘ پر تحریر کردہ بہت سے حواشی کا تعلق بھی علامہ شبلی کی سیرت و شخصیت سے ہے۔ مولاناآزاد اور علامہ شبلی کے فکری اختلافات کو جاننے کے لیے ان حواشی کا مطالعہ بھی ازبس ضروری ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ علامہ شبلی نے ائمۂ مجتہدین اور محدثین کے درمیان فرق کرتے ہوئے سیرةالنعمان میں یہ الفاظ تحریر کیے ہیں،

    مجتہدین جس چیز پر فخر کرسکتے ہیں، وہ دقت ِنظر، قوتِ استنباط، استخراجِ مسائل اور تفریعِ احکام ہے۔ لیکن محدثین کے گروہ کے نزدیک یہی باتیں عیب و نقص میں داخل ہیں۔

    اس پر مولانا آزاد کا حاشیہ حسب ِذیل ہے،

    مصنف کی یہ پوری بحث یکسر مغالطہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کذب علی وجہ الارض کیا ہوسکتا ہے کہ ائمۂ حدیث کی نسبت یہ کہا جائے کہ دقت ِنظر، قوتِ استنباط، استخراجِ مسائل، درایت و تفکر ان کے نزدیک نقص رہا۔ جس شخص نے صرف تراجم ابوابِ فقیہۂ بخاری وغیرہ ہی پر نظر ڈالی ہے، وہ کیونکر اس خیال کا تصور بھی کرسکتاہے۔ اور پھر جس شخص نے تصنیفاتِ ابنِ حزم، ابنِ عقیل، ابنِ تیمیہ و ابنِ قیّم وغیرہ کو دیکھا ہے تو وہ اس خیال کی تکذیب پر حلف شرعی اُٹھا سکتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس تمام معاملے کے اسباب ہی اور ہیں اور ان کو صاحب ِحجة اﷲ نے واشگاف لکھ دیا ہے۔ مؤ لف کی اس پر نظر ہے، مگر افسوس کہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر مصنف نے اسی جملے پر غور کیا ہوتا کہ ’’فروعِ احکام کی تفریع کرتے تھے۔‘‘ تو اصل عُقدہ حل ہوجاتا، یعنی بنیاد اپنے قراردادہ یا ائمۂ کوفہ کے کلیات پر رکھتے نہ کہ احادیث پر۔ ۱۷

    حاصلِ کلام یہ ہے کہ مولانا آزاد اور علامہ شبلی دونوں ایک دوسرے سے متاثر ضرور ہوئے، لیکن دونوں نے اپنی اپنی انفرادیت بھی قائم رکھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے