aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "उम्मत-ए-मरहूम"
سنی ہے داستان امت مرحوم ہم نےبکھرتے موتیوں کی آج اک ٹوٹی لڑی ہے
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دےمور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
غالب، میں تو بنی آدم کو مسلمان ہو یا ہندو، یا نصرانی، عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔ باقی رہی وہ عزیز داری جس کو اہل دنیا قرابت داری کہتے ہیں۔ اس کو قوم اور ذات اور مذہب اور طریقت شرط ہے اور اس کے مراتب و مدارج ہیں۔ دنیا دار نہیں ہوں، فقیر خاکسار ہوں۔ قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر...
بڑے لوگوں کے دوستوں اور ہم جلیسوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دوستی اور ہم جلیسی کا اشتہار دے کر خود بھی ناموری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے وہ عجز و فروتنی کے پتلے جو شہرت سے بھاگتے ہیں۔ کم از کم اپنے ممدوح کی زندگی میں۔ ہاں اس کے بعد رسالوں کے ایڈیٹروں کے پر زور اصرار پر انہیں اپنے تعلقات کو الم نشرح کرنا پڑے تو دوسری بات ہے۔ ڈاکٹر لکیر الدین فقیر کو لیجئے۔ جیسے اور پروفیسر ہوتے ہیں ویسے ہی یہ تھے۔ لوگ فقط اتنا جانتے تھے کہ علامہ اقبال کے ہاں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ سو یہ بھی خصوصیت کی کوئی بات نہیں۔ یہ انکشاف علامہ کے انتقال کے بعد ہوا کہ جب کوئی فلسفے کا دقیق مسئلہ ان کی سمجھ میں نہ آتا تو انہی سے رجوع کرتے تھے۔ ڈاکٹر لکیر الدین فقیر نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک روز آدھی رات کو میں چونک کر اٹھا اور کھڑکی میں سے جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ علامہ مرحوم کا خادم خاص علی بخش ہے۔ میں نے پوچھا، ’’خیریت؟‘‘ جواب ملا، ’’علامہ صاحب نے یاد فرمایا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس وقت؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اس وقت اور تاکید کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو لے کر آنا۔‘‘ میں حاضر ہوا تو اپنے لحاف میں جگہ دی اور فرمایا۔
उम्मत-ए-मरहूमامت مرحوم
community of decesed
انہیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنالیناارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں
’’اچھا داڑھی آپ نے ان کی دیکھی ہوگی۔ سفید ہوتی تھی یا کالی۔‘‘میر صاحب نے کہا، ’’ویسے تو سفید ہی ہوتی تھی لیکن جب خضاب لگا لیتے تھے تو بالکل کالی نظر آتی تھی۔ ان کی طبیعت ایک رنگ پر نہیں تھی۔ وکیل صاحب کہہ دیا نا کہ باغ و بہار آدمی تھے۔‘‘
ہمارے عزیز دوست جمیل الدین عالی دوہوں والے، تماشا مرے آگے والے، نے اپنے ناطقہ کو سربگر بیاں کرتے ہوئے اخبار میں ایسا رقت انگیز مضمون لکھا ہے کہ جدھر جائیے خلقت زاروقطار رو رہی ہے۔ سارا شہر دیوار گریہ بنا ہوا ہے۔ لیاری کی جھگیاں بہہ گئی ہیں اور محرم کی مجلسیں ماند پڑگئی ہیں۔ ہم دوسروں کو کیا کہیں۔ ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ یہ مضمون ہم لکھ نہیں رہے، ای...
ہمارا شمار ان لوگوں میں ہے جن کاذکر پطرس نے اپنے مضمون ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی۔‘‘ میں کیا ہے۔ اگر یہ مضمون ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا نہ ہوتا، اگر پطرس مرحوم کے نیاز بھی حاصل رہے ہوتے، تو یہی سمجھتے کہ انہوں نے یہ ہمارے بارے میں لکھا ہے۔ اٹھنا نمبر ایک اور اٹھنا نمبر دو ہمیشہ سے ہماری زندگی کا معمول رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نے پطرس ک...
شکر خدائے پاک ہے اے نادرؔ حزیںامت میں ہم رسول کی کہلائے جاتے ہیں
یہ چلی تھی امت مرحوم سیل غدر میںموت کے طوفاں میں کار ناخدا کرتا رہا
(یہ میری ایک خواہش ہے جو مشکل ہے)وہ نجمؔ آفندی مرحوم کو تو جانتی ہوگی
امت فخر دو عالم میں ہوئے ہم پیدارب اکبر نے کیا ہم پہ یہ احسان الگ
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکاروہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں
اب کے صفدرؔ مجھے لگتا ہے یہ مسلم حاکمامت سید لولاک کو دفنائیں گے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books