aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "कीड़े"
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کےدیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سےلوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
شجاعت ماموں بڑے معقول آدمی تھے۔ نہایت ستھرا نقشہ، چھریرا بدن، درمیانہ قد، امتیازی پھپو سارے میں کہتی پھرتی تھیں کہ خضاب لگاتے ہیں، مگر آج تک کسی نے کوئی سفید بال ان کے سر میں نہیں دیکھا، اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ خضاب لگانا کب شروع...
تم آ کے تنکے سے مجھ کو باہر نکال لینا''کوئی نہیں آئے گا یہ کیڑے نکالنے اب
منزل کی تلاش وجستجو اور منزل کو پا لینے کی خواہش ایک بنیادی انسانی خواہش ہے ۔ اسی کی تکمیل میں انسان ایک مسلسل اور کڑے سفر میں سرگرداں ہے لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مل جانے والی منزل بھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔ ایک منزل کے بعد نئی منزل تک پہنچنے کی آرزو اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ منزل اور سفر کے حوالے سے اور بہت ساری حیران کر دینے والی صورتیں ہمارے اس انتخاب میں موجود ہیں ۔
कीड़ेکیڑے
worms
عادت سی پڑ گئی ہے جو تنقیص کی مجھےکیڑے نکالتا ہوں میں اپنے وجود میں
’’کچھ بھی سہی وہ ان کھوسٹوں سے ہزار درجے بہتر تھے جو اپنے پوپلے منہ اور سفید بالوں کی داد چھوٹوں سے یوں طلب کرتے ہیں، گویا یہ ان کی ذاتی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔‘‘ مرزا نے بگڑی بات بنائی۔ اُن سے پیچھا چھڑا کر کچی پکی قبریں پھاندتا میں...
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہےعشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
اور جو وہ مار ہی دیتی کچر کچر ساری انگلیاں پس جاتیں یہ کیا بات تھی، کوئی زبردستی تھی ان کی؟ ’’اب مارتی کیوں نہیں۔‘‘ شبراتی بھیا نے آنکھیں جھپکائیں۔ اور ان کا مونچھوں والا موٹا سا ہونٹ دور تک پھیل گیا۔ گنڈاسا چھین لیا گیا۔ اور جنو کھسیا گئی۔...
ارشاد ہوا، ”مرغ اور ملاّ کے رزق کی فکر تو اللہ میاں کو بھی نہیں ہوتی۔ اس کی خوبی یہی ہے کہ اپنا رزق آپ تلاش کرتا ہے۔ آپ پال کر تو دیکھیے۔ دانہ دنکّا، کیڑے مکوڑے، کنکر، پتھر چگ کر اپنا پیٹ بھرلیں گے۔“...
کئی دن تک وہ اکیلا بھوکا پیاسا اس جنگل میں گھومتا رہا اور وہ ان تمام جگہوں پر گیا جہاں پر وہ موگری کے ساتھ گیا تھا اور ان جگہوں پر جا کر اس نے ان تمام جذبوں کو بھلانا چاہا جنہوں نے موگری کی موجودگی میں اس کے لئے...
’’تو کھاؤ۔۔۔ اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا۔ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔‘‘ سعیدہ نے پڑیا فرش پر سے اٹھائی اور سرہلاکر کہا، ’’جی اچھا۔‘‘ باسط چلا گیا۔ اس نے سوچا، ’’اچھا ہے، کوئی علاج تو ہورہا ہے۔ خدا کرے اچھی ہو جائے۔ میرا خیال ہے...
اور آج میں ان کی کتابیں دیکھ کر کہتی ہوں ناممکن وہ کبھی نہیں مر سکتے۔ ان کی جنگ اب بھی جاری ہے مرنے سے کیا ہوتا ہے میرے لیے تو وہ مر کر ہی جیے اور نہ جانے کتنوں کے لیے وہ مرنے کے بعد پیدا ہوں گے۔ اور...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books