aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "कूचा-ए-जाँ"
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یادکوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
خادم کوچۂ جاں یہ ہے صداقت میریچند انفاس مقرر ہے مہینہ میرا
پھر بھی مجھ جیسے آدمی کے لئےکوچۂ جاں میں روشنی کے لئے
کوچۂ جاں پر گہرے بادل چھائے رہیں گے زیبؔاس کی کھڑکی کے پردے بھاری ہو جائیں گے
कूचा-ए-जाँکوچۂ جاں
street of beloved
خود عشق قرب جسم بھی ہے قرب جاں کے ساتھہم دور ہی سے ان کو پکار آئے یہ نہیں
کوچۂ یار جو نہ جاتا ہوراستہ راستہ نہیں ہوتا
’’ڈاکٹر! تم مجھے یادوں کے گھنے جنگل میں چھوڑ گئے ہو۔ جہاں تمہاری ہر بات، ہر قہقہہ ایک مستقل گونج بن کر پھیل گیا ہو۔ اور میں اس جنگل میں تنہا پھر رہی ہوں۔۔۔۔ تمہارے بغیر زندگی کے لمحات پژمردہ پتیوں کی مانند درختوں سے رک رک کر گر رہے ہیں۔۔۔ جب بیتے دنوں کا خیال آتا ہے تو سوچتی ہوں، دن کیوں گزر جاتے ہیں؟ اور اگر ان کو گزر ہی جانا ہے تو تم قاہرہ کیوں چ...
.My God! What a lovely home is this home!sweet homeصغراں بی بی کا رنگ ہلدی کی طرح ہے اور ہلدی ٹی بی کے مرض میں بےحد مفید ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کے لیے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہی ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیں گے۔ صغراں بی بی کے چاروں بچوں کا رنگ بھی زرد ہے اور ہڈیا ں نکلی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے ٹیکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن، پھل، انڈے، گوشت اور سبزیاں دو۔ شام کو اگر یخنی کا ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں، بد بو دار محلوں اور اندھیری کوٹھریوں سے دور رکھو۔
’’اچھا۔‘‘یہ ذرا سی، اچھا کہہ کر وہ بڑے اطمینان سے موزے بننے لگی۔ جس طرح کوئی بچہ قلم چھڑک کر لکھنے میں مشغول ہو جائے۔ یہ ’اچھا‘ سیاہی کا ایک دھبہ تھا جو میرے کپڑوں پر چھڑکا گیا تھا۔ اختر اور سعید تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ راجدہ کا بھائی اختر کی بچی سے کھیل رہا تھا۔ گلی میں روشن دان کے چھجوں پر گرتی بارش کا شور اندر سنائی دے رہا تھا۔ آتش دان میں آگ تیز کر دی گئی۔ عظمی خاموشی سے اپنے کام میں لگی ہوئی تھی اور میں کرسی میں دھنسا خاموشی سے سگریٹ پیتے ہوئے اس کے سنہری بالوں اور سپید چہرہ کے باریک خطوط کو آگ کی روشنی میں چمکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
اپنا ہر خواب جواں سونپ چلا ہوں تجھ کواپنا سرمایۂ جاں سونپ چلا ہوں تجھ کو
اک قدم اور سہی شہر تنفس سے ادھراک سفر اور سہی کوچۂ جاں سے آگے
آ مری جان آ ایک سے دو بھلےآج پھیرے کریں کوچۂ یار کے
بڑی ہے بات جو تم رنگ گل نکھار سکویہ دور دور جہاں کاش تم کو راس آئے
کیا کہوں مجھ پہ جو اے دشمن جاں گزری ہےتری ہر بات طبیعت پہ گراں گزری ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books