aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "नाली"
ناجی شاکر
1690 - 1744
شاعر
بینا گوئندی
born.1967
انیس ناگی
1939 - 2010
مصنف
نلنی وبھا نازلی
born.1954
نامی انصاری
born.1932
نامی نادری
born.1922
عابد نامی
born.1926
رستم نامی
born.1959
نذیر احمد ناجی
born.1934
آمنہ نازلی
1914 - 1996
حسام الدین حیدر نامی
نامی پریس، لکھنؤ
ناشر
ہاجرہ نازلی
1921 - 2004
مطبع نامی مجتبائی، دہلی
منظور حسن نامی
1897 - 1976
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جواس سے پہلے مری شہہ رگ کا لہو چاٹ چکی
شکیلہ نے اسے جھڑک دیا،’’ذرا ٹھہر جاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ،کپڑے کا گز، اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اُگ رہے تھے۔ مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل م...
ہوائی جہازوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ توپیں ان کے پاس تھیں نہ ان کے پاس، اس لیے دونوں طرف بے خوف و خطر آگ جلائی جاتی تھیں۔ ان سے دھوئیں اٹھتے اور ہواؤں میں گھل مل جاتے۔ رات کو چونکہ بالکل خاموشی ہوتی تھی،ا س لیےکبھی کبھی دونوں مورچوں کے سپاہیوں کو ایک دوسرے کی کسی بات پر لگائے ہوئے قہقہے سنائی دے جاتے تھے۔ کبھی کوئی لہر میں آکے گانے لگتا تو اس کی آوا...
مجھے پتہ تھا کہ یہ بلا ٹلنے والی نہیں، نا چار گزمہ خانہ والوں کا پہاڑہ شروع کر دیا، جب دس مرتبہ کہہ چکا تو داؤجی نے بڑی لجاجت سے کہا اب سارا فقرہ پانچ بار کہو۔ جب پنجگانہ مصیبت بھی ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے آرام سے بستر میں لٹاتے ہوئے اور رضائی اوڑھاتے ہوئے کہا، ’’بھولنا نہیں! صبح اٹھتے ہی پوچھوں گا۔‘‘ پھر وہ جدھر سے آئے تھے ادھر لوٹ گیے۔ شام کو جب میں ملا جی سے سیپارے کا سبق لے کر لوٹتا تو خراسیوں والی گلی سے ہو کر اپنے گھر جایا کرتا۔ اس گلی میں طرح طرح کے لوگ بستے تھے۔ مگر میں صرف موٹے ماشکی سے واقف تھا جس کو ہم سب ’’کدو کریلا ڈھائی آنے‘‘ کہتے تھے۔ ماشکی کے گھر کے ساتھ بکریوں کا ایک باڑہ تھا جس کے تین طرف کچے پکے مکانوں کی دیواریں اور سامنے آڑی ترچھی لکڑیوں اور خار دار جھاڑیوں کا اونچا اونچا جنگلا تھا۔ اس کے بعد ایک چوکور میدان آتا تھا، پھر لنگڑے کمہار کی کوٹھری اور اس کے ساتھ گیرو رنگی کھڑکیوں اور پیتل کی کیلوں والے دروازوں کا ایک چھوٹا سا پکا مکان۔
چھوٹا پاشی بھابی سے شرماتا تھا۔ اس خیال سے کہ دلہن کی گود جھٹ سے ہری ہو، چمکی بھابی اور دریا باد والی پھوپھی نے ایک رسم میں پاشی ہی کو اندو کی گود میں ڈالا تھا۔ جب سے اندو اسے نہ صرف دیور بلکہ اپنا بچہ سمجھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ پیار سے پاشی کو اپنے بازوؤں میں لینے کی کوشش کرتی تو وہ گھبرا اٹھتا اور اپنا آپ چھڑا کر دو ہاتھ کی دوری پر کھڑا ہو جاتا۔ د...
خواتین کی خودمختاری
آسمان میں کوندنے والی بجلی کواس کی اپنی شدت، کرختگی اورتیزچمک کی صفات کی بنا پرکئی صورتوں میں استعاراتی سطح پراستعمال کیا گیا ہے ۔ بجلی کا کوندنا محبوب کا مسکرانا بھی ہے کہ اس میں بھی وہی چمک اورجلا دینےکی وہی شدت ہوتی ہے اوراس کی مشابہت ہجربھوگ رہےعاشق کے نالوں سے بھی ہے۔ شاعری میں بجلی کا مضمون کئی اورتلازمات کے ساتھ آیا ہے، اس میں آشیاں اورخرمن بنیادی تلازمے ہیں۔ بجلی کی کرداری صفت خرمن اورآشیانوں کوجلانا ہے۔ ان لفظیات سےقائم ہونے والا مضمون کسی ایک سطح پرٹھہرانہیں رہتا بلکہ اس کی تعبیراورتفہیم کی بے شمارسطحیں ہیں ۔
شہر کی زندگی نئے اور ترقی یافتہ زمانے کا ایک خوبصورت عذاب ہے ۔ جس کی چکاچوند سے دھوکا کھاکر لوگ اس میں پھنس تو گئے لیکن ان کے ذہنی اورجذباتی رشتے آج بھی اپنے ماضی سے جڑے ہیں ۔ وہ اس بھرے پرے شہر میں پسری ہوئی تنہائی سے نالاں ہیں اور اس کی مشینی اخلاقیات سے شاکی ۔ یہ دکھ ہم سب کا دکھ ہے اس لئے اس شاعری کو ہم اپنے جذبات اور احساسات سے زیادہ قریب پائیں گے ۔
नालीنالی
drain
آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح
تنقید
پاکستان اردو ادب کی تاریخ
عصمتی دسترخوان
خواتین کی تحریریں
آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح
طنز و مزاح تاریخ و تنقید
شعری لسانیات
نیلی رنگیں
سعادت حسن منٹو
ڈرامہ
حکایات مثنوی مولانا روم
پیر غلام دستگیر نامی
سوانح حیات
دیگر
دیوار کے پیچھے
ناول
نیا شعری افق
شاعری تنقید
مرزا فرحت اللہ بیگ
نالۂ یتیم
علامہ اقبال
انتخاب
نثری نظمیں
اردو تھیٹر
عبدالعلیم نامی
ڈرامہ کی تاریخ و تنقید
فکشن تنقید
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں، میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھینے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
علامہ اقبالؔ چودھری شہاب الدین سے ہمیشہ مذاق کرتے تھے۔ چودھری صاحب بہت کالے تھے۔ ایک دن علامہ چودھری صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے۔ بتایا گیا کہ چودھری جی غسل خانے میں ہیں۔ اقبال کچھ دیر انتظار میں بیٹھے رہے۔ جب چودھری صاحب باہر آئے تو اقبالؔ نے کہا، ’’پہلے آپ ایک بات بتائیے۔ آپ کون سا صابن استعمال کرتے ہیں؟‘‘ چودھری صاحب نے کہا، ’’یہ کیوں پوچھ رہے ہ...
ہر عید بقر عید کو میرے ابا میاں بیٹوں کو لے کر عید گاہ سے سیدھے پھوپی اماں کے ہاں کوسنے اور گالیاں سننے جایا کرتے، وہ فورا پردہ کر لیتیں اور کوٹھڑی میں سے میری جادو گرنی ماں اور ڈاکو ماموں کو کوسنے لگتیں۔ نوکر کو بلا کر سویاں بجھواتیں۔ مگر یہ کہتیں ’’پڑوسن نے بھیجی ہیں۔‘‘’’ان میں زہر تو نہیں ملا ہوا ہے؟‘‘ ابا چھیڑنے کو کہتے اور پھر ساری ننھیال کے چیتھڑے بکھیرے جاتے۔ سویاں کھا کر عیدی دیتے جو وہ فورا زمین پر پھینک دیتیں کہ ’’اپنے سالوں کو دو وہی تمہاری روٹیوں پر پلے ہیں۔‘‘ اور ابا چپ چاپ چلے آتے اور وہ جانتے تھے کہ پھوپی بادشاہی وہ روپے گھنٹوں آنکھوں سے لگا کر روتی رہیں گی۔ بھتیجوں کو وہ آڑ میں بلا کر عیدی دیتیں۔
بچے کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہو جب اس کے لئے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔ اکثر اوقات تو وہ خود ہی سامعہ نوازی کرتے رہتے ہیں ورنہ یہ فرض ان کے لواحقین پر عائد ہوتا ہے۔ ان کو سلانا ہو تو لوری دیجئے۔ ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بےمعنی سے بےمعنی منہ بنا کربلند سے بلند آواز میں ان کے سامنے دہرائیے، اور کچھ نہ ہو تو شغل بےکاری کے طور...
گلیوں کے سینے پر بہتیگندی نالی
دوسرا، ’’اب خوب دل لگا کر کام کریں گے۔‘‘ تیسرا، ’’جب انھوں نے ہمارے اوپر چھوڑدیا۔ تو ہمارا بھی دھرم ہے کہ اپنا کام سمجھ کر کام کریں۔‘‘
کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا۔ سب ارادوں اور آرزوں پر اوس پڑ گئی اور تمہارا دوست ان سنگ دل سپاہیوں کے درمیان پھنسا۔ تمہیں کیا لکھوں کہ اس لمبے عرصے میں کن کن مصیبتوں سے گزرا ہوں۔ تم بجا طور پر نالاں ہو کہ میں نے تمہارے ایک بھی خط کا جواب نہیں دیا۔ لیکن دوست جب آدمی کے ہوش و حواس اس کے اپنے ہوش و حواس نہ ہوں، جب نہ وہ اپنے دماغ سے سوچتا ہو، نہ کام کرت...
’’بس اتنا جتنا میونسپلٹی سے تمہار گھر تک فاصلہ ہے۔‘‘ ’’ہمار گھر تو۔۔۔ آہ!‘‘وہ لڑکھڑائی اور نالی کے سرے پر منھ کے بل گری۔
تو غرض یہ کہ راوی دریا کویوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا) اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی۔ چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا) کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتروالو۔ مہریوں سے کہا جاتا، ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔ جھاڑو ڈپیٹی۔
‘’ابھی نہیں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر تصویر کھنچواؤں گی۔’’‘’صبح کی بات پر ناراض ہو ابھی تک؟’’ اباجی نے سوال کیا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books