aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बुज़दिलों"
میں نے تجھے معاف کیا جا کہیں بھی جامیں بزدلوں پہ اپنی کماں تانتی نہیں
ہر ایک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتےکہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے
محبتوں کو چھپاتے ہو بزدلوں کی طرحیہ اشتہار گلی میں لگانا چاہئے تھا
آؤ ہوا کے ہاتھ کی تلوار چوم لیںاب بزدلوں کی فوج سے لڑنا فضول ہے
شاعری میں کوئی بھی لفظ کسی ایک معنی، کسی ایک رنگ، کسی ایک صورت ، کسی ایک ذہنی اور جذباتی رویے تک محدود نہیں رہتا ہے ۔ ساحل کو موضوع بنانے والے اس شعری بیانیے میں آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ساحل پر ہونا سمندر کی سفاکیوں سے نکلنے کے بعد کامیابی کا استعارہ بھی ہے ساتھ ہی بزدلی ،کم ہمتی اور نامرادی کی علامت بھی ۔ ساحل کی اور بھی کئی متضاد معنیاتی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ ساحل کے ان مختلف رنگوں سے گزریں گے ۔
مصیبت میں بشر کے جوہر مردانہ کھلتے ہیںمبارک بزدلوں کو گردش قسمت سے ڈر جانا
آفتاب مغرب میں ڈوب رہا تھا اور اس کی کرنیں محراب کے رنگین شیشوں سے گزر کر راجہ کے چہرہ کو اور غضبناک بنارہی تھیں۔ ان کے بال نیلے ہوگئے تھے آنکھیں زرد تھیں۔ چہرہ سرخ اور جسم سبز ہوگیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ دوسری دنیا کی ہیبت ناک...
بزدلوں سے میں کوئی معرکہ جیتوں بھی تو کیاکوئی لشکر مری جرأت کے برابر بھی تو ہو
’’تم سمجھتی ہو کہ تمہارے اوپر اس کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ تم ہنستی ہی رہو گی اس کی موت پر۔۔۔ مگر یاد رکھو راحت۔۔۔ کشور تمہیں نہیں چھوڑے گی! وہ مرجائے گی۔۔۔ مگر کیا وہ تم سے سوال نہ کرسکے گی۔۔۔ اس کی روح۔۔۔‘‘ ’’ہائے بجلی جلاؤں میں۔۔۔ اچھی...
پانچ سال گزر گئے۔ سارے صوبہ میں چنتا دیوی کی دھاک بیٹھ گئی۔ دشمنوں کے پیر اکھڑ گئے۔ وہ فتح کا زندہ مجسمہ تھی۔ اسے تیروں اور تفنگوں کے سامنے بے خوف کھڑے دیکھ کر سپاہیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی۔ اس کی موجودگی میں وہ کیسے پیچھے قدم ہٹاتے۔...
یکایک شور مچا۔ پولیس! پولیس آگئی۔ پولیس کا ایک داروغہ کچھ کانسٹبلوں کے ساتھ آکر سامنے کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے سہمی ہوئی آنکھوں اور دھڑکتے ہوئے دلوں سے ان کی طرف دیکھا اور چھپنے کے لئے بل ڈھونڈنے لگے۔...
یہ کیا کہ بزدلوں کی طرح گفتگو کریںپیش حریف شان حریفانہ چاہئے
ریحانی، ’’ش ش ش۔۔۔! دادا ابا کا ڈر ہے۔ موجود تو نہیں گھر میں؟‘‘ صوفی، (حقارت سے) ’’دادا ابا سے ڈرنا کس قدر دقیانوسی بات ہے۔ مزید برآں مجھے بزدلی اور بزدلوں سے اتنی نفرت ہے کہ کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘...
میں بھی اک پتھر لیے تھا بزدلوں کی بھیڑ میںاور اب یہ ڈر ہے اس نے مجھ کو پہچانا نہ ہو
مجھ کو جنگل دیا ہے جینے کوبزدلوں کو مچان کب دے گا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books