Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمر یاترا

پریم چند

سمر یاترا

پریم چند

MORE BYپریم چند

    آج صبح ہی سے گاؤں میں ہل چل مچی ہوئی تھی۔ کچی جھونپڑیاں ہنستی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ آج ستیہ گرہ کرنے والوں کا جتھا گاؤں میں آئے گا۔ کودئی چودھری کے دروازے پر شامیانہ لگا ہوا ہے۔ آٹا، گھی، ترکاری، دودھ اور دہی جمع کیا جارہا ہے۔ سب کے چہرے پر امنگ ہے، حوصلہ ہے، آنند ہے۔ وہیں بِندا ہیر جو دورے کے حاکموں کے پڑاؤ پر پاؤ پاؤ دودھ کے لئے منہ چھپاتا تھا، آج دودھ اور دہی کے دو مٹکے اہیرانے سے بٹور کر رکھ گیا ہے۔ کمہار جو گھر چھوڑ کر بھاگ جایا کرتا تھا، مٹی کے برتنوں کا ڈھیر لگا گیا ہے۔ گاؤں کے نائی کہار سب اپنے آپ دوڑے چلے آرہے ہیں۔ اگر کوئی شخص دکھی ہے تو وہ نوہری بڑھیا ہے۔ وہ اپنی جھونپڑی کے دروازے پر بیٹھی ہوئی اپنی پچھتر سال کی بوڑھی سکڑی ہوئی آنکھوں سے یہ تقریب دیکھ رہی ہے اور پچھتا رہی ہے۔ اس کے پاس کیا ہے جسے لے کر کودئی کے دروازے پر جائے اور یہ کہے میں یہ لائی ہوں۔ وہ تو دانوں کو محتاج ہے۔

    مگر نوہری نے اچھے دن بھی دیکھے ہیں۔ ایک دن اس کے پاس دولت اور آدمی سب کچھ تھا۔ گاؤں پر اسی کی حکومت تھی۔ کودئی کو اس نے ہمیشہ نیچے دبائے رکھا۔ وہ عورت ہوکر بھی مرد تھی۔ اس کا خاوند گھر میں سوتا وہ کھیت پر سونے جاتی تھی۔ معاملے مقدمے کی پیروی خود ہی کرتی۔ لینا دینا سب اسی کے ہاتھوں میں تھا لیکن وہ سب کچھ خالق نے چھین لیا۔ نہ دولت رہی نہ آدمی رہے۔ اب ان کے ناموں کو رونے والی وہی باقی تھی۔ آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا، کانوں سے سنائی نہ دیتا تھا، جگہ سے ہلنا مشکل تھا، کسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہی تھی اور ادھر کودئی کی قسمت جاگ گئی تھی۔ اب چاروں طرف کودئی کی پوچھ تھی۔ آج جلسہ بھی کودئی کے دروازے پر ہورہا ہے۔ نوہری کو اب کون پوچھے گا۔ یہ سوچ کر اس کا دل جیسے کسی پتھر سے کچل اٹھا۔ ہائے اگر بھگوان نے اسے اتنا اپاہج نہ کردیا ہوتا تو آج جھونپڑے کو لیپتی، دروازے پر باجے بجواتی، کڑھاؤ چڑھواتی، پوریاں بنواتی، اور جب وہ لوگ کھا چکتے تو گود بھر روپیہ ان کی نذر کردیتی۔

    اسے وہ دن یاد آیاجب وہ اپنے بوڑھے پتی کو لے کر یہاں سے بیس کوس دور مہاتما جی کے درشن کرنے گئی تھی۔ وہ امنگ، وہ سچا پیار، وہ عقیدت آج اس کے دل میں آسمان کے مٹیالے بادلوں کی طرح امنڈنے لگی۔

    کودئی نے آکر پوپلے منہ سے کہا۔۔۔ ’’بھابی آج مہاتما جی کا جتھا آ رہا ہے۔ تمھیں بھی کچھ دینا ہے؟‘‘

    نوہری نے چودھری کو لتاڑ بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ بے رحم مجھے جلانے آیا ہے مجھے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ جیسے آسمان پر چڑھ کر بولی، ’’مجھے جو کچھ دینا ہے وہ انھیں لوگوں کو دوں گی، تمھیں کیوں دکھاؤں۔‘‘

    کودئی نے مسکراکر کہا، ’’ہم کسی سے کہیں گے نہیں۔ سچ کہتے ہیں بھابی۔ نکالو وہ پرانی ہانڈی۔ اب کس دن کے لئے رکھے ہوئے ہو۔ کسی نے کچھ نہیں دیا۔۔۔ گاؤں کی لاج کیسے رہے گی؟‘‘

    نوہری نے بڑی لاچارگی سے کہا۔۔۔ ’’جلے پر نمک نہ چھڑکو دیورجی۔ بھگوان نے دیا ہوتا تو تمھیں کہنا نہ پڑتا۔ اسی دروازے پر ایک دن سادھو سنت، جوگی جتی، حاکمِ صوبہ سبھی آتے تھے، مگر سب دن برابر نہیں جاتے۔‘‘

    کودئی شرمندہ ہوگیا۔ اس کے منہ کی جھریاں جیسے رینگنے لگیں۔ بولا، ’’تم تو ہنسی ہنسی میں بگڑ جاتی ہو بھابی۔ میں نے تو اس لیے کہا کہ بعد میں تم یہ نہ کہنے لگو، مجھ سے تو کسی نے کچھ کہا نہیں۔‘‘

    یہ کہتا ہوا وہ چلا گیا۔ نوہری وہیں بیٹھی ہوئی اس کی طرف تاکتی رہی۔ اس کا وہ طنزسانپ کی طرح اس کے سامنے بیٹھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

    نوہری ابھی بیٹھی ہوئی تھی کہ شور مچا۔ جتھا آگیا۔ پچھم میں گرد اڑتی ہوئی نظر آرہی تھی جیسے زمین ان مسافروں کے استقبال کے لئے اپنے ہیرے جواہرات کی بارش کر رہی ہو۔ گاؤں کے سب عورت مرد سب کام چھوڑ چھوڑ کر ان کا استقبال کرنے چلے ایک پل میں ترنگا جھنڈا ہوا میں لہراتا دکھائی دیا جیسے سوراج اونچے آسن پر بیٹھا ہوا سب کو آشیرواد دے رہا ہے۔

    عورتیں خوشی کے گیت گانے لگیں۔ ذرا دیر میں مسافروں کا جتھا صاف دکھائی دینے لگا۔ دو دو آدمیوں کی قطاریں تھیں۔ ہر ایک کے جسم پر کھدر کا کرتہ تھا، سر پر گاندھی ٹوپی بغل میں تھیلا لٹکتا ہوا، دونوں ہاتھ خالی جیسے سوراج سے بغل گیر ہونے کو تیار ہوں۔ پھر ان کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ان کے مردانے گلوں سے ایک قومی ترانہ نکل رہا تھا۔ گرم، گہرا۔ دلوں میں چستی پیدا کرنے والا،

    ایک وہ تھا کہ ہم سارے جہاں میں فرد تھے

    ایک دن یہ ہے کہ ہم سا بے حیا کوئی نہیں

    ایک دن وہ تھا کہ اپنی شان پہ دیتے تھے جان

    ایک دن یہ ہے کہ ہم سا بے حیا کوئی نہیں

    گاؤں والوں نے کئی قدم آگے بڑھ کر مسافروں کا استقبال کیا۔ بیچاروں کے سروں پر دھول جمی ہوئی تھی، ہونٹ سوکھے ہوئے تھے، چہرے سیاہی مائل مگر آنکھوں میں جیسے آزادی کا نور چمک رہا تھا۔

    عورتیں گا رہی تھیں۔ بچے اچھل رہے تھے اور آدمی اپنے انگوچھوں سے مسافروں کو ہوا کر رہے تھے۔ اس تقریب میں نوہری کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا جو اپنی لٹھیا پکڑے سب کے پیچھے مجسم ا ٓشیرواد بنی کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ چہرے پر فخر کی ایسی جھلک تھی جیسے وہ کوئی رانی ہے، جیسے یہ سارا گاؤں اس کا ہے۔ یہ سبھی جوان اس کے بچے ہیں اپنے دل میں اس نے ایسی طاقت، ایسی وسعت، ایسی بلندی کبھی پہلے محسوس نہیں کی تھی۔

    اچانک اس نے لاٹھی پھینک دی اور بھیڑ کو چیرتی ہوئی مسافروں کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ جیسے لاٹھی کے ساتھ ہی اس نے بڑھاپے اور دکھ کے بوجھ کو پھینک دیا ہو۔ وہ ایک پل عقیدت مندانہ آنکھوں سے آزادی کے سپاہیوں کی طرف تکتی رہی۔ جیسے وہ ان کی طاقت کو اپنے اندر بھر رہی ہو، تب وہ ناچنے لگی۔ اس طرح ناچنے لگی جیسے کوئی حسین دوشیزہ عشق اور خوشی کے نشے میں مست ہوکر ناچے۔ لوگ دو دو چار چار قدم پیچھے ہٹ گئے۔ چھوٹا سا آنگن بن گیا اور اس آنگن میں وہ بڑھیا اپنے رقص کے جوہر دکھانے لگی۔ اس ابدی سرشاری کے ریلے میں وہ اپنا سارا دکھ اور مصیبت بھول گئی۔ اس کےکمزور اعضا میں جہاں ہمیشہ کاہلی چھائی رہتی تھی۔ وہاں نہ جانے اتنے چلبلا پن، اتنی لچک، اتنی پھرتی کہاں سے آگئی تھی۔ پہلے کچھ دیر تو لوگ مذاق سے اس کی طرف دیکھتے رہے۔ جیسے بچے بندر کا ناچ دیکھتے ہیں اور پھر عقیدت کے اس مقدس بہاؤ میں سبھی مست ہوگئے۔ انھیں ایسا لگا جیسے ساری کائنات ایک بڑے وسیع رقص کی گود میں کھیل رہی ہے۔

    کودئی نے کہا، ’’بس کرو بھابی۔ بس کرو۔‘‘

    نوہری نے تھرکتے ہوئے کہا، ’’کھڑے کیوں ہو۔ آؤ نہ۔ ذرا دیکھوں کیسا ناچتے ہو۔‘‘

    کودئی بولے، ‘‘اب بڑھاپے میں کیا ناچوں۔‘‘

    نوہری نے رک کر کہا، ’’کیا تم آج بھی بوڑھے ہو۔ میرا بڑھاپا تو جیسے بھاگ گیا۔ ان ویروں کو دیکھ کر تمہاری چھاتی نہیں پھولتی۔ ہمارا ہی دکھ درد دور کرنے کے لئے تو انہو ں نے یہ پرن ٹھانا ہے۔ انھیں ہاتھوں سے حاکموں کی بیگار بجائی ہے۔ انھیں کانوں سے ان کی گالیاں اور گھڑکیا سنی ہیں۔ اب تو اس جور و ظلم کا ناس ہوگا، ہم اور تم کیا ابھی بوڑھے ہونے کے لائق تھے۔ ہمیں پیٹ کی آگ نے جلایا ہے۔ بولو ایمان سے۔ یہاں اتنے آدمی ہیں، کسی نے ادھر پچھلے چھ مہینے سے پیٹ بھر روٹی کھائی ہے؟ گھی کسی کو سونگھنے کو ملتا ہے، کبھی نیند بھر سوئے ہو، جس کھیت کا لگان تین روپیہ دیتے تھے اب اس کے نو دس دیتے ہو۔ کیا دھرتی سونا اگلے گی۔ کام کرتے کرتے چھاتی پھٹ گئی۔ ہمیں ہیں کہ اتنا سہہ کر بھی جیتے ہیں۔ دوسرا ہوتا تو مر جاتا یا مار ڈالتا۔ دھنیہ ہیں مہاتما اور ان کے چیلے کہ غریبوں کا دکھ سمجھتے ہیں، اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تو سبھی ہیں پیس کر ہمارا خون نکالنا جانتے ہیں۔

    مسافروں کے چہرے چمک اٹھے۔ دل کھل اٹھے۔ محبت میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی۔۔۔

    ایک دن وہ تھا کہ پارس تھی یہاں کی سرزمیں

    ایک دن یہ ہے کہ یوں بے دست و پاک کوئی نہیں

    کودئی کے دروازے پر مشعلیں جل رہی تھیں۔ کئی گاؤں کے آدمی جمع ہوگئے تھے۔۔۔ مسافروں کے کھانا کھا لینے کے بعد جلسہ شروع ہوا۔ جتھے کے لیڈر نے کھڑے ہو کر کہا۔۔۔

    ’’بھائیو! آپ نے آج ہم لوگوں کی جو خاطر مدارات کی ہے، اس سے ہمیں یہ امید ہو رہی ہے کہ ہماری بیڑیاں جلد ہی کٹ جائیں گی۔ میں نے یورپ اور پچھم کے بہت سے ملکوں کو دیکھا ہے اور میں تجربے سے کہتا ہوں کہ آپ میں جو سادگی، جو ایمان داری، جو جفا کشی اور مذہبی عقیدت ہے وہ دنیا کے اور کسی ملک میں نہیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ آپ انسان نہیں دیوتا ہیں۔ آپ کو عیش و عشرت سے مطلب نہیں، نشے پانی سے مطلب نہیں، اپنا کام کرنا اور اپنی حالت پر قناعت کرنا یہ آپ کا آدرش ہے لیکن آپ کا یہی سیدھا پن آپ کے حق میں نقصان دہ ہو رہا ہے۔ برا نہ مانیے گا، آپ لوگ اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں۔ آپ کو تو جنت میں کوئی مقام ملنا چاہئے تھا۔ کھیتوں کا لگان برساتی نالے کی طرح بڑھتا جاتا ہے آپ چوں تک نہیں کرتے۔ عملے اور اہلکار آپ کو نوچتے رہتے ہیں، آپ زبان نہیں ہلاتے۔ اس کا یہ نتیجہ ہورہا ہے کہ لوگ دونوں ہاتھوں سے آپ کو لوٹ رہے ہیں پر آپ کو خبر نہیں۔ آپ کے ہاتھوں سے سبھی روزگار چھنتے جاتے ہیں، آپ کا ستیاناس ہو رہا ہے، پر آپ آنکھیں کھول کر نہیں دیکھتے۔ پہلے لاکھوں بھائی سوت کات کر کپڑے بن کر گزر کرتے تھے، اب سب کپڑا ولایت سے آتا ہے۔ پہلے لاکھوں آدمی یہیں نمک بناتے تھے، اب نمک باہر سے آتا ہے۔ یہاں نمک بنانا جرم ہے۔ آپ کے دیس میں اتنا نمک ہے کہ پوری دنیا کا دو سال تک اس سے کام چل سکتا ہے پر آپ سات کروڑ روپیہ صرف نمک کے لئے دیتے ہیں۔ آپ کے اوسروں میں جھیلوں میں نمک بھرا پڑا ہے، آپ اسے چھو نہیں سکتے۔ شاید کچھ دن میں آپ کے کنوؤں پر بھی محصول لگ جائے گا۔ کیا آپ اب بھی یہ بے انصافی سہتے رہیں گے؟‘‘

    ایک آواز آئی۔۔۔ ’’ہم کس لائق ہیں؟‘‘

    لیڈر، ’’یہی تو آپ کو غلط فہمی ہے۔ آپ ہی کی گردن پر اتنا بڑا راج تھما ہوا ہے۔ آپ ہی ان بڑی بڑی فوجوں، ان بڑے بڑے افسروں کے مالک ہیں مگر پھر بھی آپ بھوکوں مرتے ہیں، بے انصافی سہتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ کو اپنی طاقت کا علم نہیں ہے۔ یہ سمجھ لیجئے کہ جو آدمی دنیا میں اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ خود غرض اور بے انصافی کرنے والے لوگوں کا شکار بنتا رہے گا۔ آج دنیا کا سب سے بڑا آدمی اپنی زندگی کی بازی کھیل رہا ہے۔ ہزاروں جوان اپنی جانیں ہتھیلی سے لوٹتے رہے ہیں وہ کیا چاہیں گے کہ ان کا شکار ان کے منہ سے چھن جائے۔ وہ آپ کے ان سپاہیوں کے ساتھ جتنی سختیاں کر سکتے ہیں کر رہے ہیں مگر ہم لوگ سب کچھ سہنے کے لئے تیار ہیں۔ اب سوچئے کہ آپ ہماری کچھ مدد کریں گے۔ مردوں کی طرح نکل کر اپنے آپ کو بے انصافی سے بچائیں گے یا بزدلوں کی طرح بیٹھے ہوئے تقدیر کو کوستے رہیں گے۔ ایسا موقع شاید پھر کبھی نہ آئے۔ اگر اس وقت چوکے تو پھر ہمیشہ ہاتھ ملتے رہیے گا۔ ہم انصاف اور سچائی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اس لیے انصاف اور سچائی ہی کے ہتھیاروں سے لڑنا ہے۔ ہمیں ایسےبہادروں کی ضرورت ہے جو ظلم اور غصے کو دل سے نکال دیں اوربھگوان پر پکا یقین رکھ کر دھرم کے لئے سب کچھ جھیل سکیں۔ بولیے آپ کیا مدد کرسکتے ہیں۔‘‘

    کوئی آگے نہیں بڑھتا۔ سناٹا چھایا رہتا ہے۔

    یکایک شور مچا۔ پولیس! پولیس آگئی۔

    پولیس کا ایک داروغہ کچھ کانسٹبلوں کے ساتھ آکر سامنے کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے سہمی ہوئی آنکھوں اور دھڑکتے ہوئے دلوں سے ان کی طرف دیکھا اور چھپنے کے لئے بل ڈھونڈنے لگے۔

    داروغہ جی نے حکم دیا، ’’مار کر بھگا دو ان بدمعاشوں کو۔‘‘

    سپاہیوں نے اپنے ڈنڈے سنبھالے مگر اس سے پہلے کہ وہ کسی پر ہاتھ چلائیں سبھی لوگ پھر ہوگئے۔ کوئی ادھر سے بھاگا کوئی ادھر سے۔ بھدڑ مچ گئی۔ دس منٹ میں وہاں گاؤں کا ایک آدمی بھی نہ رہا۔ ہاں لیڈر اپنے مقام پر اب بھی کھڑا تھا اور جتھا اس کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ صرف کودئی چودھری لیڈر کے پاس بیٹھے ہوئے ٹھہری ہوئی نظروں سے زمین کی طرف تاک رہے تھے۔

    داروغہ نے کودئی کی طرف سخت نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’کیوں رے کودئیا تو نے ان بدمعاشوں کوکیوں ٹھہرایا یہاں؟‘‘

    کودئی نے لال لال آنکھوں سے داروغہ کی طرف دیکھا اور زہر کی طرح غصے کو پی گئے۔ آج اگر ان کے سر گرہستی کا بکھیڑا نہ ہوتا، لینا دینا نہ ہوتا تو وہ بھی اس کا منہ توڑ جواب دیتے۔ جس گرہستی پر انہوں نے اپنی زندگی کے پاگس سال فنا کردیے تھے وہ اس وقت ایک زہریلے سانپ کی طرح ان کی روح سے لپٹی ہوئی تھی۔

    کودئی نے ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نوہری پیچھے سے آکر بولی، ’’کیا لال پگڑی باندھ کر تمہاری زبان اینٹھ گئی ہے۔ کودئی کیا تمہارے غلام ہیں کہ کودئیا، کودئیا کر رہے ہو۔ ہمارا ہی پیسہ کھاتے ہو اور ہمیں کو آنکھیں دکھاتے ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘

    نوہری اس وقت دوپہر کی دھوپ کی طرح کانپ رہی تھی۔ داروغہ ایک لمحہ کے لئے سناٹے میں آگیا۔ پھر کچھ سوچ کر اور عورت کے منہ لگنا اپنی شان کے خلاف سمجھ کر کودئی سے بولا، ’’یہ کون شیطان کی خالہ ہے کودئی۔ خدا کا خوف نہ ہوتا تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لیتا۔‘‘

    بڑھیا لاٹھی ٹیک کر داروغہ کی طرف گھومتی ہوئی بولی، ‘‘کیوں خدا کی دہائی دے کر خدا کو بدنام کرتے ہو۔ تمہارے خدا تو تمہارے افسر ہیں جن کی تم جوتیاں چاٹتے ہو۔ تمہیں تو چاہئے تھا کہ ڈوب مرتے چلو بھر پانی میں۔ جانتے ہو یہ لوگ جو یہاں آئے ہیں کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم غریبوں کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تم انہیں بدمعاش کہتے ہو۔ تم جو رشوت کا روپیہ کھاتے ہو، جو ا کھلاتے ہو، چوریاں کرواتے ہو، ڈاکے ڈلواتے ہو، بھلے آدمیوں کو پھانس کرمٹھیاں گرم کرتے ہو اور اپنے دیوتاؤں کی جوتیوں پر ناک رگڑتے ہو۔ تم انہیں بدمعاش کہتے ہو۔

    نوہری کی چبھتی ہوئی باتیں سن کر بہت سے لوگ جو ادھر ادھر دبک گئے تھے پھر جمع ہوگئے۔ داروغہ نے دیکھا بھیڑ بڑھتی جاتی ہے تو اپنا ہنٹر لے کر ان پر پل پڑا۔ لوگ پھر تتر بتر ہوگئے۔ ایک ہنٹر نوہری پربھی پڑا۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی چنگاری ساری پیٹھ پر دوڑ گئی۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا، پر اپنی بچی ہوئی طاقت کو یکجا کر کے اونچی آواز میں بولی۔۔۔ ’’لڑکو! کیو ں بھاگتے ہو۔ کیا یہاں نیوتا کھانے ا ٓئے تھے یا کوئی ناچ تماشا ہو رہا تھا۔ تمہارے اسی بزدل پن نے ان سب کو شیر بنا رکھا ہے۔ کب تک یہ مار دھاڑ۔ گالی گپتا سہتے رہوگے؟‘‘

    ایک سپاہی نے بڑھیا کی گردن پکڑ کر زور سے دھکا دیا۔ بڑھیا دو تین قدم پر اوندھے منہ گرا چاہتی تھی کہ کودئی نے لپک کر اسے سنبھال لیا اور بولا، ’’کیا ایک دکھیا پر غصہ دکھاتے ہو یارو۔ کیا غلامی نے تمھیں نامرد بھی بنا دیا ہے۔ عورت، بوڑھوں پر، نہتوں پر وار کرتے ہو، یہ مردوں کا کام نہیں ہے۔‘‘

    نوہری نے زمین پر پڑے پڑے کہا، ’’مرد ہوتے تو غلام ہی کیوں ہوتے۔ بھگوان! آدمی اتنا بے رحم بھی ہوسکتا ہے۔ بھلا انگریز اتنی بے دردی کرے تو ایک بات بھی ہے اس کا راج ہے۔ تم تو اس کے چاکر ہو تمہیں راج تونہیں ملے گا مگر رانڈ مانڈ میں ہی خوش۔ انہیں کوئی طلب دیتا جائے دوسروں کی گردن بھی کاٹنے میں انھیں جھجک نہیں۔‘‘

    اب داروغہ نے لیڈر کو ڈانٹنا شروع کیا، ’’تم کس کے حکم سے اس گاؤں میں آئے؟‘‘

    لیڈر نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔ ’’خدا کے حکم سے۔‘‘

    داروغہ: ’’تم رعایا کے امن میں خلل ڈالتے ہو۔‘‘

    لیڈر: ’’اگرانھیں ان کی حالت بتانا امن میں خلل ڈالنا ہے تو بے شک ہم ان کے امن میں خلل ڈال رہے ہیں۔‘‘

    بھاگنے والوں کے قدم ایک بار پھر رک گئے۔ کودئی نے ان کی طرف مایوس آنکھوں سے دیکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ’’بھائیو اس وقت کئی گاؤں کے آدمی یہاں جمع ہیں۔ داروغہ نے ہماری جیسے بے آبروئی کی ہے کیا اسے سہ کر تم آرام کی نیند سو سکتے ہو۔ اس کی فریاد کون سنے گا۔ حاکم لوگ کیا ہماری فریاد سنیں گے، کبھی نہیں۔ آج اگر ہم لوگ مار ڈالے جائیں تو بھی کچھ نہ ہوگا۔ یہ ہے ہماری عزت اور آبرو۔ تھڑی ہے اس زندگی پر۔‘‘

    مجمع ساکت ہو گیا۔ جیسے بہتا ہوا پانی مینڈ سے رک جائے۔ خوف کا دھواں لوگوں کے دلوں پر چھا گیا تھا، یکایک ہٹ گیا۔ ان کے چہرے سخت ہوگئے۔ داروغہ نے ان کے تیور دیکھے تو فوراً گھوڑے پر سوار ہوگیا اور کودئی کی گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ دو سپالیوں نے بڑھ کر کودئی کا بازو پکڑ لیا۔

    کودئی نے کہا۔۔۔ ’’گھبراتے کیوں ہو میں بھاگوں گا نہیں۔ چلو کہاں چلتے ہو؟‘‘

    جیسے ہی کودئی دونوں سپاہیوں کے ساتھ چلا، اس کے دونوں جوان بیٹے کئی آدمیوں کے ساتھ سپاہیوں کی طرف لپکے کہ کودئی کو ان کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ سبھی آدمی جذبات سے مغلوب ہوکر پولیس والوں کے چاروں طرف جمع ہوگئے۔

    داروغہ نے کہا، ’’تم لوگ ہٹ جاؤ ورنہ میں فائر کردوں گا۔‘‘ مجمع نے اس دھمکی کا جواب ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ سے دیا اور آگے کھسک گئے۔

    داروغہ نے دیکھا اب جان بچتی نظر نہیں آتی، عاجزی سے بول، ’’لیڈر صاحب یہ لوگ فساد پر آمادہ ہیں۔ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔‘‘

    لیڈر نے کہا۔۔۔ ’’نہیں۔ جب تک ہم میں سے ایک آدمی بھی یہاں رہے گا آپ پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکے گا۔ آپ سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہم اورا ٓپ دونوں ایک ہی پیروں تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم آپ دو مخالف جماعتو ں میں کھڑے ہیں۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے لیڈر نے گاؤں والوں کو سمجھایا، ’’بھائیو! میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ یہ انصاف اور دھرم کی لڑائی ہے اور ہمیں انصاف اور دھرم کے ہتھیار سے ہی لڑنا ہے۔ ہمیں اپنے بھائیوں سے نہیں لڑنا ہے۔ ہمیں تو کسی سے بھی لڑنا نہیں ہے۔ داروغہ کی جگہ کوئی انگریز ہوتا تو بھی ہم اس کی اتنی ہی حفاظت کرتے۔ داروغہ نے کودئی چودھری کو گرفتار کیا ہے۔ میں اسے چودھری کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو آزادی کی لڑائی میں سزا پائیں گے۔ یہ بگڑنے یا گھبرانے کی بات نہیں۔ آپ لوگ ہٹ جائیں اور پولیس کو جانے دیں۔‘‘

    داروغہ اور سپاہی کودئی کو لے کر چلے۔ لوگوں نے جے جے کار کیا۔۔۔ ’’بھارت ماتا کی جے۔‘‘

    کودئی نے جواب دیا۔۔۔ ’’رام رام بھائیو۔ رام رام۔ ڈٹے رہنا میدان میں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے بھگوان سب کا مالک ہے۔‘‘

    دونوں لڑکے آنکھوں میں آنسو بھرے آئے اور لرزتی آواز میں بولے، ’’ہمیں کیا کہے جاتے ہو دادا۔‘‘

    کودئی نے انھیں بڑھاوا دیتے ہوئے کہا، ’’بھگوان کا بھروسہ مت چھوڑنا اور وہ کرنا جو مردوں کو کرنا چاہئے۔ خوف ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ اسے دل سے نکال ڈالو۔ پھر تمہارا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ سچائی کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔‘‘

    آج پولیس کے سپاہیوں کے درمیان کودئی کو جس بے خوفی کا احساس ہو رہا تھا ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جیل اور پھانسی آج اس کے لئے ڈرنے کی چیز نہیں، فخر کی چیز ہوگئی تھی۔ سچائی کا جیتا جاگتا روپ آج اس نے پہلی بار دیکھا جیسے وہ ڈھال کی طرح اس کی حفاظت کر رہا ہو۔

    گاؤں والوں کے لئے کودئی کا پکڑ لیا جانا شرمناک معلوم ہورہا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے چودھری اس طرح پکڑ لیے گئے اور وہ کچھ نہ کر سکے۔ اب وہ منہ کیسے دکھائیں ہر چہرے پر گہر ہ دکھ جھلک رہا تھا۔ جیسے گاؤں لٹ گیا ہو۔

    اچانک نوہری نے چلا کر کہا، ’’اب سب جنے کھڑے کیا پچھتارہے ہو۔ دیکھ لی اپنی خراب حالت یا ابھی کچھ باقی ہے۔ آج تم نے دیکھ لیا نہ کہ ہمارے اوپر قانون سے نہیں، لاٹھی سے حکومت ہورہی ہے۔ آج ہم اتنے بے شرم ہیں کہ اتنا ہونے پر بھی کچھ نہیں بولتے۔ ہم اتنے خود غرض اتنے کائر نہ ہوتے تو ان کی مجال تھی کہ ہمیں کوڑوں سے پیٹتے۔ جب تک تم غلام بنے رہو گے ان کی سیوا ٹہل کرتے رہوگے تمھیں بھوسا چوکر ملتا رہے گا لیکن جس دن تم نے کندھا ٹیڑھا کیا اسی دن مار پڑنے لگے گی۔ کب تک اس طرح مارکھاتے رہوگے، کب تک مردوں کی طرح پڑے گدھوں سے اپنے آپ کو نچواتے رہوگے۔ اب دکھا دو کہ تم بھی جیتے جاگتے ہو اور تمہیں بھی اپنی عزت آبرو کا کچھ خیال ہے۔ جب عزت ہی نہ رہی تو کیا کروگے کھیتی باڑی کر کے۔ دھرم کماکر، جی کر ہی کیا کروگے۔ کیا اسی لیے جی رہے ہو کہ تمہارے بچے اسی طرح لاتیں کھاتے جائیں اسی طرح کچلے جائیں۔ چھوڑو یہ کائرتا۔ آخر ایک دن کھاٹ پر پڑے پڑے مرجاؤگے۔ کیوں نہیں اس دھرم کی لڑائی میں آکر بہادروں کی موت مرتے۔ میں تو بوڑھی عورت ہوں لیکن کچھ نہ کرسکوں گی تو یہیں یہ لوگ سوئیں گے ہاں جھاڑو تو لگادوں گی، انھیں پنکھا تو جھلوں گی۔‘‘

    کودئی کا بڑا لڑکا میکو بولا۔۔۔ ’’ہمارے جیتے جی تم جاؤگی کاکی۔ ہماری زندگی کو لعنت ہے۔ ابھی تو ہم تمہارے بالک زندہ ہی ہیں۔ میں چلتا ہوں ادھر۔ کھیتی باڑی گنگا دیکھے گا۔‘‘

    گنگا اس کا چھوٹا بھائی بھائی تھا۔ بولا، ’’بھیا تم یہ بے انصافی کرتے ہو۔ میرے رہتے تم نہیں جا سکتے۔ تم رہوگے تو گرہستی سنبھالو گے۔ مجھے سے تو کچھ نہ ہوگا۔ مجھے جانے دو۔‘‘

    میکو نے کہا، ’’اسے کاکی پر چھوڑ دو۔ اس طرح ہماری تمہاری لڑائی ہوگی، جسے کاکی کا حکم ہو وہ جائے۔‘‘

    نوہری نے فخر سے مسکرا کر کہا، ’’جو مجھے رشوت دے گا اسی کو جتاؤں گی۔‘‘

    میکو: ’’کیا تمہاری کچہری میں بھی رشوت چلے گی کاکی۔ ہم نے تو یہ سمجھا تا‘ یہاں ایمان کا فیصلہ ہوگا۔‘‘

    نوہری: ’’چلو رہنے دو۔ مرتے وقت راج ملا ہے تو کچھ تو کما لوں۔‘‘

    گنگا ہنستا ہوا بولا، ’’میں تمہیں رشوت دوں گا کاکی۔ اب کی بازار جاؤں گا تو تمہارے لیے پوری تباکو کا پتہ لاؤں گا۔‘‘

    نوہری: ’’تو بس تیری ہی جیت ہے۔ تو ہی جانا۔‘‘

    میکو: ’’کاکی، تم انصاف نہیں کر رہی ہو۔‘‘

    نوہری: ’’عدالت کا فیصلہ بھی دونوں فریقوں نے پسند کیا ہے کہ تمہیں کروگے۔‘‘

    گنگا نے نوہری کے چرن چھوئے، پھر بھائی سے گلے ملا اور بولا، ’’کل دادا کو کہلا بھیجنا۔ میں جاتا ہوں۔‘‘

    ایک آدمی نے کہا، ’’میرا بھی نام لکھ لو بھائی۔ سیوارام۔‘‘

    سب نے جے جے کار کیا۔ سیوارام آکر لیڈر کے پاس کھڑا ہوگیا۔

    دوسری آواز آئی، ’’میرا نام لکھ لو بھجن سنگھ۔‘‘

    سب نے پھر جے جے کار کیا۔ بھجن سنگھ آکر لیڈر کے پاس کھڑا ہوگیا۔

    بھجن سنگھ دس پانچ گاؤں میں پہلوانی کے لئے مشہور تھا۔ وہ اپنی چوڑی چھاتی تانے، سراٹھائے لیڈر کے پاس کھڑا ہوا تو جیسے شامیانے کے نیچے ایک نئی زندگی طلوع ہوگئی۔

    فوراً ہی تیسری آواز آئی، ’’میرا نام لکھو۔ گھورے۔‘‘

    یہ گاؤں کا چوکیدار تھا۔ لوگو ں نے سر اٹھا اٹھا کر اسے دیکھا۔ اچانک کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ گھورے اپنا نام لکھائے گا۔

    بھجن سنگھ نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تمہیں کیا ہوا ہے گھورے؟‘‘

    گھورے نے کہا، ’’مجھے وہی ہوا ہے جو تمہیں ہوا ہے۔ بیس سال تک غلامی کرتے کرتے تھک گیا۔‘‘

    پھر آواز آئی، ’’میرا نام لکھو، کالے خاں۔‘‘

    وہ زمیندار کا آدمی تھا۔ بڑا ہی جابر اور دبنگ۔ پھر لوگوں کو تعجب ہوا۔

    میکو بولا، ’’معلوم ہوتا ہے ہم کو لوٹ لوٹ کر گھر بھرلیا ہے۔ کیوں؟‘‘

    کالے خاں سنجیدگی سے بولا، ’’کیا جو آدمی بھٹکتا رہے اسے کبھی سیدھے راستے پر نہ آنے دوگے بھائی۔ اب تک جس کا نمک کھاتا تھا، اس کا حکم بجاتا تھا۔ تم کو لوٹ لوٹ کر اس کا گھر بھرتا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ میں بڑے بھاری مغالطے میں پڑا ہوا تھا۔ تم سب بھائیوں کو میں نے بہت ستایا ہے۔ اب مجھے معافی دو۔‘‘

    پانچوں رنگروٹ ایک دوسرے سے لپٹے تھے۔ اچھلتے تھے، چیختے تھے جیسے انہوں نے سچ مچ سوراجیہ پا لیا ہے۔ درحقیقت انہیں سوراجیہ مل گیا تھا۔ سوراجیہ ایک اندرونی جذبہ ہے جیسے ہی غلامی کا خوف دل سے نکل گیا، آپ کو سوراجیہ مل گیا۔ خوف ہی غلامی ہے، بے خوفی ہی سوراجیہ ہے۔ انتظام و اتحاد تو علامتی چیزیں ہیں۔

    لیڈر نے خادموں کو مخاطب کر کے کہا، ’’دوستو۔ آج آپ آزادی کے سپاہیوں میں آملے ہیں اس پر میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے ہم کس طرح لڑائی کرنے جارہے ہیں۔ آپ کے اوپر طرح طرح کی سختیاں کی جائیں گی۔ مگر یاد رکھئے۔ جس طرح آج آپ نے موہ اور لالچ کا تیاگ کر دیا ہے اسی طرح جبر اور غصے کا بھی تیاگ کر دیجئے۔ ہم جہاد میں جا رہے ہیں۔ ہمیں دھرم کے راستے پر جمے رہنا ہوگا۔ آپ اس کے لئے تیار ہیں۔‘‘

    پانچوں نے ایک آواز میں کہا۔۔۔ ’’تیار ہیں۔‘‘

    لیڈر نے آشیرواد دیا۔۔۔ ’’ایشور آپ کی مدد کرے۔‘‘

    اس سہانی سنہری صبح میں جیسے امنگ کھلی ہوئی تھی۔ نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں روشنی کی ہلکی ہلکی کرنوں میں امنگ کی آمیزش تھی۔ لوگ جیسے دیوانے ہوگئے تھے۔ جیسے آزادی کی دیوی انہیں اپنی طرف بلا رہی ہو۔ وہی کھیت کھلیان ہیں وہی باغ بغیچے ہیں وہی مرد عورتیں ہیں، پر آج کی صبح میں جو آشیرواد ہے جو وردان ہے جو سرخوشی ہے وہ اور کبھی نہ تھی۔ وہی کھیت کھلیان، باغ بغیچے، مرد و عورت آج ایک نئی سرخوشی سے سرشار ہیں۔

    سورج نکلنے سے پہلے ہی کئی ہزار آدمیوں کا جماؤ ہوگیا۔ جب ستیہ گرہیوں کا جتھا نکلا تو لوگوں کی مستانی آوازوں سے آسمان گرج اٹھا۔ نئے سپاہیوں کو الوداع! ان کی عورتوں کا اطمینان، ماں باپ کا فخر، سپاہیوں کے ایثار کا منظر لوگوں کو مست کیے دیتا تھا۔

    اچانک نوہری لاٹھی ٹیکتی ہوئی آکر کھڑی ہوگئی۔

    میکو نے کہا، ’’کاکی ہمیں آشیرواد دو۔‘‘

    نوہری: ’’میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں بیٹا۔ کتنا آشیرواد لوگے۔‘‘

    کئی آدمیوں نے ایک آواز میں کہا، ’’کاکی تم چلی جاؤگی تو یہاں کون رہے گا۔‘‘

    نوہری نے کہا، ’’بھیا جانے کے تو اب دن ہی ہیں آج نہ جاؤں گی تو دوچار مہینے کے بعد جاؤں گی۔ ابھی جاؤں گی تو زندگی کامیاب ہو جائے گی۔ دوچار مہینے میں کھاٹ پر پڑے پڑے جاؤں گی تو من کی آس من میں ہی رہ جائے گی۔ اتنے بالک ہیں، ان کی سیوا میں میری نجات ہو جائے گی۔ بھگوان کرے تم لوگوں کے اچھے دن آئیں اور میں اپنی زندگی میں تمہارے سکھ دیکھ لوں۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے نوہری نے سب کو آشیرواد دیا اور لیڈر کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔ لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے اور جتھا گاتا ہوا چلا جاتا تھا،

    ایک دن وہ تھا کہ ہم سارے جہاں میں فرد تھے

    ایک دن یہ ہے کہ ہم سا بے حیا کوئی نہیں

    نوہری کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ جیسے ہوائی جہاز پر بیٹھی ہوئی جنت کی طرف جا رہی ہو۔

    مأخذ:

    پریم چند کے مختصر افسانے (Pg. 241)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے