aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बे-ख़ौफ़"
جو بات حقیقت ہو بے خوف و خطر کہیےمیں اس کا نہیں قائل شبنم کو گہر کہیے
اے اہل فراست بڑھو بے خوف و ہراسہمراہیٔ تحقیق ہیں بے شک و ابلاس
تمہارے حکم کی تعمیل بے خوف و خطر ہوگینہ دامن میرا نم ہوگا نہ میری آنکھ تر ہوگی
سوچا نہیں بے خوف و خطر کاٹ دیا ہےاس نے مرا ہر مصرعۂ تر کاٹ دیا ہے
اندھیرا شہر میں بے خوف رقص کرتا رہاچراغ سارے ہواؤں کے اختیار میں تھے
سمندر کو موضوع بنانے والی شاعری سمندر کی طرح ہی پھیلی ہوئی ہے اور الگ الگ ڈائمینشن رکھتی ہے ۔ سمندر ، اس کی تیزوتند موجیں خوف کی علامت بھی ہیں اور اس کی صاف وشفاف فضا ، ساحل کا سکون اوربیکرانی، خوشی کا استعارہ بھی ۔ آپ اس شاعری میں دیکھیں گے کہ کس طرح عام سا نظر آنے والا سمندر معنی کے کس بڑے سلسلے سے جڑ گیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور لطف لیجئے ۔
बे-ख़ौफ़بے خَوف
بے پرواہ، نڈر، دلیر، بہادر، شجاع
ہم اکیلے ہیں تو بے خوف سفر لگتا ہےراہ میں دوسرا مل جائے تو ڈر لگتا ہے
بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہوبہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو
اندھوں کی دنیا ہےبے نور و بے خوف
عشق جی جان سے کیا ہم نےاور بے خوف و بے ہراس کیا
قتل لمحوں کا ہو رہا تھا مگروقت بے خوف و بے ہراس رہا
جن پہ بے خوف و خطرگھومتے رہزن تھے
جس نے لگایا دہر میںنعرہ یہ بے خوف و خطر
فقط مرے ہی لہو کی ہے پیاس خنجر کوتم اپنی راہوں پہ بے خوف و بے خطر جاؤ
جنوں کو چاہئیں بے خوف و عالی ظرف دیوانےہر اک دیوار میں زنداں کی ہو سکتے ہیں در پیدا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books