aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बे-नौकरी"
شکوہ جو بے نوکری کا کرتے ہیں نادان ہیںآپ آقا ہے کسی کا جو کوئی نوکر نہیں
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں...
ایسا نہیں کہ زندگی ہی رائیگاں ہوئیاس شاعری کے فن سے تو بس نوکری گئی
ساری عزت نوکری سے اس زمانے میں ہے مہرؔجب ہوئے بے کار بس توقیر آدھی رہ گئی
پروانہ نوکری کا کہیں سے ملے بھی چونچؔبے روزگار بیٹھے رہے انتظار میں
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
बे-नौकरीبے نوکری
jobless
جلد سے جلد اپنے گھر میں نوکری دے دو مجھےورنہ بے قیمت کا نوکر ڈھونڈتی رہ جاؤ گی
ایسے لگے ہے نوکری مال حرام کے بغیرجیسے ہو داغؔ کی غزل بادہ و جام کے بغیر
اک نوکری کی آس میں کتنے ہی مر گئےمیں بھی تو مرنے کے ہی لیے بے قرار ہوں
جو میرے دل میں فروزاں ہے شاعری کی طرحمیں اس کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں نوکری کی طرح
نوکری پہ بس نہیں جاں پہ تو ہوگااب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے
چھت نہ ہم پر کوئی گری صاحبکوئی نعمت ہے بے گھری صاحب
جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگازمیں پر کوئی تم سا پیدا نہ ہوگا
حسینوں سے تمہاری دوستی اچھی نہیں لگتیبڑھاپے میں یہ عشق و عاشقی اچھی نہیں لگتی
اس طرح تو لگ رہا ہے چاند بھی خطرے میں ہےاس سے مل کر میں نے جانا روشنی خطرے میں ہے
یوں تو میری ذات ہر پل در بدر ہوتی رہیآنکھ لیکن صحن حسن یار پر رکھی رہی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books