aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "स्कूल"
الحرا بپلک اسکول، پٹنہ
ناشر
لکشمی اسکول بک ڈپو، متھرا
نیشنل اینگلو اردو ہائی اسکول، پونہ
کلکتہ اسکول بک سوسائٹی پریس، کولکاتا
نورمل اسکول، دہلی
شری ڈبلو۔ اے۔ شہانی فار دی اسکول اینڈ کالج بک اسٹال، بمبئی
نیو اسکول پبلیکیشنز، دہلی
کماؤں اسکول آف یوگا، یو۔ پی۔
اینگلو عربک اسکول، دہلی
اسکول آف مینجمنٹ اسٹڈیز، ممبئی
اسکول بک اینڈ اپریٹس ڈپو، لکھنؤ
بھارگو اسکول بک ڈپو، لکھنؤ
گورنمنٹ ہائی اسکول، حیدرآباد
انجمن طلبۂ قدیم جامعہ ہائر سکنڈری اسکول، نئی دہلی
ارفن اسکول پریس
وہ کئی دن سے شدید قسم کی تنہائی محسوس کر رہا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی تقریباً تمام کرسچین چھوکریاں جو سستے داموں مل جایا کرتی تھیں، عورتوں کی اگزالری فورس میں بھرتی ہوگئی تھیں، ان میں سے کئی ایک نے فورٹ کے علاقے میں ڈانس اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔۔۔ رندھیر بہت اداس ہوگیا تھا۔ اس کی اداسی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہوگئی تھیں۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ، صحت مند اور خوبصورت تھا، صرف اس لیے اس پرقہوہ خانوں کے دروازے بند کر دیے گیے تھے کہ اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔
جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیابچوں کے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا
شجاعت ماموں کی عمر کا مسئلہ بڑی نازک صورت اختیار کرگیا۔ قمر آراء اور نور خالہ کے لیے تو وہ ابھی لڑکا ہی تھے۔ اس لیے وہ تو مارے ہول کے برسوں کی گنتی میں بار بار گھپلا ڈال دیتیں۔ کیوں کہ ان کی عمر کا حساب لگ جانے سے خود خالاؤں کی عمر پر شہ پڑتی تھی، لہٰذا پانچوں بہنیں بالکل مختلف سمت سے حملہ آور ہوئیں۔ انہوں نے فوراً امتیازی پھپو کے نواس داماد کا ذکر...
’’ادھر آ کر میرے پاس لیٹ جا۔۔۔‘‘ انہوں نے مجھے بازو پر سر رکھ کر لٹا لیا۔’’اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔۔۔ پسلیاں نکل رہی ہیں‘‘ انہوں نے پسلیاں گننا شروع کر دیں۔
انوکھا اسکول
عادل حیات
افسانہ
اسکول لائبریری
سید حسین رضا نقوی
تحقیق
جنگل کا اسکول
مادھو چوان
ترجمہ
شمارہ نمبر- 001
عبدالوہاب مسلم
Oct 1928گورنمنٹ ہائی اسکول میگزین
اسکول ماسٹر
فلمی نغمے
میرا اسکول
انور حسین خاں
شمارہ نمبر-000
نا معلوم ایڈیٹر
Aug 1929محبوبیہ گرلز اسکول میگزین
شمارہ نمبر-001
ضیاء الدین احمد
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی، ’’دیکھ لینا گاما چودھری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
پڑھ نہیں سکتے تو شیطانی کریںآ گئے اسکول میں تو جائیں کیا
جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور سے مبارک بعد دینے کے لئے آئے۔ قریبی رشتے داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بیکار اور نالائق فرزند سمجھ رہے تھے۔ در اصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے، جس کی نشونما پر...
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دواتمیری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے۔ سیتا۔لاجونتی۔اور سندر لال بابو نے رونا شروع کردیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سرخ جھنڈے اٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا، ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئ...
رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چاروں طرف پھیلنے اور مکانوں اور دکانوں کی مانگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہلے اس بستی میں آنے پر تیار نہ ہوتی تھیں، اب اس کی دن دگنی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید، ان بیسواؤں کے ساتھ اسی وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کر دیے۔ علاوہ ازیں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھی اس ب...
وہ میرا بچپن وہ اسکولوہ کچی سڑکیں اڑتی دھول
شکر کرو تم اس بستی میں بھی اسکول کھلا ورنہمر جانے کے بعد کسی کا سپنا پورا ہوتا تھا
علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ ایک روز (جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی) انہیں اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا، ’’اقبال تم دیر سے آئے ہو۔‘‘اقبال نے بے ساختہ جواب دیا، ’’جی ہاں! اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔‘‘
وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا،جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books