aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "be-vajuud"
بے وجودنارس لیتا ہوں میں کیا
ہر چند اپنا حال نہ ہم سے بیاں ہوایہ حرف بے وجود مگر داستاں ہوا
تیری کوکھ زہر آلود کر کےتجھے بے وجود کر کے
اور جو آنے والے دنوں کا دکھ ہےوہی مرے بے وجود چہرے
اک کھلا دہانہ سا جس کی تہہ بھی ہے خالیبے مزاحمت وسعت بے وجود موجودی
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
बे-वजूदبے وجود
without existence
محمد حسین آزاد
قاضی عبدالودود
تنقید
عبدالحق بحیثیت محقق
غالب بہ حیثیت محقق
تحقیق
دنیا کا غم ہی کیا غم الفت کے سامنےباطل ہے بے وجود حقیقت کے سامنے
میں پڑا ہوا ہوں خود میں کہیں بے وجود شاہدؔمری روح گم شدہ ہے مرا جسم لاپتہ ہے
عکس جمال یار سے وہم نمود ہےورنہ وجود خلق بھی خود بے وجود ہے
وجود اور بے وجودی ہے یہ موجودنشان بے نشانی کا نشاں ہے
بے ثبات صبح شام اور مرا وجودیہی عذاب ہے مدام اور مرا وجود
خاشاک وجود ایک بھنور میں رہتااے بے خبری اپنی خبر میں رہتا
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجودمیں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے
اگرچہ ساغر گل ہے تمام تر بے بودچھلک رہا ہے چمن میں مگر شراب وجود
میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھیبے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں
قائم ہے مجھ میں میرے تخیل کی سلطنتبے تاج بادشا ہوں میں اپنے وجود میں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books