Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آئینہ خانے میں

خواجہ احمد عباس

آئینہ خانے میں

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک سوانحی افسانہ ہے جس میں مصنف نے اپنے خاندانی پس منظر۔ تخلیقی محرکات اور انسانی قدروں پر اپنے اعتماد کو بیان کیا ہے۔

    ساٹھ برس تک وہ مجھ سے کتراتا رہا۔ مگر پھر آخر ایک دن ہمارا آمنا سامنا ہو ہی گیا۔ میں نے کہا، ’’بات کیا ہے؟ میں نے توکبھی تمہیں قرض نہیں دیا۔ پھر ہمیشہ کیوں مجھ سے آنکھیں چراتے ہو؟‘‘ اس نے کہا، ’’میں تم سے شرماتا بھی ہوں، ڈرتا بھی ہوں۔ مگر میں تم سے نفرت نہیں کرتا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں اگر کسی سے محبت کرتا ہوں تو صرف تم سے۔ محبت کیا ہے اور نفرت کیا ہے؟ سچ پوچھو تو مجھے یہ بھی نہیں معلوم۔ محبت اور نفرت دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ شاید اسی لیے میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم سمجھتے ہو میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’آج مل ہی گئے ہو تو دو دو باتیں ہو جائیں۔ میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ سب کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’یوں کہو میرے ڈھول کا پول کھولنا چاہتے ہو۔‘‘ اس نے کہا، ’’تب ہی تو میں تمہارا سامنا کرنے سے کتراتا تھا۔ کیوں دنیا کے سامنے میری مٹی پلید کرنا چاہتے ہو؟ بہت سے ایسے چہرے ہیں جن پر پردہ ہی پڑا رہے تو بہتر ہے۔‘‘

    ’’مگر میں نے تو کبھی کسی آئینے پر پردہ پڑا نہیں دیکھا۔ اور کہا جاتا ہے آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں دبلا آدمی موٹا نظر آتا ہے، دوسرا آئینہ ہوتا ہے جس میں چھوٹے قد کا آدمی لمبا دکھائی دیتا ہے۔ بدصورت سے بدصورت آدمی کو آئینے میں اپنا چہرہ خوبصورت ہی لگتا ہے۔ اگر آئینے سچ بولتے تو دنیا میں ایک آئینہ بھی نہ بچتا۔ سب چکناچور کر دیے جاتے۔‘‘

    اس نے کہا، ’’تو پھر مجھے بھی ایک آئینہ سمجھو۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو۔ پھر بتاؤ کیا دکھائی دیتا ہے؟‘‘

    وہ ایک چھوٹے قد کا گنجا سا آدمی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ آنکھوں کے گرد کالے کالے حلقے جیسے کتنی ہی راتوں سے نہ سویا ہو۔ چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں تو نہیں ہیں مگر ماتھے پر گہری لکیریں بتا رہی ہیں کہ غم کے کتنے ہی طوفان اس پر سے گزر گئے ہیں۔ جیسے اس کی زندگی کا ہر برس سات سو تیس دن کا گذرا ہو۔ میں نے پوچھا، ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ پہلے کبھی دیکھا ہے اسے؟‘‘ اس نے کہا، ’’صورت جانی پہچانی لگتی ہے مگر یاد نہیں آتا، کہاں اور کب دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’غور سے دیکھو۔ کہیں آئینے میں اپنی صورت تو نہیں دیکھ رہے ہو۔‘‘

    اس نے کہا، ’’لا حول ولا قوۃ۔ کیا تم مجھے اتنا بدصورت سمجھتے ہو؟ انٹلیکچولز کی طرح میرا ماتھا اونچا ضرور ہے مگر میں گنجا نہیں ہوں۔ مانا کہ بیل جیسے دیدے نہیں ہیں میرے مگر آنکھیں اتنی چھوٹی بھی نہیں ہیں جیسے کسی نے ریت میں تھوک دیا ہو۔ نہیں جی۔ میں اس گنجے کھوسٹ کو نہیں جانتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’دوست! یہی تو مشکل ہے۔ انسان چاند کا جغرافیہ جانتا ہے مگر اپنا چوکھٹا نہیں پہچانتا۔‘‘ وہ چڑ کر بولا، ’’کیا کہا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔ میں تو تمہاری زندگی کے حالات جاننا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ایک مضمون لکھنا ہے اپنے بارے میں۔ مطلب یہ کہ تمہارے بارے میں۔‘‘

    ’’کیا اس مضمون کے پیسے ملیں گے؟‘‘

    ’’شاید۔۔۔‘‘

    ’’تو یوں کہو مجھے بیچنا چاہتے ہو؟ اور سب تو بیچ چکے ہو۔ اپنا قلم، اپنا دماغ۔ سنا ہے اپنا دل بھی کئی بار گروی رکھ چکے ہو۔ اب رہ کیا گیا ہے۔ چلو مجھے بھی بیچ ڈالو۔‘‘

    ’’تو پھر اپنے حالات زندگی بتاؤ۔‘‘

    ’’تاریخ پیدائش جون ۱۹۱۴ء۔ تاریخ وفات ابھی معلوم نہیں۔‘‘

    ’’ان دو تاریخوں کے درمیان میں کیا ہوا؟‘‘

    ’’سچ بتاؤں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ بالکل سچ۔‘‘

    ’’سچ تو یہ ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ ہے کہ میری ہستی سے دنیا میں کوئی انقلاب نہیں آیا۔ کوئی لیلیٰ مجنوں جیسا لازوال عشق نہیں ہوا۔ کوئی لافانی کتاب نہیں لکھی گئی۔ آرٹ کا کوئی شاہکار تخلیق نہیں ہوا۔ کوئی نیا براعظم دریافت نہیں ہوا۔‘‘

    ’’تو پھر ساٹھ برس کی عمر میں تم نے کیا کیا؟‘‘

    ’’جھک ماری۔ پچاس ہزار گھنٹے دوستوں کے ساتھ گپ ماری۔ پچاس ہزار چائے کی پیالیاں پیں۔ ایک لاکھ سفید کاغذ کے ورق سیاہ کیے۔ پندرہ ہزار گھنٹے سینما کے اندھیرے میں کاٹے۔ سوا سو فاؤنٹین پین خریدے، گھسے اور کھوئے۔ سات ٹائپ رائٹروں کو پیٹ پیٹ کر کھٹارہ بنادیا۔ پانی پت، علی گڑھ، دہلی اور بمبئی، ہانگ کانگ، شنگھائی، ٹوکیو، پیکنگ، لندن، پیرس، نیویارک اور ماسکو کی سڑکیں ناپیں۔‘‘

    ’’اس سب اوٹ پٹانگ پروگرام سے تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم کرتے کیا رہے؟ آخر تمہارا پیشہ کیا ہے؟‘‘

    ’’ادیب اور نقاد کہتے ہیں میں ایک اخبارچی ہوں۔ جرنلسٹ کہتے ہیں میں فلم والا ہوں۔ فلم والے کہتے ہیں میں ایک سیاسی پروپیگنڈسٹ ہوں۔ سیاست داں کہتے ہیں میں کمیونسٹ ہوں۔ کمیونسٹ کہتے ہیں میں بورژوا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’مگر تم سچ مچ ہو کیا؟‘‘

    ’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔؟ سچ یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔‘‘

    ’’پھر بھی سنا ہے کہ تم نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔‘‘

    ’’یہ الزام تو لگایا گیا ہے مگر آپ ثابت نہیں کر سکتے۔۔۔ ایک تنقید نگار نے تو میری پہلی کتاب پڑھ کر فتویٰ دے دیا تھا کہ کتاب میں نے کسی اور سے لکھوا کر اپنے نام سے چھپوا دی ہے۔‘‘

    ’’سنا ہے تم نے کئی فلمیں بھی بنائی ہیں؟‘‘

    ’’آہستہ بولو۔ کہیں کوئی فنانسر نہ سن لے اور ڈگری لے کر میرا پلنگ اور تین کرسیاں اور ستائیس من پرانی کتابیں اور سترہ من ردی کاغذ قرقی کرنے نہ آ جائے۔‘‘

    ’’اچھا یہ بتاؤ۔ تمہارے دل کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘

    ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ دل چاہتا ہے کہ میرے سر پر گھنے سیاہ بال اگ آئیں اور ایک بار میں پھر جوان ہو جاؤں۔ دل چاہتا ہے کہ میں ٹالسٹائی کے ’’واراینڈپیس‘‘ جیسا ناول لکھ دو۔ دل چاہتا ہے کہ میں ایک ایسا فلم بنادوں، جس کا ساری دنیا میں چرچا ہو۔ دل چاہتا ہے میں ماؤنٹ ایوریسٹ پر چڑھ جاؤں، اسپوتنک میں بیٹھ کر چاند کی سیر کر آؤں، دل چاہتا ہے میرے پاس ایک خاص اپنا کمرہ ہو جس میں چاروں طرف کتابوں کی الماریاں ہوں اور ایک ریڈیو گرام ہو، اور دنیا کی بہترین موسیقی کے ریکارڈ ہوں اور زمین پر چٹائی کا فرش ہو اور لیٹنے کے لیے ایک گدا ہو۔ ایک بجلی کا سما وار ہو جس میں ہر وقت چائے بنتی رہے۔ کئی فاؤنٹین پین ہوں، ایک بہت بڑی روشنائی کی بوتل ہو۔ اور سوریم کاغذ ہو اور وقت ہو۔۔۔ اپنی پسند کی کتابیں پڑھنے کے لیے، اپنی پسند کی کتابیں اور کہانیاں لکھنے کے لیے اپنے خاص دوستوں سے گپ کرنے کے لیے، سونے کے لیے وقت ہو اور کبھی کبھی سوچنے کے لیے بھی وقت ہو۔‘‘

    ’’تو پھر یہ بھی بتاؤ کہ تم نے لکھنا کب شروع کیا اور کیوں؟‘‘

    ’’میں نے لکھنا شروع کیا جب میں کالج میں پڑھتا تھا۔ مگر کیوں؟ اس کی وجہیں تین تھیں۔ میرا ٹھگنا قد اور دبلا پتلا جسم۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، ٹینس میں میں سب سے برا کھلاڑی سمجھا جاتا تھا اور یونیورسٹی میں صرف کھلاڑیوں ہی کی قدر کی جاتی تھی۔ مگر میرا جی چاہتا تھا کہ میرا بھی نوٹس لیا جائے۔ میں بھی کوئی ایسا کام کروں کہ یونیورسٹی میں میرا چرچا ہو۔ سو میں نے یونین کی ڈیبیٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔ پھر یونیورسٹی میگزین میں لکھنا شروع کیا۔ پھر افسانے لکھے۔۔۔ پھر کتابیں۔۔۔

    دوسری وجہ۔۔۔ برٹش سامراج، جس نے مجھے پہلے مقرر، پھر جرنلسٹ اور پھر مصنف بنا دیا۔ جلیانوالہ باغ والے قتل عام سے اگلے برس کا ذکر ہے، میں شاید پانچ چھ برس کا تھا۔ جب ہمارے قصبے کے سیکڑوں بچوں کو جرنیلی سڑک کے کنارے کھڑا کیا گیا، صبح سے شام تک سڑک پرفوج کے گھوڑسوار رسالے گزرتے رہے اور لال منہ کے انگریز سپاہی، ان کی بندوقیں، رائفلیں، سنگین مشین گنیں، توپیں دیکھ دیکھ کر بچوں کے دل دہلتے رہے اور یہی اس پریڈ کا مقصد تھا کہ بچوں کے دل میں سامراج کی فوجی طاقت کی دہشت بٹھا دی جائے۔ مگر نتیجہ اس کا الٹ نکلا۔ ایسی ہی ایک پریڈ پنجاب کے ایک اور قصبے میں ہوئی تھی۔ ایک بچے کے دل میں انگریزی سامراج کے لیے ایسی نفرت بیٹھ گئی کہ بڑا ہوکر وہ دہشت پسند انقلابی بن گیا۔ اس کا نام تھا بھگت سنگھ۔ ہزاروں اور بچوں نے بڑے ہوکر کسی انگریز پر پستول نہیں چلایا مگر ان کے دلوں میں بھی انقلابی، سیاسی خیالات پروان چڑھتے رہے۔ ان ہی میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں کمزور تھا۔ پستول اور بم نہیں چلا سکتا تھا۔ میں نے سوچا سامراج کے خلاف میرا ہتھیار میری آواز ہوگی۔ میرا قلم ہوگا۔

    تیسری وجہ۔۔۔ اٹھارہ برس کی عمر میں مجھے کسی سے محبت ہو گئی اور باوجود اور بہت سی محبتوں کے وہ پہلی محبت بیالیس برس بعد اب بھی جوان ہے اور اکیس برس کی عمر میں مجھے اس محبت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایسی حالت میں ناکام عاشق کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں۔ یا تو وہ خودکشی کرتا ہے۔ (مگر میں موت سے ڈرتا تھا اور اب بھی ڈرتا ہوں) یا وہ شاعری کرتا ہے اور شراب پیتا ہے (مگر مجھے شاعری سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی اور شراب مجھے کڑوی اور بدبودار لگتی تھی) اور یا وہ افسانے لکھتا ہے اور ان افسانوں میں اپنے ناکام عشق کی داستان کو ڈھال کر اپنے گھائل دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ (اور سو یہی میں نے کیا۔)

    میں نے پوچھا، ’’تو کیا تم سمجھتے ہو ہر ناکام عاشق افسانہ نگار بن سکتا ہے؟‘‘ اس نےجواب دیا، ’’ہر ایک ناکام عاشق افسانہ نگار نہیں بن سکتا مگر اس کو افسانہ نگار بنانے میں اس کی محبت کی ناکامی بھی مدد کر سکتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنے قلم کار بننے کی تین وجہیں بتائی ہیں۔ ان تینوں کو اپنے ذاتی معاملے سے ہٹا کر ایک عام اصول کی طرح بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ادب کی تخلیق کے تین محرک ہو سکتے ہیں۔ لکھنے والے کی اپنی انفرادیت اور خودی۔۔۔ اس کے ا پنے جذباتی تجربات و حادثات۔۔۔ اور اس کا سماجی، اقتصادی اور سیاسی ماحول۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم اپنی کہانیوں اور ناولوں میں سماجی اور اقتصادی اور سیاسی ماحول پر اتنا زور دیتے ہو، شاید اسی لیے لوگ کہتے ہیں تم محض ایک جرنلسٹ ہو، ادیب نہیں ہو۔‘‘

    ’’میری تخلیقات پر لوگ جو چاے لیبل لگائیں مگر وہ وہی ہیں (اور وہی ہوسکتی ہیں) جو میں ہوں۔ اور میں جو بھی ہوں، وہ جادو یا کسی معجزے کا نتیجہ نہیں ہے۔ ایک انسان اور اس کے سماج کے عمل اور ردعمل سے تخلیق ہوا ہے۔ انسان کا کیرکٹر ہی نہیں، اس کی قسمت بھی داخلیت اور خارجیت دونوں کے تانے بانے سے بنتی ہے اور اس حقیقت سے کوئی نہیں انکار کر سکتا چاہے وہ مارکس کا چیلا ہو یا فرائڈ کا پیرو۔ بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ زندگی کی بناوٹ میں نفسیات کا تانا زیادہ اہم ہے یا معاشیات کا بانا۔‘‘

    اب میں اس کی باتوں سے خاصا بور ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے انٹرویو کا آخری سوال پوچھا، ’’کیا تم کوئی واقعہ بتا سکتے ہو جس کا تمہارے کیریکٹر اور زندگی پر گہرا اثر پڑا ہو؟‘‘

    ’’ایسے تو ہزاروں واقعات ہیں۔ ہر ایک کی زندگی میں ہر روز کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ہوتا ہے جو بظاہر ہم بھول جاتے ہیں، مگر جو دل و دماغ پر اپنی انمٹ چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ ان سب کو یاد کرنے اور بیان کرنے کے لیے تو پوری کتاب چاہئے پھر بھی وہ فوجی پریڈ والا واقعہ تو میں بتاہی چکا ہوں۔ ایک اور سنائے دیتا ہوں۔ چاہو تو اسے ایک کہانی سمجھ لو۔۔۔ مگر یہ ایک سچی کہانی ہے جس کا عنوان ہے۔۔۔ اندھیرے کا ہمراہی۔

    ستمبر یا اکتوبر ۱۹۴۷ء جب آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، شیواجی پارک کے علاقے میں جو چند مسلمان خاندان رہتے تھے وہ سب اپنے اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مسلم علاقوں میں چلے گئے۔ صرف میں اور میری بیوی مجی اپنے سمندر کے کنارے والے فلیٹ میں اکیلے رہ گئے۔ چند سنگھی سورماؤں اور لیگی مجاہدوں نے کوشش کی کہ ڈرا دھمکا کر ہمیں بھی مجبور کیا جائے کہ یہ علاقہ چھوڑ دیں لیکن مجی نے (جو آج اس دنیا میں نہیں ہے) کہا اگر شیواجی پارک میں ہمارے لیے زندہ رہنا ناممکن ہے تو پھر زندہ رہنا ہی بےکار ہے اور سو ہم وہیں رہے۔)

    میں ان دنوں ’’بمبئی کرانیکل‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا۔۔۔ ایک رات کو میں دادر کے اسٹیشن پر ریل سے اترا۔ دیکھا بازار سب اندھیرے اور سنسان ہیں۔ کرفیو لگا دیا گیا ہے اور نو بجے کے بعد کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت تقریباً پونے نوبجے تھے۔ میں نے جلدی جلدی قدم بڑھائے کہ کرفیو کے وقت سے پہلے اپنے گھر پہنچ جاؤں۔ راستے میں دادر کی ایک اندھیری گلی میں سے گزر رہا تھا کہ میں نےمحسوس کیا کہ کوئی پیچھے چلا آ رہا ہے۔ (میں فطرتاً کوئی بہادر نہیں ہوں۔ اگر میں اس خطرناک زمانے میں اندھیرے اجالے اس طرح اکیلا گھومتا تھا تو اس میں بہادری سے زیادہ ضد کو دخل تھا۔ ) میں نے سوچا آج میری موت آ گئی۔ مگر اب تو بھاگنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سوچ کر میں نے اپنے قدم دھیمے کر دیے اور جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے بالکل قریب آ گیا ہے، میں ایک دم ٹھہر کر مڑا۔ ایک لمحے کے لیے وہ بے چارہ ٹھٹک گیا کہ شاید میں اس پر حملہ کرنے والا ہوں۔

    اس کو اطمینان دلانے کے لیے میں نے پوچھا، ’’کیوں کرفیو لگا ہے کیا؟‘‘ اس نے کہا، ’’ہاں نوبجے کرفیو ہے ادھر۔ مگر شیواجی پارک میں نہیں ہے۔‘‘ اب ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مگر کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے جا رہے تھے۔

    ’’کیوں بھئی تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’شیواجی پارک۔ اور تم؟‘‘

    ’’میں بھی شیواجی پارک۔‘‘

    ’’وہاں رہتے ہو کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کون ہو تم؟ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘

    میں اس سوال کا انتظار ہی کر رہا تھا اور اس سوال سے ڈر بھی رہا تھا، اب کیا جواب دوں؟ کہوں کہ میرا نام گوپال راؤ ہے یا موہن لال ہے یا وسنت ڈیسائی ہے اور اگر اس نے جرح شروع کر دی اور بھانڈا پھوٹ گیا تو؟ یا یہ کہوں کہ تم کون ہوتے ہو میرا نام پوچھنے والے۔ اس سے تو اسے شبہ کیا، یقین ہو جائےگا کہ میں اپنا نام چھپا رہا ہوں۔ سو میں نے کہا، ’’میرا نام ہے احمد عباس۔ خواجہ احمد عباس۔‘‘ اس نے کہا، ’’تم پیپر میں کام کرتے ہو نا؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں بمبئی کرانیکل میں۔‘‘

    ’’اور تم ابھی تک شیواجی پارک میں رہتے ہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں۔ کئی برس سے ہم یہیں رہتے ہیں۔‘‘ اور اتنے میں ہم پولیس کے سپاہیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزر کر شیواجی پارک والی سڑک پر آ گئے۔ یہاں کرفیو نہیں تھا۔ میرے ہم راہی نے کہا، ’’میٹنگ میں چل رہے ہو عباس بھائی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کون سی میٹنگ؟‘‘

    ’’سورکشن دل بنا رہے ہیں۔ سب شیواجی پارک کے رہنے والے اکٹھے ہوں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’چلو ضرور چلتا ہوں۔‘‘ سو ہم دونوں اکٹھے اس جلسے میں شریک ہوئے۔ سو، سوا سو آدمی موجود تھے اور ان میں سے اکثر مجھے جانتے تھے۔

    ’’آؤ آؤ۔ عباس بھائی آؤ۔‘‘ چاروں طرف سے آوازیں آئیں۔ تجویز پیش کی گئی کہ اپنے علاقے میں امن قائم رکھنے کے لیے ایک سورکشن دل بنایا جائے۔ کمیٹی کے ممبروں کا چناؤ ہوا۔ پہلا ممبر جس کو چنا گیا اس کا نام تھا خواجہ احمد عباس۔ اور جن لوگوں نے میرے نام پر اپنے ہاتھ اٹھائے ان میں وہ بھی تھا جس کو چندمنٹ پہلے میں اپنا قاتل سمجھتا تھا۔ میں نے سوچا جلسے کے بعد اس سے ملوں گا، مگر جلسے کے بعد جو افراتفری ہوئی ہے، اس میں وہ کھو گیا اور آج تک مجھے اس کا نام نہیں معلوم۔ مگر اس آدمی نے میری زندگی کے ایک نہایت نازک موقعے پر انسانیت میں میرا اعتقاد (جو اس وقت ڈگمگا سکتا تھا) پھر مستحکم کردیا۔ اور اپنی یادوں کے اندھیرے میں اب بھی اس گمنام انجانے ہم راہی کے قدموں کی آواز سنتا ہوں اور جب میں مڑتا ہوں، اور ہم آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔

    ’’کون ہو تم؟ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘

    اور میں بےخوفی اور کسی قدر فخر سے جواب دیتا ہوں، ’’احمد عباس۔ خواجہ احمد عباس۔ جو ساٹھ برس ہوئے پانی پت میں پیدا ہوا تھا۔ میرے پڑنانا تھے خواجہ الطاف حسین حالی۔ جن کی ’مسدس حالی‘ کے تین سو ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ لیکن جنہوں نے کبھی اپنے لیے یا اپنی اولاد کے لیے اس کی رائلٹی کا ایک پیسہ نہیں لیا۔ کیوں کہ وہ کتاب انہوں نے قوم کو جگانے کے لیے لکھی تھی۔ اس کی بکری سے پیسے بنانے کے لیے نہیں۔ اور میرے باپ تھے خواجہ غلام السبطین، جنہوں نے مجھے سچ بولنا سکھایا، کسی کے سامنے سر نہ جھکانا سکھایا۔ جنہوں نے ایک بار گھر کے نوکر چھوکرے کو ’’الو کا پٹھا‘‘ کہنے کی یہ سزا دی تھی کہ بارہ گھنٹے تک اندھیرے کمرے میں بنا کھانا پانی کے بند کر دیا تھا، جب تک میں نے ہاتھ جوڑ کر اس لڑکے سے معافی نہ مانگی تھی اور اس طرح انہوں نے مجھے سکھایا تھا کہ سب انسان برابر ہیں۔ کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہیں ہے۔ اور جنہوں نے مرتے دم میرے لیے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی تھی، سوائے انسانیت کے چند اصولوں کے۔

    اور میری والدہ تھیں سرورۃ النساء بیگم۔ جنہوں نے اسکول کالج میں تعلیم نہ پائی تھی۔ نہ کسی سیاسی پارٹی میں شریک ہوئی تھیں۔ لیکن جو آخری دم تک تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا شکار نہ ہوئیں اور فسادات کے دنوں میں کتنی ہی تکلیفیں اٹھا کر بھی انسان دوستی کا دامن نہ چھوڑا۔ مگر میں اپنے خون کے رشتے داروں ہی کی اولاد نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک اور قوم کی بھی اولاد ہوں۔ میرے عزیز اور رشتے دار پاکستان میں تو ہیں ہی، مگر انسانیت اور سوشلزم کے ناطے سے میرے رشتے دارساری دنیا میں۔۔۔ امریکہ اور روس میں، انگلستان، چین اور جاپان میں پھیلے ہوئے ہیں اور جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ مجھ پر (اور ہر شخص پر) اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک یورپین شاعر جان ڈون نے کہا ہے،

    ’’کوئی انسان جزیرہ نہیں ہے

    ہر انسان سمندر میں ایک قطرہ ہے

    ہر انسان زمین کا ایک ذرہ ہے

    ہر انسان کی موت میری موت ہے

    کیوں کہ میں اور انسانیت جدا جدا نہیں ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر آخر کار وہ خاموش ہو گیا۔ تب میں نے کہا، ’’بےشک، ساری انسانیت تمہارے اندر سمائی ہوئی ہے لیکن نہ بھولو کہ اور کسی سے زیادہ تم پر میرا حق ہے۔ اگر تم نے کبھی مجھے اپنے آپ سے جدا کیا تو تم کروڑوں میں سے صرف ایک اکائی رہ جاؤگے۔ انسانیت عظیم ہے اس لیے کہ ہر انسان کی ایک خودی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خودی میں خدائی بھی ہے لیکن تم بھی اتنا تو مانوگے کہ انسان میں خودی ہے اور ہر خودی میں ایک انسان ہے۔ یعنی تم میں میں ہوں۔ جیسے مجھ میں تم ہو۔‘‘

    یہ کہہ کر میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اس نے میری آنکھوں میں اور پھر وہ میری نگاہ کے آئینے میں ایسے کھو گیا جیسے ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کبھی الگ ہوئے ہی نہیں تھے۔

    مأخذ:

    خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے (Pg. 74)

      • ناشر: سیمانت پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے