Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ان کی عید

ذکیہ مشہدی

ان کی عید

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ بابری انہدام کے دوران ہوئے فسادات میں اپنے عزیزوں اور املاک کو کھو دینے والے ایک مسلم خاندان کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ ممبئی میں ان کا اپنا ایک اچھا سا گھر تھا اور چلتا ہوا کاروبار بھی۔ انہوں نے اپنے ایک دو عزیزوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا۔ پھر شہر میں فساد بھڑک اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ وہ واپس گاؤں لوٹ آئے، مایوس اور بدحال۔ گاؤں میں یہ ان کی دوسری عید تھی، لیکن دلوں میں پہلی عید سے کہیں زیادہ غم تھا۔

    منیر میاں نے حسب دستور مشینی انداز میں وضو کیا اور گھٹنوں پرہاتھ رکھ کر اٹھے۔ جسم جیسے گیلاآٹا ہورہا تھا، جدھر جھکو ادھر ڈھلک جائے۔ ’’آتا ہوں نیک بخت۔‘‘ انہوں نے بیوی سے کہا، جو پچھلے دوسال میں بیس برس کا سفر طے کرچکی تھیں۔ ہاتھوں میں رعشہ اور نظر کم زور۔ وہ بھی گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر شوہر کے پیچھے کواڑ بند کرنے کو اٹھیں۔

    منیر میاں محلے کی مسجد کی طرف نکل گئے۔ برآمدے میں لوہے کے ہک سے ٹنگے پنجرے میں قید مٹھو چلایا، ’’دروازہ بند کرو۔ دروازہ بند کرو۔‘‘ پھر بڑی میٹھی آواز میں بولا، ’’اماں آں۔‘‘

    کانپتے ہاتھوں سے ساجدہ بیگم نے دروازہ بند کیا۔ کافی دن کے علاج کے بعد اب بدن کی کپکپاہٹ کم ہوگئی تھی، لیکن انگلیاں پھر بھی قابو میں نہیں رہتی تھیں۔ خاص طور سے جب منیر میاں باہر جاتے اور وہ پیچھے سے کواڑ لگاتیں۔ کیا بند دروازے تحفظ کی گارنٹی ہیں؟ وہ کواڑ توڑ نہ دیں گے؟ وہ، جو کواڑ توڑدیتے ہیں۔

    ’’اماں۔۔۔ آں۔‘‘ یہ تو مٹھو ہے۔ صرف مٹھو۔ پھر وہ کیوں چونکیں؟ جیسے جیسے معصوم بچہ ماں کی چھاتی منہ میں لیے لیے چونک جائے۔ کواڑ بند ہیں۔ نمازی نماز میں مصروف ہیں۔ فضا خاموش ہے۔ دسویں رمضان کے چاند میں چمک بڑھ چلی ہے۔ سب طرف خیریت ہے۔ ان کے دل میں بھی۔ اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

    ’’اب کی عید دیکھیے، تین کو پڑتی ہے یا چار کو۔‘‘ باسط، شام کو افطار پر چلا آیا تھا۔

    کیا فرق پڑتا ہے۔ کبھی پڑے۔ ہر روز روزِ عاشور ہے۔ فرات کے کنارے ٹھاٹیں مارتے پانی سے چند قدم دور العطش، العطش کی صدائیں۔ سنا ہے زخم کھانے والے پانی مانگتے ہیں۔ زخم لگیں تو پیاس بھی لگتی ہے۔ اس کے سارے جسم پر زخم ہی زخم تھے۔ اسے کسی نے پانی دیا تھا؟

    منیر میاں نے باسط کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اذان کی آواز بلند ہوئی، ’’لومیاں روزہ کھولو۔‘‘ انہوں نے قدرے شرمندگی کے ساتھ پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔ چند کھجوریں تھیں اور ایک طشتری میں ابلے ہوئے کابلی چنے۔ سوجی کا حلوہ البتہ کٹورا بھرکر تھا، جو باسط کے آنکلنے پر جلدی جلدی تیار کرلیا گیا تھا۔ ایسے ہی موقعوں کے لیے ساجدہ چچی کچھ جلد تیار ہوجانے والی چیزوں کاانتظام رکھتی تھیں کہ شاید کوئی آنکلے۔

    ’’بیٹا۔ ہم لوگ کھجور سے روزہ کھول کر نماز پڑھتے ہیں، پھر سیدھے ہی کھانا کھالیتے ہیں۔ تم ذرا پہلے آتے تو افطاری تیار ہوجاتی۔ اب نماز پڑھ آؤ، پھر کھانا کھاکے ہی جانا۔ جو بھی ہے دال دلیہ۔ بیٹا اب کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پکانے کو۔‘‘

    ’’حلوا بہت سا ہے چچی۔‘‘ باسط نے جلدی سے کہا، ’’مزے دار بھی ہے۔ اور کھانا تو میں تراویح کے بعد کھاتا ہوں، اس لیے آپ کھانے کی فکر نہ کریں آپ لوگ اپنے معمول کے مطابق کھالیجیے گا۔‘‘

    دونوں خاموشی سے باسط کے حلوا ختم کرنے کا انتظار کرنے لگے تھے۔

    ’’چچا، تھوڑا سا آپ بھی تو لیجیے۔‘‘ باسط نے پیالہ منیر میاں کی طرف بڑھایا۔ ایسا لگا جیسے وہ میزبان ہے اور منیر میاں مہمان۔

    ’’نہیں بیٹا۔ نہیں ہضم ہوگا۔‘‘ انہوں نے مختصر سا جواب دیا۔

    باسط خاموشی سے مونہہ چلاتا رہا۔ صرف تین سال پہلے لانبے، مضبوط منیر چچا کٹورا بھر تر تراتا حلوا کھاکر ایک بڑا گلاس دودھ پیا کرتے تھے اور اپنی عمر سے دس برس کم نظرآتے تھے۔ مگر اب کسی پرانی حویلی کی دیواروں کی طرح ڈھے گئے ہیں منیر چچا۔ باسط بمبئی گیا تھا تو ان لوگوں کا مہمان بنا تھا۔ بڑی خیر ہوئی جو وہ فسادات سے پہلے واپس آگیا تھا۔ لیکن ظفر ماموں اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ ظفر ماموں جو باسط کے سگے ماموں ہوتے تھے اور ساجدہ چچی کے خالہ زاد بھائی۔ ہنس مکھ، محنتی۔ ان کی پرچون کی دکان تھی۔ مزے میں کھا کما رہے تھے۔ موت نے چپکے سے کان میں کہا، دکان میں ریڈی میڈ کپڑوں کا کاؤنٹر بھی کھول لو۔ بہت منافع ہوگا۔ وہ مشورہ مان کر منیر چچا کے پاس پہنچ گئے بمبئی۔ ادھر فضا گرم ہونے لگی تھی اور دھول اٹھ رہی تھی۔ چھ دسمبر کو سورماؤں نے اپنا غصہ اینٹ پتھر کی بے جان پانچ سو سالہ پرانی عمارت پر اتارا۔ پھر ظفرماموں، اجودھیا سے سیکڑوں میل دور روزی روٹی کی تلاش میں نکلے ہوئے ظفرماموں، دو جوان ہوتی ہوئی بیٹیوں اور دو بڑھتے بیٹوں کے باپ، والدین کی دھندلاتی آنکھوں کے تارے، نہتے اور بے قصور ذبح کردیے گئے۔

    ظفر کس کی راہ میں ذبح کیا گیا؟ وہ کسی پیغمبر کا بیٹا نہیں تھا کہ اس کی قربانی اللہ کو منظور ہوتی۔ ظفر کسی فوج میں نہیں لڑ رہا تھا کہ دشمن کے سپاہی اسے قتل کرتے۔ ظفر کسی ایسے جرم میں ملوث نہیں تھا کہ قانون اسے موت کی سزا سناتا۔ ظفر کسی کے خون کا قصاص بھی نہیں تھا۔ ظفر کا میر باقی سے کوئی رشتہ تھا یا اس کے خاندان کا کوئی شخص باہر سے تعلق رکھتا تھا، اس کے امکانات بھی نہیں تھے۔ لیکن ساجدہ چچی بہت پڑھی لکھی نہیں تھیں اور میرباقی کا تو انہوں نے نام تک نہیں سنا تھا۔ کچھ عرصے پہلے تک تو وہ بابری مسجد کو بھی نہیں جانتی تھیں۔ اس لیے وہ اتنے سارے الفاظ نہیں استعمال کرسکتی تھیں۔

    وہ تو صرف حیران و پریشان کھڑی کفِ افسوس ملتی رہیں اور بھائی کے غم میں ان کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اب وہ بھاوج سے کس منہ سے ملیں گی۔ صبح تک تو ظفر بالکل ٹھیک تھا۔ ہٹا کٹا، خوش مزاج اور صحت مند۔ ہاں، مسجد ٹوٹنے کی بات عام ہوئی تو اس کی آنکھوں میں ایک سلگی سلگی سی کیفیت ضرور بیدار ہوئی تھی۔ اس نے بازو پر سیاہ پٹی باندھی تھی بس۔ لیکن کیا اپنے کسی نقصان پر رنج کے اظہار کی سزا موت ہوا کرتی ہے؟ کون سے قانون کے مطابق؟ کس جنگل کا قانون تھا یہ اور کس نے اشرف المخلوقات کو یہ قانون سکھایا تھا؟ ساجدہ بیگم کو نہیں معلوم تھا کہ جنگل کے زیادہ بے رحم قانون ابھی ان کے منتظر ہیں۔

    ’’بیٹا، اٹھو۔ مغرب کی نماز کا وقت بڑا مختصر ہوتا ہے۔‘‘ منیر چچا نے باسط سے کہا۔

    ’’اور زندگی کا بھی۔ صرف دکھوں کی کالی رات طویل ہوتی ہے۔‘‘ باسط نے جلدی سے حلوے کا آخری چمچہ منھ میں ڈالا۔

    ساجدہ چچی نے دھیمی آنچ پر چائے کا پانی رکھ دیا اور خود بھی نمازکے لیے سر پر دوپٹہ درست کرنے لگیں۔ دونوں نماز پڑھ کر آئیں گے تو وہ چائے کی کشتی حاضر کریں گی۔ بس ایک چائے تھی جو برقرار رہ گئی تھی۔ باقی سارے شوق میاں بیوی نے ترک کردیے تھے۔ ساجدہ چچی نے پان تک چھوڑ دیا تھا۔

    منیر میاں اور باسط لپ جھپ مسجد کی طرف چلے جو بالکل قریب ہی تھی۔ سلام پھیرتے وقت دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں۔ باسط اسی لیے ان کے یہاں آنے سے کتراتا تھا۔ جب بھی ملو ایسا گہرا ضمحلال طاری ہوجاتا تھا کہ دوچار دن کسی کام میں جی نہ لگے۔ ایسی بے چارگی تھی منیر میاں کے چہرے پر۔ باسط کے دل میں ہولناک خیالات اٹھنے لگے۔ خدا کے حضور میں جھکے یہ سرکیا صرف اس لیے تہہ تیغ کردیے جائیں گے کہ وہ ایک مخصوص سمت کی طرف منہ کر کے خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں؟ چوڑے شانوں والا، محبوب عالم گھڑی ساز، زردوزی کا چھوٹا سا کارخانہ چلانے والا سراج، اٹھارہ سالہ کھلنڈراببی۔۔۔ کیا یہ سب ماردیے جائیں گے؟ کیا ان کے چہرے پتھروں سے کچل دیے جائیں گے کہ ان کی شناخت نہ ہوسکے، جیسے فسادات کے دوسرے دور میں ذی شان۔۔۔

    لاحول ولاقوۃ! باسط، تم نے تو فساد جھیلا بھی نہیں۔ زندہ سلامت ہو۔ تب بھی تمہارا دماغ یوں خراب ہو رہا ہے۔ خاموش کل جھبے! کیوں کالی باتیں سوچ رہے ہو؟رات کالی ہے۔ دن میں سورج چھپا چھپا سا رہتا ہے اور تاتاریوں کے غول حرکت میں ہیں۔ ان سب کو اچھا رکھیو اللہ تعالیٰ۔۔۔ باسط نے لرزکر سوچا اور دعا کی، اور بنی نوع انسان کو عقل دیجیو اللہ تعالیٰ جو تم نے آج تک نہ دی، اگرچہ اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔

    منیر چچا کی پیشانی پر سیہ گٹہ چمک رہا تھا۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ پھیلادیے تھے اور ہل ہل کر قلب کی انتہائی گہرائیوں سے دعا مانگ رہے تھے۔ لیکن اب انہیں کیا مانگنا تھا اللہ سے؟ کیا ذی شان اور نورین کی مغفرت کی دعا مانگ رہے تھے وہ؟ جس لڑکے کو گھر سے گھسیٹ کر باہر نکالا جائے اور پھر پتھروں سے کچل کچل کر ہلاک کردیا جائے، کیا اس کے کسی گناہ کی سزا باقی رہ جاتی ہے جو اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے؟ اور نورین۔۔۔ باسط تیز ہوا میں کسی لنڈ منڈ درخت پر لگے واحد پتے کی طرح کانپا۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کی آنتیں منھ کو آرہی ہیں اور اس کا کھایا پیا سب وہیں باہر آجائے گا۔ نورین کو وہ اٹھالے گئے تھے۔

    ’’اللہ!‘‘ منیر چچا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے۔ اللہ پر منیر چچا کا یقین کیسے باقی ہے؟ نمک کی ڈلی کی طرح گھلنے والے منیر چچا یہ سوچ کر کہ وہ کیوں زندہ بچے، پل پل مرنے والے منیر چچا۔ انہوں نے باسط کے کندھوں پر ہاتھ رکھا، ’’چلو بیٹا، چائے پی لو۔ اور پھر واپس اپنے گھر جانا۔ تمہاری چچی چائے لے کر بیٹھی ہوں گی۔‘‘

    باسط خاموشی سے ساتھ چلنے لگا۔

    ’’بچوں کے کپڑے لتے بنوالیے؟‘‘ منیر چچا نے سوال کیا۔

    ’’جی۔‘‘ کہتے ہوئے باسط کو جیسے گناہ کا احساس ہوا۔ وہ کیوں خوش ہے؟ خوشیوں پر اس کا کیا حق ہے؟

    ’’شمشاد کو ہم لوگوں نے اس کی خالہ کے گھر بھیج دیا ہے۔ وہاں اس کی عمر کے بچے ہیں۔‘‘ منیر میاں نے کم زور آواز میں کہا۔

    ’’معلوم ہے چچا۔‘‘ باسط نے مختصر سا جواب دیا۔

    شمشاد منیر چچا کاد س سالہ پوتا ہے۔ ذی شان اور نورین کا بچہ۔ بلکہ بچا ہوا بچہ۔ اس نے اپنے باپ کو بلوائیوں کے ہاتھوں گھسیٹے جاتے دیکھا۔ اپنی نوجوان ماں کی کربناک چیخیں سنیں۔ اپنے سولہ سالہ بھائی کو پولیس کے ہاتھوں انتہائی بے رحمی سے پٹتے دیکھا۔ پھر یہ تینوں کبھی واپس نہیں آئے۔ زندگی نے دھول، مٹی، آگ، دھوئیں اور خون میں لوٹ لگائی اور جب وہ پلٹی تو اس کا چہرہ مختلف ہوچکا تھا۔ کسی دیوانی چڑیل کاچہرہ یا قبرستان کا چہرہ جہاں سناٹا ہوتا ہے، اور وحشت اور عبرت ہوتی ہے اور عید محرم کا سماں پیش کرتی ہے۔

    العطش، العطش۔ یہ گلا کیوں سوکھتا ہے اتنا؟ کیا بدلے کی آگ سے جو سینوں میں دہک رہی ہے؟ مستقبل کے خوف سے جو عدم تحفظ کا احساس جگاتا ہے؟

    منیر چچا نے اپنی چھوٹی سی بیکری بیچ دی تھی۔ وہ اب وہاں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ ان خوفناک یادوں کے بیچ اور پھر ان دھمکیوں کے درمیان جو فساد ہوجانے کے بہت بعد تک انہیں ملتی رہی تھیں۔ کوئی مسلمان وہ بیکری خرید نے کو تیار نہیں تھا، اس لیے کہ وہ غیر مسلم علاقے میں تھی۔ اور وہ جو پہلے قطعی بے ضرر تھے، اب سارے کے سارے ضرر کی علامت بن چکے تھے اور دلوں میں خوف جگانے لگے تھے۔ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں میں خوف جگانے لگے تھے، اگرچہ زندگی ان سب کے لیے یکساں سکھ دکھ سے عبارت تھی۔ یکساں سکھ دکھ اور یکساں سود و زیاں۔ اور ان سب کی رگوں میں بہنے والا لہو بھی ایک جیسا ہی تھا۔ پھر بھی ان میں سے کچھ، دوسروں کے لیے ضرر کی علامت تھے۔ اور جو کچھ ہو رہا تھا یا ہوا تھا، ہونا نہیں چاہیے تھا۔

    بیکری نہایت اونے پونے فروخت ہوئی۔ اپنے وطن واپس آکر منیر میاں نے یہ ٹوٹا پھوٹا بے رونق مکان خریدا۔ اس سے بہتر کی نہ ان کی استطاعت تھی، نہ خواہش۔ باقی روپوں سے انہوں نے چھوٹی سی پرچون کی دکان کھولی۔ شمشاد ان کی زندگی کا واحد سہارا تھا۔ اسے پروان چڑھانا تھا۔ جب تک زندہ تھے، پیٹ میں کچھ ڈالنا تھا اور ظفر کے کنبے کو بھی دیکھنا تھا۔ برسہابرس سے روشنیوں اور کنکریٹ کے اس دیوقامت شہر میں رہنے کی عادت کے باوجود وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے آبائی قصبے میں رہنے لگے تھے۔

    ’’رہتے تو بیٹا ہم اپنے جسم کی قبر میں ہیں۔ اور ہم کہیں نہیں رہتے۔‘‘ منیر چچا نے سادگی سے کہا تھا، ’’اور اگر جسم قبر بن جائے تو بمبئی کیا اور یہ گاؤں نما قصبہ کیا۔‘‘

    پچھلی عید پر، جو یہاں منیر میاں کی پہلی عید تھی، سارے عزیز ان کے گھر ضرور آئے تھے، اور کسی کے گھر گئے ہوں یا نہ گئے ہوں۔ سب کے دل اداس ہوگئے تھے۔ دونوں میاں بیوی کے سپاٹ چہرے ایسے تھے جیسے کسی گھر کے مقفل کواڑ۔ ’ہمارا دکھ تمہارے ساتھ بانٹنے لائق نہیں ہے، ان مقفل کواڑوں پر لٹکی تختی پر لکھا تھا، اسے اندر ہی رہنے دو، ورنہ یہ تمہیں سیل بلاکی طرح بہالے جائے گا۔ انہوں نے دل کے کواڑ مقفل رکھے، پھر بھی لوگ اداس ہوئے اورمنورآپا تو ساجدہ چچی سے لپٹ کر اتنا روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں۔ دراصل ان کا جوان داماد ان ہی دنوں کافی عرصہ بیمار رہ کر مرگیا تھا۔ بڑا ہی نیک اور بیوی بچوں سے محبت کرنے والا انسان تھا۔ گھریلو اور محنتی۔ اچھا کماتا تھا اور دل کھول کر خرچ کرتا تھا۔ مبارک ہیں وہ جو چین سے مرتے ہیں۔ بندکواڑوں کے اندر سے باہر لے جائے جاکر، بے خطا، بے قصور سنگسار نہیں کیے جاتے۔ مگر ساجدہ چچی نے کہا کچھ نہیں۔ خاموش رہیں۔ ان کا دکھ سمندر تھا جو دوسروں کے دکھ کی ندیوں کو اپنے اندر خاموشی سے سمیٹ لیتا تھا۔ سمندر گہرا ہوتا ہے اور سمندر میں کبھی سیلاب نہیں آتا۔ صرف اندر ہی اندر دھارے چلتے ہیں، سرد بھی اور گرم بھی۔

    باسط کو ان لوگوں سے بے حد ہمدردی تھی، لیکن وہ عید کے دن وہاں نہیں آنا چاہتا تھا۔ گھر پر ہو کا عالم۔ ایک قبل از وقت بوڑھا ہوجانے والا مرد اور ایک قبل از وقت بوڑھی ہوجانے والی عورت، جس کے چہرے پر بے چارگی پتی ہوئی تھی اور آنکھیں لبالب کٹورے۔ برآمدے کی کھپریل سے لٹکا مٹھو کا پنجرا۔

    ’’اماں۔۔۔ آں۔۔۔!‘‘

    کس نے پکارا؟ ذی شان نے یا سعادت مند خوش شکل، رن جھن پائل بجاتی بہو نے؟ (یامظلوم ظفر نے جس کا اس عفریت نما شہر سے کوئی واسطہ یا مطلب ہی نہ تھا۔ وہ وہاں صرف مرنے آیا تھا) یا کھٹے میٹھے تجربوں سے گزرتی ان کی سابقہ خوش و خرم زندگی نے۔۔۔؟

    کسی نے بھی نہیں۔ یہ تو مٹھو ہے جو بے سوچے سمجھے بولتا ہے۔

    ساجدہ چچی نے پھر بھی صاف دھلا ہوا دسترخوان بچھایا تھا۔

    ’’چچی!‘‘ باسط اور ساتھ آئے ہوئے دو اور عزیزوں کے منھ سے بیک وقت نکلا تھا۔

    ’’عید ہے بیٹا۔‘‘ انہوں نے رسان سے کہا تھا، ’’منہ میٹھا کرو۔ تیوہار کے دن تم کیوں بدشگونوں سے گزرو۔‘‘

    پھر وہ دو پیالیوں میں سوئیاں لائیں، سادی بالکل۔ ابال کر صرف دودھ، چینی ڈالی ہوئی اور صرف سوئیاں۔ زندگی کی طرح ان کا بھرا پرا دسترخوان بھی سمٹ چکا تھا۔ لوگوں نے چپ چاپ سوئیاں کھالیں کہ چچی کی دل شکنی نہ ہو۔ پھر وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھیں، طاق پر سے ٹٹول کر سونف کی طشتری اٹھائی، ’’لو سونف لو۔‘‘ ان لوگوں نے خاموشی سے سونف بھی لے لی۔ تھوڑی دیر یوں ہی بیٹھے رہ کر انہوں نے کہا،

    ’’اب چلتے ہیں چچی۔‘‘

    ’’اچھا بیٹا۔‘‘ چچی نے جواب دیا۔

    باسط اور وہ عزیز رخصت ہوگئے۔ ان کے باہر نکلنے پر کواڑ کھلا تو کنڈی دیر تک کھڑکتی رہی۔

    ’’کون ہے؟ کون ہے؟‘‘ مٹھو نے پنجرے میں چک پھیریاں لگائیں، پھر خود ہی بولا، ’’کوئی نہیں۔ کوئی نہیں۔‘‘

    سارے عزیز نماز کے بعد ہی ایک ایک دو دو کرکے آکے مل گئے تھے۔ اب اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو۔ ذی شان کبھی نہیں آئے گا۔ نورین کا دَلا ہوا، کٹا پھٹا جسم تک نہیں ملے گا اور ان کے بڑے بیٹے نوشاد کا بھی نہیں۔ اور ظفر بھی وہیں گیا ہے۔ وہ بھی نہیں آئے گا۔ مگر تم کیوں رنجیدہ ہوتے ہو؟ منیر میاں وہ تو بہت سے تھے جو یوں مارے گئے۔ عید تم اکیلے کی تو نہیں، ان سارے گھروں میں ایسی ہی عید ہے۔ مہندی، عطر، پان، سوئیوں، مٹھاس اور مسرتوں سے عاری۔ بے رنگ و نور۔

    دھوپ چھوٹے سے کچے آنگن میں لگے امرود کے درخت کی پھنگ سے ہوتی ہوئی دیوار پر چڑھ چکی تھی۔ پانچ بج رہے ہوں گے۔ ساجدہ بی بی نے عصر کی نماز کے لیے وضو کرنا شروع کردیا تھا۔ صبح نورین کے رشتے کے خالو وصی احمد بھی آئے تھے۔ ساتھ میں بچے بھی تھے۔ کہہ گئے تھے کہ ان کی اماں نہیں آسکیں۔ کل آئیں گی۔ آج فرصت نہیں ملے گی۔

    ’’تیوہار کے دن عورتوں کو کہاں فرصت؟‘‘ ساجدہ بی بی نے صدق دلی سے کہا۔ خدا نہ کرے جو کسی کو عید کے دن ایسی فرصت ملے۔ انہوں نے مسح کے لیے بالوں میں انگلیاں پھیریں، وضو مکمل کیا اور جھکی جھکی سی اٹھنے لگیں۔ اللہ۔۔۔ پھر انہوں نے عصر کے بعد مغرب کی نماز پڑھی اور پھر عشا کی۔ عید ختم ہوئی۔ کسی بھی عام دن کی طرح وہ عید کا دن تھا۔ پھر بھی اس میں کوئی خاص بات نہیں ہوسکی تھی۔ وہ ویسا ہی دن تھا جیسا اب گزرنے والا کوئی بھی دن۔ بے کراں، اداس اور بے حساب اجاڑ۔ دل کے ریگستان میں آگ برساتی ہوائیں چکراتی پھرتی تھیں اور چہرے کے کواڑ مقفل تھے۔

    منیر چچا کے ساتھ چلتا ہوا باسط سوچ رہا تھا کہ اس بار عید پر ان کے یہاں لوگ شاید پچھلی بار سے کم آئیں۔ پچھلی بار ان کی پہلی عید تھی۔ خود باسط دوبار رمضان میں آچکا ہے۔ آج ان کے ساتھ افطار بھی کرلیا ہے۔ اگر عید میں نہ آسکا تو ایسی کوئی شکایت کی بات نہیں ہوگی۔ وہ بے رحمی نہیں برت رہا ہے، نہ ہی طوطا چشمی۔ وہ اپنے اندر کی اس بے کلی سے بچنا چاہتا ہے جو ان کی عید میں شریک ہوکر اسے ملتی ہے۔ عید جو جاڑوں میں ہلکے بادلوں سے چھن کر آتی اداس، مریل دھوپ کی طرح ان کے آنگن میں اترتی ہے اور شام ہونے سے پہلے دبے پاؤں رخصت ہوجاتی ہے اور رات کو سونے سے پہلے وہ دعا کرتے ہیں کہ صبح کو ان کی آنکھیں نہ کھلیں تو کتنا اچھا ہو۔ دنیا کا کیا ہے۔ دنیا تو یوں ہی رواں دواں رہے گی۔

    مأخذ:

    صدائے باز گشت (Pg. 112)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے