Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علی! علی!

بلونت سنگھ

علی! علی!

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    یہ نوجوانوں میں جوش بھر دینے والے نعرے ’علی علی‘ کی کہانی ہے۔ ورسا ایک کڑیل سکھ نوجوان ہے۔ ایک میلے میں پولس کے ساتھ اس کا کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے، تو پولس اسے ڈھونڈھتی پھرتی ہے۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ۔ ایک روز جب وہ اپنی معشوقہ سے ملنے گیا ہوتا ہے، تندرست گھوڑے پر سوار تھانیدار اسے پکڑنے پہنچتا ہے۔ پیدل ہونے کے باوجود بھی ورسا اس کی گرفت میں نہیں آتا۔ وہ ’علی علی‘ کا نعرہ لگاتا ہوا ہر دم اس کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے۔

    علی! علی! لگ بھگ پینتیس برس پہلے کا پنجاب۔۔۔

    یہ اسی دو رکے پنجاب کی ایک سچی کہانی ہے۔

    ان دنوں پنجاب کے دیہات میں بہت سی عام کہاوتوں میں سے ایک کہاوت یہ بھی تھی کہ مرد ہمیشہ شراب یا عورت کے باعث ہی پولیس کے چنگل میں پھنستا ہے۔

    کم از کم ورسا سنگھ کے معاملے میں یہ کہاوت واقعی درست ثابت ہوئی۔

    ایک پورن ماشی کی رات کو وہ اپنے گاؤں سے دس کوس دور موضع ٹنڈے گورو میں اپنی محبوبہ روپی سے ملنے کے لیے گیا۔

    یہ ملاقات گاؤں سے باہر رہٹ کے قریب والے طویلے میں ہوئی۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے کھیت، رہٹ اور طویلہ روپی کے باپ کی ملکیت تھے۔ پریمی سے ملاقات کا یہ سنہرا موقع تھا۔ اس کا باپ اور بھائی ریڑھی (یعنی صندوق نما گھوڑا گاڑی) میں شہر گئے ہوئے تھے۔ آدھی رات سے پہلے ان کے لوٹ آنے کا امکان نہیں تھا۔ پارو، روپی کی سہیلی ہی نہیں منہ بولی بہن بھی تھی۔ اس قسم کی ملاقاتیں کرانے میں اسی کا ہاتھ ہوتا تھا۔ اب بھی جب کہ دو محبت کے مارے دل طویلے کے اندر دکھ سکھ کی باتیں کر رہے تھے، باہر پارو رہٹ کی گادھی (گدی) پہ بیٹھی بیلوں کو ہانک رہی تھی۔ رہٹ کے اوپر پھیلے ہوئے برگد کے پیڑ کی چھتر چھایا تھی۔ ذرا فاصلے پر صرف رہٹ کی روں روں کا شور سنائی دیتا تھا۔ پارو نظر نہیں آتی تھی۔ البتہ اس کی بڑی بڑی اور تیز آنکھیں پھیلی ہوئی چاندنی میں دور دور تک دیکھ سکتی تھی۔ درحقیقت وہ اسی لیے رہٹ کی گادھی پر بیٹھی ہوئی بھی تھی۔

    دو ڈھائی فرلانگ دور گاؤں گوبر کے بڑے سے ڈھیر کی طرح دکھائی دے رہا تھا، دیواروں کے سائے تلے نظر نہ آنے والے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

    پریمیوں کا جوڑا تو مگن تھا ہی، لیکن پارو بھی کسی نا معلوم جذبے کے تحت گنگنا رہی تھی151 یکایک اس نے گنگنانا بند کر دیا اور وہ ٹکٹکی باندھ کر مغرب کی طرف دیکھنے لگی۔ ایک گھوڑ سوار تھا اور اس کے ہمراہ دو آدمی اور بھی تھے۔ چند لمحوں کے بعد صورت حال واضح ہو گئی، وہ تینوں پولیس کے آدمی تھے۔

    باتوں باتوں میں ایک روز ورسا سنگھ کی زبانی اسے پتہ چلا تھا کہ پولیس اس کی تاک میں ہے چنری سنبھالتے ہوئے پارو رنگین چڑیا کی طرح لپک کر طویلے کے اندر گھس گئی۔ اسے دیکھتے ہی۔ ورسے نے پیار سے دبوچے ہوئے۔ روپی کے ہاتھ چھوڑ دیئے اور ابرو چڑھا کر پوچھا۔ ’’کیا بات ہے، پارو؟‘‘

    ’’پلس!‘‘

    پولیس کا نام سنتے ہی روپی کی روشن پیشانی ملگجی سی ہو گئی۔ مگر اس کے پریمی نے فخر سے نتھنے پھلالئے۔ اگر کسی قابل فخر جوان کی پولیس سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو تو یہ اس کے لیے سبکی کی بات تھی۔

    ’’کیا وہ تمھیں پکڑنے کے لیے آ رہے ہیں؟ روپی نے سرمگیں آنکھیں ورسے کے چہرے پر جماتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تو کیا ہوا؟ تم کیوں گھبرا گئیں؟ میں نے ڈاکہ نہیں ڈالا، کسی کا کتل نہیں کیا۔‘‘

    ’’تو پھر؟‘‘

    ’’پچھلے بیساکھی کے میلے میں تھوڑی فوجداری ہو گئی تھی۔ اسی وکت سے یہ میرے پیچھے پڑے ہیں۔‘‘

    ’’اب وہ تمھیں پکڑ کر لے جائیں گے، حوالات میں بند کر دیں گے۔‘‘

    ’’تم بھی بڑی بھولی ہو۔ میں ان کے ہاتھ آنے والا نہیں ہوں۔‘‘

    پارو بولی۔ ’’ایک گھڑسوار بھی تو ہے میرے کھیال میں وہ تھانے دار ہے اس الاکے کا۔‘‘

    ’’چھوڑو ان باتوں کو۔ روپی! اب میں آج سے چوتھے دن ملوں گا تم سے۔‘‘

    ’’درواجے سے نکلوگے تو پولیس والے دیکھ لیں گے۔۔۔‘‘

    ورسے کی نظر پچھواڑے والی کھڑکی کی جانب اٹھ گئی۔ جہاں لوہے کی سلاخوں کی بجائے لکڑی کی خاصی موٹی بلّیاں جڑی ہوئی تھیں اور پھر بولا۔ ’’چنتا مت کرو۔۔۔ ایک بار میں اپنے گاؤں پہنچ گیا تو پھر تھانے دار مجھے نہیں پا سکےگا۔‘‘

    ’’تمہارا گاؤں بھی تو یہاں سے دس کوس کی دوری پر ہے۔‘‘ روپی دھڑکتے ہوئے دل سے بولی۔

    ’’ہے تو!‘‘ یہ کہہ کر ورسے نے کھڑکی کی چوبی بلیوں کو ایک لات رسید کی۔

    گھوڑے کی لگام کھینچ کر تھانے دار سرداری لال طویلے سے ایک فرلانگ ادھر ہی رک گیا۔ وہ جھنگ مگھیانے کے علاقے کا رہنے والا تھا۔ اسی لیے گورا چٹا ہونے کے علاوہ وہ عظیم الجثہ بھی تھا۔ علاقے بھر میں اس کے دبدبہ بلکہ دہشت کا دور دورہ تھا۔ مگر حقیقت میں سخت گیر ہونے کے باوجود وہ اجڈ نہیں تھا۔ عام تھانے داروں کی طرح وہ اس چیز سے کورا نہیں تھا جسے ’شے لطیف‘ کہا جاتا ہے۔

    رکاب کے قریب کھڑا ہوا ایک سپاہی بولا۔ ’’سرکار! ورسا ’درشنی جوان‘ ہے۔ اونچا لمبا اور غضب کا پھرتیلا۔ دوڑنے میں ان کے جوڑ کا جوان علاقے بھر میں نہیں مل سکتا۔ اگر ایک بار وہ طویلے سے نکل بھاگا تو پھر ہم اس کی دھول کو بھی نہیں پاسکیں گے۔‘‘

    تھانیدار سرداری لال نے گھوڑے کو ہلکی سے تھپکی دی اور بس مسکرا دیا۔ ادھر اس کا چاق و چوبند گھوڑا کنوتیاں پھڑکا رہا تھا۔ ادھر اس کی کلاہ دار پگڑی کا اوپر کو اٹھا ہوا شملہ ہوا کے سبک جھونکوں میں لہرا رہا تھا۔

    پارو کی غیر موجودگی میں بیلوں کو ہانکنے والا کوئی نہ رہا تو وہ رک گئے۔ روں روں کی آواز کی جگہ خاموشی نے لے لی۔ پھیلے ہوئے برگد کے سائے تلے رہٹ اور قریب والے طویلے پر پر اسرار خاموشی طاری تھی۔

    چند لمحوں کے تامل کے بعد سرداری لال گھوڑے کو ایڑ لگانے ہی کو تھا کہ ایک سپاہی نے اس کی پنڈلی کو دبا کر انگلیسے ایک جانب اشارہ کیا۔

    چاروں طرف چاند کی چاندنی چنبیلی کی بھینی بھینی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ طویلے کے پچھواڑے سے ایک لمبا لہراتا ہوا سایہ دکھائی دیا، جس نے کھلی جگہ پر پہنچ کر ایک سجیلیجوان کا روپ دھارن کر لیا۔

    ’’یہی ہے ورسا سنگھ!‘‘ ایک سپاہی نے سرگوشی میں کہا۔

    گھوڑے اور اس پر سوار تھانے دار کے حساس نتھنے پھڑپھڑائے۔ ظاہر تھا کہ دونوں میں سے ایک بھی سپاہی دوڑ کر ورسے کو پکڑ لینے کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔

    سرداری لال نے بلند آواز میں کہا۔ ’’ورسیا! میں اس علاقے کا تھانے دار ہوں۔۔۔ میں یہاں تمھیں پکڑنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘

    ورسا گویا ایک جگہ پر بالکل بت بنا کھڑا تھا۔ وہ جوں کا توں کھڑا رہا۔۔۔ اس نے مسکرا کر تمسخر آمیز لہجے میں جواب دیا۔ ’’پکڑنے کے لیے آئے ہو تو پکڑ لو۔ اس میں کہنے سننے کی بھلا کیا بات ہے؟‘‘

    طیش میں آنے کی بجائے سرداری لال کو ہنسی آ گئی۔ اس نے سپاہیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اصل اجڈ جاٹ نظر آتا ہے۔‘‘

    ایک سپاہی بولا۔ ’’حضور، اس طرح طنطنے سے بولنا ان لوگوں کی عادت ہے۔۔۔ ویسے نہتا ہے۔ لاٹھی تک نہیں ہے اس کے پاس۔‘‘

    ورسا جیسے ان کی موجودگی سے قطعاً بےپروا ہو کر وہاں سے چل دیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے جا پکڑنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ محض اپنا فرض پورا کرنے کے خیال سے سپاہیوں نے قدم آگے بڑھائے۔

    حد نگاہ تک ہرے بھرے کھیت لگے ہوئے تھے۔ ان میں بہت سے کھیت ایسے بھی تھے جن میں اگے ہوئے نرم و نازک پودے بالشت، ڈیڑھ بالشت سے زیادہ بلند نہیں تھے۔ ان کھیتوں کے درمیان کسی طویل اژدہے کی طرح چوڑا سا کچا راستہ بل کھایا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے راستے کو مقامی زبان میں پیہا کہا جاتا تھا۔

    ایک جست لگا کر گھوڑا آگے بڑھ گیا تو سپاہیوں کے قدم رک گئے۔ مگر تھانے دار نے گھوڑے کو دوڑایا نہیں۔ آگے آگے ورسا اپنی لمبی لمبی مضبوط ٹانگوں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا جا رہا تھا اور پیچھے پیچھے تھانیدار گھوڑے کو عام رفتار سے بڑھائے لیے جا رہا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ جب چاہے گا ورسے کو جا ملےگا۔

    اِدھر شہ سوار شکاری کتے کی طرح چاق و چوبند اور ارادے کا پکا نظر آتا تھا، ادھر ورسا پلے ہوئے جنگلی بلے کی طرح نڈر اور بے نیاز دکھائی دے رہا تھا۔

    جیسے جیسے گھوڑے کی رفتار بڑھتی گئی ورسے کے قدم بھی تیز ہوتے گئے۔ سرداری لال کے ہونٹوں پر ابھی تک طنز آمیز مسکراہٹ تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ بے وقوف کب تک ایک شہ سوار کی زد اور گرفت کے باہر ہو سکےگا۔۔۔

    کچھ دور جانے کے بعد تھانے دار نے سوچا کہ یہ تماشا کافی ہو چکا۔ اس نے ایڑ لگا کر گھوڑے کو دلکی چال پر ڈال دیا۔

    ورسا کن انکھیوں سے پیچھا کرنے والے کا جائزہ لے رہا تھا، اس نے بھی اپنی رفتار تیز کردی۔ اس طرح وہ پیہے، میں سرپٹ دوڑنے لگا۔ آس پاس کے پیڑوں پر غنودگی میں ڈوبے ہوئے پرندے چونک پڑے اور چونچیں بڑھا بڑھا کر یہ انوکھا منظر دیکھنے لگے۔

    تھانے دار نے گھوڑے کو پوری رفتار سے دوڑا دیا۔ پیہا چوڑا تو تھا لیکن اس کی زمین برابر نہیں تھی، اس میں کبھی ایک پگڈنڈی دکھائی دی اور کبھی زمین کی ساخت کے مطابق وہ پگڈنڈی کئی پگڈنڈیوں میں تقسیم ہو جاتی اور اس کے بعد قینچیوں کی طرح، ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی پگڈنڈیاں سمٹ کر پھر ایک ہو جاتیں۔ ورسا پگڈنڈیوں کی اس انوکھی ساخت کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ لیکن گرانڈیل گھوڑے کو چاند کی روشنی میں خاصی مشکل پیش آ رہی تھی۔ تاہم گھوڑا بہرحال گھوڑا ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان فاصلہ دم بہ دم کم ہونے لگا تو یکایک ورسا دائیں کو مڑ کر کھیتوں میں ہو لیا۔

    کھیتوں کی زمین اور بھی زیادہ اوبڑ کھابڑ تھی۔ گھوڑے کیا، گھڑ سوار کی چولیں بھی ہلنے لگیں۔

    یہ دوڑ بھی کافی دور تک جاری رہی۔ ان کے درمیان فاصلہ پھر کم ہونے لگا۔ ٹھیک اسی وقت گھڑسوار کو اونچے مقام سے لگ بھگ دو فرلانگ کے فاصلے پر ابھری ہوئی زمین کے دو خطوط دکھائی دینے لگے۔ وہ خطوط کئی فٹ چوڑی نہر کی پٹری کے تھے۔ امید کی کرن سرداری لال کی آنکھوں میں رقص کرنے لگی۔ اب ورسے کا رک جانا ناگزیر تھا۔ مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ ورسے کی رفتار میں کمی آنے کی بجائے اور بھی تیزی آ گئی۔ نہر کے اس طرف کی پٹری پر پہنچ کر وہ عظیم الجثہ پرند کی طرح ہوا میں اٹھا اور نہر کے پاٹ کو صاف پار کر گیا۔

    سرداری لال نے جھنجھلا کر ایک جھٹکے کے ساتھ لگام کھینچی۔ گھوڑا سٹپٹا کر ٹاپیں زمین پر پٹخنے لگا۔

    ورسا ذرا دیر تک اس پار والی پٹری پر کھڑا زور زورسے سانس لیتا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے پکار کر کہا: ’’تھانے دار جی! پل اوس پاس (اس طرف) ہے۔ آپ ادھر سے آئیے۔ ایتے (اتنے میں) میں بھی دم لے لوں۔‘‘

    دل ہی دل میں سرداری لال زچ تو ہوا، مگر اس نے سوچا کہ منزل ابھی دور ہے، بھلا یہ تھکا ہارا بھگوڑا کب تک میرے ہاتھ نہیں آئےگا۔ چنانچہ وہ لگ بھگ تین فرلانگ کی دوری پر واقع پل کی جانب بڑھ گیا۔

    پل پار کر کے وہ ورسے کی طرف لوٹا۔ نگاہ اٹھائی تو ورسا وہیں جما کھڑا تھا۔ ایک فرلانگ کا فاصلہ باقی رہ گیا تو ورسا بارہ سنگھے کے سے تیور دکھاتا ہوا پھر کھیتوں میں جا گھسا۔

    چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ اب تو دور دور تک کوئی پیڑ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

    سرداری لال نے دانت پیس کر ایک بار پھر گھوڑا مفرور کے پیچھے ڈال دیا۔

    دوڑتے دوڑتے ایک دم ورسے نے اصیل مرغ کی طرح سینہ پھلا کر سر پیچھے کو پھینکا، پگڑی کا اٹھا ہوا شملہ لہرا اٹھا اور اس نے زور سے نعرہ لگایا: ’’ایلی! ایلی!

    در حقیقت یہ ’علی! علی!‘ کا نعرہ تھا۔ ان دنوں غیرمسلم پہلوان اور دھاکڑ، جوان وجہ تسمیہ جانے بغیر ’ایلی! ایلی!‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔

    ورسے کا یہ طنطنہ دیکھ کر سرداری لال کو بڑے زور کا تاؤ آیا، اس نے گھوڑے کو اندھا دھند دوڑا دیا۔

    ورسے کی غیر معمولی لمبی قینچی جیسی ٹانگوں تلے دھرتی گویا کٹتی چلی جا رہی تھی۔ گھوڑے کے تڑاتڑ بجتے ہوئے سموں کے نیچے سے یا تو دھول کے پٹاخے چھوٹ رہے تھے یا ان کی جھپٹ میں آئے ہوئے نرم نازک پودے جڑ سے اکھڑ کر ادھر ادھر جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ورسے کو اپنی گدی پر گھوڑے کے دھونکنی جیسے نتھنوں سے نکلنے والے گرم گرم ہوا کے چابک سے برستے محسوس ہونے لگے۔

    سرداری لال نے پنجہ بڑھا کر گھوڑے کو اور بھی زور کی ایڑدی۔

    پلک جھپکتے میں ورسا نیچے کو جھکا۔ اس نے بھربھری مٹی کا ایک بڑا سا ڈھیلا اٹھایا اور پلٹ کر پوری قوت سے گھوڑے کی تھوتھنی پر دے مارا۔

    ڈھیلا گولے کی طرح پھٹا، کچھ دھول گھوڑے کے نتھنوں میں نسوار کی طرح چڑھ گئی اور کچھ اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔ گھوڑا زور سے ہنہنایا، پھر چھ سات قدم پیچھے کو سرکتا چلا گیا اور اس کے بعد پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر اگلی دوٹاپیں اٹھا کر ہوا سے لڑنے لگا۔

    ورسے نے رفتار کچھ دھیمی کر دی، لیکن وہ رکا نہیں۔ اس کی اس جوابی کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان دونوں کا درمیانی فاصلہ پھر بڑھ گیا گھوڑے کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگ گیا۔

    ایک بار پھر ورسے نے اپنے طویل بازو پھیلا کر آسمان کی طرف اٹھا دیے اور اسی رفتار سے بھاگتے ہوئے بھرپور آواز میں نعرہ لگایا:

    ’’ایلی! ایلی!‘‘

    تعاقب اسی انداز سے جاری رہا۔ جب سرداری لال کا گھوڑا بہت قریب آجاتا تو ورسا بھربھری مٹی کا ڈھیلہ اس کی تھوتھنی پر دے مارتا۔ تھانے دار خود دوڑ کر ورسے کو پکڑ نہیں سکتا تھا اور گھوڑا اب بدکنے لگا تھا۔ بے چارے جانور کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اچانک اس کی تھوتھنی سے کیا چیز ٹکرا کر پھٹتی ہے اور پھر اس کی آنکھوں اور نتھنوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔

    ستاروں بھرے آسمان کے تلے اور ہری بھری زمین کے اوپر خدا کے یہ دو بندے یہ انوکھی دوڑ لگا رہے تھے۔ پھر تو نوبت یہاں تک آئی کہ جب گھوڑا ورسا کے بہت قریب پہنچ جاتا تو اس کی رفتار خود بخود کم ہوجاتی اور وہ کنی کترانے لگتا۔ اس طرح ہوتے ہوئے فاصلے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے۔ ورسے کا گاؤں بھی نزدیک آگیا۔ اب اسے دوڑنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ وہ ساری دھرتی کے حکمراں کی سی شان کے ساتھ اطمینان سے چلنے لگا۔ گھوڑا بھی تھک ہار کر دوڑنے سے معذور ہو چلا تھا۔

    اپنے گاؤں کے کچھ ادھر ورسا رک گیا اور ببول کے ایک اونچے پیڑ کے نیچے تنے سے پشت لگا کر کھڑا ہو گیا۔ جب گھڑسوار اس کے برابر میں پہنچا تو وہ مسکرا کر بھاری آواز میں بولا۔ ’’تھانیدار! آکھر تم نے مجھے پکڑ ہی لیا۔‘‘

    سرداری لال رکا اور ورسے کے چہرے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا۔ خود اس کے چہرے سے بھی اب مایوسی، غصہ یا جھلاہٹ کے آثار دور ہو چکے تھے۔ ان جذبات کی جگہ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

    وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور پھر یکایک جانے کیا ہوا کہ اسے ہنسی آ گئی۔ اس ہنسی نے قہقہوں کا روپ دھار لیا، خنک اور سہانی فضا کی خاموشی میں ان دونوں کے قہقہے۔ بلند مردانہ قہقہے کی طرح گونجنے لگے۔ آخر سرداری لال نے ہاتھ بڑھایا اور ورسے کے ہاتھ کو دباتے ہوئے بولا۔ ’’ورسیا! تمھیں گرفتار کرنے کے لیے اب میں پھر کبھی آؤں گا۔‘‘

    ورسا ایک بار پھر ببول کے تنے سے ٹیک لگا کر چاند کی روشنی میں گھڑ سوار کو واپس جاتے دیکھتا رہا۔ تھوڑی دور جاکر سوار نے ایک نظر پیچھے کی طرف ڈالی، سینہ پھلایا، سر پیچھے کی طرف پھینکا اور پھیپھڑوں کی پوری قوت سے بلند آواز میں نعرہ لگایا۔ ’’ایلی! ایلی!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے