Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہڈیوں کا ڈھانچ

انتظار حسین

ہڈیوں کا ڈھانچ

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    ایک سال شہر میں سخت قحط پڑا کہ حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی۔ پہلے چیل کوے کم ہوئے، پھر کتے بلیاں تھوڑی ہونے لگیں۔ کہتے ہیں کہ قحط پڑنے سے پہلے یہاں ایک شخص مرکر جی اٹھا تھا۔ وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے تصور میں سماگیا۔ اس نے اس تصور کو فراموش کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن وہ تصور کسی صورت فراموش نہ ہوا۔ ہڈیوں کا ڈھانچ، وہ ندیدی آنکھوں والی بھوکی سوکھی عورت بار بار نظروں میں پھر جاتی۔ اس قصے کی ایک ایک تفصیل اس کے ذہن میں ابھرنے لگتی۔ وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا۔ جب مرا تو اس کی بالیں پہ کوئی نہ بیٹھا۔ نہ یٰسین پڑھی گئی، نہ گریہ وزاری ہوئی، نہ کسی نے آنکھ بند کی۔ جب لوگ صبح ہونے پر وہاں آئے تو دیکھا کہ جو شخص رات مرگیا تھا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ہے۔ اس منظر پر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہشت آئی مگر پھر وہ اس دوبارہ زندگی پر مسرور ہوئے۔ اور پھر دور دور سے دیکھنے آئے کہ کیا وہ شخص جو مرگیا تھا سچ مچ جی اٹھا ہے۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا بھوکا تھا۔ اس نے کھانا مانگا۔ مرکر جی اٹھنے کے بعد یہ پہلی خواہش تھی۔ جب سامنے کھانا آیا تو وہ اس طرح ٹوٹا جیسے صدیوں سے بھوکا چلا آتا ہے۔ کھاتے کھاتے اسے پسینہ آگیا اور دسترخوان خالی ہوگیا۔ شام کو اس نے اس سے بھی زیادہ کھایا اور دوسرے دن اسے پچھلے دن سے بھی زیادہ بھوک لگی۔ پھر وہ ہر وقت بھوکا رہنے لگا۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا ہر وقت ہر صورت بھوکا دکھائی دیتا۔ ہر گھر سے روٹی آتی اور جتنی روٹی آتی اسے وہ چٹ کرجاتا۔ کھانے کو اس طرح جٹتا جیسے صدیوں کا بھوکا ہے۔ اور سارے شہر کی غذا چاٹ جائے گا۔ نوالہ اس طرح توڑتا جیسے درندے شکار پھاڑتے ہیں۔ اسے اس بری طرح کھاتے دیکھ کر دیکھنے والوں کے دلوں میں نامعلوم سی دہشت پیدا ہوتی اور وہ کبھی کبھی تو گچگچاکر آنکھیں بند کرلیتے۔

    گھروں میں یہ ہوا کہ کھاتے کھاتے کھانا کم پڑجاتا اور جب بی بی سے پوچھا جاتا تو وہ کہتی کہ کھانا اس شخص کےلیے بھی تو نکلا ہے جو مرکر جی اٹھا تھا۔ پھر اس شخص کا حساب رکھ کر گھروں میں کھانا زیادہ پکنے لگا۔ مگر کھانا پھر بھی کم پڑجاتا اور پوچھنے پر بی بی وہی جواب دیتی کہ کھانا اس شخص کے لیے بھی تو نکلا ہے جومرکر جی اٹھا تھا۔ تو لوگ دسترخوانوں سے بھوکےاٹھنے لگے۔ اور رزق کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ انہیں گمان ہونے لگا کہ گھر جو روٹی پکتی ہے اس میں سے وہ شخص جو مرکر جی اٹھا ہے زیادہ حصہ بٹالیتا ہے۔ اس گمان نے یہ اثر دکھایا کہ ہر شخص بھوکا بھوکا دکھائی دینے لگا اور رزق کی کمی کا خیال دامن گیر ہوگیا۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اسے بھوک ہی کی خواہش بہت تھی۔ کسی سے ہنسنا بولنا، نہ ملنا جلنا، نہ غصہ کرنا، نہ غم کھانا، دکھ سکھ سے بے نیاز، محبت و نفرت سے ناآشنا۔ تو جس روز اس شخص نے جو اسے کھانا بھیجنے پر بہت کڑھنے لگا تھا اسے کھانا نہ بھیجا تو اسے نہ تو غصہ آیا نہ غم کھایا۔ ہاں وہ خاموش گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ مرکر جی اٹھنے کے بعد یہ پہلا دن تھا کہ وہ گھر سے نکلا تھا۔ گلی کے نکڑ پر ایک کتا اسے دیکھ کر آہستہ آہستہ غرایا۔ مگر جب اس نے کتے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو کتے نے اپنی دم ٹانگوں میں سمیٹ لی اور وہاں سے بھاگ گیا۔

    وہ شخص جس نے آج اس شخص کو جو مرکر جی اٹھا تھا کھانا نہیں بھیجا تھا ،دستک ہونے پر باہر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے دروازے پہ کھڑا ہے۔ یہ دیکھ کر اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گھر میں جو کچھ پکاپکایا تھا وہ اسے اٹھالایا اور اس شخص کے حوالے کرکے اسے رخصت کیا۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس روز سےباہر نکلنے لگا۔ جب وہ باہر نکلتا تو اس کے روکھے سوکھے بدن میں رینگتی ہوئی سالہا سال کی بھوک اس کی آنکھوں میں کھنچ آتی۔ ہر کھانےکی چیز کو وہ ایسی مریل اور ندیدی نظروں سے دیکھتا کہ چیز والے کا چیز سے جی پھر جاتا۔ وہ گرم تنوروں کے پاس سے گزرتا اور روٹیوں کی بھینی خوشبو اس ندیدے پن سے سونگھتا کہ تازہ سکی ہوئی روٹیوں کی مہک اڑ جاتی اور ذائقہ زائل ہوجاتا۔ وہ حلوائیوں کی دوکانوں کے برابر سے گزرتا اور اس ندیدے پن سے دیکھتا کہ رنگ برنگی مٹھائیوں کے رنگ میلے پڑجاتے اور مٹھاس غائب ہوجاتی۔ وہ پھلوں کی دکانوں کے قریب سے نکلتا اور اس ندیدے پن سے نظر ڈالتا کہ پھلوں کا روپ اترجاتا اور تازگی جاتی رہتی۔ یوں کھانے پینے کی چیزوں کے رنگ، مہک اور ذائقے غائب ہونے لگے۔ چیزیں کھانے میں کبھی بے مزہ لگتیں کبھی مزہ بدلا ہوا معلوم ہوتا۔ پیٹ اٹ جاتا۔ مگر بھوک جوں کی توں قائم رہتی۔ پس لوگوں کے منہ کا ذائقہ بگڑتاچلا گیا اور بھوک بڑھتی چلی گئی۔ زیادہ کھاتے اور جتنا کھاتے اتنے ہی بے مزہ ہوتے۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا ایک روز بازار سے گزرتا تھا کہ ایک کتے سے جو بڑے انہماک سے گوشت سے بھری ایک ہڈی کو چچور رہا تھا۔ مڈبھیڑ ہوگئی۔ کتنے نے پہلے تو دانت نکالے اور غرایا لیکن اس شخص نے جو مرکر جی اٹھا تھا جب خونخوار نظروں سے اسے د یکھا تو وہ دم دباکر وہاں سے بھاگ گیا، اگرچہ دور کی گلی میں جاکر دیر تک بھونکتا رہا۔

    اس واقعہ سے لوگوں کی طبیعت ایسی منغض ہوئی کہ انہیں کھانے پینے کی چیزوں میں نجاست کا احساس رہنے لگا۔ یہ نجاست کااحساس ان کے دل و دماغ میں اس طرح سمایا کہ وہ ہرچیز کو اس بھوکی ندیدی نظر سے بچاکر رکھنے کی کوشش کرتے۔ پس جب وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا۔ بازار کی طرف چلتا تو حلوائی اپنی مٹھائی کی تھالوں پر خوان ڈھانپ دیتے اور نانبائی اپنے تنوروں کے آگے پردے گرالیتے۔ اس احتیاط کے بعد بھی انہیں احساس رہتا کہ مریل ندیدی نظریں پردے کو چیرتی ہوئی روٹیوں، مٹھائیوں او رپھلوں میں پیوست ہو رہی ہیں اور خوشبو اور ذائقہ کھچتا چلا جارہا ہے اور نجاست سرایت کر رہی ہے۔ اس احساس نے یہ اثر کیا کہ لوگ اس شخص سے جو مرکر جی اٹھا تھا بیزار رہنے لگے۔ وہ اس سے بیزار بھی تھے اور اسے رواج کے مطابق روٹیاں بھی بھیجتے تھے۔ صبح و شام خاموشی سے اسے بندھی ہوئی مقدار میں روٹیاں بھیجتے اور دل ہی دل میں کڑھتے۔ مگر کسی کو مجال نہ تھی کہ روٹیاں بھیجنے سے ہاتھ روکے کہ انہیں معلوم تھا کہ اس صورت میں وہ شخص جو مرکر جی اٹھا ہے، سونتا ہوا آئے گا اور ان کے دروازے پہ دستک دے گا۔

    ایک روز ایک عامل کا گزر اس شہر میں ہوا۔ وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ اس نے اس شخص کو جو مرکر جی اٹھا تھا دیکھا اور بھرے بازار میں عصاٹیک کر کھڑے ہوگیا۔ اس عامل نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور نعرہ مارا ’’بتا تو کون ہے‘‘ پھر تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا یہ نعرہ سن کر لڑکھڑایا اور چیخ مار کر گرپڑا۔ سہمے ہوئے لوگوں نے جب ڈرتے ڈرتے اسے قریب جاکر دیکھا تو یہ دیکھ کر سہم گئے کہ وہ شخص جومرکر جی اٹھا تھا مرا پڑا ہے اور اس عامل نے ان لوگوں سے خطاب کیا کہ ’’اے لوگو خدا تم پر رحم کرے تم مرنے والوں کو اکیلا چھوڑدیتےہو۔ تمہارے شہر میں ایک شخص مرا اور تم اس کی بالیں پہ نہ بیٹھے اور ایک بدروح نے آکر اس میں بسیرا کرلیا۔ خدا تمہارے شہر پر رحم کرے۔‘‘

    اسی برس اس شہر میں قحط پڑا۔ دیکھتے دیکھتے اس شہر میں چیل کوے عنقا بن گئے اور کتے قحط زدوں کو دیکھ کر دم دباکر بھاگنے لگے۔

    وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا، جس کے تصور میں سما گیا تھا۔ اس نے اسے بھلانے کی بہت کوشش کی۔ اس واقعہ کو تو وہ اسی رات جب یہ سنایا گیا رد کرچکا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے بہت ملامت کی کہ جس بات کو اس کی عقل نہیں مانتی اس پر آخر وہ کیوں بار بار دھیان دیتا ہے۔ مگر وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے تصور میں روپ بدل بدل کر آیا، اسے جانے جانے کب کب کی باتیں یاد آئیں اور کس کس طرف دھیان گیا۔ اسے اس لمبے تڑنگے سانسے کا خیال آیا جو کہیں بچپن میں کالے آم کے باغ کے پاس ملا تھا۔ اس ٹیکاٹیک سنسان دوپہری میں وہ اچانک جانے کس طرف سے سامنے آگیا؟ کالا بھجنگ، بڑی بڑی سفید آنکھیں، سرپہ بڑا سا پگڑ، باہر نکلے ہوئے لمبے لمبے بال، کانوں میں بڑے بڑے بالے، وہ قریب سے گزرتا چلا گیا۔ اور جب وہ گزر گیا تو تھوڑی دیر بعد ایک لڑکے نے مڑ کر دیکھا ’’یار‘‘ اس نے حیرت سے کہا، ’’وہ آدمی کہاں گیا؟‘‘

    ان سب نے ایک دم مڑکر دیکھا۔ پگڈنڈی سنسان پڑی تھی۔ ان کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ پھر کسی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا، ’’کون تھا وہ؟‘‘ اور سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر ایک یہ ظاہر کرتے ہوئے جیسے وہ بالکل نہیں ڈرا ہے کہنے لگا، ’’یار کوئی بھی نہیں سانسیا تھا۔‘‘

    ’’سانسیا تھا؟‘‘

    ’’ہاں سانسیا تھا۔‘‘

    ’’تونے اس کے پیر دیکھے تھے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’استاد اس کے پیر پیچھے کی طرف تھے۔‘‘

    پیچھے کی طرف؟‘‘ سب نے یک زبان پوچھا۔

    ’’قسم اللہ کی،‘‘ پھر اس کی آواز یکایک دھیمی پڑگئی۔ اس نے سرگوشی والے لہجہ میں کہا، ’’یہ برے بڑے پیر تلوا آگے تھا اور پاؤں پیچھے۔‘‘

    سب دم بخود رہ گئے۔ ان کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ وہ سمٹ کر صرف آنکھیں رہ گئے، بڑی بڑی آنکھیں جو ایک دوسرے کو تک رہی تھیں۔ پھر انہوں نے بجلی کی تیزی سے اپنے اپنے پیروں کی جوتیاں، کھڑاؤں اور چیپل اتارے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ جو ابھی خالص اور محض آنکھیں تھے اب خالص اور محض ٹانگیں تھے۔۔۔ اور اب اسے اس حماقت پر ہنسی آرہی تھی۔ بچپن میں بھی آدمی کیا کیا احمقانہ بات سوچتا ہے۔ جنگل میں چلتا ہوا ہر آدمی اسے جن نظر آتا ہے۔ اس جنگل میں جو شہر سے ایسا دور نہیں تھا۔ سنسان دوپہریوں میں کوئی برا سا بندر اچانک درخت سے زمین پر کود پڑتا تو لگتا کہ آدمی ہے اور جتنا اس بندر سے، جو آدمی معلوم ہوتا تھا ڈر لگتا اس سے زیادہ آدمی کو دیکھ کر خوف آتا کہ کیا خبر ہے وہ آدمی نہ ہو۔ مگر، اس نے سوچا، سانسیے تو شہر میں پہنچ کر بھی اتنے ہی ڈراؤنے نظر آتے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ نمودار ہوا کرتے تھے۔ اچانک کسی دن آبادی سے ذرا پرے اس سڑک پر جس پر لاریاں چلاکرتی تھیں کنارے کنارے دور تک بیل گاڑیاں کھڑی دکھائی دیتیں، بیل کھلے ہوئے گاڑیوں کے اٹھے ہوئے ڈنڈوں کے ساتھ میلی چادریں اور چیتھڑے تووڑے تنے ہوئے، اور یہاں سے وہاں تک دھواں اور دھوئیں اور دھوپ میں لپٹا ہوا کوٹنے پیٹنے کا شور جیسے کسی پرانے قبیلہ نے آکر شہر کی ناکہ بندی کرلی ہے۔ لمبے بال، کانوں میں برے بڑے بالے کالی بھجنگ صورتیں، ان ہڈیوں نکلے ہوئے سونتے ہوئے چہروں میں ڈلاسی سفید سفید آنکھیں کہ باہر اب نکلیں اور اب نکلیں۔ لوہے کی موٹی موٹی سرخ انگارہ ایسی سلاخیں اور ان پر ہتھوڑوں کی پڑتی ہوئی مسلسل چوٹیں۔ پسینہ میں ڈوبے ہوئے ان لمبے لمبے ہاتھوں میں تھاما ہوا ہتھوڑا اسی ایک رفتار سے ضربیں لگاتا رہتا یہاں تک کہ انگارہ ایسا لوہا خم کھانے لگتا۔ دونوں ہفتوں وہ گاڑیوں کے سائے میں بنے ہوئے خیمے اسی طرح پڑے رہتے اور دھوئیں، دھوپ اور پسینے میں سنا ہوا کوٹنے پیٹنے کا شور اٹھتا رہتا۔ پھر کسی دن اچانک وہ خیمے غائب ہوجاتے بس بہت سے ٹوٹے ہوئے چولہے، مردہ راکھ کی ڈھیریاں اور کچھ سوکھا کچھ گیلا گوبر پڑا رہ جاتا۔

    ’’یار سانسیے چلے گئے۔‘‘ ان لڑکوں کو جتنا ان سانسیوں کے اچانک آجانے پر تعجب ہوتا اتنا ہی ان کے اچانک چلے جانے پر تعجب ہوتا۔ جنگل کی طرف رواں دواں ٹولی کے قدم چلتے چلتے رک جاتے۔ انہیں لگتا گویا جنوں کا ایک قافلہ تھا کہ آیا، ٹھہرا اورگزرگیا۔ اجڑے چولہوں اور ٹھنڈی بھٹیوں کو وہ حیرت سے تکنے لگتے۔

    ’’یار یہ سانسیے بہت گندے ہوتے ہیں۔ چھپکلی کھاجاتے ہیں۔‘‘

    ’’چھپکلی، ابے وہ تو سانپ تک کھا جاتے ہیں۔‘‘

    ’’سانپ۔۔۔ نہیں یار۔‘‘

    ’’مت مانو۔‘‘

    ’’مگر یار سانپ کوئی کیسے کھا سکتا ہے۔‘‘

    ’’قسم اللہ کی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ لمبا سانپ۔ سانسئے نے اسے قتلے قتلے کردیا۔ پھر اسے کڑھائی میں۔۔۔‘‘ وہ منہ بگاڑ کر چپ ہوگیا۔

    اس یاد نے اس پر کچھ بہت ہی ناخوشگوار اثر کیا کہ طبیعت گجگجانے لگی۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ آدمی کیا الا بلا اپنے پیٹ میں بھرتا رہتا ہے۔ چھپکلی، مینڈک، سانپ، بچھو۔۔۔ ہر چیز۔۔۔ تو آدمی بھی پھر وحشی ہی ہوا نا؟ اور آدمی کا پیٹ؟ یہ پیٹ آخر ہے کیا بلا؟ اس کے حافظے نے پھر پیچھے زقند لگائی۔۔۔

    ’’اے اماں جی دیکھو اے، روٹیوں کی تھئی کی تھئی صاف کردی۔‘‘

    ’’بیٹا بس کر۔ زیادہ نہیں کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’اماں جی آج اس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔اس کے پیٹ میں تو جن بیٹھا ہے۔‘‘ تو جن بہت کھاتے ہیں؟ اور اس سوال کے ساتھ اسے اس شخص کا خیال آگیا جس کے آگے سے جن روٹیاں اٹھالے گیا تھا اور اس کے بعد وہ سوکھتا چلاگیا۔ اور اس شخص سے اس کا دھیان بھٹکا تو ایک اور شخص کی طرف چلا گیا۔

    ’’بی بی مردے کو ساتھ کھاتے دیکھنا اچھانہیں۔‘‘ اماں جی ڈرے ڈرے لہجہ میں بولیں، ’’مولوی صاحب نے یہ خواب سنا تو چپ ہوگئے۔ پھر فرمایا کہ صدقہ دو۔ ڈوبے نے صدقہ تو بہت دیا، پر ہونی تو ہوکر رہتی ہے۔ ساری جائداد اوجڑ ہوگئی۔ بس اسی غم میں دماغ الٹ گیا۔ قبرستانوں میں مارا مارا پھرتا تھا اور دیکھنے میں ہڈیوں کا ڈھانچ رہ گیا تھا۔ بس یہ سمجھ لو کہ غریب جیتے جی مرگیا۔‘‘

    وہ شخص جو جیتے جی مرگیا تھا اس کی آنکھوں میں پھر گیا۔ پتلی کھپچ ایسا آدمی، آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے، بھدمیلے بال، ہاتھ میں تولیہ میں لپٹی ہوئی روٹیاں، لپک جھپک قبرستان والی مسجد کی طرف جانا، پھر کسی کو وہاں نہ پاکر آپ ہی حیران ہوتا اور پھر حیراں حیراں گلی گلی پھرتا۔ اس شخص نے جو جیتے جی مرگیا تھا اس مسجد کے پاس ایک فقیر کو کھڑے دیکھاتھا۔ کہ صدا لگاتا تھا ’’بابا میں بھوکا۔‘‘ اور اس شخص نے اس بھکاری سے کہا کہ ’’بابا تم یہاں ٹھہرو۔ میں تمہارے لیے کھانے کو لاؤں گا۔‘‘

    پھر وہ وہاں سے بہت تیزی سے چلا اور روٹی کے لیے پیسے جمع کرتا پھرا۔ اس نے تین دن تک کوڑی کوڑی جمع کی اور جب تیسرے دن روٹی خرید کر وہ وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ فقیر تو وہاں ہے ہی نہیں۔ کہاں گیا وہ؟ پہلے اسے تعجب ہوا۔ پھر وہ حیراں و پریشان اسے گلی گلی ڈھونڈتا رہا۔ جب اس کا کہیں کھوج نہ ملا تو پھر اسی مقام پر آیا جہاں سے چلا تھا اور فقیر کی تلاش میں قبرستان کی طرف نکل گیا۔ پھر اس کا یہ معمول ٹھہرا کہ مانگے ہوئے پیسوں سے مانگنے والے کے لیے روٹی خریدنا لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے قبرستان والی مسجد تک جانا، پھر مانگنے والے کو وہاں نہ پاکر شہر میں ڈھونڈتے پھرنا اور پھر واپس آکر قبروں میں نکل جانا۔۔۔ اور وہ شخص جس کے اندر بدروحیں تھیں جھیل کے پار قبروں اور پہاڑوں میں چلاتا اور اپنے تئیں پتھروں سے زخمی کرتاپھرتا تھا۔ وہ شخص کشتی سے اترنے والے کو قبروں سےنکل کر ملا اور بڑی آواز سے چلایا کہ قسم تجھے رب کی مجھے عذاب میں نہ ڈال اور جب بدروحیں اس کے اندر سے نکل گئیں تو لوگ اسے دیکھنے آئے۔ لوگ اسے کپڑے پہنے اور ہوش میں بیٹھے دیکھ کر ڈر گئے۔۔۔ یہ کب کاقصہ اسے یاد آگیا وہ چونک پڑا۔ کب کے قصے اس کے ذہن میں آرہے ہیں۔ اسے تعجب ہونے لگا کہ دھیان کا سلسلہ کہاں کاں پہنچا ہے اور کتنی انمول یادوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ دھیان کا سلسلہ بھی کتنا بے سلسلہ ہوتا ہے اور اسے اپنے دھیان سے ڈر آنے لگا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس وقت باہر چل کر جی اور سا کیا جائے کہ دھیان بٹے اور دل بہلے۔

    وہ گلی گلی گزرتا گیا۔ پھر دفعتاً ٹھٹھک گیا۔ یہ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کدھر جارہا ہے؟ قبرستان کی طرف؟ اور یہ مسجد کون سی ہے، یہ فقیر وہی تو۔۔۔ مگر پھر فوراً اسے اپنی بے دھیانی کا احساس ہوا ۔ یہ راستہ قبرستان کی طرف نہیں، مال روڈ کی طرف جاتا ہے۔ یوں مسجد جہاں بھی ہو اس کے سائے میں کھڑا ہوا فقیر ایک ہی طرح کا لگتا ہے۔ سامنےایک ہوٹل دیکھ کر اس کے قدم بے ارادہ اس طرف اٹھ گئے۔ اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر بیٹھ کر سستاؤ اور چائے پیو۔ تنہا تنہا پھرنے سے جو دھیان آوارہ ہوتا ہے اس سے بھی نجات مل جائے گی۔

    ملگجی سفید داڑھی، چہرے پہ جھریاں، کمر ذرا جھکی ہوئی، بدن پر ڈھیلی میلی اچکن، وہ شخص کھانے پہ منڈھا ہوا تھا اور ادھر اُدھر دیکھے بغیر بے تحاشا کھائے جارہا تھا۔ اسے یوں بے طرح کھاتے دیکھ کر وہ بہت بیزار ہوا کہ عجب شخص ہے۔ قحط زدوں کی طرح کھانے پہ ٹوٹا پڑا ہے۔ اسے کتنے دن سے روٹی نہیں ملی تھی؟ بے تحاشا کھانے والے شخص نے کھانا ختم ہونے پر جلدی جلدی انگلی سے پلیٹ کو صاف کیا، پھر پانچوں انگلیوں کو ہونٹوں سے صاف کیا اور اس سے فارغ ہو، الگ احتیاط سے رکھی ہوئی مینگ کی ہڈی اٹھائی اور اطمینان سے چچوڑنا شروع کردیا۔ پہلے تو وہ بے تحاشا کھانے والے شخص کو تعجب سے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اس کے ندیدے پن کو دیکھ کر اس کی طبیعت مالش کرنے لگی۔ اس نے اس طرف سے نظریں پھیر تو لیں۔ لیکن کبھی ہونٹوں کی چپ چپ پر، کبھی ہڈی چچوڑنے کی آواز پر، نظر خواہ مخواہ اس طرف اٹھ جاتی۔ اس نے ایک بار بہت حقارت سے اس پر نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہنےلگا کہ یہ آدمی ہے یا بلا۔ پھر اس حقارت کی کیفیت پر کچھ شک اور حیرت کی ملی جلی کیفیت غالب آگئی۔ کیا خبر ہے وہ آدمی نہ ہو۔ اس نے بہت غور سے اس کا سر سے پیر تک جائزہ لیا۔ کیا وہ زندہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ۔۔۔ اسکا دھیان بھٹکنے لگا تھا مگر پھر اسے فوراً ہی خیال آگیا کہ یہ تو پھر وہی اوہام میں الجھنا ہوا۔ اس نے وہ میز ہی بدل دی اور دوسری میز پر اس کی طرف پیٹھ کرکے جابیٹھا کہ نہ اس پر نظر جائے گی نہ دھیان بٹے گا۔ اس نے بیرے سے مختلف میزوں پہ بکھرے ہوئے اخبار منگائے، انہیں اکٹھا کیا اور یکسوئی سے پڑھنا شروع کردیا۔

    اخبار پڑھتے پڑھتے احساس ہوا کہ ہوٹل میں شور کچھ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس نے اخبار سے نطریں اٹھائیں۔ ارد گرد کی ساری میزیں گھر گئی تھیں اور بیرے لپک جھپک میز میز گھومتے پھرتے تھے۔ اس کی نظر سامنے ٹنگی ہوئی گھڑی پر پڑگئی۔ تو گویا لنچ کا وقت ہوگیا ہے۔ دروازہ بار بار کھلتا اور ہر بار اونچی آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے کلرکوں کی کوئی نئی ٹولی اندر آجاتی اور مزید ایک میز گھرجاتی۔ اچانک کچھ خیال آجانے پر اس نے مڑکر دیکھا۔ گیا وہ شخص؟ اچھا! اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

    دیکھتے دیکھتے ہوٹل اتنا بھر گیا کہ بعد میں آنے والے کوئی میز خالی نہ پاکر واپس ہوگئے۔ ہر میز پر پلیٹوں اور چمچوں کاایک بے ہنگم شور تھا اور لوگ جلدی جلدی کھارہے تھے، بلکہ سٹک رہے تھے۔ اس نے ایک ایک میز کو، ہر میز کے ایک ایک چہرے کو غور سے دیکھا۔ کیا ہوگیا ہے ان لوگوں کو۔ آدمی ہیں یا بلائیں اور رفتہ رفتہ اسے یوں لگا کہ مختلف چہرے لمبے ہوتے جارہے ہیں اور جبڑے پھیل رہے ہیں۔ اس کے تصور میں پھر کچھ پرچھائیاں منڈلانے لگی تھیں۔ مگر اس نے جلدی سے جھرجھری لی اور اتنی زور سے بیرے کو آواز دی کہ آس پاس کے میزوں والوں نے چونک کر اسے دیکھا وہ خود بھی اپنی اس حرکت پر اتنا سٹپٹا گیا تھا کہ بیرے کے آنے پر یک لخت کھانے کا آرڈر دے ڈالا حالانکہ اس وقت اس نے صرف ایک پلیٹ شامی اور چائے پر گزارہ کرنے کا تہیہ کیا تھا۔

    آرڈر دینے کے بعد اس کی نظر نادانستہ پھر اردگرد کی میزوں پر گئی۔ مگر اب اس کا موڈ بدلا ہوا تھا۔ اس نے جلدی جلدی کھانے والوں کو ہمدردی سے دیکھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ لنچ کے لیے لے دے کے ایک گھنٹہ تو ملتا ہے۔ اس وقفہ میں کھایا پیا کیا جاسکتا ہے، بس پیٹ کی دوزح کو بھر لیجیے۔

    اس نے بے دھیانی میں کھانا شروع کیا اور کھاتا چلا گیا۔ وہ اتنے بڑے بڑے لقمے اس تیزی سے منہ میں لے جارہاتھا کہ ایک دفعہ اس کے حلق میں پھندا لگا اور اسے یوں لگا کہ اس نے پانی نہ پیا تو اس کی آنکھیں نکل پڑیں گی۔ پانی پیتے ہوئے اسے خیال آیاکہ میں اس بے تحاشا پن سے کیوں کھارہا ہوں اور پھر اسے ایک نرالا خیال آیا۔ یہ میں ہی ہوں؟ وہ شخص جو اس وقت اس میز پر کھانا کھارہا ہے وہ میں ہوں؟ اس نے احتیاط سے نوالہ توڑا۔ اسی احتیاط سے اسے منہ میں رکھا اور اس بے تعلقی سے منہ چلانا شروع کیا جیسے منہ اس سے الگ کوئی مشین ہے جس کے ہینڈل کو وہ گھمارہا ہے۔ اس وقت وہ سوچ رہا تھا کہ کاش ہم نوالے کے پورے سفر کا مطالعہ کرسکتے۔ پھر اس نے سوچا کہ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ میں کھانا کھانے والے کو چھوڑکر بے تحاشا کھانے والے شخص کی میز پر جابیٹھوں اور وہاں سے دیکھوں کہ یہاں جو شخص کھانا کھارہا ہے وہ کون ہے؟ کیا میں میں ہی ہوں؟ کاش ہم جان سکتے کہ ہم اگر ہیں تو کیا وہ ہم ہی ہیں اور کاش ہمیں اپنی ذات کے ملک کو بدروحوں سے نجات دلانے کے لیے روح اللہ کی ضرورت ہوا کرتی اور وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے تصور میں پھر منڈلانے لگا۔ مگر اب وہ اس شک میں پڑگیا تھا کہ آیا وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا اس کے تصور میں آیا ہوا ہے یا وہ اس شخص کے تصور میں سمایا ہوا ہے جو مرکر جی اٹھا تھا۔

    اس نے جس تیزی سے کھانا شروع کیا تھا اب اسی آہستگی سے کھا رہاتھا۔ اچانک اس کی ساری بھوک مرگئی تھی۔ بھوک کیا رہتی، اس پر تو اب یہ دہشت سوار تھی کہ وہ خود بھی اس بے تحاشا کھانے والے شخص سے مختلف نہیں ہے۔ پھر وہ اس سوچ میں پڑگیا کہ وہ کھا کیا رہا ہے۔ اسے ان مختلف ہوٹلوں والوں کی خبریں یاد آئیں جو غیرحلال گوشت پکانے کے الزام میں پکڑے گئے تھے۔ اس خیال نے ایسا اثر کیا کہ پھر اس کے منہ میں نوالہ ہی نہیں چلا۔

    جب وہ باتھ روم سے ہاتھ دھوکر باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ہوٹل کم و بیش خالی ہوچکا ہے۔ اکا دکا میز پر کوئی کوئی کسٹمر کسی قدر آسودگی کے احساس کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا ہے۔ بیرے غائب غلہ ہیں۔ صرف ایک بیرا بڑے اطمینان و فراغت کے ساتھ صافی سے میزیں صاف کرتا پھرتا ہے۔ الگ ایک گوشے میں خاموشی سے چائے پیتے ہوئے ایک شخص کو دیکھ کر اسے گمان ہوا کہ یہ اسے تو نہیں تک رہا تھا۔ لیکن اسے اپنا یہ گمان خود ہی احمقانہ نظر آنے لگا۔ مجھے کیوں دیکھتا ہے۔ میرے کیا سینگ لگے ہوئے ہیں۔ پھر اسے بیرے کوآواز دینے پر چونک کر دیکھا تھا۔ اس نے اڑتی نظر اس شخص پر ڈالی اور مطمئن ہوگیا۔ نہیں یہ وہ شخص نہیں ہے۔ ویسے اس خیال کے بعد اسے بیکلی سی ضرور ہونے لگی۔ پھر اس نے یہ بھی سوچا کہ ہوٹل میں آخر کب تک جمے بیٹھے رہو گے۔ کسی قدر عجلت سے بل ادا کرکے وہ باہر نکل گیا۔

    سامنے بس سٹاپ پر ابھی ایک بس آکر رکی تھی۔ اس نے دوڑ لگادی اور سٹاپ پر جلدی سے پہنچ کر ہجوم کے ساتھ اندر گھس گیا اور پچھلی سیٹ پر سب سے الگ جابیٹھا۔ مگر اگلے سٹاپ پر مسافر اتنے سوار ہوئے کہ پچھلی نشستیں سب بھر گئیں اور وہ جو سب سے الگ بیٹھا تھا ہجوم کا حصہ بن گیا۔ برابر میں ایک شخص کا منہ برابر چلے جارہا تھا۔ وہ چنے کی پھنکیاں پہ پھنکیاں لگا رہا تھا۔ اس کے منہ سےآتی ہوئی چنوں کی خوشبو سے اس کی طبیعت مکدر ہونے لگی۔ اس جلدی جلدی سے چلتے ہوئے منہ کو دیکھ کر اسے بے تحاشا کھانے والے شخص کا خیال آگیا۔ مگر اب وہ ایسے خیالات سے بالکل بور ہوچکا تھا اس نے سوچا کہ سوچنا بھی کتنا تھکادینے والا مشغلہ ہے۔ کوئی خیال بلا بن کر چمٹ جاتا ہے، دماغ کے اندر جاگھستا ہے۔ پھر بلا سے بلا پیدا ہوتی ہے اور بلاؤں کا ہجوم ہوجاتا ہے اور اس خیال سے اسے ایک اور خیال آیا۔ بدروح آدمی کے اندر سماکر کہاں ٹھکانہ کرتی ہے؟ پیٹ میں؟ یا دماغ میں؟ دماغ؟ دماغ خود ہی تو بدروح نہیں کہ آدمی کے اندر سماگیا ہے؟ اس بدروح سے نجات ممکن ہے؟ اور اس نے اس خیال سے شہ پاکر ایسے آدمی کا تصور باندھنے کی کوشش کی جس کا دماغ نہیں ہے۔ اس کے تصور نے کئی بے ڈھنگی شکلیں بنائیں اور بگاڑدیں۔

    اور فرض کیجیے کہ آدمی کا سر ہی نہیں؟ یہ خیال پہلے تو اسے بہت عجیب سا لگا لیکن رفتہ رفتہ وہ ایک صورت میں ڈھلتا گیا۔ سر سے محروم ایک مادر زاد برہنہ شخص۔ اس مادر زاد برہنہ شخص نے اپنا سرہتھیلی پہ ٹکا رکھا تھا اور مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا۔ مگر اس تصور سے وہ فوراً دہل سا گیا۔ جس تیزی سے تصویر اس کے ذہن میں ابھری تھی۔ اسی تیزی سے اس نے اسے رد کردیا۔ ہجوم کی وجہ سے اس کا دم رکنے لگا تھا۔ گھڑی بھر کے لیے اس نے ہجوم سے قطع نظر کرکے کھڑکی کے باہر سر نکال کر دیکھا۔ یوں کچھ تازہ ہوا لگی اور سانس میں سانس آیا۔ سوچنا بھی اچھا خاصا ایک ڈراؤنا عمل ہے، اس نے سوچا اور اگلے پچھلے سارے خیالات کو دماغ سے رفع کرنے کی کوشش کی اور اب واقعی وہ کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ ہاں بہت سی بے جوڑیادوں، خیالوں، اور تصویروں کے بکھرے شیرازے سے دماغ کے اندر ایک دھندسی اٹ گئی تھی۔ یہ دھند دیر تک یوں اٹی رہی جیسے وہ جم گئی ہے۔ مگر پھر رفتہ رفتہ چھدری پڑنے لگی اور کچھ مٹی مٹی سی قدآور پرچھائیاں تصور میں ابھرنے لگیں، وہ شخص جو مرکر جی اٹھا تھا، وہ شخص جو جیتے جی مرگیا، وہ شخص جو مرکر بھی نہ مرا، مادرزاد برہنہ سرکٹا شخص۔ تصور کو پھر شہ مل گئی تھی۔ مگر وہ جو خیالوں سے ڈر گیا تھا اس نرغہ سےنکل بھاگا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے سرنکالا۔ یہ بس آخر کب تک چلتی رہے گی۔ غلط بس کا ٹرمینس ابھی دور تھا۔ مگر اسے ایسا خفقان ہوا کہ اگلے ہی سٹاپ پر اتر گیا۔

    اب شام ہوچلی تھی۔ شور مچاتے ہوئے سراسیمہ کوے درختوں پر بیٹھتے اور بغیر کسی وجہ کے بھرا کھاکر فضا میں بکھرجاتے تھے۔ ابابیلوں کا ایک جھرمٹ اڑتے اڑاتے اتنی بلندی پر پہنچ گیا تھا کہ اب ٹھہرا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ سڑک کے نکڑ پر اطمینان سے بیٹھے ہوئے کتے نے آہٹ سن کر سراٹھایا، اسے گھور کر دیکھا اور بہت آہستہ آہستہ غرانے لگا۔ گھورتے غراتے کتے سے کتراکر اس نے سڑک عبور کی اور آگے نکل گیا۔ آگے جاکر اسے گھورتے غراتے کتے کا سرسری خیال آیا اور ساتھ ہی یاد آیا کہ آج تو جمعرات ہے اور اب وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ کیا وہ کتا کالا تھا۔ قدم ٹھٹکے۔ وہ پلٹ پڑا۔ پلٹ پرنے کی کوئی ایسی لم نہیں تھی۔ بس اسےیہ خیال آگیا تھا کہ اب رات ہوتی ہے۔ شہر کہاں جاؤگے گھر واپس چلے چلو۔ البتہ سڑک کے نکڑ کو عبور کرتے ہوئے اس نے آس پاس کا احتیاط سے جائزہ لیا اور سامنے سڑک پر دور تک نگاہ دوڑائی۔ وہ بہت حیران ہوا کہ اتنی سی دیر میں وہ کتا کہاں چھو ہوگیا۔ اسے اب یاد آرہا تھا کہ وہ کتا تو کالا تھا اور یہ جمعرات کی شام ہے تو یہ کہیں کوئی بدروح تو نہیں تھی؟ وہ دیر تک اس شک میں گرفتار رہا کہ آیا وہ کتا تھا یا کتا نہیں تھا اور جب گلی میں مڑا اور اس نانبائی کی دوکان سے گزرا جس نے پکتی ہوئی ہنڈیا سے ابھی ابھی ڈھکن اٹھایا تھا تو اس کی سوندھی سوندھی بھاپ کے ساتھ اسے خیال آیا کہ اس نے دوپہر کا کھانا برائے نام کھایا تھا۔ اسے یکایک بھوک لگ آئی اور اس کے قدم جلدی جلدی گھر کی طر ف اٹھنے لگے۔ مگر اسی کے ساتھ اسے غائب ہوجانے والے کتے کا پھر خیال آگیا۔ وہ کتا تھا یا کتا نہیں تھا؟ پھر اس کی گھورتی غراتی صورت اس کی آنکھوں میں پھر گئی۔ وہ کتا مجھے دیکھ کر عجیب طرح سے غرایا تھا۔ وہ کتا کتا نہیں تھا یا میں۔۔۔ اور وہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ میں کون ہوں؟ کیا میں میں ہی ہوں؟ اسے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ آنے لگا۔ پھر اسے لگا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچ رہ گیا ہے۔ اور ٹانگیں لمبی لمبی ہوگئی ہیں۔ بے تحاشا بھوک لگ آئی ہے۔

    ***************

    آخری موم بتی

    ہماری پھوپھی جان کو تو بڑھاپے نے ایسے آلیا جیسے قسمت کے ماروں کو بیٹھے بٹھائے مرض آدبوچتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بعض لوگ اچانک کیسے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ آندھی دھاندھی جوانی آتی ہے، بڑھاپا تو دھیرے دھیرے سنبھل کر آیا کرتا ہے۔ لیکن پھوپھی جان بوڑھی نہیں ہوئیں بڑھاپے نے انہیں آناً فاناً آن دبوچا۔ جوانی، جوانی سے بڑھاپا۔ ہم جس وقت وہاں سے چلے ہیں تو اس وقت وہ اچھی خاصی تھیں، گوری چٹی، کالے کالے چمکیلے گھنے بال، گٹھا ہوا دوہرا بدن، بھری بھری کلائیوں میں شیشے کی چوریاں، پنڈلیوں میں تنگ پائجامے کا یہ حال کہ اب مسکا۔ لباس انہوں نے ہمیشہ اجلا پہنا۔ وصلی کی جوتیاں بھی زیادہ پرانی نہیں ہوپاتی تھیں کہ بدل جاتی تھیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نئی جوتی کی ایڑی دوسرے تیسرے دن ہی پٹخ جاتی تھی، بے تحاشا پان کھاتی تھیں اور بے تحاشا باتیں کرتی تھیں۔ محلے کے لڑنے والیوں کی صف اوّل میں ان کا شمار تھا۔ لڑنے پہ تو بس ادھار کھائے بیٹھی رہتی تھیں اور ادھار انہیں خوب ملتا تھا، ذرا سی بات ہوئی اور بکھرپڑیں۔ طبیعت میں رنگینی تھی۔ لیکن نہ ایسی کہ اچھال چھکا کہلائیں۔ بس یہی تھا کھل کر بات کرتی تھیں اور بے ساختہ ہنستی تھیں۔ ہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں۔ پھوپھی جان میری سگی پھوپھی نہیں ہیں۔ اپنی والدہ کا فقرہ اگر مجھے غلط یاد نہیں ہے تو وہ میرے مرحوم والد کے چچازاد۔۔۔ یا خالہ زاد۔۔۔ یا شاید پھوپھی زاد بھائی کی بیٹی ہیں۔

    ہمارے خاندان میں سب چھوٹے انہیں پھوپھی جان ہی کہتے ہیں اور شاید میری طرح کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ان سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ ویسے خاندان میں سب ان کا پاس بھی کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے بھی ہیں۔ فسادات کے ماروں کی گنوردل کے ساتھ ساتھ ہم چلنے لگے تو پھوپھی جان سے خاندان کے ایک ایک شخص نے اصرار کیا کہ پاکستان چلی چلو۔ مگر ان کے دماغ میں تو یہ سماگئی تھی کہ اگر وہ چلی گئیں تو امام باڑے میں تالا پڑجائے گا۔ خیر، یہ بات ٹھیک ہی ہے۔ عزاداری کی ساری ذمہ داری اب تو ان کے سر ہے ہی لیکن پہلے بھی اس کا انتظام وہ ہی کرتی تھیں۔ دراصل ہمارا جدّی امام باڑہ اس گھر کا ایک حصہ ہے جہاں پھوپھی جان کے گھر میں مہمانی۔ خاندان کے جولوگ سرکاری ملازمتوں پر قریب و دور کے شہروں میں گئے ہوتے تھے ان دنوں ضرور گھر کا پھیرا لگاتے تھے اور جس کو کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہ ملتی تھی وہ پھوپھی جان کے ہاں جاکر ڈیرے ڈال دیتا تھا۔ ہاں میرے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان کے گھر جاکر ٹھہرا۔ بات یہ ہے کہ میری خالائیں اور مامیاں اتنی تھیں کہ مجھے یہ طے کرنا دشوار ہوجاتا تھا کہ کس کے یہاں جاکر ٹھہروں۔ جس کے یہاں نہ ٹھہرو اسی کے برے بنو۔ میں نے تو تنگ آکر یہ دعا مانگنی شروع کردی تھی کہ اللہ میاں میری خالاؤں، مامیوں اور چاچیوں کی تعداد میں تھوڑی سی کمی کردے۔ وہ کم تو نہ ہوئیں، تتربتر ہوگئیں۔ بہرحال دعاقبول ہوئی لیکن مسئلہ پھر بھی جہاں کا تہاں رہا۔ مجھے یہاں سے چلتے وقت ایک مرتبہ پھر یہ سوچنا پڑا کہ ٹھہرنا کہاں ہے اور اس دفعہ سوائے پھوپھی جان کے گھر کے اور کوئی ٹھکانا ہی ذہن میں نہ آیا۔ میں ابھی کیا کہہ رہا تھا کہ پھوپھی جان بوڑھی ہوگئی ہیں۔ میں انھیں دیکھ کے چکراسا گیا۔ بالکل ڈھل گئی ہیں۔ بال کھچڑی، چہرے پر جھریاں، نیچے کے دو دانت جھڑ گئے ہیں، سفید دوپٹہ اور ننگی کلائیاں رانڈاپے کے طفیل ہیں، ورنہ پہلے تو وہ رنگاچُنا دوپٹہ اوڑھے رہا کرتی تھیں اور شیشے کی رنگین پھنسی پھنسی چوڑیاں ان کی کلائیوں میں کھنکھنایا کرتی تھیں۔ سروطہ پہ مجھے یاد آیا کہ پھوپھی جان کا پان چھالیا کا خرچ اب بہت کم ہوگیا ہے۔ ان کے گھر بیبیوں کا وہ جمگھٹا بھی تو نہیں رہتا۔ پان چھالیا کا خرچ آپ سے آپ کم ہوگا۔ اب ان کا سروطہ بھی کم چلتا ہے اور زبان بھی کم چلتی ہے۔

    میں ہنس کے کہنے لگا، ’’پھوپھی جان آپ تو بالکل بدل گئیں۔ کسی سے اب لڑائی نہیں ہوتی۔‘‘

    پھوپھی جان تو کچھ نہ بولیں۔ ان کے نہ بولنے پہ مجھے بھی خاصی حیرانی ہوئی۔ ہاں شمیم بول اٹھی، ’’لڑیں کس سے بھنڈیلیاں تو پاکستان چلی گئیں۔‘‘

    شمیم سچ کہتی تھی۔ اب تو اڑوس پڑوس میں شرنارتھی ہی شرنارتھی نظر آتے ہیں۔ برابر کے مکان میں پہلے پنڈراول والی رہتی تھی۔ پھوپھی جان کی یا تو اس سے لڑائی ٹھنی رہتی یا گاڑھی چھنتی تھی۔ اب وہاں ایک سردارنی رہتی ہے۔ اس سےپھوپھی جان یوں بھی اک ذرا دب کر بات کرتی ہیں۔ پھر بڑی دقت یہ ہے کہ سردارنی ٹھیٹھ پنجابی بولتی ہے اور پھوپھی جان اردو محاورے سےانحراف نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی حق ہمسائگی ادا کرتے ہوئے سردانی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرلیتی ہے اور پھوپھی جان ایک آدھ لفظ پنجابی کا بھی استعمال کرلیتی ہیں۔ لیکن یہ تو سمجھوتے کی بات ہوئی اور لڑائی سمجھوتوں سے نہیں لڑی جاتی۔ سردارنی کا جسم اب ڈھل گیا ہے لیکن لوَ اب تک دیتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ سردارنی کےلونڈے کو یہ چمک دمک ذرا بھی ورثہ میں نہیں ملی ہے۔ وہ گورا چٹا ضرور ہے، مٹی میں بھی نہیں کھیلتا، لیکن اس کے چہرے پہ وہ شادابی پھر بھی نظر نہیں آتی جو اس عمر کے بچوں کے چہرے پہ کھیلتی نظر آیا کرتی ہے۔ شاید یہ شادابی اور چمک دمک کا سارا قصہ مٹی ہی کا قصہ ہو۔ سردارنی کا بچہ اس مٹی کی بوباس سےغالباً ابھی مانوس نہیں ہوا ہے۔

    ویسے یہ مانوس اور نامانوس کا سوال ہے ٹیڑھا۔ اب میں ہی ہوں مجھے یہ محلہ مانوس بھی نظر آتا ہے اور اجنبیت کااحساس بھی ہوتا ہے۔ اصل میں اپنے محلے کا رنگ ڈھنگ عجیب ڈھب سے بدلا ہے۔ اس کے قصے سے نیندیں نہ اڑیں مگر ہے وہ عجب طور ہی کی کہانی۔ پہلی نظر میں تو تبدیلی کا احساس خود مجھے بھی نہیں ہوا تھا۔ میں صبح منہ اندھیرے گھر پہنچ گیا تھا۔ اسے بھی عجب بات ہی کہنا چاہیے کہ دنیا بدل گئی، ہمارے محلے کا بلکہ ہمارے پورے نگر کا طور بدل گیا۔ لیکن ریل کا وقت اب بھی وہی ہے۔ ریل اب بھی وہاں تڑکے پہنچتی ہے۔ ریل کا وقت نہیں بدلا اور اسٹیشن والی سڑک نہیں بدلی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے دونوں کوایک ہی وضع پہ دیکھا اور اب بھی دونوں کی وہی وضع نظر آئی۔ سڑک خستہ پہلے ہی تھی، اب اور خستہ ہوگئی ہے۔ کئی مرتبہ تو یہ ہوا کہ یہ پتہ ہی نہ چلاکہ اکہ آگے بڑھ رہا ہے کہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔ سامنے کئی اکے اور بھی چلے جارہے تھے۔ صبح کے دھندلکےاور اڑتی ہوئی گرد میں وہ بھی بس یوں نظر آتے تھے کہ چل نہیں رہے ہیں بلکہ چرخ کھارہے ہیں۔ کبھی کبھی ہموار سڑک آجاتی اور سب اکے پوری رفتار سے دوڑنے لگتے۔ ان کے پہیوں کے شور سےبے ہنگم اور میٹھا میٹھا ترنم پیدا ہوتا اور پوری فضا پہ چھاجاتا۔ پھر پہیہ اچانک دھم سے کسی گڑھے میں گرپڑتا اور یوں معلوم ہوتا کہ اکہ اب الٹا اور اب الٹا۔ سڑک سے ہٹ کر ٹیلی گراف کے تار پر ایک شاما چڑیا اس کیفیت سے اپنی ننھی سی دم کو گردش دے رہی تھی گویا اس میں کسی نے پارہ بھر دیا ہے۔ لبِ سڑک ایک شیشم کا گھنا پیڑ کھڑا تھا۔ جس کے سارے پتے چڑیوں کے مٹھاس بھرے شور سے بج رہے تھے لیکن چڑیا کہیں نظر نہ آتی تھی۔ اکہ پھر تیزی سے چلنے لگا۔ مٹھاس بھرا شور دھیما پڑتا گیا، دھیما پڑتا گیا اور صبح کے امنڈتے ہوئے دھیمے راگ میں حل ہوگیا۔ ہوا میں اک مہک پیدا ہوچلی تھی۔ سڑک سے لگی ہوئی مٹھن لال کی بغیچی تھی جہاں بیلا چنبیلی کے درخت سفید سفید پھولوں سے لدے کھڑے تھے۔ ان سے ورے ایک نیم کے نیچے رہٹ چل رہی تھی۔ چبوترے پر لالہ مٹھن لال کھڑے تھے۔ ننگے پیر ننگے سر، بدن پہ لباس کے نام ایک بدرنگ دھوتی، گلے میں سفید ڈورا، ایک ہاتھ میں پیتل کی گڑہئی، دوسرے میں نیم کی داتون۔

    لالہ مٹھن لال کے طور اطوار میں ذرا بھی تو فرق نہیں آیا ہے۔ اسی انداز سے سویرے منھ اندھیرے ٹٹی اور اشنان کو گھر سے نکل بغیچی پہنچتے ہیں۔ جنگل سے واپسی پر رہٹ پہ بیٹھ کر پیلی مٹی سے گڑہئی مانجھتے ہیں، نیم کی داتون کرتے ہیں اور جتنی داتون کرتے ہیں اتنا ہی تھوکتے ہیں۔ لالہ مٹھن لال کی بغیچی سے بس ذرا آگے برھ کر آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ بازار بھی بند تھا۔ ہاں موتی حلوائی کی دوکان کھل گئی تھی لیکن چولہا ابھی گرم نہیں ہوا تھا۔ جلیبیوں اور کچوریوں کے ابتدائی انتظامات ہو رہے تھے۔ دکان کے سامنے جھوٹے دونوں، کلہڑوں اور الا بلا کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ جس پہ ایک دو کتے بڑی بیدلی سے منڈلا رہے تھے۔ مہتروں نے جھاڑو کا سلسلہ ابھی بند نہیں کیا تھا۔ سڑک پہ جابجا گرد اڑ رہی تھی اور اپنی گلی کے نکڑ پہ تو اتنی گرد تھی کہ تھوڑی دیر تک کچھ نظر ہی نہ آیا۔ بس ایک دھندلا سا سایہ حرکت کرتا دکھائی دیتا تھا۔ اکہ جب بالکل قریب پہنچ گیا تب مجھے پتہ چلا کہ یہ جھالو مہترانی ہے۔ اس نے مجھے بڑی رعونت سے دیکھا اور پھر جھاڑوں دینے میں مصروف ہوگئی مجھے اس کی اس رعونت پہ پانچ چھ سال پہلے والا زمانہ یاد آگیا۔ میں اور وحید اکثر علی گڑھ سے اسی گاڑی سے آیا کرتے تھے اور ہر مرتبہ جھالو مہرتانی اسی انداز سے جھاڑو دیتی نظر آتی۔ رعونت سے ہمیں دیکھتی اور پھر جھاڑو دینے لگتی۔

    وحید آج کل کراچی میں ہے۔ لیکن کراچی جاکر اس نے تو ایسا چولا بدلا ہے کہ ٹھیٹھ پاکستانی نظر آتا ہے۔ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے اور گلچھرے اڑاتا ہے۔ پچھلے سال اتفاقاً اس سے ملاقات ہوگئی تھی۔ بڑی گرمی میں باتیں کرتا تھا۔ کراچی کی رونق کے قصیدے، تجارت کی نیرنگیوں کا احوال، وہ کہتا رہا، میں سنتا رہا۔ اس کے نئے رنگ کو دیکھ کر تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ موٹر کی سواری پر منحصر نہیں، وحید کا تو چولا ہی بدل گیا ہے۔ امریکی طرز کی بوشرٹ اور پینٹ تو ظاہری ٹھاٹ باٹ ہوئے، اس کا تو بات کرنے کا لہجہ تک بدل گیا ہے۔ بندرگاہ کراچی کی ہوا کی تاثیر سے میں ناواقف نہیں ہوں۔ وہاں مہاجر اسی طرح چولا بدلتا ہے۔ وہ یا تو کسی فٹ پاتھ پہ ڈیرا ڈال دیتا ہے اور سمندر کی نم ہواؤں کے سہارے جیتا ہے یا پھر چھیلا بن کر موٹروں میں گھومتا ہے۔ لیکن وحید کی نئی وضع قطع دیکھ کر مجھے واقعی بہت تعجب ہوتا ہے۔ میرا یہ عقیدہ رہا تھا کہ جسے علی گڑھ نہیں بگاڑ سکتا اسے دنیا کی کوئی برائی نہیں بگاڑ سکتی۔

    میں اور وہ علی گڑھ ایک سال کے فرق سےپہنچے تھے۔ بات یہ ہوئی کہ میں میٹرک میں ایک سال لڑھک گیا تھا۔ ایک سال بعد جب میں علی گڑھ پہنچا تو وحیدمیں مجھے ذرا بھی تبدیلی نظر نہ آئی۔ ایک میلی کالی اچکن کے سوا اور کوئی نئی چیز اسے علی گڑھ سے تحفے میں نہیں ملی تھی۔ اب بھی اسی محنت، اسی ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔ وحید کو ہماری پھوپھی جان ہی نے پڑھایا لکھایا ہے۔

    قصہ اصل میں یہ تھا کہ وحید کی شمیم سے منگنی ہوگئی تھی۔ اسے معمولی منگنی بھی نہیں کہنا چاہیے۔ یوں اب مجھے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ کمبخت کو شمیم سے عشق تھا۔ اس کے لیے میری دلیل یہ ہے کہ اگر یہ معمولی لگاؤ ہوتا تو علی گڑھ میں جاکر اس کا زور ٹوٹ جاتا۔ علی گڑھ میں یاروں کا عجب طور رتھا۔ جس لڑکے نے امتحان کے ڈیڑھ دو مہینے کسی لڑکی کو ٹیوشن پڑھادیا، اس سے اپنی لگاوٹ کا اعلان کردیا۔ جو لڑکا کسی نئے طالب علم کے ساتھ تین دن میرس روڈ پر گھوم لیا۔ اس کی خبر مشتہر کردی۔ علی گڑھ میں عشق کم عشق کاچرچا زیادہ تھا۔ لیکن وحید نے لڑکیوں کے ٹیوشن کیے اور مسلسل کیے لیکن اپنی آن قائم رکھی۔ ہفتے کی چھٹی آئی اور وہ علی گڑھ سےر سہ تڑا کر بھاگا۔ ادھر شمیم بھی شاید اس کی باٹ ہی دیکھتی رہتی تھی۔ میں تو جب بھی وحید کے ساتھ گیا اس گلی کے گزرتے وقت یہی دیکھا کہ اوپر کی کھڑکی سے کوئی جھانک رہا ہے۔ شمیم اتنی حسین و جمیل تو نہ تھی کہ اسے حور اور پری کہا جائے، لیکن اس میں ایک عجب سی کشش ضرور تھی۔ چھریرا بدن، لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ، آنکھیں۔۔۔ مجھے ان آنکھوں کا ذکر ذرا زیادہ جوش سے کرناچاہیے۔ اگر اس کی آنکھیں ایسی نہ ہوتیں تو وہ معمولی شکل و صورت والی لڑکیوں میں شمار ہوتی۔ شعر اور افسانہ قسم کی چیزوں سےمجھے چونکہ کوئی ربط نہیں ہے۔ اس لیے میرے ذہن میں کوئی خوبصورت تشبیہ نہیں آرہی۔ بس کچھ ایسا تاثر پیدا ہوتا تھا کہ کیوڑے سے بھری دوپیالیاں ہیں جو چھلک جانے کو ہیں۔ اس کی پتلیاں گردش کرتی ہوئی نہیں بلکہ تیرتی نظر آتی تھیں۔ میں نےاسے کئی مرتبہ شلوار پہنے بھی دیکھا ہے۔ لیکن شلوار تو وہ شوقیہ پہن لیا کرتی تھی اس کا روزمرہ کا لبا س ڈھیلا پائجامہ تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ڈھیلا پائجامہ اس کے چھریرے بدن اور لمبے قد پہ خوب پھبتا تھا۔ پھولوں کی بڑی شوقین تھی۔ گرمیوں میں صبح کے وقت میں جب بھی پھوپھی جان کے ہاں گیا یہی دیکھا کہ شمیم بیٹھی بیلے کے پھول گو رہی ہے۔ جتنے پھول کانوں میں پہن سکتی تھی کانوں میں پہن لیتی تھی۔ باقی کے گجرے پروکر کورے کورے گھڑوں پر پھیلادیتی تھی۔

    میں نے اگر ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے تو اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ شمیم زندہ ہے۔ اصل بات یوں ہے کہ مجھے اپنا یہ پورا محلہ ہی ماضی کاصیغہ نظر آتا ہے۔اب شمیم کو میں اس سے کیسے علیحدہ سمجھوں اور پھر اب شمیم میں وہ بات بھی تو نہیں رہی۔ اس میں جو عجب قسم کی لہک تھی اس نے ایک دھیی دھیمی حزنیہ کیفیت کی شکل اختیار کرلی۔ شمیم اب خاصی جھٹک گئی ہے اس کا چھریرا جسم کچھ اور زیادہ چھریرا نظرآنے لگا ہے، چہرہ بھی سونت گیا ہے اور اس کی آنکھوں کی شادابی سے وہ کیوڑے والی کیفیت اب پیدا نہیں ہوتی، یہ الگ بات ہے کہ اس کے جسم کی مہک کم نہیں ہوئی ہے اس کی آنکھوں سے اب کچھ اور ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے میں اس کے لیے ’افسردگی‘ کا لفظ استعمال نہیں کروں گا۔ اس کی آنکھوں کی اس نئی کیفیت کے سلسلے میں مجھے یہ لفظ کچھ حامیانہ سا نظر آتا ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ میں کوئی ترشا ترشا یا لفظ استعمال ہی کروں۔ دراصل اس گھر کی پوری فضا میں اب ایک عجیب سی کیفیت رچ گئی ہے جسے میں لفظوں میں ٹھیک طور سے بیان نہیں کر سکتا۔

    پھوپھا کا انتقال ہمارے جانے کے تھورے دن بعد ہی ہوا تھا۔ شاید اس گھر کا طور اسی وجہ سے بدل گیا ہے۔ ہمارے پھوپھا اچھے خاصے زمیندار تھے۔ ان کے زمانے میں گھر میں ترکاریوں کی وہ ریل پیل رہتی تھی کہ پھوپھی جان محلے والیوں پہ خوب خوب عنایت کرتی تھیں اور پھر بھی ترکاری بہت سی سوکھ جاتی تھی۔ خربوزوں کی فصل پہ یہ عالم ہوتا کہ پھوپھی جان کے گھر کا آنگن بسنتی ہوجاتا اور ادھر مینہ کا چھینٹا پڑا، ادھرخربوزوں کی آمد بند اور آموں کے ٹوکروں کی آمد شروع ۔ بوندا باندی کا عالم ہے، صحن میں پانی سے بھری ٹب رکھی ہے اور اس میں آم پڑے ہیں۔ لیکن اب تو پھوپھی جان کے آنگن میں جھاڑو سی دی رہتی ہے، نہ خربوزوں کے چھلکے نظر آتے ہیں، نہ آموں کی گٹھلیاں دکھائی دیتی ہیں، نہ گوبھی اور مولی کے پتے بکھرے ہوتے ہیں۔ صبح کے وقت پھولوں کے آنے کا دستور بھی بند ہوگیا ہے۔ شمیم کے کانوں میں بس دو ہلکے پھلکے روپہلی بُندے ہلکورے کھاتے رہتے ہیں۔ پھوپھی جان کے لباس میں تو خیر نمایاں فرق پیدا ہو ہی گیا ہے، لیکن شمیم بھی اب اتنی اجلی نہیں رہتی۔ اس تبدیلی سے قطع نظر مجھے تو شمیم کو وہاں دیکھ کر تعجب سا ہو رہا تھا۔ میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ شمیم کی شادی ہوگئی ہے اور وحید کے ساتھ کراچی میں ہے۔ میں یہی تصور کرلیتا کہ شمیم کراچی سے آئی ہوئی ہے۔ مگر اس کے چہرے پہ بھی تو اس آسودگی کاکوئی نشان نظر نہ آتاتھا جو شادی کے بعد لڑکیوں کے چہروں پہ پیدا ہوجایا کرتی ہے۔

    میں نے موقع پر بات چھیڑ ہی دی۔ ’’پھوپھی جان، وحید تو آج کل کراچی میں ہے نا؟‘‘

    پھوپھی جان اس وقت گیہوں صاف کر رہی تھیں۔ صحن میں چھوٹا سا ٹاٹ بچھا تھا۔ اس پہ گیہوں کا ایک ڈھیر پڑاتھا اور پھوپھی جان چھاج میں تھوڑےتھوڑے گیہوں ڈال کر پھٹکتیں، بینتیں اور الگ ایک ڈھیر لگاتی جاتیں۔ میرے فقرے کا ان پہ کوئی شدید ردِّعمل تو نہیں ہوا، وہ اسی طرح کنکریاں بینتی رہیں۔ ہاں لہجے میں فرق ضرور پڑ گیا۔ لہجے کی یہ کیفیت غصے اور افسردگی کے بین بین تھی۔ کہنے لگیں، ’’خاک ڈالو کمبخت پہ، ہماری بلا سے وہ کہیں ہو۔‘‘

    میں اور چکرایا۔ پہلے تو میں چپ رہا کہ پھوپھی جان خود ہی کھلیں گی لیکن وہ تو اسی طرح گیہوں کے ڈھیر پر جھکی رہیں۔ پھر میں نے ہی بات چلائی، ’’تو شمیم۔۔۔‘‘

    پھوپھی جان میری بات کاٹتے ہوئےبولیں۔ ’’ارے بھیا! اس نے تو کرانچی جاکے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ کوئی چلتی پھرتی مل گئی اس سے بیاہ کرلیا۔‘‘ انہوں نے چھاج اٹھایا اور آہستہ سے دو دفعہ گیہوں پھٹک کر پھر کنکریاں بیننی شروع کردیں۔ کنکریاں بینتے بینتے اسی طرح چھاج پہ نظریں جمائے ہوئے وہ پھر بولیں، ’’ڈوبا ہمارا تو لہنا ہی ایسا ہے مٹے کو پڑھایا لکھایا، پالا پرورش کیا اور اس نے ہمارے ساتھ یہ دغا کی۔۔۔ یاں سے کہہ کےگیا کہ کرانچی جاتے ہی خط بھیجوں گا۔ لے بھیا اس نے تو واں جاکے ایسی کینچلی بدلی۔ دنیا بھر کے فیل کرنے لگا۔‘‘

    پھوپھی جان چپ ہوگئیں۔ ان کی نظریں اسی طرح گیہوں کی ڈھیری پر جمی ہوئی تھیں۔ ڈھیری کے دانوں کو آہستہ آہستہ پھیلاتیں، کریدتیں اور کنکریاں چن کے ایک طرف پھینکتی جاتیں۔ کنکریاں چنتے چنتے وہ پھر آہستہ سے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئےبولیں، ’’خیر، ہم نے جیسا کیا ہمارے آگےآئے گا۔‘‘ اور انھوں نے چھاج میں گیہوں ڈالے اور زور سے پھٹکنے شروع کردیے۔

    ’’کمبخت گیہوں میں نرا کوڑا ہے۔آدھے جَو ملے ہوئے ہیں۔‘‘ اور انہوں نے زور زور سے گیہوں پھٹکنے شروع کردیے۔

    میرا وہاں ایک ہفتے قیام رہا۔ مگر پھر کبھی یہ ذکر نہیں نکلا۔ دکھتے ہوئے گھاؤ پہ ایک مرتبہ میں انگلی رکھ چکا تھا۔ دوبارہ اس کی جرأت نہ ہوئی۔ پھوپھی جان نے خود یہ ذکر چھیڑا نہیں مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اسے بھول بسر گئی ہوں۔ ان کی چپ چپ، ان کے پورے طرز عمل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ پھوڑا ہر وقت دکھتا ہے، درد کرتا ہے۔ شمیم اس حدتک تو متاثر نہیں معلوم ہوتی تھی۔

    اس گھر کی چہل پہل نہ جانے کہاں رخصت ہوگئی تھی۔ گھر میں سارے دن خاموشی سی چھائی رہتی۔ باتیں ہوتیں تو خاموشی کا تاثر اور گہرا ہوجاتا۔ پھوپھی جان اکثر بے معنی طور پر باورچی خانے سے صحن میں اور صحن سے کسی کمرے میں جاتیں اور خواہ مخواہ کی مصروفیتیں پیدا کرتیں اور یوں معلوم ہوتا کہ یہ پھوپھی جان نہیں ہیں، پھوپھی جان کا سایہ اس گھر میں منڈلا رہا ہے۔ مجھے خفقان ہونے لگتا اور میں باہر نکل جاتا۔ باہر گلی میں شرنارتھیوں کے سائے چلتے پھرتے نظر آتے اور خاموش گلی بدستور خاموش رہتی۔

    اسے پرمٹ سسٹم کی ستم ظریفی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ویسے میں اسے اتفاق ہی کہوں گا کہ وہاں سے میری روانگی ٹھیک یکم محرم کو ہوئی۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ پچھلے سال چاند ۲۹ کا ہوا تھا۔ ۲۹کو سارے دن پھوپھی جان اور شمیم امام باڑے کی جھاڑ پونچھ میں مصروف رہیں۔ شمیم کو مجلسوں، زیارتوں اور نوحے مرثیے سے پہلے بھی بڑا لگاؤ تھا۔ لیکن اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے کو عزاداری ہی کے لیے وقف کردیا ہے۔ کس انہماک سے وہ سارے کام کر رہی تھی۔ پھوپھی جان نے تو بس واجبی واجبی کام کیا۔ باقی امام باڑے کو پوتنے، علموں کو دھونے، پاک کرنے، سجانے اور جھاڑفانوس کے جھاڑنے صاف کرنے کے سارے کام شمیم ہی نے کیے۔ میں حیران رہ گیا۔ اس کام میں نہ جانے کون کون پھوپھی جان کا ہاتھ بٹاتا تھا اور آج سارا کام شمیم کر رہی تھی۔

    میں تیسرے پہر کو باہر نکل گیا۔ قدم مخواہ مخواہ اسٹیشن کی طرف اٹھ گئے۔ پلیٹ فارم پہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پٹری کے درے درختوں پہ کہیں کہیں مرجھائی ہوئی دھوپ پھیلی دکھائی دیتی تھی۔ ایک درخت پہ بہت سے کوّے بیٹھے تھے۔ جو مسلسل شور کیے چلے جارہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی کوا گھبراہٹ کے عالم میں شاخوں سے نکل کر فضا میں بلند ہوتا اور بیٹھے ہوئے کوؤں کی مزاحمت کےباوجود پھر اسی شاخ پہ بیٹھنے کی کوشش کرتا اور کامیاب رہتا۔مجھے خیال آیا کہ آج غالباً چاندرات ہوجائے، محرم کی تقریب سے لوگوں کو آنا چاہیے۔ پہلے تو ہر سال یہی ہوتا تھا کہ چاند رات ہوئی، پردیس میں گئے ہوئے لوگوں کے آنے کا تانتا بندھ گیا۔ اتنی دیر میں ریل کے آنے کی گھنٹی بجی۔ تھوڑی دیر کے لیے پلیٹ فارم کی خاموش فضا میں ایک گہما گہمی ہوگئی۔ گاڑی آئی، چند منٹ ٹھہری، آنے والے اترے، جانے والے سوار ہوئے، جانی پہچانی صورت براجنے والوں میں دکھائی دی نہ سدھارنے والوں میں۔ گاڑی روانہ ہوگئی۔ پلیٹ فارم خالی ہونے لگے۔ میں پلیٹ فارم سے باہر نکل کر گھر کی طرف ہولیا۔

    شام ہوچلی تھی۔ دن کا اجالا مدھم پڑتا جارہا تھا۔ تاشوں کی آواز نے گلی کی فضا میں ہلکی سی گرمی پیدا کردی تھی۔ کلو اور شرافت تاشہ بجارہے تھے۔ کلو جوتے بنانے کا کام کرتا ہے اور شرافت آج کل چنگی کی چوکی پہ منشی لگا ہوا ہے۔ برمیں سیہ قمیصیں، گلے میں تاشے، ہاتھوں میں قمچیاں۔ تیسرا تاشہ شرافت کے چھوٹے بھائی کے گلے میں تھا۔ مگر اس کی قمچی بار بار غلط پڑتی تھی اور تاشے کی بنی بنائی گت بگڑجاتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابھی تاشہ بجنا شروع ہوا ہے۔ گھر سے اور لوگ نکلیں گے، کسی کے گلے میں تاشہ ہوگا، کوئی محض دیکھنے والا ہوگا اور پھر ایک لمبا جلوس بن جائے گا جو گلیوں اور محلوں میں گشت کرتا ہواسارے امام باڑوں میں پہنچے گااور محرم کی آمد کااعلان کرے گا۔ ہرسال یہی ہوا کرتا تھا۔ مگر بہت دیر ہوگئی اور سوائے چند بچوں کے اس مختصر گروہ میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ ایک بڑے میاں کہیں باہر سے لاٹھی ٹیکتے ہوئے آرہے تھے۔ تاشوں کو سن کے رکے، پوچھا۔ ’’بھائی محرم کاچاند دیکھ گیا؟‘‘

    ’’ہاں جی دیکھ گیا،‘‘ ایک چھوٹے سے لڑکے نے جواب دیا۔

    بڑے میاں نے عینک ماتھے پر بلند کی، چند منٹ تک تاشے والوں کو تکتے رہے اور پھر لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور گھر میں داخل ہوگئے۔

    رفتہ رفتہ کلو اور شرافت کے ہاتھ دھیمے پڑنے لگے۔ وہ آگے بڑھ لیے، آگے آگے شرافت اور کلو، پیچھے چند بچے اور یہ جلوس گلی سے نکل کر کسی دوسری طرف مڑگیا۔ گلی میں پھر خاموشی چھاگئی۔

    میں جب گھر میں داخل ہوا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ امام باڑے میں روشنی ہو رہی تھی۔ جھاڑ فانوس اپنے اسی پرانے اہتمام سے جگر جگر کر رہے تھے۔ فرش پہ جاجم بچھی تھی جس پہ جابجاسوراخ ہو رہے تھے۔ میز پر چڑھا ہوا سیہ غلاف بھی خاصا بوسیدہ نظر آرہاتھا۔ اس کے بائیں سمت جو قالین بچھا ہوا تھا وہ بوسیدہ تو نہیں میلا ضرور ہوگیا تھا۔شمیم اگربتیاں جلا جلا کر طاقوں کے سوراخوں میں اڑس رہی تھی۔ سر سے پیر تک سیہ لباس پہن رکھا تھا، سیہ ڈھیلا پائجامہ، سیہ قمیص، سیہ جارجٹ کا دوپٹہ۔ شیشے کی نازک آسمانی چوڑیاں اتاردی تھیں۔ لیکن وہ روپہلی بندے اسی طرح کانوں میں لہرا رہے تھے۔

    مجھے دیکھ کر اس نے آواز دی، ’’بھائی جان علموں کی زیارت کرلو۔‘‘

    دروازے میں جوتے اتار کر میں اندر داخل ہوا۔ علم اندر عزا خانے میں سجے ہوئے تھے جس کا دروازہ منبر کے برابر کھلتا ہے۔ میں نے کالا پردہ اٹھایا اور اندر چلا گیا، مجھے ایسا لگا کہ گیلی زمین پہ چل رہا ہوں۔ عزاخانے کافرش کچا ہے، وہ آج ہی لیپا گیا تھا۔ وہاں اندھیرا تو نہیں تھا چند ایک موم بتیاں طاقوں میں جل رہی تھیں۔ دوزرد سرخ موم بتیاں علموں کی چوکی پہ بھی جمی ہوئی تھیں، لیکن ان کی روشنی کو اجالا تو نہیں کہا جاسکتا تھا۔علموں کی چوکی پہ موم بتیوں کے برابر مٹی کی پیالی میں لوبان سلگ رہاتھا۔ چوکی پہ ایک قطار میں علم سجے رکھے تھے۔ مختلف قد کی چھڑیں، مختلف رنگ کے پٹکے۔

    مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے مختلف شکلوں کے پنجے۔ کئی ایک علموں پہ پھولوں کے گجرے پڑے تھے۔ ایک سونےکاچھوٹا ساعلم سب سے زیادہ چمک رہا تھا۔ سونے کا پنجہ، سرخ ریشمیں ململ کا پٹکا، چنبیلی کے پھولوں کا نازک پتلا سا ہار۔ الگ ایک کونےمیں لکڑی کاایک کاجو بوجھو جھولا رکھا تھا۔ یہ جھولا چھ کی شب کو ہمارے امام باڑے سے نکلتا ہے۔ سبز، سرخ اور سیہ ٹپکوں میں لپٹے ہوئے جگمگاتے ہوئے علم، موم بتیوں کی ہلکی دھیمی روشنی، لپی ہوئی گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، لوبان سے اٹھتا ہوا ہلکا ہلکا خوشبودار دھواں، ان سب چیزوں نے مل کر ایک پراسرار سی فضا پیدا کردی تھی۔ ایک عجیب سی کیفیت میرے حواس پر چھاتی جارہی تھی۔ میں نے جلدی سے علموں کی زیارت کی اور باہر جانے کے لیے مڑا۔ لیکن شمیم نے ٹوک دیا۔ ’’بھائی جان دعا تو مانگ لیجیے۔‘‘

    اس وقت میرے جی میں نہ جانے کیاآئی۔ میں بے اختیار اس کے قریب پہنچ گیا اور آہستہ سے بولا، ’’ان علموں نے جب تمہاری دعا قبول نہ کی تو میری دعا کیا قبول کریں گے۔‘‘

    شمیم ایک دم سے سر سے پیر تک کانپ گئی۔ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھا اور سہمی ہوئی آواز میں بولی، ’’بھائی جان آپ تو بالکل وہابی ہوگئے۔‘‘ وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔

    غراخانے سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شمیم منبر کے دوسری طرف ایک طاق پہ جھکی کھڑی ہے، پشت میری طرف ہے اور چہرہ تقریباً آدھا طاق کے اندر۔۔۔ ایک ہاتھ میں جلی ہوئی موم بتی جسے غالباً اس لیے جھکا رکھا ہے کہ موم کے گرم قطرے طاق میں ٹپکاکر ان پہ موم بتی کو جمادیاجائے، لیکن موم بتی کی گرم گرم بوندیں طاق پہ گرنے کی بجائے آہستہ آہستہ جاجم پہ گر رہی تھیں۔

    امام باڑے سے میں آہستہ سے نکل آیا۔ اوپر پہنچا تو شاید پھوپھی جان میرا انتظار ہی کر رہی تھیں کہ فوراً ہی کھانا لاکے چن دیا۔ میں کھانا کھا رہا تھا اور وہ برابر آبیٹھی تھیں۔ اگر وہ اس وقت بہت چپ چپ تھیں تو اس میں میرے چونکےکی ایسی کیا بات تھی۔ میں نے انھیں ان سات دنوں میں چہکتے کس دن دیکھا تھا جو ان کی خاموشی پہ چونکتا۔ میں نے دھیان نہیں دیا اور کھانے میں مصروف رہا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ پھوپھی جان گھٹنے پہ سر رکھے رو رہی ہیں۔

    ’’پھوپھی جان کیا ہوگیا؟‘‘ میں واقعی گھبراگیا اور کھانا وانا سب بھول گیا۔

    وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولیں، ’’بھیا اب تمہارے امام باڑے میں تالا پڑے گا۔‘‘

    ’’آخر کیوں تالا پڑے گا۔ آپ جو یہاں ہیں۔‘‘

    ’’میں رانڈ دکھیا کیا کروں۔ ‘‘ پھوپھی جان بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگیں۔

    ’’مردانی مجلس بند ہوگئی، نہ کوئی انتظام کرنے والا تھا نہ کوئی مجلس میں آتا تھا۔۔۔ اور بھیا براماننے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان والوں نے ایسا غضب کیا ہے کہ جب سے سکہ بدلا ہے کسی نے پھوٹی کوڑی جو محرموں کے لیے بھیجی ہو۔‘‘

    پھوپھی جان نے دوپٹے سے آنسو پونچھے۔ ان کی رقت ختم ہوگئی تھی۔ اب وہ سنبھلےہوئے انداز میں باتیں کر رہی تھیں،اگرچہ اس میں ہلکا ہلکا دکھ اب بھی جھلک رہاتھا۔

    ’’تمہارے پھوپھا زندہ ہوتے تو کوئی بات نہ تھی مگر اب تو خود ہمارا ہاتھ تنگ ہے۔ ہاتھ پیروں سے حاضر ہوں۔‘‘ وہ ذراچپ ہوئیں، ٹھنڈا سانس لیا اور بولی۔ ’’اب تو بھیا میرے ہاتھ پیر بھی تھک گئے۔ شمیم کا دم ہے کہ اتنا وتناانتظام ہوجاوے ہے مگر شمیم ہمیشہ میرے کولہے سے لگی تھوڑا ہی بیٹھی رہے گی۔۔۔‘‘ پھوپھی جان بات کرتے کرتے رک گئیں۔

    وہ پھر کسی خیال میں کھو گئی تھیں۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ پھر بولیں۔ ان کی آواز اب اور دھیمی پڑگئی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کہہ رہی ہیں۔ ’’جوان لونڈیا کو کب تک لیے بیٹھی رہوں، کوئی برا بھلا لڑکا ملے تو وہیں آجاؤں گی اور کیا کروں۔‘‘

    پھوپھی جان پھر اسی کیفیت میں کھو گئیں۔ میں کیا بولتا، چپ بیٹھا رہا۔ اتنے میں شمیم آگئی اور اتنے دبے پاؤں آئی تھی کہ مجھے اس کی آہٹ بھی تو نہ ہوئی۔ بس وہ اچانک آہستہ سے پھوپھی جان کے پاس آکھڑی ہوئی۔ شاید وہ مجھ سے آنکھ بھی بچارہی تھی۔ وہ آہستہ سے پھوپھی جان سے بولی، ’’امی جی بیبئیں آگئیں، چل کے مجلس شروع کرادیجیے۔‘‘ اور اس فقرے کے ساتھ ساتھ اس نے ایکا ایکی اڑتی سی نظر سے مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کا رنگ اور گہرا ہوگیا تھا۔

    صبح رخصت ہونا تھا۔ صبح کی رخصت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ سفر کی فکر میں رات بھر نیند نہیں آتی۔ میں سویرے ہی سے سوگیاتھا۔ لیکن بارہ بجے کے قریب پھر آنکھ کھل گئی۔ نیچے امام باڑے میں مجلس جاری تھی اور تو کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا مگر تھوری تھوڑی دیر بعد ایک مصرعہ ضرور سنائی دے جاتا تھا،

    عالم میں جو تھے فیض کے دریا وہ کہاں ہیں

    کئی عورتیں مل کر پڑھ رہی تھیں، لیکن شمیم کی آواز الگ پہچانی جاتی تھی۔ یہ مرثیہ وہ پہلے بھی بڑی خوش گلوئی سے پڑھتی تھی۔ اب اس کی آواز میں زیادہ سوز پیدا ہوگیا ہے،ایک غنودگی کی کیفیت پھر مجھ پہ چھاتی چلی گئی۔

    میں نہ جانے کتنی دیر سویا، شاید زیادہ دیر نہیں کیونکہ جب دوبارہ آنکھ کھلی ہے تو مجلس ابھی ختم نہیں ہوئی تھی،ہاں ختم ہو رہی تھی۔ کہیں بہت دور سے، شاید خواب کی وادی سے، سوزمیں ڈوبی ہوئی ایک نرم اور شیریں آواز آرہی تھی،

    عالم میں جو تھے فیض کے دریا وہ کہاں ہیں

    آواز میں اب وہ اٹھان نہیں تھی وہ ڈوبتی جارہی تھی، پھر وہ آہستگی سے خاموشی میں گھلتی چلی گئی۔ رات خاموش تھی۔ ہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد زور سے کسی نوحے کی آواز ہوا کی لہروں کے ساتھ بہکتی ہوئی آجاتی اور پھر کہیں کھو جاتی۔ البتہ تاشوں کی مدھم آواز مسلسل آرہی تھی۔ شاید کسی امام باڑے میں ماتم ہو رہاتھا۔ نیچے ہمارے امام باڑے میں بھی سکوت ٹوٹ چکا تھا اور عورتوں کےآہستہ آہستہ ماتم کرنے اور آنسوؤں سے دھلی ہوئی مدھم آوازوں میں ’حسین حسین‘ کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔

    مأخذ:

    گنی چنی کہانیاں (Pg. 176)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: وکاس پبلیشنگ ہاؤس پرائیویٹ لمیٹڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے