Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہری بول

ذکیہ مشہدی

ہری بول

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    کہانی بدلتے وقت کے ساتھ خونی رشتوں میں ہو رہی تبدیلی اور خود غرضی کے رویے کو بیان کرتی ہے۔ وہ ایک افسر کی بیوی تھی اور ایک عالیشان گھر میں رہتی تھی۔ شوہر کی موت ہو چکی تھی اور بچے اپنی زندگی میں مست تھے۔ بیٹا جرمنی میں رہتا تھا اور بیٹی سسرال کی ہو کر رہ گئی تھی۔ انہیں اپنی بوڑھی ماں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مگر جب انہیں پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنا آبائی گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور ماں کو نانی کے گھر بھیج دیا، جہاں آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو بجلی پہنچی تھی اور نہ ہی بیت الخلا تھا۔

    نانی کا نانہال

    گرچہ وہ خود عرصہ پہلے نانی بن چکی تھی اور عرصۂ دراز کے بعد اپنے نانہالی گاؤں آئی تھی لیکن سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ نہیں بدلا تھا۔ اگر بدلا بھی تھا تو بس اتنا ہی کہ نظر میں نہ آئے۔ کوئی بتائے تبھی محسوس ہو۔

    ٹرین نے حسب معمول اس اونگھتے اداس اسٹیشن پر اتارا۔ وہاں سے ایک بس لینی پڑی جس کی چولیں ہلی ہوئی تھیں۔ اس نے جہاں لاکر چھوڑا وہاں کے بعد سڑک نہیں تھی اور نانہال ابھی چار پانچ کلو میٹر آگے تھا۔ گاؤں کے رشتے سے ماما کہلانے والا رام سَگن ٹم ٹم لے کر آیا ہوا تھا۔ بوڑھا پھوس دیسی ہی گھوڑی۔ گاؤں کے لوگ تو یہاں سے پیدل رپٹ دیا کرتے تھے۔ ٹم ٹم شاذ و نادر چلتی۔ بیل گاڑیاں تقریباً ناپید تھیں۔

    زرین نے اسے پہچان لیا۔ اس نے بھی۔ چندھی بوا کے ہاتھ کا سہارا لے کر زرین بدقت تمام ٹم ٹم میں سوار ہوئی۔

    ’’مالک گیہوں چھِٹوا رہے تھے۔’’ رام سگن نے انگوچھے سے چہرہ پونچھا پھر کودتے ہوئے ٹم ٹم پر سوار ہوکر بتایا۔ ’’بس کھڑے کھڑے گر گئے۔ کبھی بیمار نہیں پڑے تھے۔ سردی کھانسی ہوئی تو بس تلسی کا کاڑھا پی لیا۔ گاؤں میں کوئی زیادہ بیمار نہیں پڑتا۔ جانتا ہے پڑےگا تو دوا دارو نہیں ملے گی۔ پھر اس نے قدرے توقف کے بعد کہا ’’ہمارے جوان بھتیجے کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ لاد کر سنٹر لے گئے۔ جانے میں ہی دو گھنٹے لگ گئے۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ بَس لے کر انو منڈل گئے۔ ہسپتال میں پڑا رہا۔ علاج شروع ہوتے ہوتے بہت دیر ہو چکی تھی۔‘‘

    ’’تب؟‘‘ چندھی بُوا نے بلا وجہ ہی سوال کر ڈالا ورنہ بات تو عیاں تھی۔

    ’’تب کیا۔ چل بسا۔ ایک ہی لڑکا تھا۔‘‘

    رام سگن ہمیشہ سے بہت بولتا تھا۔ لیکن اس وقت تو وہ اپنا دُکھ بانٹ رہا تھا۔ زرین کی آنکھیں بھر آئیں۔ بہت دن سے سوچتی تھی کہ ایک بار گاؤں آکر ماموں سے مل لے۔ وہ اس سے بس کوئی چار ایک برس بڑے تھے۔ یہاں آتی تھی تو خالہ ماموں اس کے ساتھ مل کر بھائی بہنوں کی طرح کھیلا کرتے تھے۔ پہلے شادیاں اتنی کم عمری میں ہوتی تھیں کہ کئی کنبوں میں تو ماں بیٹی کے یہاں آگے پیچھے بچے پیدا ہوتے رہتے تھے۔ لوگوں کو نہ اس پر حیرت ہوتی تھی نہ اسے مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا۔

    اداسی کے باوجود دل میں کچھ یادوں نے گدگدی کی۔

    نوعمری کے زمانے میں وہ یہاں ایک شادی میں آئی تھی۔ دلہن کے چھوٹے بھائی کی ختنہ کی رسم بھی اسی شادی میں نمٹائی جا رہی تھی پھر بھی دلہن کی والدہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا وہ تو ’’سوری‘‘* میں ہیں۔بیٹا ہوا ہے۔ جو مہمان شادی میں آئے تھے وہ نو مولود کا منہ دیکھ کر کوئی پانچ روپے، کوئی گیارہ روپے سرہانے رکھ رہے تھے۔ مراثنوں نے بیاہ کے گیتوں کے ساتھ زچہ گیریاں بھی گائیں۔ دلہن کی اماں کچھ حیا کچھ فخر و انبساط سے سرخ ہوگئیں۔ چار بیٹیوں کے بعد یہ ان کا دوسرا بیٹا تھا۔

    ٹم ٹم ہچکولے لے رہی تھی۔

    ’’ٹھیک سے رام سگن۔ بی بی کی بوڑھی ہڈیاں ہیں۔‘‘ چندھی بُوا نے ٹوکا۔

    ارے تو ہماری کون سی نئی ہیں۔ اس نے چابک لہرا کر گھوڑی کو دھمکایا اور پھر پتہ نہیں کہاں کہاں کی کہانیاں شروع کر دیں۔

    ’’پچھلے چناؤ میں پکا وعدہ کیا تھا کہ یہاں سڑک بن جائےگی۔ سڑک بن جاتی تو آٹو چلنے لگتا۔ لڑکوں کا کیا۔ پیدل چل کے آرام سے بس اڈے آ جاتے ہیں۔ عورتیں ہوئیں، ہم جیسے بڈھے ہوئے، ارے ہماری ہڈیاں پرانی سہی اب بھی کچھ مضبوط ہیں۔ دھکے سہہ لیتے ہیں۔ بیل

    *زچہ خانہ جو گو میں ہی ایک کمرہ ہوا کرتا تھا۔

    گاڑی کا رواج نہیں رہا۔ گاؤں میں ایک آدھ ٹم ٹم ہے۔ نہ ہوتی تو آپ لوگوں کو بھی پیدل چلنا پڑتا۔ ‘‘

    ’’تو نہ آتے۔ کیا کرنے آتے تب۔ ’’چندھی بوا کی زبان بھی پٹا پٹ چلتی تھی۔

    ’’نہ کیسے آتیں بی بی۔ مالک کی بڑی لاڈلی تھیں۔ ایک توپندرہئیوں نہیں آئیں۔ شہر کی ہوا لگ گئی ہے ہماری بی بی کو۔ ٹم ٹم نہ ہوتی تو ہم ڈولی لے کے آتے۔ مالک کے گھر میں ایک پرانی ڈولی پڑی ہے۔ کہار جٹا لیتے۔ بھیا کیوں نہیں آئے؟‘‘ اسی سانس میں اس نے زرین کے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔

    ’’بھیا کی دلہن انہیں اڑا لے گئیں سات سمندر پار۔ چھاپ کے بیٹھی ہوئی ہیں۔‘‘

    چندھی بوا جو منہ میں آئے بول دینے کے لئے مشہور تھیں۔ آگا پیچھا کچھ نہ دیکھتیں۔ زرین کا کسی بھی قسم کا احتجاج بیکار ہوتا اس لئے وہ خاموش رہی۔

    ’’بڑے آدمی چھوٹے آدمی سب کی ایک ہی کہانی ہے۔‘‘ رام سگن نے اداس لہجے میں بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

    ’’تمہاری بہو بھی اڑا لے گئی کیا تمہارے بیٹے کو؟‘‘

    اب کی زرین سے نہ رہا گیا۔ ’’چپ بھی رہا کرو کبھی۔ ‘‘ اس نے سخت لہجے میں بوا کو تنبیہہ کی 151

    ماموں کے گھر میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ویسا ہی تھا۔ نیم پختہ، مٹی سے لیپا پوتا۔ حاطے میں چھپرکے نیچے دو گائیں جگالی کر رہی تھیں۔ بس ہاں ماموں کی غیرموجودگی کی وجہ سے اداسی اور ویرانی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔ یا شاید زرین کو ہی ایسا لگ رہا تھا کیوں کہ مشترکہ خاندان ہونے کے سبب لوگ تو بہتیرے تھے۔ جوان، بچے، ادھیڑ اور بوڑھی ممانی بھی۔ بےحد بوڑھی، بہری بھنڈ۔ کھٹولی میں سکڑی سمٹی پڑی رہتیں اور خود ہی اپنی مکھیاں جھلا کرتیں۔ بس اتنے ہی ہاتھ پاؤں چل رہے تھے۔ زرین کو انہوں نے نام سے پہچانا۔ نا قابل فہم الفاظ میں دعائیں دیں۔ مرحوم شوہر کو پکارا، فلانے کے ابا، آکے مل لو۔ بھانجی آئی ہے۔ زرین کے گلے میں کچھ پھنسنے لگا۔

    دونوں ماموں زاد ادھیڑ عمر میں داخل ہو چکے تھے اور عمر بڑھنے پر زیادہ کم سخن، زیادہ مُلّاٹے ہو گئے تھے۔ ڈاڑھیاں سینے تک اور پاجامے ٹخنوں سے اوپر۔ بیوی بچوں پر شیر کی نظر۔ ویسے دل اور معاملات کے صاف تھے۔ مزاج میں مروت اور رشتوں کی پاسداری تھی۔ غمی کا موقعہ تھا پھر بھی زرین کی آمد سے سب خوش ہو گئے۔ اس کے لئے مرغ ذبح کیا، پلاؤ پکایا۔ الگ بٹھا کر کھِلایا اس لئے کہ یہ نعمتیں سب کے لئے وافر مقدار میں نہیں تھیں۔ دوسرے و ہ سب اب بھی دھواں دیتے، کچے فرش والے باورچی خانے میں پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔

    نانا اپنی زمین جائداد میں اضافہ نہیں کر سکے تھے۔ الٹا اس میں کمی آئی تھی۔ بیٹوں کو مدرسے میں بڑھایا اور باغبانی اور کسانی میں ہی لگائے رکھا۔ کیڑالعیال بھی تھے۔ یہی سب دیکھ کر زرین کی ماں اپنے مائکے کی جائیداد سے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہو گئی تھیں۔ جب ان کی ماں کے زیور تقسیم ہوئے تو ان میں بھی اپنا حصہ نہیں لیا۔ شادی کے وقت ہی انہیں خاصہ سونا مل گیا تھا۔

    ’’بجلی ابھی تک نہیں آئی؟‘‘ کھانا کھاتے ہوئے زریں نے پوچھا۔

    ’’تار کھنچ رہے ہیں۔ کھمبے عرصہ ہوا گاڑے جا چکے۔ کبھی لائن بھی آ جائےگی۔ ‘‘ بھاوج پنکھیاسے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ انہوں نے جواب دیا۔

    ’’جہاں لائن آ گئی ہے وہاں رہتی کب ہے؟‘‘ بھتیجے کا کمنٹ تھا۔

    لائن سے بھی زیادہ ضروری تھا کہ بیت الخلا بن جاتے۔ زرین نے سوچا۔ اس نے آتے ہی بیت الخلا کے بارے میں پوچھا تھا۔

    ’’زیادہ تر لوگ اب بھی کھیت جاتے ہیں۔

    ’’ہمارے یہاں کچھ انتظام ہو گیا ہے۔ جائیے ہو آئیے۔ اے فلا نے، ذرا پھوپی کو ’باہر‘ لے جاؤ۔‘‘ ماموں زاد بھاوج نے کہا۔

    نہیں نہیں۔ ذرا رک کے ۔ اس نے ہڑ بڑا کر یوں بےساختہ کہا جیسے اسے امرودوں کے باغ میں جانے کو کہہ دیا گیا ہو۔ یہ امرودوں کے باغ کا قصہ زرین کی سائیکی کا حصہ تھا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔

    امرودوں کا باغ

    زرین کی دادی زرین کی ماں کو اکثر اس کا طعنہ دیا کرتی تھیں۔

    زرین کی ماں کی شادی سن چالیس میں ہوئی تھی۔ اس وقت پورے گاؤں میں چودھریوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں بیت الخلا نہیں تھا۔ وہ بھی نہایت بھدّا سا۔ باقی کیا غریب، کیا کھاتے پیتے (اور گاؤں میں کھاتے پینے خاندان معدودے چند ہی تھے) سب کے سب کھیت جاتے تھے یا ندی کنارے سر کنڈوں کے جھاڑ کے پیچھے۔ اور ہاں بسواڑی بھی تھی۔ لوگ منہ اندھیرے جاتے ۔ خاص طور پر عورتیں تاروں کی چھاؤں میں نکل لیتیں۔ شہر سے آنے والی بارات کو سارا دن، ساری رات ٹھہر کر کہیں دوسرے دن سہ پہر کو رخصت ہونا تھا۔ زرین کے نانہال والوں نے اپنے گھر سے متصل امرودوں والے باغ میں ایک عارضی انتظام کیا۔ خالی جگہیں دیکھ کر دو تین گہرے گڈھے کھدوائے۔ ان پر کھڈیاں رکھوائیں۔ ہر گڈھے کی بغل میں بڑے بڑے بالٹے بھر کر پانی رکھا گیا۔ درمیان میں اوٹ کے لئے بانس کے ٹٹّر کھڑے کئے۔ اسی طرح کچھ جگہیں گھیر کر اور پانی رکھ کر نہانے کا انتظام بھی کیا گیا۔ یوں مرد کنویں پر نہاتے تھے اور عورتیں آنگن میں بانس کی چارپائیاں کھڑی کرکے۔ جنہیں زیادہ احتیاط کرنی ہوتی وہ چارپائی کے دوسری طرف کسی لڑکی یا ملازمہ کو کھڑا کر لیتیں۔ سردھونا ہوتا تو پہلے کپڑے پہنے پہنے پیڑھی پر بیٹھ کر گردن جھکا کر کھلی یا بیسن سے سر دھولیتیں۔ پھر کچھ کپڑے جسم پر رہتے چارپائی کے پیچھے غسل ہوتا۔ اچھا خاصہ جھمیلا ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ جھمیلا زندگی کا ناگزیر حصہ بن کر قابل قبول تھا۔ کسی کو کہیں کوئی قباحت نہیں محسوس ہوتی تھی۔

    بارات میں غراروں کے بڑے بڑے پائینچے پھڑکاتی، تلواں دوپٹے اوڑھے دولہا کی ماں، بہنیں، چچیاں، پھوپیاں اور ازیں قبیل خواتین اچھی خاصی تعداد میں آئی تھیں۔ دلہن کے گھر پہنچتے پہنچتے ویسے ہی حلیہ بگڑ چکا تھا۔

    واپس آکر دولہا کی والدہ نے مشاطہ کو بہت ڈانٹا۔

    ’’اوئی بیوی یہ کہاں اللہ میاں کے پچھواڑے رشتہ طے کرایا تھا۔ مرے گنواروں کے گھر نہ نہانے کی جگہ نہ ہگنے موتنے کی۔ ‘‘ پھر انہوں نے نئی دلہن یعنی زرین کی امی سے، جو اس وقت محض چودہ پندرہ برس کی تھیں، کہا، بیوی، تمہارے گھر کسی کا پیٹ نہیں خراب ہوتا؟ ہو جائے تو کیا وقت بے وقت پچھایا کھول کھول کر کھیتوں میں بیٹھتی ہو اور جو بھاگتے بھاگتے کپڑوں میں ہو جائے ۔۔۔‘‘ ان کی زبان پر لگام تو کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔ یوں بھی عمر بڑھنے پر خواتین کا منہ کھل جایا کرتا تھا۔ (ہاں اب عمر بڑھنے کی قید نہیں رہ گئی تھی) زرین کی کم سن ماں شرم سے پانی پانی ہو جاتیں۔ یہ بھی نہ کہہ پاتیں کہ ہم لوگ کھیتوں میں نہیں اپنے ہی باغ میں جاتے ہیں اور وہاں صرف عورتیں جاتی ہیں۔ مرد یا بسواڑی جاتے ہیں یا کھیت۔ ’’نیک بخت! دولہا کے والد نے کہا۔ شیوخ کا خاندان ہے۔ لڑکی خوبصورت، میلاد کی کتاب سنا کہ پڑھ لیتی ہے۔ کھیت کھلیان والے لوگ ہیں۔ لڑکی کو حصہ بھی ملےگا۔ اب تم روز کون سا ان کے گھر جاؤگی کہ تمہیں بیت الخلا کی اتنی شکایت ہو گئی۔ ‘‘

    ’’دلہن بھی تو بیل گاڑی میں رخصت ہوئی۔ ہمیں دلہن کے دروازے ہچر ہچر کرتی بیل گاڑیاں لے گئیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ اب مت لانا کوئی لڑکی وہاں سے۔ لیکن خاموش تو ہو جاؤ۔‘‘

    ’’سمدھیانے میں شادی بیاہ ہوگا، بلاوا آئےگا تو نہ جائیں گے؟‘‘

    ہگنے موتنے کی جگہ تو اب بھی الگ نہیں تھی۔ (دور دراز کہیں بیٹھے لوگ عظیم الشان مندر بنانے کی تیاریاں کرنے یا تیاری کی دھمکیاں دینے میں مصروف تھے۔ لوگ، جو ان بنیادی سہولتوں سے محروم انسانوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر اپنے اپنے تخت شاہی پر قدم رکھا کرتے تھے۔) بجلی نہیں تھی، پانی نہیں تھا، اسکول بہت تھے، ہیلتھ سنٹر کام نہیں کر رہے تھے۔ بس ہاں لوگ اب فاقوں سے نہیں گذرتے تھے جیسے کبھی چندھی بوا کا خاندان گذرا تھا اور دو وقت کی روٹی کے لئے اپنی گیارہ برس کی بیٹی کو دوسروں کے حوالے کر گیا تھا۔ اب سب لوگوں کو دال بھات ہو یا آلو روٹی، دونوں وقت کھانا مل جایا کرتا تھا۔ کچھ کنبے خوشحال بھی ہو گئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو گاؤں سے باہر چلے گئے تھے۔

    شاید کوئی اب دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو گاؤں سے باہر جھاڑو برتن کرنے نہیں بھیجتا ہوگا اور بزرگوں کو ہری تو قطعئی نہیں بلایا جاتا ہوگا۔

    ہری بول

    زرین کو اس کی ماں نے بتایا تھا اور زرین کی ماں کو ان کی ماں نے۔ یہ ماؤں کا سلسلہ جوڑا جائے تو ابتدائے آفرینش تک چلتا چلا جائے گا۔ ہر ماں کی ایک ماں ہوتی ہے اور پھر اس ماں کی بھی اپنی ماں ۔۔۔ اور ۔۔۔ دماغ خراب ہو جائےگا۔ جوڑتے جاؤ۔

    اور یہ تو تین نسل پہلے کی ہی بات ہے۔

    تب زرین کی نانی نئی شادی شدہ تھیں اور اس گھر میں بہو بن کر آئی تھیں۔

    رات خاصی جا چکی تھی۔ وہ شوہر کا انتظار کرتی بیٹھی تھیں۔ خدائے مجازی کے آنے سے پہلے سو جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ لیکن نئے سہاگ کی جاگتی راتوں کا شا خسانہ نیند کا غلبہ۔ آنکھیں جھکی جاتی تھیں۔ اماوس کی رات تھی۔ سیاروں کی ہواں ہواں، الووں کی ہُو ہُو۔ ہوا میں درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ ۔ ماں باپ بھائی بہنوں، چچی خالہ پھوپی سے بھرے گھر سے آئی چودہ برس کی کچی عمر کی وہ ڈری سہمی لڑکی سسرالیوں کے درمیان بتیس دانتوں کے بیچ زبان جیسی ۔ ابھی تو شوہر سے بھی سوائے ایک تکلیف دہ جسمانی تعلق کے اور کسی تعلق کا احساس نہیں پنپا تھا۔ تبھی اس تنہا، طلسمی، ڈراؤنے ماحول میں وہ آوازیں بھی سرسرائیں۔ یوں جیسے پچھلی پیریاں گھاگھرے گھماتی الٹے پنجوں پر رقص کناں ہوں۔ ان آوازوں میں کرب تھا، احساس گناہ تھا، نوحہ تھا، طلسم تھا اور تھا شانوں کے اوپر سے دانت نکالے مسکرا کر جھانکتی ہوئی موت کا خوف ہری بول، ہری بول، بول بول ہری ہری 151 پھر ان آوازوں کے ساتھ کوئی گھٹے گھٹے گلے سے رونے بھی لگا جیسے کسی پچھلی پیری نے گھومتے گھومتے کسی کو اپنے گھاگھرے تلے لے لیا ہو اور اس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ رونے کی آواز کسی مرد کی تھی۔ پھر وہ ساری آوازیں اپنے سارے کرب، اپنے سارے طلسم اپنے سارے گناہ کو سمیٹے قریب آتی گئیں۔ بالکل اس کے گھر کے حاطے کے پیچھے جہاں امرودوں کا باغ تھا۔ پھر ہولے ہولے وہ بسواڑی کی طرف نکل گئیں۔ بسواڑی کے پاس سے ہوکر ندی گذرتی تھی، ترل رل کرتی، بےپروا، بے نیاز، اپنے لا زوال حسن کے غرور میں گم کنارے کے سبزہ زاروں پر خنداں۔

    نئی دلہن کے شوہر رات گئے کمرے میں آئے (نانی نے زریں کی ماں کو بتایا تھا کہ ان کے وقت میں مرد رات کو چوروں کی طرح چپکے سے بیوی کی خوابگاہ میں داخل ہوتے اور صبح کی روشنی پھوٹنے سے پہلے چوروں کی طرح ہی نکل لیا کرتے تھے) تو دلہن کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ بدقت تمام اس نے بتایا کہ گھر کے آس پاس بد روحیں رہتی ہیں۔ ابھی ان کا جلوس جا رہا تھا۔ کوئی ان کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔ شاید بہت بوڑھا تھا وہ۔ دولہا کی گود میں سمٹ کر دلہن کے دانت بھنچنے لگے۔

    دوسرے دن دولہا کی والدہ نے کم سِن بہو کو سمجھایا۔ ہم، نجیب الطرفین شیوخ، شاہ چاند کے مرید ہیں۔ ہمارے یہاں سایے جھپیٹے کا گذر نہیں۔ وہ گاؤں کے کنارے رہنے والے غریب کمیے ہوں گے۔ کسی بوڑھے کو ہری بلانے لے جا رہے ہوں۔ کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں۔

    دلہن نے گھونگھٹ ذرا سا سرکا کر سوالیہ آنکھوں سے مادر ملکہ کو دیکھا۔ وہ کیا ہوتا ہے؟ مطلب ہری بلانا؟ وہ اب بھی بہت ڈری ہوئی تھی۔

    ادھر بہت ہی غریب لوگ رہتے ہیں۔ کبھی کھانے کو ملتا ہے، کبھی نہیں۔ یہاں تک سنا کہ ایک خاص قسم کی گھاس ہوتی ہے، اسے ابال کر نمک لگا کر کھا لیتے ہیں۔ اب گھر میں کوئی بہت بوڑھا کھٹیا پہ پڑا دو وقت روٹی مانگے اور پیشاب پاخانہ سمیٹنے کی خدمت تو ایک دن اسے مقدور کے مطابق بھر پیٹ اچھا کھانا کھلاتے، پھر رات گئے کھاٹ پر ڈال کر ہری بول ہری بول کہتے ندی کے سپرد کر آتے ہیں۔

    ’’زندہ کو!‘‘ساری حیا بھول کر، آنکھیں کھول کر دلہن زور سے بول پڑی۔ اس کے چہرے پر پسینہ پھوٹ بہا تھا۔ مادر ملکہ ملازمہ کو ہدایت دینے کے لئے اٹھ گئیں کہ ڈھیکی میں دھان کوٹنے کے بعد چاول کہاں رکھنے ہیں۔ یہ اشارہ تھا کہ اب اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی ہے اور یہ کہ بہو کو آواز اونچی کرکے بڑوں سے کوئی سوال نہیں کرنا ہے۔ ارے مردے کو کوئی ہری بول ہری بول کرتا لے جائے تو اس میں بتانے جیسی کیا بات ہے۔ زندہ کو لے جاتے ہیں تب تو۔۔۔ کیسی کم عقل بہو آ گئی ہے۔

    اب ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ زرین کے جسم میں پھر بھی جھر جھری دوڑ گئی۔ گھر میں کچھ دن قبل انتقال کرنے والے ماموں کی قبر کی مٹی کی مہک تھی۔ زرین جس حجرے میں تھی وہ تازہ تازہ لیپا گیا تھا۔ اور مٹی تو یہاں سے وہاں تک ایک تھی۔ کھیت کھلیان، دیواریں، قبرستان ۔ وجود کو پیدا ہونے والے دن سے ہی کھانا شروع کر دینے والی مٹی۔

    کمرے میں باندھ کی بنی چارپائی پر کھیس ڈال کر ہینڈلوم کی موٹی رنگین چادر پڑی تھی اور سیمل کی روئی بھرا تکیہ رکھ کر زرین کے بستر کو حتی الامکان آرام دہ بنایا گیا تھا۔اسے خاص کمرہ دیا گیا تھا جس میں ہلتی سلاخوں والی کھڑکی تھی جو حاطے میں کھلتی تھی۔ حاطے کے پار نظریں دوڑانے پہ گاؤں کے سر سبز کھیت نظر آتے تھے اور برگد کا وہ پرانا جغادری درخت جس کے سامنے اس گھر کی کئی نسلیں گذر گئی تھیں۔ کونے میں رکھی ایک تپائی پر کسی بھتیجی کے ہاتھ کا کروشیا کا بنا کور ڈالا ہوا تھا۔ اس پر المونیم کے بڑے سے گلاس میں پانی رکھ دیا گیا تھا۔ طاقچے میں چراغ روشن تھا۔ سونے سے پہلے زرین نے اسے پھونک مار کر بجھا دیا۔ بیل گاڑی نے جوڑ جوڑ دکھا دیا تھا۔ جگہ بدلنے اور بستر کی سختی کو محسوس کرنے کے باوجود اسے نیند آ گئی۔

    رات شاید آدھی گذری تھی حاطے میں کھڑے نیم کے پرانے چھتنار درخت میں چھپے الو جاگ جاگ کر فعال ہو اٹھے تھے۔ پھر شاید کسی الو نے کسی چھوٹے پرندے کو دھر دبوچا۔ اس کی تیز درد ناک چچیاہٹ اور الو کی حق ہُو کی منحوس آواز نے زرین کو جگا دیا۔ ایک بار نیند کھُل جائے تو دوبارہ جلدی آتی نہیں تھی۔ گٹھیا زدہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر وہ اٹھیں۔ ایک مصیبت یہ بھی تھی کہ نیند کھُل جائے تو ٹائلٹ جانا ضروری۔ ذرا بھی دیر ہوتی تو پیشاب کے قطرے کپڑوں پر لگ جاتے۔ یہاں اٹیچڈ باتھ روم کا کیا کام۔ نہایت ابتدائی سطح کا بیت الخلا حاطے کے ایک کونے میں بنا ہوا تھا۔ بانس کا فریم کھڑا کرکے اس کے گرد ٹاٹ لپیٹ کر پردہ کر دیا گیا تھا اور اندر گہرے گڈھے کے اوپر قدمچہ فٹ تھا۔ پاس میں پانی کا بڑا سا ڈرم رکھا ہوا تھا۔ ہوا نیم کے خشک پتے اڑا کر اکثر پانی میں گرا دیتی تھی جو ڈرام میں تیرتے رہتے تھے۔ سر پر چھت نہیں تھی اس لئے اگر برسات ہو رہی ہو تو لوگ چھاتہ لے کر یا کپڑا سر پر ڈال کر جاتے تھے۔ لوگوں کو اس انتظام سے کوئی دقت نہیں تھی۔

    ہو حق۔۔۔ ہو ہو ہو ۔۔۔ ایسا لگا جیسے الو کھڑکی کے بالکل قریب آکر بولنے لگا تھا۔ وہ گھبرا گئیں۔ دل کو سمجھایا آخر ایک پرندہ ہی تو ہے۔ سارے الٹے سیدھے خیال ہمارے ذہن کی اپج ہوتے ہیں لیکن خوف منطق سے ہارتا نہیں۔ جب سالوں تک کسی جگہ نہ آیا جائے تو وہ جگہ نئی ہو جاتی ہے ۔ خواہ نانہال ہی کیوں نہ ہو اور پھر ایسا نانہال جہاں فضا میں اپنے قدموں کی چاپ چھوڑتی موت بس آکر گزری ہی ہو۔ گھبراہٹ نے حاجت کو تیز کر دیا۔ مجبوراً وہ اٹھیں۔ تین چار دن رہنا ہے۔ کل سے وہ چندھی بُوا کو اپنے ساتھ سلائیں گی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ چندھی بوا کو رتوندھی آتی ہے۔ ان کی نظر تو شام ہوتے ہی دھندلانے لگتی ہے۔

    ’’کوہے؟‘‘ بوا ادسارے میں مٹی کے فرش پر ایک پتلی چادر ڈالے سو رہی تھیں۔ ہڑ بڑا کر کروٹ بدلی تو چادر سمٹ کر گولا بن گئی۔

    ’’سوجاؤ، سو جاؤ، ہم ہیں۔‘‘ وہ تیز تیز قدم بڑھاتی حاطے میں آ گئیں۔ چاند کی ابتدائی تاریخیں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے قینچی سے اس کی ایک قاش کاٹ کر آسمان سے لٹکا دی ہو۔ نیم کا جغادری پیڑ بھوت جیسا معلوم ہو رہا تھا۔ چھتری میں کہیں کسی معصوم پرندے کی تکا بوٹی کرتا گول گول آنکھوں سے دنیا کو گھورتا، منحوس آواز یں نکالتا الو چھپا بیٹھا تھا۔ گھنے باریک سبز پتوں پر شطرنجی بنتی ملگجی چاندنی اندھیرے سے بھی زیادہ ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ زمین ناہموار تھی اور حاطہ وسیع۔ اس پر چل کر ٹٹر ہٹا کر اندر داخل ہونے اور سنبھل کر اکڑوں بیٹھنے میں اتنی دیر لگی کہ شلوار میں چلو بھر پیشاب لگ ہی گیا۔ بے حد کبیدہ خاطر ہوکر وہ لوٹیں ۔ بیگ سے بدقت تمام دوسری شلوار نکال کر بدلی۔ صبح چندھی بوا کو دھونے کے لئے دے دیں گی۔

    چندھی بوا

    زرین کے سارے کام ایک عرصے سے چندھی بوا کے ذمے تھے۔ سایے کی طرح ساتھ لگی رہا کرتی تھیں۔ زرین کو اطمینان تھا اس لئے کہ وہ عمر میں اس سے خاصی چھوٹی تھیں۔ بس کوئی پچاس پچپن کے لپیٹے میں۔ اب حادثوں اور ناگہانی کی تو کوئی نہیں جانتا لیکن نارمل عمر پائی تو آخر وقت میں زرین کے پاس ہوں گی۔ وہ زرین کی عادت بن گئی تھیں۔ ان کے آس پاس رہنے سے زرین کو بڑے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ مرضی کے مطابق پکا ہوا کھانا مل جاتا۔ نہانے سے پہلے گیزر میں گرم پانی، کپڑے، تولیہ تیار ملتے۔ عمر کے اثر سے لڑ کھڑاتے قدم سنبھل جاتے، مالش سے جسم کا درد نکل جاتا۔ پیشاب کے قطروں سے ناپاک ہوئی شلوار انہیں لقماتے ہوئے کسی شرمندگی کا احساس نہ ہوتا۔ صبح کو یہاں بھی وہ زرین کی عزت بچا لیں گی۔ کہیں گی ہماری بی بی کو ایسے بیت الخلا میں جانے اور پر ڈرام سے مگ میں پانی لے کر آبدست کی عادت نہیں ہے۔ ہاتھ بہکا تو پانی کپڑوں پر چلا آیا۔ اب بی بی کو تو کیا خود ہمیں ایسی جگہ جانے کی عادت نہیں ہے۔ مگر ہاں ہمیں رات کو اٹھنا نہیں پڑتا۔ رتوندھی نہ آتی ہوتی تو ہم رات کو بھی بی بی کے ساتھ اٹھ جاتے۔ بولنے کی عادت ٹھہری اور بھی جانے کیا کیا بک بک کریں گی۔ بس بی بی پہ حرف نہ آئے۔

    چندھی بوا کا نام مولوی صاحب نے قرآن شریف دیکھ کر بی بی سارہ خاتون رکھا تھا۔ بی بی اور خاتون تو چھوڑ دیجئے وہ سارہ بھی نہ رہ گئیں۔ پانچ چھ سال کی تھیں کہ رتوندھی آنے لگی۔ گھر میں اس طرح کے جملے گونجنے لگے ۔۔۔ ’’اے ہے چندھی دیکھ کے۔ ’’ارے اس چندھی کو شام پڑے کیا کرنے کو کہہ دیا سب الٹ پلٹ کر دےگی۔‘‘ ’’ایک تو لڑکی، اوپر سے چندھی۔ بےچارے ماں باپ کی قسمت‘‘ ہوتے ہوتے وہ صرف چندھی کہلانے لگیں گرچہ دن میں تو انہیں ٹھیک ٹھاک ہی دکھائی دیتا تھا۔ تو لوگ دن میں سارہ کہہ لیا کریں، بلا سے رات برات چندھی کہہ لیں۔ ایک بار انہوں نے یہ کہا تو لوگ ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے۔ گیارہ برس کی عمر میں انہیں نانہال کی طرف سے زرین کو دے دیا گیا۔ بدلے میں ان کے ماں باپ کو ایک زمین کے ایک چھوٹے سے قطعہ پر چھپر ڈال کر اسے ان کے نام لکھ دیا گیا۔ ان دنوں وہ جہاں رہتے تھے وہاں سے نکال دئیے گئے تھے۔ زرین کے نانا کے رابطے میں آنے پر میاں بیوی اور سات آٹھ برس کے لڑکے نے زرین کے نانہال کے کھیتوں میں بطور مزدور کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ چار بر س کی بی بی سارہ خاتون کو گھر میں خواتین کے حوالے کر کے بھلا دیا گیا۔ پلنگ بھر زمین پر پڑا چھپر گیارہ برس کی اس لڑکی کی قیمت تھی جو اتنی سی عمر میں مسالہ پیستی، روٹیاں پکاتی، ڈھیکی میں دھان کوٹنے میں ہاتھ بٹاتی، اپلے پاتھتی اور اپنی بینائی کے نقص کے باوجود لڑ کھڑاتی، ٹھوکریں کھاتی دیر شام تک سارے گھر کے احکام بجا لاتی رہتی۔ خرید و فروخت کی یہ تاریخ خاصی پرانی تھی۔

    چندھی بوا کے ہندو پر دادا بنگال کے قحط کے دوران اپنی حاملہ بیوی کو گاؤں کے ایک کھاتے پیتے مسلمان کسان کے گھر بیچ کر چل دیے تھے۔ کسان نے جتایا بھی کہ وہ لوگ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بنگلہ کی کسی نواحی بولی میں سمجھایا کہ اس وقت انہیں مذہب سے زیادہ اپنی اور اپنی بیوی بچے کی جان کی فکر ہے کسان نے رکھ لیا تو تینوں بچ جائیں گے۔ کچھ کھانا اور چند سکے لے کر وہ قحط کا مارا، لاغر کمزور جوان چل دیا اور پھر پلٹ کر نہیں آیا۔ شاید مر کھپ گیا ہوگا۔ رقم زیادہ دن نہ چل سکی ہوگی۔ یہاں حاملہ بیوی کا انتظام ہو گیا تھا۔ بیٹا پیدا ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ماں بیٹے نے اپنے مالکوں کا مذہب قبول کر لیا۔ کھیت مزدوروں کے درمیان شادی بیاہ ہوے اور تیسری نسل میں بی بی سارہ خاتون پیدا ہوکے پانچ برس کی عمر میں زرین کے نانا اور گیارہ برس کی عمر میں زرین کے یہاں چلی آئیں کہ سال بھر کے اندر پیدا ہو جانے والے دو بچوں کی پرورش میں ہاتھ بٹائیں۔

    بچے بڑے ہو گئے۔ خدا ترس زریں نے بی بی سارہ خاتون عرف چندھی کی شادی کرادی۔ چھوڑ چھاڑ کے ایک عدد جھولا، ایک ٹین کا بکس لے کر بھاگ آئیں۔ ’’ہمارا جی نہیں لگتا۔ مرے موٹا کھانے والے گنوار۔ اوپر سے اس کی اماں روز دن جھگڑا کراتی ہے اور جب وہ ہمیں مارتا ہے تو آرام سے حقہ گڑ گڑاتی بیٹھی رہتی ہے۔ ایک دن کسی نے کہا سمجھاؤ بیٹے کو، بہُو پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو دھواں چھوڑتے ہوئے بولی ’’ہم کیا سمجھاویں گے۔ مرد۔ مہرارو کا جھگڑا ہے، سمجھیں آپس میں۔ بڑی حرامی ہے۔‘‘

    زرین نے بہت ڈانٹا۔ کچھ بھی ہو بد زبانی کیوں کر رہی ہو۔ پھر لاکھ سمجھایا۔ ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ آخر کو خلع دلوانا پڑا۔ زرین کے یہاں دو بارہ یوں رچ بس گئیں جیسے کبھی گئی ہی نہ ہوں۔ ایک مناسب رشتہ پھر طے کرایا گیا۔ منہ بگاڑ کے نکاح کے وقت ہاں تو کہہ دی لیکن سال پیچھے پھر زرین کے پھاٹک پر رکشہ آن کے رکا اور جھولا لٹکائے بوا بر آمد ہوئیں۔ دن میں ہی الووں کی طرح آنکھیں پٹپٹا رہی تھیں۔ اس مرتبہ ٹین کا بکسا بھی چھوڑ آئی تھیں۔ اور اس مرتبہ خلع بھی نہیں مانگا۔ ’’اب تیسرا تو ہرگز نہیں کرنا۔ فار خطی لے کے کیا کریں گے۔ ’’کچھ دن اس دوسرے شوہر نے انتظار کیا پھر ہار کر دوسری شادی کر لی۔ بال بچوں میں مگن ہو گیا۔ بوا اس کے نام کے ساتھ گاؤں تک کا نام بھول گئیں۔ بس عید کے عید کامدار چوڑیاں ضرورر پہنتی تھیں اور گلابی دوپٹہ اوڑھا کرتی تھیں۔ اب وہ چندھی بُوا کہلانے لگی تھیں۔ زرین کو سخت کوفت ہوتی تھی لیکن گھر کے دوسرے افراد خاص طور پر صفائی کرنے والی ملازمہ اور مالی نے انہیں یہ خطاب دیا تھا جو قبول عام کی سند اختیار کر گیا۔ انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ اب اللہ میاں نے ہمیں چندھا کر دیا تو بندوں کا کیا۔ کہیں گے ہی چندھی بُوا۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کا نام بھول گئے۔ بھول جائیں بلا سے۔ ان کے لئے تو زرین بی بی اور ان کی اولادیں ہی سب کچھ تھے۔ بیٹا جرمنی سدھارا تو سب سے زیادہ چندھی بوا کو صدمہ ہوا کہ ایک ہی پوت اور ہماری بی بی کو چھوڑ کر سات سمندر پار چلا گیا۔ زرین کے شوہر کے انتقال کے بعد سے وہ سایے کی طرح زرین کے ساتھ رہنے لگی تھیں۔ اس وقت بھی انہوں نے ہی ساتھ دیا تھا ورنہ اولادیں 151 ایک تو اپنی اپنی دنیا میں گم۔ اوپر سے تین تلّہ آنے کے نام سے کانوں پر ہاتھ دھرنے والی۔ ماں کے نانہال سے کیا واسطہ جب اپنے ہی نانہال سے زیادہ مطلب نہ رکھا۔ ’’امی کیا کریں گی جاکے۔ اللہ میاں کا پچھواڑہ ہے ۔ پھر جو مر گیا وہ آپ کے جانے سے واپس آنے سے تو رہا۔ ‘‘اس جملے میں پنہاں منطق کا تو واقعی جواب نہیں تھا۔

    ’’امی، آپ سے وہاں کا سفر برداشت نہیں ہوگا۔‘‘ بار بار اس جملے کو دوہرایا گیا

    ’’ہم ہیں نا بھیا۔ جانے دو بی بی کو۔ ان کی نال وہاں گڑی ہے‘‘ چندھی بوا نے کہا۔

    ’’چندھی بوا، نال تو تمہاری گڑی ہے۔ دراصل اسی کو کھودنے جا رہی ہو۔ امی کو چھوڑو، تمہیں ہو آؤ۔‘‘

    زرین کی ضد اور بوا کی حمایت کے آگے اولادوں کی ایک نہ چلی۔ ویسے بھی یہاں رہتا کون تھا۔ ساری دلیلیں تو فون پر ہی دی جا رہی تھیں۔ ڈھنڈار گھر میں ساتھ نبھانے کو چندھی بوا ہی تھیں۔ دو ۔ دو بار شوہروں کو چھوڑ کر بھاگ آنے کے لئے کیسی کیسی گالیاں انہوں نے کھائی تھیں۔ دوسری مرتبہ تو زرین نے پنکھیا سے دو چار ہاتھ بھی جڑ دیے تھے لیکن آج لگتا تھا، کہ زرین کے لئے انہیں اللہ نے مقرر کیا تھا۔ واقعی صبح کو انہوں نے وہی سب کہہ کر جو زرین نے سوچا تھا، شلوار دھوکر پھیلا دی۔

    جرمن بہو

    زرین کی بہو پر ’میڈ اِن جرمنی‘ کا ٹھپہ لگا ہوا تھا۔

    کمپیوٹر انجینئرنگ کرنے کے بعد بیٹا جرمنی چلا گیا تھا۔ وہاں اس نے آگے کی ڈگری بھی لی اور ملازمت بھی کی۔ اس وقت زرین کے شوہر حیات تھے اور اس کی شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ زرین نے اس کے لئے کئی لڑکیاں نظر میں رکھ چھوڑی تھیں۔ وہ اس وقت تک اپنی انسٹرکٹر کے ساتھ رہنے لگا تھا جو عمر میں اس سے چند سال بڑی لیکن بہت حسین تھی۔ والدین سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی اسی لئے جو تصویر بھیجی جاتی، دیکھ لیتا پر معقول بہانہ بنا کر ٹال جاتا تھا۔ دو سال کی ٹال مٹول کے بعد والدین کو احساس ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ تبھی، خوش قسمتی ((یا بد قسمتی ) سے وہ لڑکی رشتے کو شادی میں بدلنے پر راضی ہو گئی اور بیٹے نے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتا کر کہہ دیا کہ وہ بد مزگی نہ پیدا کریں، خوشی خوشی یہاں آکر شادی میں شریک ہوں۔ ریٹرن ٹکٹ بھیج دیا جائےگا۔ ورنہ شادی تو ہونی ہی ہے۔

    دل کو سمجھا بجھا کر، خود اپنے آپ کو بہت ساری دلیلیں دے کر میاں بیوی نے رضا مندی دے دی۔ زرین نے تلواں غرارہ ، چھپکا، جھومر اور لانبے لانبے جھمکے بنوائے اور شوہر کو ساتھ لے کر جرمنی روانہ ہوئی۔ دلہن اور اس کے گھر والے ان چیزوں سے بہت محظوظ ہوئے۔ لباس ان کے لئے فینسی ڈریس جیسا تھا۔ گوری، بقول چندھی بوا بندر یا جیسی صورت والی جرمن دلہن بڑے معرکے کی ہندوستانی دلہن بنی۔ چرچ ویڈنگ میں تو خیر اس نے گاؤن ہی پہنا تھا۔ یہ نکاح کا ’گیٹ اپ‘ تھا۔

    چندھی بوا از حد رنجیدہ تھیں۔ بھیا کی شادی کے کیسے کیسے ارمان تھے۔ لڑکیاں دیکھنے جائیں گی۔ دو چار کو لڑکی والوں سے خوب خاطریں کرانے کے بعد ریجیکٹ کیا جائےگا۔ پھر کسی ایک کے لئے ہاں کہنے کے بعد منگنی، بری کی تیاری، شادی کی رسمیں، سمدھنوں کو گالیاں، جہیز میں عیب نکالنے سے لے کر پھر دلہن پر صدقے واری جانے تک نہ جانے کتنا کچھ۔خیر جب بی بی ان سارے ارمانوں پر پانی پھیر کر، گھر پر انہیں تنہا چھوڑ کر بیاہ کے لئے گئیں تو دیر شام کو اکیلے گھر میں انہوں نے ہفتہ بھر تک ڈھولک ٹھنکائی اور خوب گیت گائے۔ مالی کی بیوی اور جھاڑو برتن کرنے والی چندا کو بلا کر چائے بسکٹوں سے تواضع بھی کر دیا کرتی تھیں۔ تینوں ساتھ مل کر زمانے اور فرنگیوں سب پر لعنت بھیجتیں جو بھیا کو ورغلا کرلے اڑے تھے۔

    بھیا ایک بار ’دلہن کو لے کر ہندوستان آئے تھے۔ بجائے اسے اپنی زبان سکھانے کے اسی کی زبان سیکھ لی تھی۔ پھر انگریزی بھی دونوں کے درمیان مشترک تھی۔ زرین کا کام چل جاتا تھا لیکن بہو سے گپ شپ کرنے، اس کے ماں باپ، بہن بھائی، ماموں چچا کی بخیہ ادھیڑنے کے جو ارمان باقی بچے تھے وہ بہو کی صورت دیکھنے کے باوجود دل کے دل میں رہ گئے۔ انہوں نے اسے گھوڑے جیسے منہ والی قرار دیا اور کہا کہ بھیا کا وہی حال ہے کہ جات ملی نہ بھات۔ بہر کیف سسرال والوں سے مل کر، تاج محل دیکھ کر، مچھروں مکھیوں اور ’دہلی بیلی‘ (Delhi belly) سے پریشان ہوکر دلہن واپس سدھاریں۔

    سولہ سترہ برس گذر گئے۔ دو بیٹے ہوئے جن کی محض تصویریں دیکھنے کو ملا کرتی تھیں۔ زرین اور اس کے شوہر ایک بار اور بچوں کے لالچ میں جرمنی ہو آئے اور جب بچے اچھے خاصے ٹین ایجر ہو رہے تھے اور زرین کو اس رشتے کی طرف سے اطمینان ہو گیا تھا، اچانک طلاق کی اطلاع ملی۔ (دکھ بانٹنے کو اب اس کے شوہر نہیں رہے تھے۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر و صیت تبدیل کرائی تھی اور مکان زرین کے نام کر دیا تھا۔ زیادہ تر کیش کینسر کے علاج، جرمنی جانے اور بچوں کو بھاری تحفے دینے میں خرچ ہو چکا تھا مگر ہاں ایک اچھی سرکاری نوکری کی معقول فیملی پنشن زرین کے لئے تھی۔)

    بولو بولو، ہری ای ہری

    وہ کالونی رٹائرڈ لوگوں کی کالونی کہلاتی تھی۔ کسی زمانے میں وہاں بڑا سا جھیل نما تالاب تھا۔ لوگ بطخوں اور مرغابیوں کے شکار کو آیا کرتے تھے۔ لیکن یہ بات بزرگوں کے وقت کی ہے۔ آج کے بزرگ نہیں بلکہ ان بزرگوں کے بزرگوں کے وقت کی۔ پھر ایسا ہوا کہ تالاب میں پانی کم ہونے لگا۔ مرغابیوں نے آنا بند کر دیا۔ زمین نکل آئی۔ وہ زمین بہت سستی بکی۔ لوگ کہتے تھے کون جائےگا وہاں رہنے۔ پانی تو ختم ہوا لیکن اب بھی گیدڑ اور الو بولتے ہیں۔ کوئی بیمار پڑے تو دوا نہ ڈاکٹر۔ عقلمندوں نے وہاں دھڑا دھڑ زمینیں خریدیں اور خرید کر چہار دیواری کرا کے ڈال دیں۔ پھر مکان بھی بن گئے۔ آج کے کثیر منزلہ عمارتوں کے گھٹے گھٹے فلیٹوں کے مقابلے وہ محل جیسے لگتے۔ آگے وسیع اور سبز لان، پورٹیکو، بڑا سا بر آمدہ پھر اصل عمارت۔ نازک ستونوں پر ایستادہ وہ بنگلے کولونیل ہندوستان کی یاد دلاتے تھے۔ وہاں رہنے والے بھی زیادہ تر سرکاری افسر ہی تھے۔ پھر وہاں رفتہ رفتہ ایک تبدیلی آئی۔ گھونگے جیسی رفتار کے ساتھ لیکن پچاس برس کے عرصے میں کسی جوان دل کی طرح دھڑکتی، دور سے سمجھ میں آتی تبدیلی۔ وہ پورا علاقہ ایسا منحوس لگنے لگا جیسے رہائشی مکان نہ ہوکر قبریں ہوں۔ ایک تو ویسے ہی شہر بہت روشن نہیں رہا کرتا تھا اس پر سے یہاں بیشتر گھروں میں باہر کی لائٹ روشن نہیں کی جاتی تھی۔ لوگ رہ ہی نہیں گئے تھے۔ بہت سے گھر بند تھے۔ زیادہ تر گھروں میں بوڑھے، رٹائرڈ لوگ تھے۔ بس میاں بیوی۔ ایک آدھ ملازم۔ وجہ دراصل یہ تھی کہ یہ کھاتے پیتے اور تعلیم یافتہ کنبے تھے جنہوں نے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی اور بیٹیوں کی اچھی جگہ شادیاں کی تھیں اب یہ سارے نو جوان پھر ہو گئے تھے۔ یا غیر ممالک میں نہیں تو پھر بمبئی، مدراس، بنگلور جیسی جگہوں میں جہاں کارپوریٹ سیکٹر میں ان کی اچھی ملازمتیں تھیں۔ چھٹیوں میں اکثر گھومنے غیرممالک نکل جاتے۔ کبھی کبھار ماں باپ کی خبر لینے آ بھی نکلتے یا پھر زیادہ با ہمت والدین ہوے تو اولادوں کی میزبانی قبول کرکے دو چار مہینہ ان کے گھر رہ آتے۔ شہر کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے لوگ اس کو لونی کو ’اولڈ ایج ہوم‘ کہنے لگے تھے۔ کچھ ستم ظریف کہتے تھے یہاں بزرگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ باہر بیٹھی اولادیں ان کی موت کا انتظار کریں اور اطلاع ملنے پر آکر فاتحہ درود کے بعد آخری بار الوداع کہہ دیں۔

    اچانک کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ یہ بڑی بڑی زمینیں، ان پر بنے وسیع بنگلے اور رہنے والے دو تین۔ وہ بھی زیادہ تر بوڑھے کھوسٹ جنہیں اتنی جگہ، زمین کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک ایک بنگلے پر ایسی عمارت اٹھ سکتی ہے جس میں سولہ سے بیس فلیٹ بن جائیں۔ بلڈرز نے اچھی قیمتیں لگانی شروع کیں۔ کچھ لوگ مکان بیچ کر فلیٹوں میں اٹھ گئے۔ بڑے، تنہا مکان غیرمحفوظ بھی تھے اور ان کا رکھ رکھاؤ بھی بہت مشکل تھا۔ اکثر مکانوں میں صرف دو ایک کمرے، باورچی خانہ اور ڈرائنگ روم تصرف میں رہتے۔ باقی حصہ اجاڑ رہتا۔ اکثر بند بھی کر دیا جاتا۔ فیض کے انتقال کے بعد خود زرین نے اوپری منزل بالکل ہی بند کرا دی تھی۔ اس کی طرف دیکھنے سے ہی ہَول آتا تھا، ایسی ویران لگا کرتی تھی ۔ کچھ لوگوں نے کہا اس میں جن دخل کر لیں گے۔ کرایے پر لگا دیں تو بہتر ہوگا۔ چندھی بوا تنک کے بولیں جنوں کو مولی ساب دعا تعویذ کرکے بھگا دیں گے کرایے دار مرے پر تو کوئی جھاڑ پھونک بھی اثر نہ کرے گی۔ جسٹس احسان احمد کے مکان کو ان کے بیٹوں نے کرایے پر لگا دیا تھا، لوگ قبضہ کرکے بیٹھ گئے اب چینئی میں بیٹھ کے کرو مقدمے بازی۔

    بھیا کا فون آیا جرمنی سے۔ امی آپ کیوں اس ڈھنڈار گھر میں پڑی ہیں۔ بلڈر دو سوا دو کروڑ دینے کو راضی ہے۔ بیچ کے چھٹی کیجئے۔ آپ کے رہنے کو فلیٹ الگ دے دےگا۔ زرین تھوڑی سی دیر کو ہکا بکا رہ گئی۔ یہاں بیٹھ کے تمہیں بلڈر نے قیمت کیسے بتا دی۔ یہی جوڑ توڑ کر رہے ہو۔؟

    ’’بلڈر سے بات میں نے نہیں کی۔ آپا کے ذریعے کرائی ہے۔ آپ کو معلوم نہیں میں یہاں کس مالی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ بہت اچھا مکان تھا وہ بیوی نے لے لیا۔ بینک بیلنس بھی alimony میں چلا گیا۔ اب بچوں کی پرورش کے لئے معلوم ہے کتنا دینا ہے؟ آپ کی انڈین کرنسی میں دو لاکھ ماہوار۔‘‘

    تم واپس آ جاؤ۔ زرین نے بے چین ہوکر کہا۔

    ’’آپ کیسی ظالم ماں ہیں۔ اپنے بچوں کو چھوڑ دوں؟ یہاں رہ کر ہی ان کے قریب رہ سکتا ہوں۔‘‘

    یہ بات میرے ذہن میں فوری طور پر نہیں آئی۔ بس منہ سے نکل گیا کہ آجاؤ۔ لیکن تمہیں ماں کو ظالم کہنے میں ذرا سی جھجک نہیں ہوئی۔ زرین کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا۔ ہمیشہ ہر خواہش کے آگے سر جھکایا، بچوں کے آرام، ان کے فاعدے کو مقدم جانا۔ اب یہ مکان لے کر قبر میں تو نہیں جاؤں گی۔ تمہارا مالی مسئلہ حل ہوتا ہے تو بیچ دو۔ میرا کچھ انتظام کر دینا۔

    بیٹا جو ہندوستان آنے کے نام سے بدکتا تھا جلد ہی آ گیا۔

    بلڈرز ایک پلش فلیٹ کے ساتھ سوا دو کروڑ دے رہے تھے۔ فلیٹ نہیں لینے پر رقم تین کروڑ پہنچ رہی تھی۔ بھائی بہن نے مشورہ کیا۔ بہن کو ایک کروڑ مل جائےگا اور بھائی کو دو کروڑ۔ یہ رقم پردیس میں پھر سے ایک فلیٹ خریدوا دےگی۔ ذاتی مکان ہوگا تو بڑے تحفظ کا احساس ہوگا۔ جو کچھ ہاتھ سے نکل گیا اس کی بھرپائی ہو جائےگی۔ پھر کب امی کی حماقت سے کوئی قابض ہو گیا۔ راتوں رات انہیں اور چندھی بوا کو مار کے نکل گیا۔ لیکن تین کروڑ اس صورت میں مل رہے تھے جب فلیٹ نہ لیا جائے تو امی کہاں رہیں گی۔ ان سے کہا جائے کہ جرمنی چلئے، تو ضرور یہی کہیں گی میاں دیوانے ہوئے ہو۔ اور پھر اگر راضی ہوئیں تو چندھی بوا کو نہ چھوڑیں گی۔ اب انہیں کہاں لٹکایا جائےگا۔ ’آپا امی کو رکھنا پڑےگا۔‘ اس نے کہا۔ ’’میاں دیوانے ہو رہے ہو؟ اس کا مطلب ہے چندھی بوا بھی ساتھ میں رہیں گی۔ انہیں اگر زبردستی نکال دیا گیا تو بھی اس بلی کی طرح مالکن کے پاس لوٹ آئیں گی جسے بورے میں بھر کر گنگا پار اتار دیا گیا تھا اور تم جانو بنگلور میں میرے فلیٹ میں ڈھائی کمرے، ایک ڈرائنگ کم ڈائننگ اور ساس سسر آتے ہیں تو چھ چھ مہینہ رہ کے جاتے ہیں۔ بچے عاجز ہیں۔ بڑے ہو رہے ہیں ان کا سامان بڑھ رہا ہے۔ امّی کو گاؤں بھیج دو۔ ہماری نانی اپنے حصے سے دست بردار ہو گئی تھیں اسی لئے ماموں اور اب ان کی اولادوں کو وہ جائداد مل گئی جو ہماری امی تک بھی پہنچی ہوتی تو کیا امی کا اتنا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے آخری ایام وہاں کاٹ لیں۔ مانا کہ وہ لوگ اب پہلے جیسے نہیں رہے پھر بھی بڑا سا گھر ہے، کمرے ہیں، کچھ کھیت ہیں۔ پاپا کی پینشن ہے۔ کچھ ہم لوگ دے سکتے ہیں۔ خرچ ان کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ بس رکھ لیں ان دونوں کو۔

    ’’گاؤں کی کھلی فضا، ہرے بھرے کھیت، کنارے بہتی ندی۔ یقیناً امی کی لائف بڑھ جائےگی۔ امی آپ وہیں چلی جائیں۔ آخر آپ کی جڑیں وہاں ہیں۔ ہم نے پوچھ لیا ہے۔ لوگ راضی ہیں۔ انہیں ہر ماہ رقم دے دیا کریں گے‘‘۔

    زرین کو چپ لگ گئی۔ چندھی بوا نے کہا ہماری بی بی کو کچھ ہو جائے گا۔ مر جائیں گی بےموت۔ ارے وہاں تو ہم نہ رہ سکیں، غریب، بکے ہوئے ماں باپوں کی اولاد اب تو ہمیں بھی یہاں کا چسکا لگا ہوا ہے۔ امی کی لیف بڑھ جائےگی! ارے دشمنوں سے دور کل کی مرتی آج مر جائیں گی ہماری بی بی۔ پھر کبھی کہتیں۔ ماں سے زیادہ چاہے پھا پھا کٹنی کہلائے۔ کیا ہم اولاد سے زیادہ محبت کر لیں گے؟ ہمیں کیا۔ مگر ہم نا جاتے ایسے گاؤں۔ سال بھر ہی تو ہوا کہ ماموں صاحب کے مرنے پہ دیکھ کے آئے کہ کیا حشر ہوگا۔

    بچے کو رقم کی ضرورت ہے۔ آخر کو زرین نے چپ توڑی۔ وہ جرمن ناگن ڈس گئی تو زہر ہمیں ہی اتارنا ہے۔ ہم یہ مکان لے کر قبر میں جائیں گے؟ رہنا تو اب دو گز کے گڈھے میں ہے۔ ہمارے لئے شہر کیا اور گاؤں کیا۔ بوا تم چاہو تو یہاں کسی کے یہاں رہ لو۔ اولاد پیدا کرنے کا درد جھیلا اب یہ درد بھی ہم تنہا جھیل لیں گے۔

    بوا سر یہ دو ہتڑ مار مار کے رونے لگیں۔

    ’’تو چلو پھر۔‘‘

    مکان بکنے کی کاغذی کارروائی مکمل ہو گئی۔ روپیہ ٹرانسفر ہونے کا انتظام ہو گیا۔ بیٹے نے دبی زبان سے کہا کہ امی کی طرح اس کی بہن بھی اس کے حق میں اپنے شرعی حق سے دستبردار ہو جائے مگر بہن نے ظاہر کیا کہ وہ کوئی ایسی بات سننے کو تیار نہیں اور ضرورت پڑنے پر قانون کا سہارا لے سکتی ہے۔ خیر باقی رقم بھی بہت کافی تھی۔ اس نے چھٹی کچھ بڑھائی اور امی کو خود ان کے نانہالی گاؤں پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ان کی نانہال ہو آئےگا۔ لوگ خوش ہو جائیں اور جاتے جاتے امی کو وہ کچھ خوشی دے جائےگا کہ وہ ان کے ساتھ گیا، ان کا آبائی وطن دیکھا۔ اس نے بڑی سی ائیر کنڈیشنڈ آرام دہ جیپ کا انتظام کیا تاروں کی چھاؤں میں امی اور چندھی بوا اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ سوار ہوئیں۔ امی کی ضد پر ان کے طوطے کا پنجرہ بھی ساتھ رکھا گیا۔

    زرین نے ایک آخری نظر اپنے شوہر کے بنوائے ہوئے ارمان بھرے وسیع و عریض دو منزلہ مکان پر ڈالی۔ کروندے کی جھاڑیوں میں جگنو چمک رہے تھے۔ سڑک کے اس پار تیل اور سندور پتے ہوئے تنے والے برگد کے نیچے چراغ روشن تھا اور تنے پر سرخ دھاگے لپٹے ہوئے تھے۔ عورتیں اس کے گرد گھوم گھوم کر بٹ ساوتری کے موقعے پر پوجا کرتی اور شوہر کی لانبی زندگی کی تمنا کرتے ہوئے سرخ دھاگے لپیٹا کرتی تھیں۔ اب یہاں چار منزلہ عمارت بنے گی۔ ہر فلور پر چار چار فلیٹ۔ اس طرح یہاں سولہ کنبے رہیں گے۔ زرین کے دل میں ہُوک اٹھی۔ اسی وقت پتوں میں چھپا الو رات کے آخری پہر کی بولی بول اٹھا۔ حق ہو۔۔۔ حق ہُو۔ کیا برگد کی گھنی چھتری میں چھپی پچھل پائیاں اترنے لگی تھیں؟ زرین نے گھبرا کر چندھی بوا کے شانوں کا سہارا لیا۔

    امی چلیں 151 بسم اللہ۔ جیپ اسٹارٹ ہوئی۔

    ہری بول ہری بول۔۔۔ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی تھیں؟ بیٹی نے تو فی امان اللہ کہا تھا اور بیٹے نے بسم اللہ مُجریہا مُرسٰہا کہہ کر ڈرائیور کو جیپ اسٹارٹ کرنے کا اشارہ دیا تھا۔

    کوئی گھٹے گھٹے گلے سے رونے لگا تھا۔ کوئی بوڑھی سی آواز تھی۔

    وہ آواز یں پھر آئیں جیسے روحیں سرگوشیاں کر رہی ہوں۔

    ہری بول ہری بول۔ ہری بول ہری بول۔ بولو بولو ہری ای ہری۔

    مأخذ:

    آنکھن دیکھی (Pg. 6)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے