Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انکیوبیٹر

مشرف عالم ذوقی

انکیوبیٹر

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    (اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے۔۔۔ جو دو برس کے سفر میں اتنا کچھ دے گئی، جو پوری زندگی پر بھاری ہے۔)

    نرسری
    سیمون د بووار(Simone De Beauvoir) نے کہا تھا، 

    ’’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔‘‘ 

    لیکن، نیل پیدا کہاں ہوئی تھی۔ نیل تو بن رہی تھی۔ نیل تو ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ شاید اسی لئے، پیدا ہوتے ہی وہ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال بھیج دی گئی تھی۔ اسے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ ماں نے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ کہنا چاہئے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر، جو آپریشن کے وقت یقیناً پاس پاس لیبر روم میں موجود ہوں گے، یا جیسے ڈاکٹروں نے بھی ہنستے ہوئے کہا ہو گا۔ ’’وشواس کیجئے۔۔۔ ہم نے بھی نہیں دیکھا۔ لیکن وہ ہے اور سانس چل رہی ہے۔‘‘ 

    اور ڈاکٹروں کے مطابق نیل پیدا ہو چکی تھی اور سانس بھی چل رہی تھی۔ اور اب صرف اس کے بچائے جانے یعنی زندہ رکھنے کی کارروائی باقی تھی۔ جس اسپتال میں نیل پیدا ہوئی، وہاں نرسری کا کوئی اچھا انتظام نہیں تھا۔ اس لئے ڈاکٹروں نے ایک چھوٹی سی ایمرجنسی میٹنگ کے بعد نیل کو ایک دوسرے اسپتال شفٹ کر دیا تھا۔ 

    نیل اسپتال سے گھر نہیں آئی۔ نیل ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال چلی گئی۔ جس ایمبولنس میں اسے دوسرے اسپتال شفٹ کیا گیا، اس میں نیل کے ساتھ رشتے کے ایک بھائی کو بٹھایا گیا۔ واپسی میں اس بھائی سے پوچھا گیا۔ 

    تم نے اسے دیکھا؟

    نہیں 

    کیوں؟ تم تو ایمبولنس میں اس کے پاس ہی بیٹھے ہوگے نا؟ 

    ہاں بیٹھا تو پاس ہی تھا، مگر!

    مگر کیا؟ 

    وہ نہیں تھی۔ میرا مطلب ہے۔ 

    بھائی سر کھجا رہا تھا۔ آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

    مدرنرسری میں سب کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسپتال کی پانچویں منزل پر یہ نرسری آباد تھی۔ نومولود، ابھی ابھی پیدا ہوئے بچے کی آرام گاہ۔ یہ پورا ہال ہی ائیرکنڈیشنڈ تھا۔ اندر شیشے کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی دنیا۔ شیشے کے اس عجیب و غریب ڈزنی لینڈ میں چھوٹے چھوٹے لاتعداد انکیوبیٹر پڑے تھے۔ چھوٹے چھوٹے شیشے کے گھروندے۔ ان گھروندوں میں ایسے نومولود بچوں کے لئے ایک نقلی دنیا آباد تھی۔ یعنی جیسی دنیا وہ آنکھیں جھپکاتے ماں کی کوکھ میں دیکھتے یا محسوس کرتے ہوں گے۔ شیشہ کی اس چھوٹی سی دنیا کے اندر کا ٹمپریچر بھی وہی تھا جو ماں کی کوکھ میں بچہ محسوس کرتا تھا۔ انکیوبیٹر میں آکسیجن کی ٹیوب بھی لگی تھی۔ مگر دور سے، شیشے کے بڑے دروازے سے جھانکنے پر، یہ ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے گھروندے ہی لگتے تھے۔ 

    ’’نیل کہاں ہے؟‘‘

    مدر نرسری دکھانے والا، ڈاکٹر جوش میں ہاتھ کے اشارے سے کچھ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

    ’’وہ۔ وہ رہی نا۔‘‘ 

    وہ۔ موٹا سا بچہ۔ 

    ’’نہیں اس کے پاس والا۔‘‘ 

    اچھا۔ وہ، جو بے بی الٹی پڑی ہے۔ 

    ’’نہیں، اس کے دائیں طرف دیکھئے۔‘‘ 

    وہ۔ مگر وہ انکیوبیٹر تو۔ 

    ’’خالی ہے۔‘‘ ڈاکٹر مسکرا رہا تھا۔ وہ بن رہی ہے۔ وہ ہے اور آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ 

    واپس اسپتال آکر میں نے اس کی ماں کو یہ مژدہ سنا دیا۔ ماں کو اب ہوش آ چکا تھا۔ بیٹی ہونے کی اطلاع ڈاکٹر اسے دے چکے تھے۔ یہ بھی بتایا جا چکا تھا، کہ وہ مدر نرسری بھیج دی گئی ہے۔ مجھے دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں تجسس کے دیئے ٹمٹاہ اُٹھے۔ 

    تم نے دیکھا۔ 

    ہاں 

    کیسی ہے، وہ؟ 

    وہ۔ ہے۔ یعنی کہ۔ 

    کس پر گئی ہے۔ 

    گئی نہیں ہے۔ بن رہی ہے۔ گھبراؤ نہیں، جب تک تمہیں مکمل طور پر گھر جانے کی اجازت مل جائے گی، وہ بن چکی ہوگی۔ 

    ’’مطلب؟‘‘

    فکر مت کرو۔ وہ بن رہی ہے اور دیکھتے دیکھتے۔ ہاں تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا، وہ تمہارے سامنے آ کر کھڑی ہو جائے گی۔ وہ خوب زور سے چیخے گی اور تم چہرے کو انتہائی سنجیدہ بنا کر کہو گی۔ نیل۔ بی ہیو یور سیلف۔ 

    لیکن، ماں شاید اب کچھ بھی سن نہیں رہی تھی۔ 

    ماں ایک لمبی خاموشی میں ڈوب گئی تھی۔ 

    ترپتی مینن کے دو رنگ (ادب اور آرٹ)

    ترپتی مینن۔ ایک ایسی خاتون جن کے بارے میں، میں بار بار الگ الگ نظریے گڑھتا تھا اور نظریے کچّی مٹی کے گھڑے کی طرح ٹوٹ جاتے تھے۔ نہیں، مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ یا ترپتی مینن میں یاد رکھی جانے والی کون سی ادا یا بات تھی کہ میں نے پہلے پہل اپنی نوٹ بک میں۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی ’’اول جلول‘‘ اداؤں کو دل کی گرہ میں باندھ لیا۔ 

    ’’چلو خالی وقت کا ایک سامان تو ہوا۔‘‘ 

    پہلی بار میں ہم بہت کم بولے تھے۔ مجھے یاد ہے، اس وقت بھی ہمارے مکالمہ کا عنوان عورت تھی۔ وہ ایک ہندی میگزین میں اپنی کہانی چھپوانے آئی تھی۔ میگزین کے ایڈیٹر میرے بزرگ دوست تھے۔ آنکھوں پر کالا چشمہ۔ بڑھی ہوئی داڑھی۔ نام تھا، رادھیکا رمن۔ رادھیکا جی درویش صفت منش ہیں۔ مگر کچھ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ بقول رادھیکا جی، کہ ’’چٹکی‘‘ لینے کی خواہش زور پکڑنے لگتی ہے۔ چائے آ گئی تھی۔ ترپتی مینن آہستہ آہستہ چائے کی سپ لے رہی تھی۔ دھیان کہیں اور تھا۔ آنچل ذرا سا ہٹ گیا تھا۔ سانولی بانہیں۔ نیم عریاں، آدھی سوئی ہوئی بہار کے قصّے سنا رہی تھی۔ چہرے پر ایک تیکھی مگر بچوں جیسی مسکراہٹ تھی۔ ترپتی بار بار رادھیکا جی کے مذاق کی عادت پر پسری جا رہی تھی۔ 

    عورت میں ہر بار ایک نئی عورت آ جاتی ہے۔ یہ رادھیکا جی تھے۔ 

    عورت میں ہر بار ایک عورت گُم ہو جاتی ہے۔ یہ میں تھا۔ 

    عورت۔ آپ لوگ اسے عورت کیوں نہیں رہنے دیتے۔ یہ ترپتی تھی۔ 

    میں نے پہلی بار اداؤں میں ڈوبے اس کے جسم کا جائزہ لیا۔ اس جسم میں کتنی بہاریں قید ہوں گی۔ چالیس۔ چالیس بہاریں۔ مگر ترپتی جانتی تھی، خزاں سے پہلے اس بہار کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ مگر ہر بار نوخیز اداؤں کی گرفت میں اس کا پورا وجود ایک ’’جوکر‘‘ میں تبدیل ہوا جا رہا تھا۔ 

    تم اپنی عمر کو نہیں بھولی ہو۔ رادھیکا جی نے پھر چٹکی لی۔ 

    ’’عمر کو۔‘‘ 

    میں آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا۔ 

    ’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ ترپتی کے سانولے چہرے پر بجلی دوڑ گئی تھی۔ 

    ’’سب سمجھتی ہو تم۔ گھر سے چلتے ہوئے عمر کو کسی لاک اَپ میں بند کر کے آتی ہو۔ پھرو اپس آ کر جب عمر کو لاک اَپ سے نکالنے کی کوشش کرتی ہو تو۔‘‘ رادھیکا رمن مسکرائے۔ یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں ہے ترپتی۔ تمہاری جیسی تمام عورتوں کا مسئلہ ہے۔ 

    ’’نہیں۔ سر، میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ 

    ’’اور مینن؟‘‘

    ’’ہم نے لو میرج کی ہے۔‘‘ 

    ’’لو (Love) تم نے کیا تھا یا مینن نے کیا تھا۔‘‘، رادھیکا رمن زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔ 

    نیم عریاں شانے پر اس نے آنچل پھر سے بار بار کر دیا تھا۔ ’’اب۔ اب میں چلوں گی سر۔ کہانی دیکھ لیجئےگا‘‘

    چہرے پر ناراضگی تھی۔ 

    ’’ارے بیٹھو۔‘‘ 

    ’’نہیں سر۔ آج آپ کچھ زیادہ ہی مذاق کر رہے ہیں۔‘‘ 

    ’’اس نے کرسی خالی کر دی۔ گولڈن کلر کا بیگ شانہ سے لٹکایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دروازے سے اوجھل ہو گئی۔ 

    ’’ترپتی ناراض ہو گئیں۔‘‘ میرے لئے یہ پہلا اتفاق تھا۔ 

    رادھیکا رمن ہنس رہے تھے۔ ’’پاگل مت بنو۔ ترپتی کو تم نہیں سمجھو گے۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ وہ یہی کرتی ہے۔ عادت ہے اس کی۔۔۔ ہو ہو۔۔۔ دراصل وہ چاہتی بھی یہی ہے۔‘‘ 

    ’’کیا۔‘‘ 

    ’’جو میں نے کیا۔‘‘ وہ مسکرا رہے تھے۔ 

    ’’مطلب؟‘‘ 

    ’’ارے۔ اس میں حیرانی کی بات کیا ہے۔ اپنشدوں میں کہا گیا ہے۔ ناری کو نہ سمجھو تو بہتر ہے۔ ناری سمجھنے کی وستو نہیں ہے۔ رہسیہ ہے۔ گھور رہسیہ۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔ ایسا نہیں کرو تو وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ ناراضگی پر کیوں جاتے ہو۔ اس میں پراکرتک سوندریہ، کیوں نہیں، دیکھتے۔۔۔ اس آیو میں بھی۔ تم نے دیکھا۔ سانولے جسم میں سارے سمندر کی ’’سنہلی‘‘، مچھلیاں ایک ساتھ کہاں جمع ہوتی ہیں۔ ان ساری ’’سنہلی‘‘ مچھلیوں کو جوڑ کر ترپتی ایک بہت لمبی ’’سنہلی‘‘ مچھلی بن گئی ہے۔‘‘ 

    وہ ہنس رہے تھے۔ اس مچھلی کے پیچھے دوڑوگے۔ بولو؟‘‘

    لیکن مجھے زیادہ دور تک دوڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ 

    یہ ترپتی سے میری دوسری ملاقات تھی۔ 

    وہ کارلٹن آرٹ گیلری میں کھڑی تھی۔ ایک لمحے کو میں نے اس سے چھپنے کی کوشش کی۔۔۔ وہ کسی کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔ 

    ’’انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کرافٹس سے کمرشیل ڈیزائن کا کورس کیا ہے۔ آرٹ میرا شوق نہیں ہے۔ زندگی ہے۔ سانسیں ہیں۔ آئل ان کینوس کے علاوہ آئل آن پلائی وڈ، واٹر کلر پیسٹل، پین اینڈ انک، پلاسٹر آف پیرس، سیمنٹ آن گلاس وغیرہ میڈیمز میں کام کر چکی ہوں۔‘‘ 

    درمیان میں اس کی کھنک دار ہنسی گونجی۔۔۔ 

    ’’پچھلی بار فیسٹیول آف ویمن سیریز میں، میں نے بھی اپنی کچھ تصویروں کی نمائش لگائی تھی۔‘‘ 

    میں ایک دم سے چونک گیا تھا۔ 

    موٹے بھدّے جسم والی خاتون نے حیرت سے دریافت کیا۔ ’’آپ۔ یعنی آپ بھی۔‘‘ 

    ’’کیوں‘‘ ترپتی مسکرائی ہے۔ ’’آئل ان کینوس۔ کبھی کبھی کینوس پر صرف آئیل بیچتا ہے اور عورت آئیل کی طرح پوچھ ڈالی جاتی ہے۔ نہیں؟ ایک کورا کینوس۔۔۔ میں نے عورت کے ’’رحم‘‘ کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔ 

    ’’رحم؟‘‘

    رحمِ مادر یعنی ’’Womb۔‘‘ جہاں نو مہینہ تک بچے کے روپ میں ایک مرد سڑتا ہے۔ پتہ ہے۔ میرے شوہر تک جب اس نمائش کی بات پہنچی تو وہ پانچ مہینے تک مجھ سے غصہ رہے تھے۔ بات چیت کمپلیٹلی بند۔ میں نے بھی کوشش نہیں کی۔ عورت کا ننگا بدن۔ آپ دکھانا ہی چاہتے ہیں تو وہ جگہ کیوں نہیں دکھاتے جہاں سے سرشٹی، یعنی ایک عورت Creator بنتی ہے۔ رچیتا۔ مرد کو جننے والی۔ خالق۔ اب یہاں دیکھئے نا۔ 

    وہ آرٹ کے عریاں فن پاروں کو دکھا رہی تھی۔ 

    ’’دکھانا ہے تو عورت کو پورا پورا ننگا کرنے سے کیا حاصل۔ بس وہ جگہ دکھا دو، جو مرد دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ 

    ’’مائی گاڈ۔ ترپتی۔ تم میں کتنا دکھ بھرا ہے۔ Leave it یار۔ پینٹنگس دیکھتے ہیں۔‘‘ 

    ترپتی اچانک مڑی تھی۔ مڑی اور چونک گئی۔ میری طرف دیکھا۔ مسکرائی۔ ہاتھ نہیں بڑھایا۔ 

    ’’آپ؟‘‘

    ’’مجھے نہیں ہونا چاہئے تھا!‘‘

    ’’نہیں۔ ہونا کیوں نہیں چاہئے تھا۔‘‘ وہ جھینپ رہی تھی۔ کب آئے؟ 

    شاید وہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ دیر سے تو نہیں ہیں۔ ہماری بات تو نہیں سن رہے تھے۔ میں نے جھوٹ بولنے ہی میں عافیت سمجھی۔ 

    ’’بس۔ ابھی آیا۔‘‘ 

    ’’اوہ۔ ’’ترپتی کو تسلی ملی تھی۔ موٹے جسم والی عورت سے پیچھا چھڑاتے ہوئے اب وہ میرے ساتھ پینٹنگس پر اپنی تنقیدی نظر ڈال رہی تھی۔ 

    ’’اچھی ہیں نا۔‘‘ 

    ’’ہاں‘‘ 

    ’’دراصل۔‘‘ وہ کہتے کہتے ٹھہری۔ ’’مجھے موڈس والی پینٹنگس کچھ زیادہ ہی پسند ہیں۔ ایچنگ ورک، فیگریٹو ورک اور رئیلسٹک ایپروچ مجھے پسند ہیں۔ ان تصویروں میں امپریشن ازم کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

    ’’کیوں۔‘‘ میں تعجب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ایک سانس میں اپنی معلومات کی توپ چھوڑتی چلی گئی۔ وہ کمپوزیشن اچھا ہے۔ فلاں غلط۔ وہاں کینواس کی سطح کم گاڑھی ہونی چاہئے تھی۔ فلاں تصویر میں Baseبناتے ہوئے ٹیکسچر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناہموار سطح پر پاورفل اسٹروکس کے ذریعہ رنگوں کا خوبصورت استعمال کیا جانا چاہئے تھا۔‘‘ 

    ’’رنگ۔‘‘ میں نے ایک لمبی آہ کھینچی تو وہ چونک گئی۔ 

    ’’زندگی سے رنگ جھڑ جائیں تو؟‘‘

    ’’آرٹ گیلری سے باہر بھی ملاقات کا ایک راستہ جاتا ہے۔‘‘ 

    وہ اداس ہو گئی تھی۔ Sorry‘‘

    ’’Sorryکیوں؟‘‘

    تمہارا نمبر ہے؟‘‘

    ’’نمبر۔‘‘ 

    ’’میں فون کر لوں گی۔‘‘ 

    اس کے جسم میں تھرتھراہٹ تھی۔ پرانی ترپتی غائب تھی۔ میں ایک نئی ترپتی کو دیکھ رہا تھا۔ جو ڈر رہی تھی۔ یا ڈرنے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔ 

    رادھیکا جی کے لفظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ ناری گھور رہسیہ ہے۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔۔۔‘‘ 

    میں نے ترپتی کو نمبر لکھوا دیا۔ 

    آرٹ گیلری سے سڑک دو الگ الگ دشاؤں میں مڑ گئی تھی۔ 

    آثار قدیمہ اور ترپتی کا تیسرا رنگ (میوزک)

    صحافیوں کے لئے یہ دنیا ایک سیپ کی طرح ہے۔ یہ بات کس نے کہی تھی، یاد نہیں۔ لیکن فرصت کے اوقات اس بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی ذات سیپ کی ’’ڈگی‘‘ میں بند ’’گھونگھے‘‘ سے زیادہ نہیں لگتی۔ بس بھاگتے رہو۔ بھاگتے بھاگتے تھک جاؤ تو اپنی چھوٹی سی دنیا میں بند ہو جاؤ اور آپ جانئے۔ فری لانس جرنلسٹ کو کیسے کیسے محاذ پر لڑنا ہوتا ہے۔ اس دن طبیعت ناساز تھی لیکن میگزین کی طرف سے بھارت سنگاپور اتسو، میں شامل ہو کر اس کی رپورٹ تیار کرنی تھی۔ بانسری کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ بچپن کے دنوں میں ہونٹوں سے لگایا ہو، اب یاد نہیں۔ لیکن ہری پرساد چورسیا میں میری دلچسپی ضرور تھی۔ اور یہی دلچسپی مجھے اس اُتسو میں کھینچ کر لے گئی تھی۔ فکّی آڈیٹوریم کا مین ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی نے مجھے ذرا سا دھکا دیا اور تیز تیز اندر کی طرف قدم بڑھائے۔ میں غصہ میں کچھ بولنا چاہتا تھا کہ ٹھہر گیا۔ 

    ’’ترپتی۔‘‘ 

    یہ ترپتی سے میری تیسری ملاقات تھی۔ شو شروع بھی ہوا اور ختم بھی ہو گیا۔ میں برابر اس پر نظر رکھے ہوا تھا۔ وہ ہال میں ہو کر بھی ہال میں نہیں تھی۔ کسی چور جیسی، اپنی سیٹ پر دُبکی ہوئی تھی۔ بلی کی طرح سہمی ہوئی۔ آہٹ سے ڈر ڈر جانے والی۔ شو ختم ہونے کے بعد میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ گیٹ کے پاس ہی میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ 

    ’’آہ ترپتی۔ یہاں بھی تم۔‘‘ 

    ’’ہاتھ چھوڑو۔‘‘ اس کے لہجہ میں سختی تھی۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔ میں خود تم سے ملنے والی تھی۔ 

    میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ ’’شو کیسا لگا تمہیں؟‘‘

    وہ ابھی بھی کہیں اور تھی۔ بھیڑ سے الگ ہم باہری گیٹ سے دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ نکلنے والی گاڑیوں کا شور انسانی شور سے کہیں زیادہ تھا۔ 

    ’’بہلانے آئی تھی خود کو۔ مگر بور۔ انڈین اوشن کے اس ’’بینڈ‘‘ کو دیکھا تم نے۔‘‘ اس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔ فن مر گیا ہے۔ ہم دو سنسکرتیوں کو ملا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک جھوٹا تماشہ۔ تمہیں لکھنا چاہئے۔ بھارتیہ سروں کا یہ کیسا میل ہے۔ جاز، ریگے، راک، پاپ اور بھارتیہ سنسکرتی کا بریک فاسٹ ملا دیا۔ مکچرے تیار۔ کلچرل موٹف کو نئے ماڈرن ڈھانچہ میں ڈال دیا اور نیو جنریشن کے سامنے پروس دیا۔ یہی ’’فیوزن‘‘ ہے۔ سکڑتی سمٹتی دنیا کو، پاگل بنا دینے والی میوزک کمپنیوں کا دیا ہوا ودیشی تحفہ۔۔۔ 

    ’’تمہیں فیوزن سے چڑھ کیوں ہے؟‘‘

    آپ اسے ویسے کا ویسا رہنے کیوں نہیں دیتے، جیسا کہ وہ ہے۔ لیکن نہیں۔ بات پروفیشنل منافع کی ہے۔۔۔ کنزیومر ورلڈ کی ہے۔۔۔ بازار کی ہے۔۔۔ آپ وہی تہذیب فروخت کریں گے، جس کی ودیشوں میں مانگ ہے۔‘‘ 

    اس کی ہرنی جیسی آنکھیں اب بھی سہم سہم کر اِدھر ادھر دیکھ لیتی تھیں۔ سنو۔‘‘ 

    اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھاما۔ 

    ’’مینن ایک ہفتہ کے لئے باہر گئے ہیں۔۔۔ ساؤتھ۔۔۔ کل آ سکتے ہو۔‘‘ 

    ’’کس وقت؟‘‘

    ’’شام کے وقت۔‘‘ 

    تیزی سے آتے ہوئے آٹو کو اس نے ہاتھ دے کر روک لیا تھا۔ مینن غلطی سے گاڑی کی چابی اپنے ساتھ لے گئے۔ آؤگے نا؟‘‘

    اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ دبایا۔ آٹو پر بیٹھی اور آٹو روانہ ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے سے کاغذ کی پرچی تھی۔ جس پر اس کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ ایڈریس اس نے کب لکھا۔ جب وہ ہال میں تھی۔ یا۔ مجھے دیکھ کر وہ پہلے سے ہی مجھ سے ملنے کامن بنا چکی تھی۔ 

    ’’ناری گھور رہسیہ مے وستو ہے۔‘‘ مسکراتے ہوئے میں نے کاغذ جیب کے حوالے کر دیا۔ 

    کال بیل کی پہلی آواز پر ہی دروازہ کھل گیا۔ شاید وہ میرے انتظار میں تھی۔ میرے اندر آتے ہی اس نے ’’کھٹاک‘‘ سے دروازہ بند کر دیا۔ 

    میں نے اِدھر ادھر دیکھا۔ ترپتی کے چہرے پر اب بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ 

    ’’مینن صاحب کب آئیں گے؟‘‘

    ’’پتہ نہیں‘‘ 

    میں نے گھر کی سجاوٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’مینن صاحب کرتے کیا ہیں؟‘‘

    ترپتی بجھ گئی تھی۔ آہستہ سے بولی۔ ان کا تعلق محکمۂ آثار قدیمہ سے ہے۔ 

    ترپتی مینن کی آواز اس بار برف کی طرح سرد تھی۔ ’’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتے ہیں۔ محنتی اور سخت۔۔۔ صرف اور صرف اپنے کام پر یقین رکھنے والے۔۔۔ لیکن ہر بار۔ مجھے تعجب ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ۔‘‘ 

    ’’جیسے؟‘‘

    ’’کوئی۔ قدیم تہذیب۔۔۔ قدیم شہر۔‘‘ ترپتی مینن نے اپنی زلفوں کو جھٹکا دیا۔۔۔ آنچل اُس کے سیاہ جمپر سے پھسل کر گود میں آ گرا تھا۔۔۔ لیکن ترپتی نے آنچل کو اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ اس کی عریاں بانہیں نمایاں تھیں۔ ’’صندلی‘‘ برہنہ بازوؤں کے گوشت آہستہ آہستہ چنگاریاں دینے لگے تھے۔ ترپتی کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ 

    ’’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتا ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے۔ وہ آج تک مجھے برآمد نہیں کر پایا۔ اپنی بیوی کو۔‘‘ 

    ترپتی نے جیسے اپنے آنسو پوچھے ہوں! دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے جذباتی لہجے پر قابو پا لیا تھا۔ ارے میں تو بھول ہی گئی۔ 

    ’’کیا؟‘‘

    ’’آپ پہلی بار آئے ہیں۔ اور شاید۔‘‘ اس کا لہجہ داس تھا۔ 

    ’’مینن صاحب ہوتے تو۔‘‘ 

    ’’میں ہمت تو کُجا، سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘‘ 

    ’’کیوں؟‘‘

    پتہ نہیں۔ وہ مسکرائی۔ ’’پہلے چائے۔ آپ چائے لیں گے یا کافی۔‘‘ 

    ’’کچھ بھی چلےگا۔‘‘ 

    ترپتی کیبن میں گئی تو میں نے اس کے کمرے کا جائزہ لیا۔ دیوار پر دو خوبصورت بچوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کمرے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو ترپتی کے ذوق و شوق کی کہانیاں بیان کر رہا تھا۔۔۔ دیوار پر ٹنگی تصویروں میں ایک بچہ کم از کم تیرہ سال کا ہوگا۔ دوسرا دس کے آس پاس۔ ترپتی تو اتنی عمر کی نہیں لگتی۔ کیا پتہ۔ ساؤتھ کے رتی رواج اور کلچر کے بارے میں ہم ابھی بھی کتنے انجان ہیں۔ 

    ترپتی کافی لےکر آئی تو میں نے دیوار کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ 

    ’’میرے بچے ہیں۔‘‘ ترپتی نے سر جھکا لیا۔ 

    تمہارے یا مینن کے؟‘‘ میری آنکھیں اس کی آنکھوں میں سما گئی تھیں۔ 

    مینن کے۔ میں ان کی دوسری بیوی ہوں۔ پہلی بیوی اتفاقیہ طور پر۔ 

    اس کا گلا بھر آیا تھا۔ 

    ’’تم نے کہا تھا، مینن سے تمہاری لو میرج ہوئی تھی۔‘‘ 

    وہ سامنے بیٹھ گئی۔ کافی آہستہ آہستہ سڑکتی رہی۔ ہاں لو میرج کی تھی۔ کسی کسی لمحے کا بوجھ ساری زندگی ڈھونا پڑتا ہے۔ انہی دنوں مینن کی پتنی کا دیہانت ہوا تھا۔ وہ گھر آئے تھے۔ بابو جی سے ملنے۔ ان دنوں۔ بزنس میں مسلسل گھاٹے کی وجہ سے سارا گھر پریشان چل رہا تھا۔ بابو جی نے مینن کے بارے میں بتایا۔ یہ بھی، کہ وہ آثار قدیمہ میں ہیں۔ سامنے بیٹھا ہوا آدمی مجھے ایسا ہی کچھ لگ رہا تھا۔ کسی کھنڈر یا قدیم تہذیب سے نکلا ہوا۔ بس میں آہستہ سے مسکرا دی۔‘‘ 

    ’’پھر سودا ہو گیا؟‘‘

    ’’ہاں۔ تم اسے سودا بھی کہہ سکتے ہو۔ گھر والوں کو صرف میری فکر تھی۔ میرا کیا ہوگا۔ میں دودھ سے بالائی کی طرح ہٹا دی گئی تو سارا نقصان پورا ہو گیا۔ میں مینن کے ساتھ خوش تھی مگر۔‘‘ 

    کافی کا پیالہ اس نے میز پر رکھ دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی نائیٹی پہن نہیں رکھی تھی۔ نائیٹی کے ’’وی‘‘شیپ سے گولائیوں کی پہاڑی جیسی ڈھلانیں ایک بے حد خوبصورت منظر کی عکاسی کر رہی تھیں۔ نیلے پربتوں کے درمیان ایک ہلکی سی کھائی برانگیختہ کرنے والی تھی۔ اس نے نظر جھکا لیا تھا۔ 

    ’’تحفہ میں دو بچے ملے تھے۔ ان بچوں کی اپنی زندگی تھی۔ اس زندگی میں، میں نہیں تھی۔ میں ایک نقلی عورت بن کر اس زندگی میں داخل ہونے کی کوشش تو کرتی رہی۔۔۔ شاید مینن کو خوش کرنے کے لئے۔ مگر۔ بچوں نے صاف کہہ دیا۔ 

    ’’ماں بننے کی جستجو میں دوسری عورت ایک فاحشہ بن جاتی ہے۔ فاحشہ۔‘‘ 

    مجھے وہ لمحہ یاد ہے۔ دن تاریخ یاد ہے۔ چودہ فروری ویلنٹائن ڈے۔۔۔ رات سات بج کر بیس منٹ۔ فاحشہ۔ بچوں کے لفظ چہرے پر آکر جھّریاں بن گئے۔۔۔ پل میں خوشیوں کے انگور سوکھ کر کشمش ہو گئے۔۔۔ مجھے لگا، بچوں نے ریوالور کی تمام گولیاں میرے بدن میں اتار دی ہیں۔ میں چیختی ہوئی غصے سے پلٹی تو وہیں کنارے میز پر۔۔۔ جلتے ہوئے لیمپ کی روشنی میں مینن بہت سے کوڑے کباڑ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ 

    ’’تم نے سنا۔‘‘ میں روتی چیختی ہوئی زور سے گرجی تھی۔ 

    ’’ہاں سنا۔ مگر یہ دیکھو۔ یہ۔۔۔، اس کے چہرے پر ذرا بھی شکن نہیں تھی۔ میں سانسوں کے رتھ پر سوار تھی۔ جیسے لکڑی کے ’’سانکچے‘‘ سے۔۔۔ لحاف میں روئی بھرنے والے۔۔۔ روئی دھنکتے ہیں۔ میں سانسیں ’’دھنک‘‘ رہی تھی۔ مینن کہہ رہا تھا۔ یہ دیکھو۔‘‘ 

    میں دیکھ رہی تھی۔ میز پر کباڑ پڑا تھا۔ ہاں کباڑ۔ جیسے کیچڑ یا گندہ نالا صاف کرنے والے پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاء کو دھو پوچھ کر رکھ لیتے ہیں۔ 

    میں سانسیں ’’دھن‘‘ رہی تھی۔ ’’ان بچوں نے مجھے۔‘‘ 

    ’’رنڈی کہنے سے کوئی رنڈی نہیں ہو جاتا۔ سنا ہے۔‘‘ اس کا چہرہ تاثر سے عاری تھا۔ میں نے ایک تیز چیخ ماری۔ غصّے میں میز الٹ دی۔ دوسرے ہی لمحے مینن کے لات جوتوں کی زد میں تھی۔ وہ مجھے ویسے ہی دھُن رہا تھا جیسے لحاف میں پرانی روئی بھرنے والے۔ وہ مجھ پر سڑی گلی گالیوں کی بوچھار کر رہا تھا۔ بچے مشینی انداز میں، پڑھائی کرنے میں لگے تھے۔ 

    مینن چیخ رہا تھا۔ ’’جاہل عورت۔ پتہ ہے تم نے کیا کر دیا۔۔۔ تہذیب۔ قدیم تہذیب۔ ارے آرکیالوجیکل سروے سے ملی تھی یہ نادر چیزیں۔۔۔ بدقسمت عورت۔ برسوں کی کھوج کے بعد تو یہ خزانہ ملا تھا۔ ہم جس کے لئے مدتوں بھٹکتے رہے ہیں۔ تال سے پاتال تک۔ اسٹوپڈ۔ ڈاٹر آف سوائن۔ بچ۔ اس نے مجھے دیوار کی طرف ڈھکیلا۔ شکل دیکھی ہے۔ بچے ٹھیک کہتے ہیں۔ بچے کوئی غلط نہیں کہتے۔‘‘ 

    ’’میں فاحشہ ہوں ۔‘‘ ترپتی، اچانک میرے سامنے آ کر تن گئی تھی۔۔۔ اتنے قریب کہ میں سانسوں کی سرگم سننے لگا تھا۔ میں فاحشہ ہوں۔ میرے بدن کے ’’تاروں‘‘ سے روئی کے گولے بکھرتے چلے گئے۔ اس نے نائیٹی ہوا میں اڑا دی۔ میں نے اسے مضبوط بانہوں کے شکنجے میں لے لیا۔ 

    ’’روئی دھننے والے‘‘ کی آواز آہستہ آہستہ مدھم مدھم ہوتی ہوئی ایک دم سے کھو گئی۔۔۔ وہ اٹھی۔ نائیٹی پہنی۔ دل کھول کر مسکرائی۔ میرے گالوں کو پکڑ کر زور سے بوسہ لیا۔ آہستہ سے بولی۔۔۔ تھینک یو۔ واش بیسن پر پانی کے دو چار چھینٹے چہرے پر مارے۔ پھر مسکراتی ہوئی سامنے آکر بیٹھ گئی۔ 

    میں نے آہستہ سے پوچھا۔ 

    ’’وہ بچوں کو بھی لے گیا؟‘‘

    ’’ہاں۔ میرے پاس اکیلے رہنے سے وہ اور بچے دونوں ہی خود کو ان سیکور فیل کرتے ہیں۔‘‘ 

    ’’شاید اسی لئے تمہاری آتما بھٹکتی رہتی ہے۔ کبھی میگزین کا دفتر۔ کبھی آرٹ گیلری، کبھی میوزک ورکشاپ۔۔۔‘‘ 

    میں ایک آترپت آتما ہوں۔ وہ ہنس رہی تھی۔ شاید اسی لئے ماں باپ نے مذاق کے طور پر میرا نام ترپتی رکھ دیا۔ 

    میں نے کپڑے پہن نہیں لئے تھے۔۔۔ وہ اچانک اٹھی۔ بے اختیار ہو کر ایک بار پھر میرے جسم سے لگ گئی۔ وہ رو رہی تھی۔ 

    ’’ترپتی۔ ترپتی۔‘‘ میرے ہاتھ بارش بن گئے تھے۔ اس کے جسم کے لئے۔ اس کے تھر تھراتے مچلتے جسم کے لئے۔ وہ ہر جگہ برس رہے تھے۔ بوسوں کی بارش کر رہے تھے۔ پھر جیسے بجلی تیزی سے گرجی۔ اسے جیسے غلطی کا احساس ہوا ہو۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹی۔ میری طرف دیکھ کر ہنسی۔ پھر بولی۔ 

    ’’آخر اسے ایک تہذیب مل گئی۔ جس کی کھوج میں وہ برسوں سے لگا تھا۔ ایک قدیم تہذیب۔ یہ اس ڈراؤنے ویلٹائن ڈے کے چوتھے دن بعد کا قصہ ہے۔ مسوری، ہماچل وغیرہ میں برف گری تھی شاید۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی۔ وہ رات کے 3بجے آیا۔ میں سو گئی تھی۔ عام طور پر جب میں اکیلے ہوتی ہوں۔ بیڈروم میں۔۔۔ تو برائے نام لباس پہنتی ہوں۔ وہ مجھے اٹھا رہا تھا۔ جانوروں کی طرح۔ 

    ’’ہو ہو۔۔۔ اٹھو۔۔۔ اٹھو۔‘‘ 

    میں نے سمجھا، ایک جانور پیاسا ہے۔ عام طور پر وہ اسی طرح، ایک بےحس جانور کی طرح اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ رات کے تین بجے اٹھا کر اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھا دیا۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ’’جھومر‘‘ کی طرح مسکراہٹ اس کے پور پور سے روشنی دے رہی تھی۔ 

    ’’بولو۔ اٹھایا کیوں۔ میں گہری نیند میں تھی۔‘‘ 

    ’’مل گیا۔ یوریکا۔ ’’اسے میرے لفظوں کی، نیند کی فکر نہیں تھی۔ ’’تمہیں یاد ہے۔ وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔۔ میں نے بتایا تھا نا، 1991ء کے آس پاس جرمن سیاحوں کو آلپس کی پہاڑیوں پر ٹہلتے ہوئے انسانی اعضاء ملے تھے۔ یاد ہے؟ وہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دریافت تھی۔۔۔ سب سے عظیم دریافت۔ گیارہ برس بعد۔۔۔ اس کے ٹھیک گیا رہ برس بعد۔ آہ تم یقین نہیں کروگی۔ مگر ہم دنیا بدل دیں گے۔ تاریخ نئے سرے سے لکھی جائےگی۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا۔۔۔ گجرات کے ساحل سے 30کلو میٹر دور کھمباٹ کی کھاڑی میں ایک عظیم خزانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ سونو فوٹوگرافی۔ تمہیں یاد ہے نا، چار دن پہلے۔ 

    ’’جلتے ہوئے گجرات میں، عظیم خزانہ۔‘‘ 

    ’’ہاں‘‘ مجھے یاد ہے۔‘‘ میرے لہجہ میں ناگواری تھی۔ چار دن پہلے، ویلنٹائن ڈے کے دن جو کچھ ہوا میں اسے کبھی بھول نہیں سکتی۔‘‘ 

    ’’بھولنا بھی نہیں چاہئے۔‘‘ مینن کے لہجہ میں کہیں بھی دکھ یا اداسی کی جھلک نہیں تھی۔ ’’جھومر‘‘ جیسے اندھیرے میں سوئچ کی حرکت سے روشنی کی طرح بکھر گیا تھا۔ ’’سونو فوٹوگرافی سے نکلی تصویریں جب لیب سے باہر آئیں تو ہمیں اچانک احساس ہوا۔۔۔ سمندر میں 40 میٹر نیچے دفن قدیم ترین تہذیب اچانک رنگین ستاروں کی طرح ہماری قسمت سے جوڑ دی گئی ہو۔ ایک قدیم شہر، موہن جداڑو کی طرح رہائشی مکانات۔۔۔ سیڑھیوں کی طرح نیچے اترتے پوکھر۔۔۔ تالاب۔ 

    ’’اور سب کچھ اسی گجرات کے ساحلی علاقے میں۔‘‘ 

    میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ میں دیواروں کا خیال رکھتے ہوئے چیخی۔ ’’میں بھی ایک عظیم پوکھر ہوں۔ ایک عظیم تالاب ہوں اور انتہائی قدیم۔ تمہیں اس عظیم پوکھر میں بہتے پانیوں کے اشارے کیوں نہیں ملتے؟‘‘

    اس نے میری آواز کو نظرانداز کیا۔ وہ بتا رہا تھا۔ تہذیبیں کہیں جاتی نہیں ہیں۔ وقت کے ڈائنا سور انتہائی خاموشی سے انہیں نگل جاتے ہیں۔۔۔ تہذیبیں ’’ممی‘‘ سے باہر نکلنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آہ، تم نہیں جانتی۔ میں کس قدر خوش ہوں۔ سمندر کے گہرے پانی میں 90 کلو میٹر کے دائرے تک، اس قدیم تہذیب کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔۔۔ قدیم شہر۔۔۔ ایک پورا شہر ندی میں سما گیا۔۔۔ سندھو گھاٹی کی تہذیب کی طرح۔ یہ شہر اسی طرح کا ہے۔ جیسے ہڑپا کے برامدات میں پایا گیا تھا۔۔۔ مٹی کی بنی ہوئی نالیاں۔ کچی سڑکیں۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر۔ پتھر کے تراشے اوزار۔ گہنے۔۔۔ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے برتن۔۔۔ جواہرات۔۔۔ ہاتھی کے دانت اور۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ سب کچھ یعنی 7500 ق۔ م۔ یعنی قبل مسیح کا۔ 

    ’’یہ سب مجھے کیوں سنا رہے ہو؟‘‘

    وہ آگے بڑھا۔ میرے جسم پر یوں بھی کپڑے اس وقت برائے نام تھے۔ ’’اس نے باقی بچے کپڑے بھی جسم سے الگ کر دیئے۔ اس لئے کہ۔ ’’میری آثار قدیمہ۔ تمہیں اب انہیں کھنڈروں میں بیٹھانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے تمہارے ان کھنڈروں پر ریسرچ کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے ایک بھدی گالی دی۔ مجھے بستر تک کھینچنا چاہا اور شاید۔‘‘ 

    وہ ہانپ رہی تھی۔ یہ اس کے ساتھ مسلسل، گزر رہے لمحوں کا جبر تھا کہ میں نے الٹا ہاتھ اس کے گال پر جڑ دیا۔ 

    ’’کتیا۔‘‘ وہ ہانپ رہا تھا۔ ’’ایک بہت قدیم تہذیب برآمد کرنے کے بعد مجھے تمہارے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ 

    اس نے مجھے دھکا دیا اور خود کو بستر پر سونے کے لئے ڈال دیا۔۔۔ میں زمین کے تنہا گوشہ میں دیر تک اپنے آنسوؤں کا شکار ہوتی رہی۔ 

    ’’پھر کیا ہوا، اس نے تمہیں ڈیورس دے دیا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں۔ جان گئی ہوں۔ ایسے لوگ، ڈرپوک ہوتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں بہت دور تک دھوپ اور سایہ دیکھنے والے۔ ایسے لوگ قدم قدم پر ان سیکوریٹی کے مارے ہوتے ہیں۔۔۔ مینن بھی ایسے ہی جذبہ سے دو چار تھا۔۔۔ میرے بعد؟ اپنی، جسمانی اور بچوں کی۔ ترپتی مینن میری طرف مڑ گئی تھی۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسے لوگ جیت سکتے ہیں؟ نہیں۔ کسی ایک لمحے کا۔۔۔ بولا گیا سچ ان کی اپنی ذات پر بھاری پڑتا ہے۔ دوسرے دن وہ ایک سدھا، ہوا بلڈاگ بن گیا تھا۔۔۔ میرے قدموں پر لوٹتا ہوا۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 

    ترپتی آگے بڑھ کر کھڑکی کے پٹ کھول رہی تھی۔ باہر رات کی سیاہی مکمل طور پر چھا چکی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ تیز ہوا کے جھونکے کھڑکی کھولتے ہی اندر ہمارے جسموں میں داخل ہو گئے۔ 

    ’’ہوا تیز چل رہی ہے، نہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ 

    باہر کہرے کے ’’آبشار‘‘ گر رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس اپنے منہ کو لے گئی۔ پھر میری طرف پلٹی۔ ہلکی سانس چھوڑی۔ چہرے کو اپنی ہتھیلیوں سے خشک کیا۔ 

    ’’کہرے کا احساس چہرے پر کیسا لگتا ہے۔ آں؟ جیسے ایک نم سی ٹھنڈی، روئی آپ کے چہرے پر رکھ دی گئی ہے۔ ہے نا؟‘‘

    وہ پھر مسکرائی۔۔۔ میں کہاں تھی۔ ہاں، یاد آیا۔ وہ ایک سدھے ہوئے بلڈاگ کی طرح اپنے نتھنے، میرے جسم پر رگڑ رہا تھا۔ کتّا۔۔۔ مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ تیز نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سیکس کے بخار میں جل رہا تھا۔ 

    ’’پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے۔ کل رات۔ معاف کر دو ترپتی۔‘‘ اس کے رکھڑے، بن ماس جیسے ہاتھ میرے جسم پر مچل رہے تھے۔ وہ میرے کپڑے کھول رہا تھا۔ میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ میمنے، کی طرح معصومیت سے، اپنے غصّے کو دبائے اس کے جانور نما، پنجوں کا کھیل دیکھتی رہی۔ جب وہ میرے کپڑے اتار چکا اور کسی جنگلی بھیڑیے کی طرح اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے تیار تھا۔۔۔ ایک دم اسی وقت، میں کسی جنگلی بلی کی طرح غرائی۔۔۔ دھب سے زمین پر کودی۔۔۔ غصے میں اسے پرے ڈھکیلا۔۔۔ کپڑے پہنے اور چلائی۔ 

    یو، سن آف بلڈی سوائن۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ 

    وہ جل رہا تھا۔ وہ اپنے بدن کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ گڑگڑا رہا تھا۔ وہ اپنے بھوکے بدن کی دہائیاں دے رہا تھا۔ میں کسی فاتح کی طرح مسکرائی۔ اس بار اسے سیراب کرنے کے لئے، میں نے سکندر بادشاہ کی طرح فتح کا سہرا اپنے سر لکھ لیا تھا۔ 

    ترپتی نے کھڑکی بند کر دی۔ ’’چلو، اس حادثے کو بھی بھول گئی میں۔ بھولنا پڑتا ہے۔ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی۔ میری جانگوں پر بیٹھ گئی۔ 

    ’’سنو۔ تمہارے یہاں کون کون ہیں؟‘‘

    ’’ملوگی؟‘‘

    ’’ہاں۔ ملنا چاہوں گی۔‘‘ 

    ’’مینن آ گئے تو؟‘‘

    ’’اب میں اسے ڈرانا چاہتی ہوں۔۔۔ وہ میرے شرٹ کے بٹن سے کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے خود بولی۔ 

    ’’ایک بیوی ہو گی!؟‘‘

    ’’ہاں‘‘ 

    ’’اسے بتاؤ گے کہ تم سے ایک ندی کی لہر ٹکرائی تھی۔۔۔‘‘ 

    ’’نہیں‘‘ 

    ’’ڈرتے ہو۔‘‘ 

    ’’ڈرنا پڑتا ہے۔ بیویاں صرف ایک سمندر۔ سمندر کی صرف ایک لہر سے واقف ہوتی ہیں۔۔۔ دوسرے لفظوں میں کہوں تو وہ ساری لہروں پر خود ہی حکومت کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ 

    وہ ہنس رہی تھی۔ اور کون ہے۔ 

    ’’ایک بیٹا‘‘

    ’’کتنے برس کا؟‘‘

    ’’آٹھ برس کا‘‘

    ’’اور۔‘‘ 

    میں نے اسے جانگھوں سے پرے کیا۔ شریانوں میں گرم گرم طوفان کی آمد سے خود کو بچانا چاہتا تھا۔ 

    ’’تم نے بتایا نہیں۔ اور کون ہے۔‘‘ 

    ’’ایک بیٹی ہے۔ مگر۔‘‘ 

    ’’مگر؟ ‘‘

    ’’نہیں۔ وہ ہے نہیں۔ میرا مطلب ہے، وہ بن رہی ہے۔ بس وہ بن رہی ہے اور ایک دن یقین جانو وہ پوری طرح بن جائےگی۔‘‘ 

    ’’اس نے چونک کر تعجب سے مجھے دیکھا‘‘

    ’’پہلیاں مت بجھاؤ‘‘

    ’’دراصل۔ میں نے اپنا جملہ مکمل کیا۔ وہ انکیوبیٹر میں ہے اور مسلسل بننے کے عمل میں ہے۔‘‘ 

    ’’کیا مجھے ملواؤگے؟‘‘

    ترپتی نے اپنا بدن ایک بار پھر میرے بدن پر ڈال دیا تھا۔۔۔ 

    لفٹ پانچویں فلور پر رک گئی تھی۔ یہ اسپتال کا نرسری وارڈ تھا۔ فل ائیرکنڈیشنڈ۔۔۔ باہر ایک لمبی راہداری چلی گئی تھی۔ ترپتی نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ شیشے کے بنے دروازوں سے گزرتے ہوئے ہم ’’ماترتو سدن‘‘ کے بورڈ کے آگے ٹھہر گئے۔۔۔ 

    ’’یہاں جوتے اتارنے ہوں گے۔‘‘ 

    ترپتی کے پاؤں جاپانیوں اور چینی عورتوں کی طرح چھوٹے اور ملائم تھے۔ گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا۔ دروازے کے اندر شیشے کی ایک عجیب سی دنیا تھی۔ ترپتی حیرت سے شیشے کے اس پار دیکھ رہی تھی۔ شیشے کے اس پار بھی، شیشے کے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوئے تھے۔۔۔ ایسے ہر گھروندے میں نیلے بلب جل رہے تھے۔ 

    ’’نیل کہاں ہے؟ ترپتی کی آنکھوں میں تجسس تھا۔‘‘ 

    وہاں ان گنت انکیوبیٹرس تھے۔ ترپتی کی انگلیاں تیر رہی تھیں۔ وہاں۔ 

    ’’نہیں‘‘، ’’نہیں؟‘‘

    ’’وہ۔‘‘ 

    ’’وہ بھی نہیں۔‘‘ 

    ’’اچھا وہ۔ دائیں طرف۔‘‘ 

    ’’نہیں۔‘‘ 

    ’’پھر نیل کہاں ہے؟‘‘

    ’’نیل وہ رہی‘‘

    ’’مگر۔ وہ انکیوبیٹر تو خالی ہے۔ ترپتی چونک گئی تھی۔ 

    ’’خالی نہیں ہے۔ غور سے دیکھو۔‘‘ 

    ’’خالی ہے!، ترپتی کا لہجہ اُداسی سے پُر تھا۔ 

    ’’ہے نا۔ میں نے کہا تھا۔ وہ بن رہی ہے۔۔۔‘‘ میں نے ترپتی کا ہاتھ زور سے تھام لیا تھا۔ یاد ہے ترپتی۔ میں نے کہا تھا، عورت ہر بار بننے کے عمل میں ہوتی ہے۔ ایک بے چین آتما۔ ایک یونانی دنت کتھا میں پڑھا تھا۔۔۔ عورت کی جون میں پرویش سے پہلے، آتما دھرتی کی سوپریکر مائیں پوری کرتی ہے۔ تمہاری آتما بھی بے چین تھی۔ کبھی ساہتیہ۔ کبھی آرٹ اور کبھی۔‘‘ 

    ترپتی میری طرف تیزی سے مڑی۔ ہنستے ہوئی بولی۔ 

    ’’سنو۔ اس انکیوبیٹر میں مینن کو ڈال دوں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ 

    میرا لہجہ نپا تُلا تھا۔ ’’سب سے پہلے ابھی تمہیں اس انکیوبیٹر سے باہر نکلنا ہے‘‘ 

    میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ اس کا ہاتھ تھام کر باہر آ گیا۔ لفٹ کے بٹن پر انگلیاں رکھتے ہوئے بھی میں نے اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔ 

    ممکن ہے وہ انکیوبیٹر میں رہ گئی ہو۔ یا ممکن ہے، شوہر کے آثار قدیمہ میں بھٹک رہی ہو!

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے