Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مارچ کی ایک رات

احمد علی

مارچ کی ایک رات

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    دل کی ویرانی بصیر کو کھائے جاتی تھی۔ مکدرہوکے اس نے جگدیش سے کہا،’’چلوکہیں چلیں۔‘‘

    گھرسے نکل کر دونوں محبت کی دکان دکان پھرنے لگے۔ بصیراپنے دل کی ویرانی کرایے کی عورتوں کے آنچل میں چھپارہاتھا اور اس کادوست جگدیش ان بوسوں کے مزے لوٹ رہاتھا، جوسیکڑوں لبوں کے جھوٹے کیے ہوئے گالوں پر دیے جاتے ہیں۔ جن کا بوسہ لینے کے بعددیرتک محسوس ہوتا ہے کہ ہونٹ کسی بے جان شے سے مس ہوگئے ہیں۔

    لیکن دل کی ویرانی۔۔۔ یہ کوفت کہ دنیا میں کوئی ایسی آنکھ نہیں ہے جومیرے انتظارمیں ٹکٹکی باندھے کواڑوں کوتک رہی ہو، کبھی اس بات سے دورنہیں ہوتی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ زرخرید خوشی کی چندگھڑیاں دل کی ویرانی کوبھلاضروردیتی ہیں مگراس کو مٹانہیں سکتیں۔ وہ دل میں ایک میٹھے میٹھے درد کی طرح قائم رہتی ہے۔۔۔۔ ایک ڈگڈگی کی طرح مسلسل۔

    جب وہ شہر کی اندھیری گلیوں میں، جن کی ہرچیز پُررازنظرآتی تھی، پہنچا،تو کچھ دیر کے لیے اپنے دل کی چبھن کوبھول گیا۔ دنیا پرتاریکی کا غبار چھاچکا تھا۔ صرف ٹمٹماتے ستاروں کی مدھم روشنی نیندمیں کھوئی ہوئی دنیا کے چہرے پر پڑرہی تھی۔ ان پتلی گندی گلیوں میں جہاں نالیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے سڑانڈپھوٹ رہی تھی، ان دونوں کو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کوئی بڑا گناہ کررہے تھے یا سماجی جرم۔ لیکن جب وہ ایک چوڑی گلی میں داخل ہوئے تو حسن حنا کی مست کردینے والی خوشبو سارے میں پھیل گئی۔ ابھی یہ دونوں اس سے لطف اندوز بھی نہ ہونے پائے تھے کہ دلال نے کہا،’’حضور اس طرف۔‘‘

    یہ لوگ اک ٹوٹے ہوئے زینہ پر ٹھو کریں کھاتے ہوئے ایک کھنڈر نما گھرمیں داخل ہوئے جس کی چھتوں اور دیواروں سے مٹی جھڑرہی تھی۔ اندر گوبراور سیل کی بوسارے میں بسی ہوئی تھی۔ ایک نیچے سے تنگ دالان میں ایک اندھی لالٹین جل رہی تھی، جس کی مری ہوئی روشنی میں وہاں کی تاریکی اوربھی پراسرار معلوم ہوتی تھی۔ آسمان پرمدھم تارے ٹمٹمارہے تھے اورافق پردرخت سیاہ سایوں کی طرح کھڑے ہوئے تھے اوریہ تمیز کرنی مشکل تھی کہ کہاں درخت ختم ہوتے ہیں اور کہاں آسمان شروع ہوجاتاہے۔ وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ اندرایک بوبسی ہوئی تھی، جوان ویران کھنڈروں میں ملتی ہے جہاں انسانوں نے رہنا چھوڑدیاہو اوراب صرف گدھ اور بھولے بھٹکے جانوررات کو پناہ لیتے ہوں۔

    وہاں کسی انسان کا پتہ نشان نہ تھا۔ کمرہ بھائیں بھائیں کررہاتھا اوریہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی تاریک کونے سے بھوت پریت نکل کراپنی سخت سخت انگلیوں سے گلاگھونٹ دیں گے۔ مگرکھونٹی پرایک کپڑا ٹنگا ہوا تھا جس کی سفیدی اور صفائی حیرت انگیز معلوم ہوتی تھی۔ شاید گھر بھرمیں وہی ایک چیزصاف ستھری تھی، ورنہ وہاں کی دنیا ایسی بھیانک تھی جس کی راہ سے قدرت اپنی پرانی چیزوں کو تباہی کے غارمیں پھینک دیتی ہے۔

    سرجھکاکے وہ ایک نیچے دروازہ سے کمرے میں گھسے۔ یہاں بھی وہی گوبر اور ویرانی کی بوپھوٹ رہی تھی۔ ایک لالٹین ایک کونے میں ٹمٹمارہی تھی۔ کمرے کے تاریک کونے میں ایک دروازہ نظرآرہاتھا جوشاید کسی اورکمرہ میں جاتا تھا۔ کمرے کے روشن کونے میں ایک چارپائی پر تین انسانی صورتیں دفعتاً نظرآئیں جوچڑیوں کی طرح آنے والوں کودیکھ رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں شاید امید کی بھی کچھ جھلک تھی۔ اس بات کی کہ آنے والوں میں سے کسی کے ہاتھ سے چاندی کاسکہ مل جائے۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ خوف کا اظہار تھا۔ ایک ایسے خوف کاجوبکری کی آنکھوں میں اس وقت نظرآتا ہے جب قصائی چھری لے کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔

    ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ انسان نہیں ہیں بلکہ فکروں اورپریشانیوں نے انسانی روپ بدل لیا ہے یاپھروہ تباہ شدہ پرانے تمدن کی روحیں معلوم ہوتی تھیں۔ ان کے میلے چہرے سہمی ہوئی آنکھوں سے ان کوتک رہے تھے اورکہہ رہے تھے،ذرا ہماری طرف دیکھو۔ کبھی ہم بھی انسان تھے گواب نہیں رہے۔ ہم بھی انسان کی گود میں پیدا ہوئے اورپروان چڑھے لیکن انسانوں ہی نے ہم سے انسانیت چھین لی۔ اب کیا پوچھتے ہو۔ ہم لاشوں سے بھی بدتر ہیں۔۔۔‘‘

    یہ منظر کچھ ایسا وحشت ناک اورتکلیف دہ تھا کہ دونوں لوٹ پڑے اورچلنے کا ارادہ کیا۔ عورتیں فورا سمجھ گئیں کہ ہم پسند نہیں آئیں۔ ایک عورت بولی،’’ذرا بیٹھئے تو، کچھ دیرتو بیٹھ جائیے۔‘‘

    اس کی آواز میں تلخی اورآنکھوں میں نفرت تھی اور سب کے چہرے یہ کہتے معلوم ہوتے تھے،ہم جانتے ہیں کہ ہم بدصورت ہیں لیکن ذرادیر کے لیے بیٹھ توجاؤ۔ ہم بھی اکیلے ہیں۔ ہم بھی دل کی وحشت کے مارے ہوئے ہیں۔ ہم بھی کچھ تسلی،کچھ محبت اورترس کے بھوکے ہیں۔ ان چیزوں کی ہمیں تمہارے روپوں سے زیادہ ضرورت ہے۔ تم کونفسانی خواہشات یہاں لائی ہیں لیکن اب کہ تم آگئے ہو توہماری بدنصیبی کوجانے بغیر نہ جاسکوگے۔ تم اپنی خوشی کا سودا توکہیں نہ کہیں سے کرہی لوگے لیکن ہم بھی تمہارے خیالوں اور خوابوں میں منڈلاتے رہیں گے۔۔۔‘‘

    ان کے بے جان ستے ہوئے چہرے کچھ ایسے مانوس معلوم ہوئے کہ ان دونوں کو یہ خیال گذرنے لگا کہ وہ ان کو پہلے بھی کبھی دیکھ چکے ہیں۔ ان سے مل چکے ہیں۔ وہاں بھی یہ اسی دردوحسرت سے ان کوتک رہے تھے کہ کہیں یہ لوگ اوران کے ساتھ کل کی روٹی کی امید بھی چلی نہ جائے۔ ان میں سے ایک گدرائے بدن کی سانولی اورچیچک روتھی۔ لیکن ان کی سفید آنکھیں اس طرح جنبش کررہی تھیں جیسے اندھیری رات میں دریا میں بہتی ہوئی لاش،دوسری چھوٹی سی زرد اوربیمارشکل تھی۔۔۔ تیسری کاسن زیادہ تھااورخون کی کمی نے ساری رونق چوس لی تھی۔

    پہلی کی آنکھوں میں خوف اور حیرت تھی، دوسری ایسے طنز سے دیکھ رہی تھی جوغربت اور بھوک سے پیدا ہوتاہے۔ تیسری کی آنکھوں میں تلخی تھی، ایسی تلخی جوسانپ کے زہر سے بھی زیادہ تھی۔ غریبی،مصیبت اورگندکی فضا ان کولپیٹے ہوئے تھی اور ان کی انسانیت کہیں دور،بہت دورسیکڑوں پردوں کے اس پارچھپی پڑی تھی۔

    ہندوستان میں توایسی لاکھوں ہستیاں ہیں۔ کسی تنگ اوراندھیری گلی میں چلے جاؤ۔ وہاں یہ اپنی زندگی کا مجسم نوحہ بنی نظرآئیں گی۔ زندگی کی غلاظت اورگندگی میں یہ ہنستی بولتی، کام کاج کرتی،اپنا دل بہلاتی اور دوسروں کی محبت کے مزے اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ مرد ان کے پاس آتے ہیں، ان کے جسموں کو کرایے پرلیتے ہیں اوران کی دکھ بھری اورتھکی ہاری چھاتیوں کواپنے سینوں سے پیوست کرکے اپنا غم غلط کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اوروہ ذرا بھی فریادنہیں کرتیں بلکہ یہی ظاہر کرتی ہیں کہ وہ خودبھی لطف اٹھارہی ہیں۔

    بصیران عورتوں کو دیکھ کرشرم اورسماجی جرم کے احساس میں ڈوباجارہا تھا۔ ان کے چہرے ان کے دلوں کا پتہ بتارہے تھے جن میں درد اور دکھ کی لامتناہی داستانیں چھپی ہوئی تھیں۔ وہ یاد کررہاتھا کہ کبھی کبھی ان میں سے کسی کسی نے کیسی مجبوری اورتھکن کا اظہار کیاتھا اوراپنے دل کے غموں اور دکھوں کے وسیع سمندر کی جھلک دکھائی تھی، لیکن انسان جس کے خمیر میں خودغرضی پڑی ہوئی ہے، ان باتوں کو کیسے پسند کرسکتا ہے۔ وہ تو عورت کولونڈی بناکراپنی نفسانی خواہشوں کی آ گ کو اس کے جسم سے بے دریغ بجھانا چاہتاہے۔ کون جانتا ہے کہ روپیہ جو انسان کو درندہ بناسکتاہے، ان عورتوں کو ان کا بچھڑا ہوا انسانی نیکی پرعقیدہ پھر واپس دلاسکتا ہے۔ لیکن بصیر نے اپنے خیالات کا اظہاراپنے دوست سے نہ کیا اوران عورتوں کے دکھوں کواپنے ہی دل میں محسوس کرتارہا۔

    باہرگلی میں پہنچ کرانہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن حسن حنا کی خوشبو اب گوبر اور ویرانی کی بو میں، جوان کے دماغوں میں بسی ہوئی تھی،گھل مل گئی تھی اور تارے مدھم اورپھیکے پڑگئے تھے۔ جیسے کتا دم دباکربھاگتا ہے، یہ دونوں گلی سے اپنی کار کی طرف بڑھے اور کتوں ہی کی طرح اپنی خفت چھپانے کوانہوں نے دلال سے کہا،’’بھئی تم بھی کہاں لائے۔۔۔ کوئی اورجگہ نہ تھی؟‘‘

    اورپھروہی تلاش،پھروہی ویرانی کاگیت ان کے دلوں میں۔۔۔

    اب کے ایک ناک نقشہ کی اچھی عورت ملی اورگواس کا سن زیادہ تھا لیکن پھربھی اچھی تھی۔ اس کا چہرہ بتارہا تھا کہ کبھی حسین رہی ہوگی اور بہت لوگوں نے اسے اپنے دلوں میں جگہ دی ہوگی۔

    وہ کچھ نشے میں تھی۔ ایک پولیس کا افسرابھی ابھی اس کے پاس سے گیاتھا اوراب رات کے بارہ بجے وہ بیٹھی کھاناکھارہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک مرد بیٹھا ہوا تھا، جو یاتو شاید اس کا آشنارہا ہویاممکن ہے شوہر، جس کی گذراوقات اب صرف اس پررہ گئی تھی کہ اپنی بیوی کا جسم ان مردوں کے ہاتھ بیچتا رہے جن کی جیبوں میں روپہلاجادو کھٹکتا ہے۔ بصیر اوراس کا دوست بیٹھ گئے۔ مردجوان تھا اورحیرت یہ تھی کہ تعلیم یافتہ تھا اور انگریزی بولتا تھا۔ وہ بھڑوا نہیں بلکہ دفتر کاکلرک معلوم ہوتا تھا۔ ایک بستر پر ہارمونیم اورایک کونے میں ستاررکھا ہواتھا۔ اسے دونوں بجانے آئے تھے۔ مگراس وقت وہ بھی نشہ میں چورتھا اوراس کے سامنے رم کا بھرا ہوا گلاس رکھا تھا۔

    عورت نے کھاناختم کرکے چھوکرے سے پانی مانگا اورپھر بیٹھ کرمرچوں کی وجہ سے سی سی کرنے لگی۔ پھرایک خانگی قصہ کھڑا ہوگیا۔ عورت نے پان مانگا۔ نوکر نے کہاچھالیہ نہیں ہے۔ مردگرجا۔

    ’’کیوں نہیں ہے بے الو کے پھٹے؟‘‘

    ’’بنیاادھارنہیں دیتا۔‘‘

    ’’اور جو رقم میں نے دی تھی۔ اس کا کیاہوا؟‘‘

    لڑکے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مرد نے ماں کی گالی دے کرکہا،’’سنتا نہیں ہے بے؟‘‘

    لڑکے نے کہا کہ سب پیسے ختم ہوگئے۔ پھرمرد نے گالی دے کرکہا،’’اس بنئے کے پاس کیوں گیا، جس سے ہم سودانہیں خریدتے؟‘‘ پھراورگالیاں دے کرکہنے لگا،’’اس سالے بنئے سے کہہ دے کہ تین دن کے اندراپنی دکان یہاں سے ہٹالے جائے ورنہ پھر اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ سنتا ہے بے، او بنئے کے لونڈے، اس سے کہہ دے کہ اگروہ نہیں مانتا ہے تو اس کی دکان میں چوری کا مال یا کوکین رکھواکر پکڑوادوں گا۔‘‘

    ساتھ ساتھ عورت بھی لڑکے کی شکایت کررہی تھی کہ اس نے میرا پندرہ آنے کا خریدا ہوا آئینہ توڑڈالا۔ بیچ بیچ میں ایک آدھ بری گالی بھی دیتی جاتی تھی۔ مرد برابر ماں بہن کی گالیاں دے رہاتھا اور لڑکے کواس طرح گھوررہاتھا جیسے اس کو کھاہی جائے گا۔ بصیر نے عورت سے پوچھا،’’آپ یہاں کب سے ہیں؟‘‘

    ’’کوئی دومہینہ سے۔‘‘

    عورت نشہ کی وجہ سے ہکلارہی تھی۔

    ’’آپ کہاں سے آئی ہیں؟‘‘

    ’’حیدرآباد سے،لیکن کئی برس سے میں بریلی میں تھی۔‘‘اس کا لہجہ بھونڈاتھا اور اس کی نشہ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں نکلی پڑی تھیں۔

    ’’آپ نے حیدرآباد اوربریلی کیوں چھوڑا؟‘‘

    عورت نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے چہرہ پرایک عجیب سی کیفیت جھلک اٹھی،جس میں مجبوری اور افسوس دونوں صاف نمایاں تھے۔ پھرایک ٹھنڈا سانس بھرکے بولی،’’پیٹ کے کارن۔‘‘

    مردابھی تک نشے کے زور میں لڑکے پربگڑتا چلاجارہا تھا۔ پھرمڑکر ان دونوں سے کہنے لگا،’’اس حرام زادے کوکبھی کچھ نہیں آئے گا۔ جب اس گھرمیں، جہاں سیکڑوں قسم کے آدمی آتے جاتے ہیں، کچھ نہ سیکھ سکا تودوسری جگہ کیا سیکھ سکے گا۔ کل اس نے میرا قیمتی آئینہ توڑڈالا۔ جس نے بھی اس کا چوکھٹادیکھاافسوس کیا۔

    عورت بولی،’’اس حرامی نے توہماری زندگی اجیرن کردی ہے۔‘‘ پھر لڑکے سے کہنے لگی،’’اوحرامی کے پلے کھڑاکیاکررہا ہے۔ چل پاندان لا۔‘‘

    مردچلاکربولا،’’مگر چھالیاکہاں ہے؟‘‘

    ’’لیکن میں پان توکھاؤں گی ضرور۔‘‘ پھروہ اپنے دونوں گاہکوں کی طرف مڑکرکہنے لگی،’’معاف کیجئے گا۔ ڈلی نہیں ہے۔ یہ الوکاپٹھا۔۔۔‘‘

    دونوں نے جواب دیا،’’کوئی بات نہیں ہے۔‘‘

    عورت بولی،’’کل کی بات ہے۔ ایک پرانے کرم فرماآئے۔ ان کوپان کا بڑا شوق ہے مگر یہاں گھرمیں ڈلی بھی نہیں نکلی۔ میں نے اس سور کو بھیجا کہ جابازارسے لے آ،مگر یہ آکرکہنے لگاکہ نہیں ملتی۔ وہ صاحب کہنے لگے کیا دام نہیں ہیں؟ اورانہوں نے اپنا بٹوانکالا۔ میں نے کہا یہ بات نہیں ہے۔ پھرمیں نے اس لڑکے کوبھیجا۔ اس نے پھرآکر وہی جواب دیا۔ وہ بیچارے بلاپان کھائے چلے گئے۔ ایسا ہے یہ سالا۔۔۔ گدھے کا بچہ۔‘‘

    کمرے میں کوئی کھڑکی یاروشن دان نہیں تھا۔ سگریٹ کادھواں،رم کی بو، تیل، کھانے اور بہت سی نامعلوم چیزوں کی باس سارے میں بھری تھی۔ اس پریہ خانگی جھگڑا۔۔۔ اس فضا میں دم گھٹنے لگا۔ بصیر کو وحشت ہونے لگی اوراس نے اپنے دوست سے کہاکہ عورت کولے چلو۔ اس پر جگدیش نے عورت سے پوچھا،’’اگرآپ تیارہیں تو چلئے۔ ذرا موٹرپرہواکھاآئیں۔‘‘

    ’’میں تیارہوں، لیکن پہلے دام دے دیجئے۔‘‘

    آدمی بولا، ’’ہاں پہلے دام دے دیجئے۔ میں آپ سے وعدہ کرچکاہوں کہ ساتھ بھیج دوں گا۔ میں بات کاپابندہوں۔ مگر پہلے دام۔‘‘

    ’’اچھاکتنے؟‘‘

    ’’میں اک بات کہہ دوں۔۔۔ یا۔۔۔؟

    ’’ہاں! ایسے دام کہہ دوکہ ہم یہاں پھردوبارہ بھی آسکیں۔‘‘

    مردنے ذرا سوچ کرجواب دیا،’’بیس روپیہ۔‘‘

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورچپ ہورہے۔ آدمی دونوں کا مطلب بھانپ گیا۔

    ’’آپ سچ جانئے یہ بہت کم ہے جو میں نے کہا، آپ کسی دوست کوبھیج کردریافت کرالیجئے۔ اورآدمیوں کا کیا کہنا۔۔۔ اتنے دام میں نے اس حرامی کے پلے پولس انسپکٹر سے بھی لیے ہیں۔‘‘

    اوراس نے اپنی جیب سے پندرہ روپیہ نکال کردکھلائے، پھربولا،’’اگرمیں نے ایک پیسہ بھی زیادہ کہا ہوتو مجھے حرامی سمجھئے گا۔‘‘

    عورت بے رخی سے کرسی پرپاؤں رکھے بیٹھی تھی اور اس کا سرنشہ کی حالت میں ایک طرف جھکاہوا تھا۔ عورت کے سامنے داموں پرجھگڑنامناسب نہ سمجھ کر وہ برابر کے کمرے میں، جوباورچی خانہ،غسل خانہ اورکباڑخانہ سب ہی کا کام دیتاتھا،آئے۔ یہاں پہنچ کرمرد کہنے لگا،’’میں بدمعاش اورشریفوں کوخوب پہچانتاہوں۔ ایک بارایک آدمی نشہ میں مدہوش آیا اور لگابگھارنے کہ میں شریف ہوں مگرمیں دلال کو الگ لے گیا اور اس سے کہاکہ اس حرامی کے پاس روپیہ چاہے جتناہو مگر یہ ہے بدمعاش۔

    پھرمیں نے عورت سے کہا کہ یہ نشہ باز ہے مگرسالے میں دم درود کچھ نہیں۔ وہ نشہ باز سہی مگرمیرا ایسا نشہ کاظرف نہیں رکھتا،لیکن میں وعدہ کرچکا تھا، اس لیے عورت کو ساتھ کردیا۔ مگرمیں راجہ صاحب سے جوبرابر ہی رہتے ہیں کارمانگی اور اس کا پیچھا کیا اوراس کے گھر پہنچ کر سیدھا اندر چلاگیا اور اس کے دوستوں سے پوچھا کہ صاحب کہاں ہیں۔ انہوں نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا جو ہاتھ میں ایک چاقو لیے مدہوش پڑاتھا۔ میں نے اس سے کہا،’’کیوں بے کتے کے پلے،تیری حالت تو یہ ہے، توعورت کا کیاکرے گا۔ تجھ میں کسی بات کے حواس توہیں نہیں!‘‘اوراس کے چوتڑوں میں ایک لات مارمیں، عورت کولیے چلاآیا۔ میں جانتاہوں کہ میں بڑا کام کررہاہوں لیکن شرط باندھتاہوں کہ کوئی اس کام کومجھ سے اچھی طرح نہیں کرسکتا۔‘‘

    جگدیش نے کہا، ’’لیکن اسے ہمارے ساتھ بھیجنے کے لیے کیاکہتے ہو؟‘‘

    ’’میں وعدہ کرچکا ہوں۔ عورت موجود ہے لیکن بیس سے کم نہیں لوں گا۔‘‘

    ’’تب توہم رات بھررکھیں گے۔‘‘

    ’’نا۔ عورت مجھ سے الگ رات نہیں گذارسکتی۔ نوبرس سے وہ مجھ سے الگ نہیں ہوئی ہے۔۔۔ مجھ پراب کچھ ایسی پڑگئی ہے جو میں یہ کام کرتا ہوں لیکن پہلے اس قدرذلیل نہ تھا۔۔۔‘‘

    اوراس کی آنکھوں میں تکلیف جھلکنے لگی۔ ایک پچھتاوے کی کیفیت۔

    ’’میں کبھی ملازم تھا۔۔۔ لیکن اس عورت کے کارن میں نے سب کچھ چھوڑدیا۔‘‘

    بصیربولا، ’’پھراس عورت سے پیشہ کیوں کراتے ہو؟‘‘

    جذبات کی رو جواس پر آگئی تھی، دورہوگئی اورپھر وہ اکڑکرکہنے لگا،’’کرناپڑالیکن مجھے اس پرپورا بھروسہ ہے۔ اگریہ نہ ہوتا تو میں محنت مزدوری جوبن پڑتا کرتا اور خود کھاتا اور اسے کھلاتا۔‘‘

    لیکن وہ ایسا انسان نہیں معلوم ہوتاتھا،جومحنت مزدوری کرکے ایمانداری کی روٹی کھاتے ہیں۔ وہ توصرف عورت کی محبت اور اس کی بے بسی سے ناجائز فائدہ اٹھارہا تھا۔ جگدیش نے کہا،’’توبیس سے کم نہ ہوگا؟‘‘

    ’’نہیں۔ میں کہہ چکاہوں کہ کم نہیں ہوسکتا۔‘‘

    دونوں یہ کہہ کروہ بیس کے قابل نہیں، چل پڑے۔ باہرنکلتے وقت ان کی نگاہ عورت پرپڑی جوکمرے میں کنڈلی منڈلی مارے نشہ میں دھت پلنگ پرپڑی ہوئی تھی۔

    باہر ستاروں کی چھاؤں میں امن اورسکوت تھا۔ مارچ کی خنکی بھری رات اپنی آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جس سے دل کی ویرانی اوربھڑک اٹھتی تھی۔ درخت جوش وخروش سے اپنے سردھن رہے تھے اورہوا کے راگ میں درد بھرے خوابوں کا نغمہ سنائی دیتاتھا۔

    بصیراتنا اکتاگیاتھا کہ اس میں اب کہیں جانے کی ہمت باقی نہ رہی تھی لیکن جگدیش قسمت آزمائی پرتلا ہواتھا۔ جب موٹرچلی اورتاریکی کی لہروں سے جادوبھری ہوا کے جھونکے آکرچہرے پرلگنے لگے توبصیر کو دل کی ویرانی کے ساتھ ساتھ افسوس اورترس نے بھی گھیرلیالیکن جگدیش نے اس کواس بات پرآمادہ کیا کہ عورت کی دستیابی کے لیے ایک اورکوشش کی جائے۔ اتنی رات گئے اگرکہیں ملنے کی امید ہوسکتی تھی تو چوک میں اوراب انہوں نے ادھرکا رخ کیا۔

    سڑکیں سنسان تھیں اورکتے بھی سوچکے تھے۔ دن بھر کی تھکی ہاری دنیاآرام کی نیندلے رہی تھی۔ صرف سڑک کے کنارے روشنی کے کھمبے نیندبھرے چوکیداروں کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ اوربجلی کی مردہ اوربے جان روشنی میں سڑک پرلکڑی کے ٹکڑے، مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن اور کوڑوں کے ڈھیر بدمزگی اورالجھن پیدا کررہے تھے۔ جب وہ مختلف محلوں سے گذررہے تھے توہرجگہ سے اس کی خاص بونکل کردماغ میں گھس جاتی، پھرجب دوسرا محلہ آتا تو اس کی بو، جگہ لے لیتی۔

    جب وہ دونوں بدصورت محرابی دروازے سے گذرکراسی سڑک پر آئے جس کے کوٹھوں سے مردوں کے تھکے ماندے دلوں کوکچھ سکون ملتا ہے،جہاں خوبصورت اورتندرست انسانوں کی ایک جماعت اپنے جسم کا سودا کرتی ہے لیکن جہاں اب صرف بھیروں ناچ رہا تھا، تو دور کسی گھڑیال نے ایک بجایا۔

    وہ جگہ جہاں شام کوچہل پہل رہتی ہے،طبلوں کی تھاپ اورسارنگیوں کی آواز دکانداروں اورگاہکوں کے شور اورخوانچے والوں کی صداؤں میں مل جاتی ہے،جہاں نالیوں کی بواڑاڑکر عطر اور ہاروں کی مہک میں مل کربوجھل ہوا میں پھیلتی رہتی ہے، اس وقت ویران اور خاموش تھی۔ صرف دوایک چوکیدار خالی دکانوں میں بیٹھے باتیں کرکے نیندبہلارہے تھے۔ اورایک پنواڑی نیندمیں جھومتا ہوا،تھکے ہاتھوں سے دکان بڑھارہاتھا۔

    سڑک کے بیچ میں پہنچ کرانہوں نے اس اونچی زمین کے پاس جہاں پارک بن گیاہے،کارروک لی۔ اس پارک میں نہ جانے کتنے ناکام عاشق آتے ہیں اور رنڈیوں کے پژمردہ اورتھکے ہوئے چہروں کوگھور گھورکے اپنی قسمت سے بدلالیتے ہیں۔ یاپھرشاعر اپنی معشوقہ کی روایتی سردمہری اور کج ادائی سے بدلالینے کو کسی رنڈی کا جسم چندگھنٹوں کے لیے کرایہ پرلیتے ہیں اورپھرکلیجہ تھامے اورسردآہیں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    پارک کے سامنے کے دوایک کمروں میں روشنی ہورہی تھی، اس لیے ان لوگوں نے کسی آدمی کو بلانے کے لیے کئی مرتبہ ہارن بجایا،لیکن آتا کون؟ سب کسادبازاری کاروناروتے ہوئے سونے چلے گئے تھے۔ آخربصیر نے کہا،’’انتظار فضول ہے۔ اب گھرچلو۔‘‘

    ’’نہیں جی۔ کسی نہ کسی دلال کوڈھونڈنکالیں گے۔‘‘

    ’’مگراتنی دیرانتظار کرنے کے بعد توکوئی آیانہیں۔ اب کوئی نہیں آئے گا۔‘‘

    ’’جب آئے ہیں توکسی کولے کرچلنا ضروری ہے۔‘‘

    ’’کیسے؟‘‘

    ’’چلو خودچلیں۔ شاید کوئی ساتھ آنے پر تیار ہوجائے۔‘‘

    ’’تم جاکر دیکھ لو۔ میں یہاں انتظار کررہاہوں۔‘‘

    ’’بزدل نہ بنو۔ چلودونوں چلیں گے۔‘‘

    وہ دونوں کوٹھے پر پہنچے لیکن رنڈی نے بے رخی سے کہا،’’ہم سونے جارہے ہیں۔‘‘ دونوں اپنا سامنہ لے کرلوٹ آئے۔ جگدیش نے حفت مٹانے کوکہا،’’یہ توپیسہ والی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘

    اب کوئی چارہ نہ تھا، اس لیے وہ گھر کی طرف چلے۔ کارمنڈلاتی ہوئی سڑک پرگذرنے لگی۔ دونوں طرف اونچے اونچے تاریک اوربدقطع مکانات بنے ہوئے تھے اوران کے تنگ برآمدے باہر کونکلے ہوئے، جانے والوں کے سروں پر محراب بنارہے تھے۔ جب وہ ایک پتلے تراہے پرپہنچے تودیکھا کہ اتنی رات گئے بھی ایک کارکھڑی ہوئی ہے۔ یاتو کوئی پراناشوقین تھا یاکوئی بھوک کامارا عورت کی تلاش میں بے چین پھررہاتھا۔ کاربتارہی تھی کہ آنے والا دولت مندتھا، جویاتو نرم بچھونے یا لطف اٹھانے کی فکرمیں آیاتھا یا کسی کرایہ کی تھکی ماندی عورت کی آغوش میں، جو پیٹ کی خاطر اسے خوش کرنے پرمجبور تھی، اپنا غم غلط کررہا تھا۔

    بصیربولا، ’’تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ اس کوچے میں ننگے جسم ایک دوسرے سے رگڑتے ہیں، روحیں بیچی اور خریدی جاتی ہیں اور سونے کی قربان گاہ پراخلاق کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔ مردیہاں اپنے اصلی روپ میں نظرآتے ہیں۔ یاتو درندے یاپھردلال۔ یہاں عورتیں عورتیں نہیں بلکہ مال ہوتی ہیں جسے خریدارپسند کرتاہے توخریدلیتاہے ورنہ دورپھینک دیتاہے۔‘‘

    جگدیش نے جواب دیا،’’میاں ملامت بنو۔ یہ کہاں کی مولویانہ باتیں نکالی ہیں۔ میں تویہ جانتا ہوں کہ ابھی عورت مل جائے تو ابھی مزے لوٹنے لگو۔ ابھی تک چونکہ عورت ملی نہیں ہے، اس لیے یہ باتیں کررہے ہو۔‘‘

    یہ لوگ اب تنگ راستے کے نکڑپر پہنچ چکے تھے اورموڑ سے گذرتے ہی تازہ ہوا سے پیدا ہونے والے تندرست جذبات کی دنیا میں داخل ہوجاتے،لیکن اسی وقت انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی تھکے قدموں سے لڑکھڑاتا اور نیندمیں جھومتا ہوا ان کی طرف آرہا ہے۔ انہوں نے کار روک لی اورپوچھا، ’’کیوں بھئی کچھ مال وال ہے؟‘‘

    ’’ہاں صاحب،ہمارے ساتھ آئیے۔‘‘

    ’’تمہارے پاس جوبہترین چیزہووہ دکھانا، مگرہم اس کواپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘

    دونوں کارسے اترکرآدمی کے ساتھ تنگ اورتاریک گلیوں میں چلنے لگے۔ ان کے پاؤں کی چاپ دیواروں سے ٹکراکرفضا میں گونج رہی تھی اورمارچ کی رات کا حسن ان گلیوں میں، جہاں نالیوں کی سڑانڈ سے دماغ پھٹاجاتا تھا،پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتاتھا۔ ان کے راز بھرے سیاہ پردوں میں تلخ رقابتیں اوراس سے زیادہ تلخ محبتیں چھپی ہوئی تھیں اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں جو کچھ ہوجائے تھوڑاہے۔ اگررات کوکسی کا قتل بھی ہوجائے تو پتہ نہ چلے مگردونوں اس آدمی کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اورسوچتے رہے کہ کسی جال میں تونہیں پھنس جائیں گے۔

    ایک گلی کے موڑ پروہ ایک دومنزلہ عمارت کے پاس رک گیا۔ ان لوگوں کے داہنے ہاتھ پرمکان کے سامنے ایک مسجدبنی ہوئی تھی جس کے اونچے سفید مینار فضا میں اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے وہ تازہ ہوا سے پاک غذا تلاش کررہے ہوں لیکن وہ بوسیدہ نظرآتے تھے اوریہ خیال ہوتا تھا کہ ان کوسانس لینے کوبھی صاف ہوا میسر نہ آتی تھی۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کا دم گھٹ رہا ہے اور وہ قدرت،انسان اور اپنے تقدس کی اصلیت کا مضحکہ اڑارہے ہیں۔

    دلال نے کسی کوآواز دی، مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھرپکارا، کئی بار پکارنے کے بعد کسی نے جواب دیا،’’کون ہے؟‘‘

    ’’دروازہ کھولو۔‘‘

    اس نیندبھری آواز نے کہا،’’سب سوگئی ہیں۔‘‘

    ’’کھولوتو۔ وہ اٹھ پڑیں گی۔‘‘

    ’’مگریہاں روشنی ہی نہیں ہے۔‘‘

    ’’تولالٹین جلالونا۔‘‘

    پھرایک گہراسناٹا چھاگیا۔ دلال نیند سے جھومتا ہوا دروازے کوتک رہاتھا۔ دونوں دوست بدصورت مسجد کو دیکھ رہے تھے جو اندھیری رات میں دھندلی سفید چادر اوڑھے کھڑی تھی۔ اتنے میں زمین پرکوئی چیزبھدسے گری۔ دونوں اچھل پڑے اور کود کر ایک طرف ہوگئے۔ پھرجگدیش نے کہا،’’ملا نے بھی فراغت کا کون سا وقت نکالا ہے۔‘‘ اس پردونوں ہنس پڑے لیکن ہنسی کے پیچھے ڈرکا احساس چھپا ہوا تھا۔ اگروہ اس وقت ہنستے نہیں توشاید خوف کے احساس کودورکرنے کے لیے کوئی اورحرکت کرتے۔

    ’’مگر اس نے رہنے کی اچھی جگہ نکالی ہے۔ اس کاوقت توخوب کٹتا ہوگا۔ دن بھر عبادت سے اپنے ضمیر کو سکون دیتا ہوگا اوررات کو رنڈیوں کا مزالوٹتا ہوگا۔‘‘ بصیربولا۔

    ’’میاں آہستہ آہستہ بولو۔ کہیں ملانہ سن لے۔ ایسا نہ ہوکہ ہندومسلم فسادہوجائے۔‘‘

    دروازہ ابھی تک نہ کھلا تھا۔ دلال پھرچلانے لگا۔ اندر سے جواب ملا،’’دیاسلائی نہیں مل رہی۔۔۔ ارے یہ رہی۔‘‘

    دونوں انتظار کرتے رہے کہ اب کوئی آدمی آکر دروازہ کھولے۔ اتنے میں مسجدکے نیچے سے پھرایک عجیب سی آواز آئی جیسے کوئی بھاری قدم زمین پرپٹک رہاہو۔ پھرہنہنانے کی آواز آئی،’’یہ ملانہیں ہے میاں۔ گدھا ہے۔‘‘ اور دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔

    دروازہ کھلا اوردونوں اندھیرے میں راستہ ٹٹولتے ہوئے زینہ پرچڑھنے لگے۔ برآمدے میں ایک پلنگ پر کوئی سکڑا ہوارضائی تانے پڑا تھا۔ برابر کے پلنگ سے کوئی ابھی ابھی اٹھ کر گیاتھااوروہ خالی تھا۔ اتنے میں ایک عورت نے ان کوسلام کیا۔ جوان تھی۔ خوبصور ت تو نہیں لیکن پاؤڈر اورسرخی سے رنگی ہوئی غنیمت معلوم ہوتی تھی۔ پھروہ ایک کوٹھری میں داخل ہوئے جس میں کوئی فرش نہ تھا۔ صرف ایک کونے میں پلنگ پڑا ہوا تھا اوردوکرسیاں رکھی ہوئی تھیں اورایک طاق میں دوجاپانی چائے کی پیالیاں اوردوایک ٹوٹی ہوئی بوتلیں اورڈبیاں رکھی تھیں۔ عورت مسکرائی۔ اس کے خوبصورت چمکداردانت نظرآئے۔ اس نے ادا سے ایک چکر لگایا اورپھر پلنگ پربصیر کے پاس آبیٹھی۔

    بصیر نے پوچھا، ’’آپ کا نام کیاہے؟‘‘

    ’’مجھے گوہرجان کہتے ہیں۔ اورآپ کا اسم شریف؟‘‘

    بصیر نے ذرا سوچا اور پھرکہا، ’’مجنوں۔‘‘

    ’’بتادیجئے۔ مذاق نہ کیجئے۔‘‘

    ’’واقعی۔ یہی میرا نام ہے۔‘‘

    ’’توپھر آپ کی لیلی کہاں ہیں؟‘‘

    ’’لیلی توآپ ہیں۔‘‘

    ’’آپ شاعر تونہیں ہیں۔‘‘

    ’’ہوں تو۔۔۔ اوریہی میرا تخلص ہے۔‘‘

    ’’اچھا تواپنی کوئی غزل سنائیے۔‘‘

    ’’میں اپنی غزلیں رنڈیوں کونہیں سناتا۔‘‘

    ’’کیوں؟ وہ تو انہیں خوب گاسکتی ہیں۔‘‘

    ’’لیکن میں انہیں رنڈیوں کے منہ سے سننانہیں چاہتا۔‘‘

    ’’آپ مذاق کررہے ہیں۔ سچ مچ بتادیجئے۔‘‘

    ’’نہیں مذاق نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ چلو۔ میں آج رات کو تمہیں ایک عملی غزل سناؤں گا۔‘‘

    بصیر نے اپنا ہاتھ اس کی بغل میں ڈال دیا اور اس کی سڈول چھاتی کوچھوا۔ عورت نے جواب میں اس کی طرف ترسی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ جگدیش جوایک اورعورت سے دام طے کررہاتھا،اندر آیا اور انگریزی میں بولا،’’کیسی ہے؟‘‘

    ’’بہت اچھی۔۔۔ چھاتیاں خوب ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چنچل ہے۔‘‘

    عورت ان کے منہ تک رہی تھی،کیوں کہ یہ دونوں انگریزی میں باتیں کررہے تھے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ پھراس نے سگریٹ مانگا۔ بصیر نے ایک سگریٹ نکال کردے دیا۔ اس نے ایک اوراپنی باجی کے لیے مانگا۔ بصیر نے ایک اوردے دیا۔ بصیر نے جگدیش سے پوچھا،’’وہ کیامانگتی ہیں؟‘‘

    ’’پندرہ۔‘‘

    ’’بہت ہیں۔ دس کہو، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

    معاملہ دس پر طے ہوگیااورجگدیش بھی کوٹھری میں بیٹھ گیا۔ عورت نے چپکے سے کہا،’’اس سے نہ بتانا۔ میں تم دونوں کے پاس رہ لوں گی۔‘‘

    جگدیش نے بصیر سے کہا،’’یہ توبڑی شوخ معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔ میں نے توپہلے ہی کہا تھا۔‘‘

    ’’لیکن ساتھ والی کوکہاں رکھیں گے جواس کو پتہ نہ چل سکے؟‘‘جگدیش نے کہا۔

    یہ بات اردومیں کہی گئی تھی۔ اس لیے عورت بھی اس قصہ میں شریک ہوگئی اوربولی،’’اسے دوسرے کمرے میں رکھنا،پھر تم دونوں میرے پاس آسکوگے۔‘‘

    اس نے ساتھ والی کے خلاف ایک سازش کردی جس کی سرغنہ وہ خود بن گئی اور ان دونوں کو رازدار بناکر آپس میں اس خوبی سے ملادیاکہ ایک دوسرے سے رقابت نہ کرسکیں اور ساتھ ساتھ مزے لوٹیں۔ اگر وہاں کوئی تیسرا بھی ہوتاتو وہ اسے بھی سازش میں شریک کرلیتی لیکن یہ دونوں اس کی عیاری کوذرا نہ سمجھے اورجوش سے ساتھ والی کوالگ کمرے میں رکھنے کی تجویزیں بنانے لگے۔

    ’’باجی چاہتی تھی کہ دلال بھی ساتھ چلے۔ اب دیربہت ہوچکی تھی۔ ڈھائی بج رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے جھگڑنامناسب نہ سمجھااورراضی ہوگئے۔ باجی نے چلنے سے پہلے رقم وصول کرلی۔ پھروہ انہیں دہشت ناک گلیوں میں ہوتے ہوئے کارتک پہنچے اور پھرویران سڑکوں کو طے کرتے ہوئے گھر۔

    دلال کوتوانہوں نے کارمیں سونے کے لیے چھوڑدیا اورباجی کوڈرائنگ روم میں رکھا۔ گوہر جان سنگارمیز کی چیزوں اورفرنیچر کاجائزہ لینے لگی۔ بصیر نے اس کی کمرمیں ہاتھ ڈال کر اسے بستر کی طرف گھسیٹا اور دونوں ایک دوسرے پرگرپڑے۔ عورت بصیر کی دونوں ٹانگوں میں دبی اس کے بالوں سے کھیلنے لگی۔ اتنے میں اس کی نگاہ بصیر کی انگوٹھی پرگئی اوراسے اتارنے کی کوشش کرنے لگی۔ بصیر نے پوچھا،’’کیاتم کوپسند ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’صرف رنڈیاں ہی نہیں بلکہ سب عورتیں انگوٹھیوں پرکیوں جان دیتی ہیں؟‘‘

    ’’اچھی لگتی ہیں۔‘‘

    اورعورتوں کی طرح اسے بھی خوبصورت چیزوں خاص کرزیوروں اورآرام اورراحت کی زندگی کی تمنا تھی۔ وہ بولی،’’یہ انگوٹھی ہم کودے دو۔‘‘یہ کہہ کروہ انگوٹھی اتارنے لگی۔ بصیر نے ٹالناچاہا مگر وہ نہ مانی اور جب تک کہ انگوٹھی اس کی انگلی میں نہ پہنچ گئی، اس کو چین نہ آیا۔ پھر ذرا اتراکرکہنے لگی،’’اچھا مجھے کچھ بخشش دو مگر باجی سے نہ کہنا۔‘‘

    ’’کیوں؟ کیا وہ تمہارے ساتھ برابرتاؤ کرتی ہے؟‘‘

    ایک عجیب سی کیفیت اس کے چہرہ پرآگئی اوروہ بہت تلخی سے بولی،’’وہ بڑی حرام زادی ہے۔‘‘

    جگدیش نے اتنی دیر میں برابروالے کمرے میں باجی کو اپنے ساتھ سونے کے لیے صرف ایک روپیہ پرراضی کرلیاتھا۔ گوہرجان یہ خبر سن کربہت خوش ہوئی اورکہنے لگی،’’ذرا مجھے جھانک لینے دینا۔۔۔ ایک دفعہ میں ایک رئیس کے ہاں پندرہ روپیہ پرگئی لیکن وہ صرف تین روپیہ میں اس کے نوکر کے ساتھ رہ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسی کے مارے لوٹنے لگی۔ پھر کھڑی ہونے لگی لیکن بصیر نے اسے گھسیٹ لیا۔ وہ قلابازی کھاکرپلنگ پرگرپڑی۔ بصیر کودکرلیٹ گیا اورمضبوطی سے اس کوپکڑلیا اور جگدیش سے کہا کہ باہرچلے جاؤ۔

    جب وہ کپڑے اتار رہے تھے تو وہ بولی،’’تم بڑے عیاش ہو۔‘‘

    ’’یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘

    ’’میں جانتی ہوں۔‘‘

    ’’بتاؤ کیسے؟‘‘

    ’’بس یونہی، میں جانتی ہوں۔‘‘

    دونوں بسترمیں گھس گئے اورکمبل اوڑھ لیا۔ بصیر نے پوچھا،’’تم نے یہ پیشہ کیسے اختیارکیا؟‘‘ وہ تھوڑی دیرچپ رہی، پھربولی،’’میری ساس بڑی ظالم تھی۔ بھوکامارتی تھی اورپیٹتی تھی۔ مجھ سے کھیتی باڑی کا کام لیتی۔ میرا شوہر اپنی جوانی گنواتا پھرتا تھااوروہ مجھے کام میں الجھائے رکھتی۔ آخر کو میں بھاگ گئی اور ایک تانگہ والا یہاں لے آیا۔۔۔‘‘

    وہی مقررسی کہانی۔ ممکن ہے سچ کہہ رہی،ممکن ہے جھوٹ۔ ایسی عورتیں شادہی سچ بولتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ پیشہ کرتے ہوئے مجھے صرف تین مہینہ ہوئے ہیں۔ یہ تو بالکل جھوٹ تھا۔ کیوں کہ وہ نہ صرف منجھی ہوئی تھی بلکہ اپنے پیشہ کے گراس کی رگ رگ میں بسے ہوئے تھے لیکن اس کی داستان کی بنیاد سچ ہی ہوگی۔ سب رنڈیاں بھوک یا مصیبت کی کوئی نہ کوئی داستان سناتی ہیں۔

    بصیرگذری ہوئی راتوں اور بچھڑی ہوئی معشوقاؤں کویادکرنے لگا۔ بھولی ہوئی معشوقائیں اوررنڈیاں، اس زمانہ کا دکھ سکھ،محبت کرنا اور اکتاجانا، رقابت اور معشوقاؤں کے ابھارے ہوئے پاک وصاف جذبات، ان کی سوزش اورغم اورالم،راحت ومسرت یہ سب اس کویاد آنے لگے اوروہ ان جذبات اوراس خوشی اورپیار کا،جورنڈیاں ظاہرکرتی ہیں مگر جس کے پیچھے بے رخی اورلاپروائی چھپی ہوتی ہے، وہ پیارجوتھوڑی دیر کے لیے دل کوبے فکری اورمسرت بخش دیتاہے، مقابلہ کرنے لگا۔ مگر عورت نے اس کواپنے خیالات سے چونکادیا،’’ذرانکلو، دیکھیں تو باجی کیاکررہی ہے۔‘‘

    برابر کے کمرے سے ایک عورت کی بھرائی ہوئی آواز آرہی تھی،’’ہٹوپرے،نہیں توپچھتاؤگے۔‘‘ پھرمرد کے بولنے کی آوازآئی،’’نہیں، میں تونہیں ہٹتا۔‘‘

    ’’توتم جانو۔ لیکن جب تمہاری اماں روئیں کہ ہئے ہئے کہ میرے لال کو کن نے مارا توپھر شکایت نہ کرنا۔۔۔‘‘

    بصیرکمرے سے باہرچلاگیا۔ ہوامیں خنکی تھی اوردلال کارمیں پڑاسورہاتھا۔ سامنے سڑک پرایک آدمی نیند میں جھومتا،کان میں جنیولپیٹے، ہاتھ میں لٹیالیے، رفع حاجت کرنے جارہا تھا۔ بصیر نے اس غرض مندانسان اورسوئی ہوئی زمین سے نگاہ

    اٹھالی اور آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کانیلاپن کچھ کچھ پھیکاپڑچلاتھا۔ لیکن رات ابھی تک صبح کواپنی تاریک گودمیں چھپائے دنیا پرراج کررہی تھی اور دن کی روشنی کا نام ونشان بھی نہ تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے