aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایں دفتر بے معنی۔۔۔

قرۃالعین حیدر

ایں دفتر بے معنی۔۔۔

قرۃالعین حیدر

MORE BYقرۃالعین حیدر

    نہ جانے کیسا پاگل پن تھا۔ انوکھا اور دل چسپ۔ پر اب تو کہکشاں کا یہ نقرئی راستہ پریوں کی سرزمین تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ کیسی تھکن، کیسی اکتاہٹ، کیسی بے کیفی۔ آدھے جلے ہوئے سگرٹوں کا بجھا بجھا دھواں فرن کے خشک پتّوں کے اوپر سے گزرتا ہوا اندھیرے میں پھیلتا جارہا ہے۔

    فریدہ بالکونی میں کھڑی شاید چاند کا انتظار کر رہی ہے۔ فریدہ بانو اندر آجاؤ۔ ہوائیں خنک ہوتی جارہی ہیں۔ میں بہت زیادہ عقل مند ہوں فریدہ۔ فریدہ پیاری تم نے رات کو سوائے کے ڈنر کے لیے ساری کا انتخاب کر لیا؟ میرا وہ روپہلی بروکیڈ کا غرارہ نکال دینا اور اس کے ساتھ کی فرنچ ہیل والی جوتی۔ شاید کوئی بزرگ دار رقص کے لیے اصرار فرمائیں۔۔۔ اور۔۔۔ فریدہ تم نے اس سیاہ دوپٹے پر آئرن کر لیا، استری کا پلگ اور تار خراب ہوگیےہیں۔ کام نہیں دے رہی ہے آج کل۔۔۔ اور فریدہ بانو۔۔۔ Dash it all کہاں تک خود کو فریب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ فریدہ ! ایک کشن میری طرف پھینک دو تاکہ میں اس میں بادام جیسی آنکھیں چھپا کر خوب روؤں۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔ ! Hang it you blessed goose لیکن نہیں فریدہ ڈیر۔ ہم سب کی اسپورٹنگ اسپرٹ ہونی چاہئے۔۔۔ فِش۔۔۔ آؤ خوب زور زور سے گائیں؛

    It was in the isle of capri that I found her !

    Beneath the shades of an old walnut tree !

    اووف! اتنا مت چیخو۔ کھڑکیوں کے پٹ بند کردو۔ اب تمہاری بالکونی کے نیچے کوئی سیرینیڈ کرنے کو نہیں آئے گا۔ الو کی دم۔ ہم چلتے چلتے تھک گئے اور اب آرام چاہتے ہیں۔ سکون اور خاموشی۔ ہم کوہسار کی جگمگاتی چوٹیوں تک پہنچ کر ارغوانی اور قرمزی بادلوں میں رہنا چاہتے تھے۔ بلند اور علیحدہ۔ لیکن مذاق تو دیکھو! Bang ایک سخت جھٹکے کے ساتھ سب کے سب نیچے آرہے۔ کھردری اور بے حس زمین کی پستیوں میں۔ یہ سب ایک بہت بڑا عظیم الشان مذاق تھا، ایک بے حد خوف ناک لطیفہ۔ کبھی تم نے یہ بھی غور کیا کہ تم ہمیشہ ایک ہی سی باتیں کرتی ہو؟ یعنی بس، مایوسیاں! بھائی یہی تو ساری ٹریجڈی ہے، پاگل پن بڑا عجیب سا، جیسے سچ مچ بڑا آرٹسٹ اور انٹلکچوئیل پن سوار ہوگیا ہو۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچ کر ہم سب بہت زیادہ قابل بن گیے تھے:

    مہم، رومان، خطرے، تیز سرخ شعلوں کی گرمی، برف کے نرم اور سفید گالے، جاڑے کی راتوں میں آتش دان کے قریب بیٹھ کر جانے کیسی کیسی باتیں کیا کرتے تھے! cow boy قسم کے فلم دیکھنے کے بعد عجیب عجیب تصوّرات دماغ میں آیا کرتے تھے: چاندنی راتوں میں خطرناک پہاڑوں میں چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش میں سرپٹ گھوڑا دوڑاتے بھاگے چلے جارہے ہیں۔ ٹائرن پاور اور رابرٹ ٹیلر جیسے خوب صورت اور بہادر ہیرو چٹانوں پر چڑھتے ہوئے سرخ رومال ہلا رہے ہیں۔ دور۔۔۔ ہسپانوی خانہ بدوشوں کے کاروانوں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ آؤ طوفانوں سے لڑیں، شعلوں سے آنکھ مچولی کھیلیں، جنوب کے نیلے آسمانوں اور ستاروں کے گیت گائیں اور اسی طرح شور مچاتے، چیختے اور ناچتے ہوئے طوفانی لہروں کے ریلوں کے ساتھ کہیں دور نکل جائیں۔۔۔ بہت دور۔۔۔ جانے کتنی دور۔۔۔

    پھر ہمارا ایک بڑا سا کمرہ تھا جس کی کھڑکیاں پہلو کے باغ میں کھلتی تھیں اور جس کے دروازوں پر بھاری بھاری گہرے سبز پردے پڑے رہتے تھے۔ اس میں ایک آرٹسٹک بے ترتیبی سے ہمارا مصوری کا سامان، کتابیں اور ٹوٹے ہوئے مجسمے دیوان اور قالینوں پر بکھرے رہا کرتے تھے۔ ایک کونے میں وہ پرانا پیانو رکھا تھا جو ابّی اپنی شادی سے بھی پہلے قاہرہ سے ساتھ لائے تھے۔ دوسرے کونے میں ایک بڑا سا تانبے کا پردار گھوڑا سجا ہوا تھا جس پر اپالو بڑی شان سے چڑھا بیٹھا تھا۔ الماریوں میں رنگوں کے خالی ٹیوب اور ڈبّے، ٹوٹے پھوٹے برش، کینوس کے ٹکڑے، نامکمل تصویریں، کتابیں اور جانے کیا کیا بھرا ہوا تھا۔ سبز دیواروں پر ہمارے ’’شاہکار‘‘ اور دوسری تصویریں تھیں۔ اٹھارہویں صدی کی روسی اور ہسپانوی شہزادیاں، کنار رائن کے جنگل، میڈونا، آخری ضیافت، از ابلا اور کیتھرائن، روزیٹی کے پروفائل۔

    اس کمرے کو اسٹوڈیو اور لیٹن کو ارٹر کہہ کر کتنی مسرت ہوتی تھی۔ ابی خوش ہوتے تھے اور ممّی پریشان۔ اللہ یہ لڑکیاں کس کے گھر میں پچ سکیں گی! اور ہمارا چھوٹا بھائی اسلم کہتا، ’’میں ایسے ایسے خوف ناک بم (البم؟) بنایا کروں گا کہ بھئی تمہاری روح خوش ہوجائے گی۔ اے فرانسیسی صوفوں اور ایرانی قالینوں پر عمر بتانے والی بورژوا گلہریو جب عالی جناب! صاحب دون اسکول میں تقسیمِ انعامات کے لیے تشریف لائیں گے اور تم اپنے کانونٹ choir کے ساتھ بڑی مستعدی سے آنکھیں بند کر کے خوش آمدید کے نغمے الاپ رہی ہوگی اور دولہا بھائی خوش خوش سرگرمی سے اے۔ ڈی۔ سی۔ بنے پھر رہے ہوں گے۔ اس وقت یہ خاکسار چپکے سے ایک نہایت نفیس سا۔۔۔‘‘

    ’’چپ رہو بچّو! کیا پاگل پن ہے؟‘‘ ہم ریڈکراس پارٹی کے ساتھ بل کھاتی ہوئی سڑک پر تیزی سے کیمپ کی طرف جارہے تھے۔ فوجی زخمیوں اور اطالوی قیدیوں کے لیے تحفوں کی پارسلیں اور ٹوکریاں لیے۔ وکٹر آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا اور بڑے زور سے جھکّڑ چلنا شروع ہوگیا اور پھر بادل چیخنے لگے۔ فضاؤں پر زرد زرد پتّے چھاگیے۔ گونجتی ہوا میں چکّر کاٹنے والے خشک پتّے۔ ’’ وکٹر! دیکھو میرا اسکارف اڑا جارہا ہے۔ اور تیز کرو رفتار۔ جی چاہتا ہے سامنے اس نقرئی ربن کی طرح پھیلی ہوئی سڑک کو انجن میں سمیٹتے ہوئے سرخ افق میں جا گھسیں۔‘‘ فریدا اتنا کیوں اترا رہی ہو۔ ایک چٹان اور ٹوٹ کر کھڈ میں جا گری۔

    ’’اور تیز کرو رفتار۔ یہاں تک کہ۔۔۔ یہاں تک کہ جاکر آسمان کے کنارے ٹکرا جائیں۔ ان سیاہ بادلوں کے پرخچے اڑا ڈالیں چاہے سارا پٹرول ختم ہوجائے۔ اور ہم کیمپ کی طرف قیامت تک یوں ہی لڑھکتے چلے جائیں۔ یہ تیز رفتاری ہی تو زندگی ہے۔ وکٹر، ذرا سوچو تو، کتنا مزا ہوگا اگر ہم اسی زنّاٹے سے چلتے رہیں۔ اور کار کے سارے بیڑنگ جل جائیں۔ ٹائر برسٹ ہوجائیں۔ ساری کائنات میں آگ لگ جائے۔ سچ مچ کی آگ۔ اوفوہ۔ میں تو خوشی کے مارے مرجاؤں بالکل۔ پھر جب یہ نظامِ عالم جل بھُن کر راکھ کا اونچا ساڈھیر اور کھنڈر بن جائے تو پھر اس دھواں دھار اندھیرے میں ہم ایک دوسرے کو پکارتے پھریں۔۔۔

    کہاں ہوا اسما اور فریدہ اور امبریش اور وکٹر۔ آؤ ہم سب مل کر رقص کریں۔۔۔ موت اور تباہی کا رقص۔ بھرت ناٹیم اسٹائل میں۔۔۔ اوہو، واقعی دیکھو انجن میں آگ لگ گئی۔ انجن میں دھواں اٹھ رہا ہے۔ اچھا آپ پائپ فرما رہے ہیں۔ سلمان صاحب! دیکھیے آپ نے لیڈیز سے پوچھ لیا ہوتا کہ آپ کی موجودگی میں اس خاکسار کو دھواں اڑانے کی اجازت ہے؟ کاش ایک ایسا سیلاب آئے کہ آپ مع اپنے پائپ کے ساری دنیا سمیت اس میں غرق ہوجائیں۔ ایک اُلّو کی دم کا پر بھی باقی نہ رہے۔ علامہ مرحوم کا شعر کچھ ایسا سا ہے؛

    پھونک ڈالے یہ زمیں و آسمانِ مُستعار

    اور خاکستر سے اپنی اک جہاں پیدا کرے

    تو سلمان بھائی تخریب کے بعد تعمیر۔ یہی ہمارا پروگرام ہے۔ ہم ادب اور موسیقی اور چھایا چترا کے ذریعہ جنتا کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمارے اوپن ایئر اور پیپلز تھیٹرز نہیں دیکھے۔ ہمارے افسانے اور نظمیں ملاحظہ نہیں فرمائیں۔آپ کیا جانیں ہم لوگ کس قدر صاحبِ نظر۔۔۔ اور۔۔۔ بات یہ ہے بھئی کہ میری اردو کافی سے زیادہ کمزور ہے۔ بچپن سے کانونٹ میں پڑھا ہے اس لیے۔۔۔ اور اگر ایسے ہی دو چار بے تکے مضمون یا افسانے لکھ لیے تو کیا ہوا۔ بات بات میں انگریزی کی مدد لینی پڑتی ہے۔ یعنی جملے کے جملے انگریزی کے ٹھونسے جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اوہ مس حیدر! آپ تو انکسار کی حد کرتی ہیں۔ اجازت ہے کہ پائپ سلگا لوں؟‘‘

    ’’ضرور۔ آپ کیا کرتے ہیں سلمان بھائی!‘‘

    ’’جی میں موجودہ حالت میں آنے سے پہلے ایم۔ اے۔ کا امتحان دیا کرتا تھا، اور آپ؟‘‘

    ’’اور میں ریڈکراس میں کام کر کے چاکلیٹ کھانے کے علاوہ تصویریں بنا کر اور افسانے لکھ کر ملک و قوم کی خدمت میں دن راتمصروف رہتی ہوں۔‘‘

    ’’اوہ اپنی خدا کے لیے اتنی باتونی کیوں بن گئی ہو ۔اور ان صاحب سےکہو کہ اتنی بدتمیزی سے اپنی ٹانگیں نہ ہلائیں۔‘‘

    ’’چپّو تو فریدہ۔ میں ان سے نہایت اہم مسائل پر تبادلۂ خیالات کر رہی ہوں۔ جی تو سلمان صاحب وکٹر سے کہیے کہ رفتار اور تیز کرے۔ کیمپ میں ہمارا سخت انتظار کیا جارہا ہوگا۔ ہم بے چارے زخمیوں کے لیے خوب صورت تحفے لیے جارہے ہیں۔ بھلا ہم سے زیادہ ملک و قوم کا ہمدرد کون ہوگا۔ خدا سرکار کو ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ رات دن برطانیہ کی فتح کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ہماری ایک کوٹھی میں اطالوی قیدیوں کو مہمان رکھا گیا ہے۔ ہم ہندوستانی بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اور کسی بدتمیز نے یہ خبر اڑادی کہ خدا نہ کرے فریدا اس نارنجی بالوں والے اطالوی کو، جو لیچی کے سائے میں، سبز بید کی کرسی پر بیٹھا، گتا ربجایا کرتا ہے، چیری کے مربے اور مار ملیڈ بھیجا کرتی ہے۔ جنابِ عالی! یہ تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ان بے چاروں کی میزبانی کریں۔فش۔

    لیکن فریدہ تمہیں وہ اطالوی قیدی یاد ہے جو ایک دفعہ کیاریوں میں کام کرتے کرتے کدال پر ہاتھ ٹیک کر تم سے نقرئی آواز میں بولا تھا، ’’سینو ریتا! اجازت دو کہ میں یہ زرد کلیاں تمہیں پیش کر کے اپنے گھر کے تاکستانوں اور سیاہ آنکھوں والی کنواریوں کی یاد میں ایک چھوٹا سا گیت گا سکوں۔‘‘

    ’’خدا غارت کرے ان سب کو۔ مگر کیسے خوب صورت ہوتے ہیں یہ۔ اور پھر سوچو کہ ایسے خوب صورت، سینوریتاؤں کو جنوبی تاکستانوں کے نغمے سنانے والے ، روزانہ سیکڑوں ہزاروں مارے جارہے ہیں۔ ‘‘

    ’’ڈیش اِٹ۔ ابھی کل ہی تو۔۔۔ پر اُڑان کرتے ہوئے پولو کے طیارے میں آگ لگ گئی اور وہ جل کر مر گیا۔ تو کسی نے کیا کر لیا۔ وہ بھی تو صرف اٹھارہ سال کا تھا۔ اور وائلن پر بلوڈینیوب بجایا کرتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن مس حیدر آپ کو زرد چاند اور نیلا سمندر اور پام کے درخت اور قہوے کی بھاپ،یہ سب چیزیں بہت دل چسپ معلوم ہوتی ہیں۔ رومان۔۔۔ رومان۔۔۔ کیا مصیبت ہے۔۔۔ جی ہاں قطعی۔ تو آئیے آج سے زندگی کی کھردری حقیقتوں کا مطالعہ شروع کردیں۔ آہ وہ دیکھیے، سڑک کے کنارے پہاڑی مزدور پتھر کوٹ رہے ہیں تاکہ سامراجی مشینیں اور موٹریں ان کو روندتی ہوئی گزریں۔ لیکن۔۔۔‘‘ Bang! سوائے میں آرکسٹرا بجنے لگا۔ کیبرے شروع ہونے والا تھا۔ شام کی نیلگوں خاموشی میں کواٹر لینن کے ایک دریچے میں سے مدھم سی سبز اور نیلی روشنی اندھیرے کو کاٹتی ہوئی دور تک جارہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ افوہ! اسما پیاری پردہ گرادو۔ کیتھیڈرل کے میناروں کے پیچھے سے اٹھتا ہوا چاند کا گیت جھیل کی لہروں پر بکھرتا جارہا ہے۔ کاش کوئی اس وقت اس دریچے کے نیچے اس کہکشاں جیسے نقرئی راستے کے کنارے کھڑے ہو کر سیرینیڈ کرتا ۔ لیڈی آف اسپین! میرا نغمہ سنو!

    Lady of Spain! I'm hearing of you Lady of Spain! I'm yearning for you Lady of Spain! I love you

    لیڈی آف اسپین اپنے بالوں میں سجے ہوئے چیری کے شگوفے نیچے پھینک دو۔ میں وائلن بجا رہا ہوں۔ چاند سیاہ آنکھوں والے پری زادوں کے نغموں میں تیر رہا ہے۔ تمہارے دریچوں میں سبز روشنی کی موجیں خوابوں کی بستی کی طرف بہتی جارہی ہیں۔ کرنوں کی سیڑھیاں بنا کر پھولوں کی اس وادی میں اتر آؤ جہاں میں سیرینیڈ کر رہا ہوں۔۔۔ لیڈی آف اسپین!

    اوفوہ اسماء یہ وائلن یوں ہی بجتا رہے گا۔ پردے ایک طرف کو سمیٹ دو چاند نگار خانے میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے کہہ دو ابھی انتظار کرے۔ سنہری بانسریاں بجانے والے پری زاد شاہِ بلوط کے جنگلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔۔۔ آدھی رات کو جب کیتھڈرل کے گھنٹے کی گونج لرزتی ہوئی خاموشی میں ڈوبنے لگے اس وقت ہم، نیلو فر اور یاسمین کے پودوں کے پیچھے، پرستان کا رستہ ڈھونڈنے اس وادی میں آئیں گے۔ روشنی بجھادو۔ چاندنی میں شبنم برس رہی ہے۔۔۔ہمیں سونے دو!

    اس کی آنکھیں بھی کہہ رہی تھیں: ہمیں ان سبز پردوں اور چیری کے شگوفوں کا خواب دیکھتے ہوئے سوجانے دو۔ فریدا اور اسما سن سن دھارا کی جانب چڑھتے چڑھتے تھک کر پگڈنڈی کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گئی تھیں اور ساتھی آگے جاچکے تھے۔ وہ ان دونوں کا ساتھ دینے کے لیے قریب آگیا، ’’ماوموزیل شاید آپ مجھے نہیں پہچانتیں لیکن میں آپ کے ساتھ رقص کرچکا ہوں۔ میں سگریٹ پی سکتا ہوں۔۔۔؟‘‘

    ’’اوہ، یقینا !‘‘

    ’’شکریہ! آپ؟ نہیں ؟ غالباً آپ کو یاد ہوگا فینسی ڈریس بال میں پرنس یوجین تھا۔۔۔‘‘

    ’’اوہو۔ جی ہاں، بالکل۔ مجھے ماسک میں سے صرف آپ کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اچھا تو آپ ہی طہران سے تشریف لائے ہیں۔ آپ خاصے دل چسپ آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تشریف لائیے۔ میری چھوٹی بہن کو جب معلوم ہوگا کہ آپ لیٹن کواٹر میں اتنے دنوں رہ چکے ہیں تو اس کا تو انتقال ہوجائے گا۔‘‘

    اور وہ دیوان کے ایک کونے پر آکر اس طرح بیٹھ گیا جیسے کسی نے اسے نیند سے جگانے کے بعد زبردستی کمرے میں دھکیل کر پیچھے سے دروازہ بند کردیا ہو۔ فریدہ کا جی چاہا کہ چپکے سے اسی وقت اپنی اسکیچ بک پر اس کا پروفائیل کھینچ لے اور پھر بعد میں عمر بھر اس میں رنگ بھرتی رہے۔ پھر میسوری میں ایک سب سے بڑی نمائش کرے جس میں صرف اس کی تصویریں ہوں۔۔۔ مختلف انداز کی۔۔۔طیارے سے اترتے ہوئے پرنس یوجین کے بھیس میں رقصاں، جھک کر سگریٹ جلاتے ہوئے، دھوپ کا چشمہ لگاکر دورپہاڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔ اس طرح۔۔۔ اس طرح۔۔۔ توبہ اللہ۔۔۔!

    اور فریدہ کشن پر کہنیاں ٹیک کو بری معصومیت سے اس سے پوچھتی، ’’آپ کا کام سچ مچ کتنا خطرناک ہوتا ہوگا۔ اڑتے ہوئے طیاروں اور ڈوبتے ہوئے جہازوں پر سے وہاں کے مناظر کی فلم لینا اور وہاں کی خبریں بھیجنا (بالکل ٹاؤن پاور کی طرح) کیسی Adventurousزندگی ہے آپ کی اور آپ آکسفرڈ میں کواکاکے ہم جماعت رہ چکے ہیں۔ اوفوہ!ایسا محسوس ہوا جیسے وہ نگار خانہ کے کونے میں رکھے ہوئے اپالو کو نیچے گراکر اس کے آسمانی رتھ پر چڑھ گیا اور ساری کائنات اس کے سوئیڈ کے بوٹوں پر جھک کر اس کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔

    ’’کتنی Rashہوجاتی ہو تم لوگ۔یعنی یہ انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ صاحبزادی ایک رات سوائے کے فینسی ڈریس بال میں ان بزرگوار سے ملیں اور اگلے ہفتے منگنی کی خبر سوسائٹی میں اناؤنس کر دی گئی۔ کچھ پتا نہیں چھوکرا کون ہے، کہاں سے آیا ہے، کہاں کو جائے گا؟ لیکن یہ عجب لڑکیاں ہیں۔ مغرور، ضدی، خود سر، خود پسند، کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتیں۔ اپنی کوٹھی کا نام آشیانہ رکھ چھوڑا ہے حالاں کہ اسے زو کہنا چاہئے۔ دنیا جہان کے خرگوش، پہاڑی طوطے، لنگور اور جانے کیا کیا بلائیں پالی ہوئی ہیں۔ بنتی اس قدر ہیں جیسے ابھی پیرس سے چلی آرہی ہیں۔ ابھی پرسوں دوپہر، باہر بوندیں پڑ رہی تھیں۔فریدہ بانو نے ریڈیو گرام پر کوئی چیخنے چلانے والاانگریزی ریکارڈ لگاکر مجھ سے ارشاد فرمایا۔ آئیے شوکت بھائی Lambeth Walk کریں۔ میں غریب کیسے پوچھتا کہ یہ کس مصیبت کا نام ہے اور پھر وہ اسی نیلی آنکھوں والے لونڈے کے ساتھ جو طہران سے آیا ہوا ہے، برآمدے کے فرش پر اچھلنے کودنے لگیں۔ لڑکیوں کو اتنی آزادی دینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

    مگر اس وقت ان خود سر اور ضدی لڑکیوں کے پاس شوکت بھائی کی ان جلی بھنی باتوں پر ناک بھوں چڑھانے کی فرصت بھی کہاں تھی۔ اسماء بڑی فکر مندی کے انداز میں میز کے کونے پر بیٹھی دانتوں سے ناخون کتر رہی تھی، ’’سنجیدگی سے مسئلے پر غور کرو جی۔ ممی کو کیسے bluffکریں اور اگر شوکت بھائی نازل ہوگیے۔۔۔اور ابی کو کس طرح بتائیں کہ وہاں وکٹر اور مکی ہاؤس کے علاوہ امبر بھی ہوگا۔

    ’’امبر سے ابیّ کو خصوصیت کے ساتھ چڑہے۔ وہ اس وسیع دنیا میں یکہ و تنہا بے چارہ انسان۔ امبر بتاؤ میں کیا کروں۔ ابیّ اجازت نہیں دیتے کہ میں تمہاری میٹنگ میں شرکت کروں۔ ممی کس وقت سونے جاتی ہیں۔‘‘ کاش کوئی دیکھتا کہ پرانی دنیا کے خلاف کس طرح اسکیمیں بنائی جارہی ہیں۔ بہت معصومیت سے۔ چائے کی میز پر ابیّ نے عینک اتار کر اخبار پر رکھ دی: ’’آپ کو یہ یقین کیسے ہوگیا کہ آپ ممّی کے بغیر وہاں تشریف لے جاسکتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آج کی شام آپ خرگوشوں اور پو لیؔ کے ساتھ گزاریں۔‘‘ اور وہ اخبار اٹھاکر اپنے دار المطالعہ کی طرف چلے گئے۔۔۔ امبریش ۔۔۔ امبریش۔ پر امبریش کم از کم تم پارٹی میں تو آجانا جو ہم فریدا کی منگنی کی خوشی میں راج پور میں مسز چیپ مَین کے ہوٹل میں دے رہے ہیں۔ تم نے شاید اب تک فریدا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ اور نہ مجھے۔۔۔

    ان دنوں رام گوپال اپنے ٹروپ کی دو لڑکیوں کے ہمراہ ہمارے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ دنیا جیسے گیتوں اور قہقہوں کے جھولے میں جھول رہی تھی۔ ہوٹل کے لان پر اسلم خوش خوش مہمانوں کا ایک دوسرے سے تعارف کراتا پھر رہا تھا۔ خالد صاحب آئیے، آپ کو اپنے مہمانوں سے ملائیں: آپ انڈین آرمی آبزرور ہیں۔ ابھی ایران اور اٹلی سے آرہے ہیں۔۔۔ اور یہ ہیں مسٹر رام گوپال۔۔۔ India's dancing son اور آپ مس جانکی ہیں بھرتؔ نا ٹیم سٹائل میں ہندوستان کی نمبر وَن۔۔۔ پریذیڈنسی کالج مدراس میں جونیر بی ایس سی میں پڑھ رہی ہیں۔۔۔ اور یہ بیگم شاہد اور نینا دیوی۔۔۔ ڈیش اِٹ مسعود۔ تکلف برطرف۔ ہم یو ۔ پی۔ والے ہیں۔ پر آپ ہنستے کھیلتے پنجاب کے باسیوں کے ساتھ تکلف کیسا۔ کرسیاں ایک طرف کو رکھ دی گئیں اور سب گھاس پر بچھے ہوئے قالینوں پر بیٹھ گیے۔

    سرخ مونچھوں والے انگریز اور فرانسیسی، سیاہ چشم اطالوی یہ مشرق و مغرب کا ثقافتی اتحاد تھا۔ اسلم گرامو فون پر بیٹھ کر چلّایا: ہئی ، India's dancing son شروع کرو اپنا رقص ۔ دھیم تانا دھی ری نا تانا دھی ری نا۔ جانکی بھی اٹھ کر رقص میں شامل ہوگئی۔ آؤ فریدا، آمنہ، اسما، اوم ہمارے ساتھ فوک ڈانس میں شریک ہوجاؤ۔ رقص ہوتا رہا۔ لیکن نینا ایشیائی شہزادیوں کے سے وقار کے ساتھ قالین کے سرے پر بیٹھی سگریٹ کے دھویں کے حلقے بناتی رہی۔ شاید وہ نغمہ و نکہت کے اس طوفان سے دور اپنے مرہٹہ شوہر کا انتظار کر رہی تھی جو دور فلپائن کے جنگلوںمیں موت سے لڑ رہا تھا۔

    ممّی، خالہ، امّی اور ابیّ مسز چیپ مین کے ساتھ برآمدے کی سیڑھیوں پر آکر کھڑے ہوئے۔ ان کے سامنے لان پر ان کے بچے خوش خوش زندگی کی مسرتوں سے کھیل رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے خوب صورت اور شریر بچّے۔ پھر سب نیچے وادی میں آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے اتر گیے۔ رام ادھر سے کود جاؤ۔ فریدا تم چٹان پر سے فوراً گر جاؤ گی۔ امبولینس منگواکر ہسپتال پہنچادیا جائے گا، اطمینان سے۔ نینا ڈارلنگ سگریٹ کا ڈبّہ پھینک دینا ادھر۔

    وادی میں اندھیرا چھاتا جارہا تھا۔ مسز چیپ مین نے آخری بار کھڑکی میں سے جھانک کر نیچے دیکھا اور پھر دروازے بند کر کے کونے میں اپنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وادی میں سے ان شریر بچوں کے قہقہوں کی اور سیٹیوں کی مدھم آوازیں اب بھی آرہی تھیں۔ انہوں نے آتش دان کے اوپر لگی ہوئی میڈونا کی تصویر کی طرف بھیگی ہوئی بوڑھی آنکھیں اٹھائیں اور آہستہ سے کہا : God bless them مسوری کی اونچی چوٹیوں پر سے سرو اور چیڑکے درختوں کی خوشبو میں بھیگا ہوا ہوا کا ایک جھونکا مسز چیپ مین کے چاندی کے تار جیسے بالوں کی لٹوں کو ہلاتا ہوا دوسرے دریچے سے باہر وادی میں نکل گیا جہاں آمنہ، اسماء اور اوم کے گیتوں کی صدائے بازگشت اب تک گونج رہی تھی۔

    Under the greenwood tree Who loves to lie with me Come hither, Come hither, come hither, There is no enemy But winter and rough weather.

    امبر تم کہاں کھوگیے اور خالد اور فریدہ۔۔۔ رام، نینا اور جانکی اسٹیشن ویگن پر سوار ہو کر روز ماؤنٹ واپس جاچکے تھے کیوں کہ ایسی رات کو انہیںForces کوEntertain کرنے کے لیے رقص کی تیاری کرنی تھی۔

    امبر تم ہمیپرز کو پیک کرنے میں میری مدد کرو۔ پارٹی کے بعد کی تھکن،بھاری بھاری آنکھیں، تھکے تھکے قدم۔ امبریش کیا واقعی تمہیں رنج ہے۔ لو ان پیالیوں کو اس ٹوکری میں ٹھونس دو۔ فریدا۔۔۔ہاں وہ وہیں ہے۔ آب شار کے کنارے اب تک ؟ اندھیرا ہوگیا ہے اور وہ بہت خطرناک جگہ ہے۔۔۔ نہیں اس کا منگیتر بھی تو اس کے ساتھ ہے ۔ ہاں ٹھیک ہے ۔ اس کا منگیتر۔۔۔ لو یہ چمچے گنتے جاؤ۔۔۔ زندگی کا راستہ بہت پتھریلا اورکٹھن ہے۔ اسماء رانی۔۔۔ افوہ حماقت کی انتہا۔۔۔

    حماقت کی انتہا۔۔۔ تعجب کی بات ہے نا کہ میں تمہارا پورا نام نہیں جانتی میرا خیال ہے کہ میں خاصا Matter of fact قسم کا انسان ہوں۔ شاید تمہیں اس بات سے تکلیف ہو۔۔۔ اوہ گوش! تم نے غالباً اب تک یہ نہیں سوچا کہ ہماری عمروں میں کتنا فرق ہے۔ میں تمہارے سب سے بڑے بھائی سے بھی چار سال بڑا ہوں۔ میری بیوی اور بچّے ایران میں موجود ہیں۔۔۔ لیکن تم تو اپنی بیوی کو طلاق دے چکے ہو۔۔۔ او ہو تمہاری بہن اور وہ کمیونسٹ دوست مسز چیپ مَین کے وہاں سے تمہیں آوازیں دے رہے ہیں۔ وہ فریدا کا بازو تھام کر ہوٹل کی پہاڑی پر چڑھنے لگا اور فریدا کو ایسا لگا جیسے وہ آبشار کی گہرائیوں میں گری جارہی ہے۔

    رات کافی آگئی تھی۔ نینا نے ڈریسنگ روم کی کھڑکی کھولی۔ ہو فریدا ۔ ہاں ہاں آجاؤ۔ فریدا اندر آکر سنگھار میز کے کونے پر بیٹھ گئی۔ نینا نے بھویں پلک کرنے کی چمٹی میز پر رکھ دی اور سگریٹ جلا لیا، ’’رام کب جارہا ہے؟ ‘‘ فریدا نے پوچھا۔

    ’’پتا نہیں ۔‘‘

    ’’صبح تو وہ فون پر تامس کُک والوں سے امریکہ کے passage کے متعلق طے کر رہا تھا۔‘‘

    ’’ہاں لیکن میرا خیال ہے کہ میں جلدی بنگلور واپس چلی جاؤں گی۔‘‘اس نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور بھویں اٹھا کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی،’’آج شام میں خاصی فکر مند سی ہورہی ہوں۔ میرے شوہر کا خط آئے مدتیں گزر گئیں۔ اوہ فریدا تم نہیں جانتیں یہ لوگ کیا ہیں۔ سب ایک سے ۔ بہت پرانی شکایت ہے مگر بالکل صحیح۔‘‘اس نے جھک کر فریدا کا گلابی آنکھوں والا خرگوش اٹھا لیا۔

    ’’اچھا شب بخیر نینا۔ اب تم آرام کرو۔ آج تم بہت کافی تھک گئی ہوگی۔ میں دیکھ آؤں میری بہن جانکی پر اپنی مصوری اور افسانہ نگاری کی قابلیت کا رعب جھاڑ کر اس کا دماغ چاٹ رہی ہے یا نہیں۔‘‘

    لیکن فریدا جانکی کے کمرے میں جانے کے بجائے ایک مدھم سرخ لالٹین لے کر لیچیوں کا باغ پار کر کے جانوروں کے شیڈ کی طرف چلی گئی اور وہاں ایک اسٹول پر اس وقت تک بیٹھی رہی جب تک کہ شیڈ کی سرخ ٹین کی چھت پر ٹپکنے والی بارش کی بوندوں اور کیتھیڈرل نے اسے یہ یاد نہ دلایا کہ مہمانوں کے ناشتے کی تیاری کے انتظام میں ممی کی مدد کے لیے صبح سویرے جاگنا ہے۔

    سوسائٹی کی دل چسپ ترین Gossip۔ ممّی خفا، ابیّ ناخوش، اسلم پریشان اور شوکت بھائی پر تو بالکل panic سوار ہوگیا۔ جولائی کا مہینہ بھی گزر گیا۔ فریدا رام کی تصویر میں بے دلی سے رنگ بھرتی رہی۔ اسماء نے جھنجھلا کر سارے برش زمین پر پٹخ دیئے اور دریچے میں جاکھڑی ہوئی۔

    Farida darling, I must do some thing drastic to take the gossip off you

    ہش، کیا کرو گی تم کمزور گلہری!

    امبریش کی بھیگی بھیگی بھاری بھاری سیاہ آنکھیں میز کی بلوریں سطح پر لرزنے لگیں۔ زندگی کا راستہ بہت پتھریلا اور کٹھن ہے اسماء رانی! فریدا نے نامکمل تصویر میز کے نچلے خانے میں ڈال دی اور اسماء کے پاس آگئی۔ آشیانے کی طرف بادل اور طوفان بڑھتے چلے آرہے تھے۔ دور گولیاں چلنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

    ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے نا۔ ایک دم انہیں کچھ یاد سا آگیا۔ فریدا کمرے میں ٹہلنے لگی اور پھر مرایا ٹریزا کی تصویر کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔ گولیوں کی گرج میں سے امبر کی آواز کہتی ہوئی معلوم ہورہی تھی: میں تمہاری کہکشاں کی پگڈنڈی سے علاحدہ ہوگیا ہوں۔ اسماء رانی کتنی اچھی ہے کہ میرے ساتھ سفر کرنے کو تیار ہے اس راستے پر،جہاں گولیاں برستی ہیں، اس دنیا میں جہاں پولیس ہماری الماریوں کی تلاشی لیتی ہے، جہاں ہماری شوق اور محنت سے لکھی ہوئیں کتابیں ضبط کر لی جاتی ہیں اور جہاں آخر میں ہمیں تاریک کمروں میں بند کردیا جاتا ہے۔ تم نیلوفر کے شگوفے کی طرح نازک اور کمزور ہو۔ تمہیں حفاظت کی ضرورت ہے۔ تم پر شور طوفانی ندیوں اور اونچے پہاڑوں اور ریتیلے میدانوں کو طے نہیں کرسکتیں۔ اسماء شاید اس سفر میں کامیاب ہوسکے۔

    اگست کی بارشیں اور تیزی سے برسنے لگیں۔ کارنے دھواں چھوڑا اورایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ ’’ خدا حافظ فریدہ ، تم خوش گھر واپس آجاؤ۔ آشیانہ بجلیوں کی زد سے اچھی طرح محفوظ ہے۔ شوکت بھائی سے شادی کر لو اورپھر اپنے سات آٹھ بچّوں کے لیے عمر بھر موزے بنتی رہو۔ اور فریدہ پیاری ممی اور ابیّ کو میرا لو دے دینا اور ان سے کہنا کہ سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘

    ۹ اگست کے فوراً بعد امبر کی گرفتاری کا پروانہ آچکا تھا۔

    کار زنّاٹے سے ترائی کے میدانوں میں اترنے لگی اور موہن پاس کے موڑ کے نزدیک ایک بہت بھاری ملٹری پولس کی مسلح کار سے اس کی ٹکّر ہوگئی جو مخالف سمت سے اسی تیزی کے ساتھ آرہی تھی۔ اور امبر کی سیاہ آنکھیں زخموں کے بوجھ سے آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں اور وہ خاموشی سے سیٹ پر گر گیا۔

    اور یہ پرانی دنیا اسی طرح قائم ہے۔ ابیّ شاہ بلوط کی بھاری میز پر کاغذات پر جھکے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں حد سے زیادہ مصروف رہتے ہیں۔نگارخانے میں آتش دان کے اوپر کے شیشوں کے پیچھے سے بلو بوائے اور لیڈی جین گرے ہمیشہ کی طرح جھانک کر مسکرا رہی ہیں۔ رام گوپال کی تصویر میز کے نچلے خانے میں ادھوری پڑی ہے۔ تانبے کا ایک گھوڑا، جس پر یونانی دیوتا سوار تھا، گرد میں اٹا ہوا بڑے سکون کے ساتھ اسی کونے میں رکھا ہوا ہے۔ گھوڑے کا ایک کان اور اپالو کے تیر کی کمان ٹوٹ چکی ہے۔ ثمران کے پہاڑیوں کے مناظر کی جو تصویریں فریدا نے بنائی تھیں وہ سب کی سب بہت احتیاط سے کینوس میں لپٹی ہوئی الماری کے اوپر رکھی ہوئی ہیں۔ ثمران، جہاں وہ اپنی فرانسیسی بیوی اور چار سالہ بچّی کے ساتھ اطمینان سے رہتا ہے۔

    یہ فرن کے خشک پتّے اور پینزی کی زرد اور اودی پنکھڑیاں اپریل کی ہواؤں میں اڑی جارہی ہیں۔ دروازہ بند کر کے آؤ اب نیچے چلیں جہاں لیچی کے سائے میں شام کی چائے پر ہمارا انتظار ہورہا ہوگا۔ اس بوڑھی دنیا میں serenading کے لیے قطعی کوئی جگہ نہیں۔ فریدہ بانو اندر آجاؤ۔ اب تمہاری بالکونی کے نیچے وائلن بجانے کوئی نہیں آئے گا۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔

    مأخذ:

    ستاروں سے آگے (Pg. 126)

    • مصنف: قرۃالعین حیدر
      • ناشر: مدثر مصطفیٰ احمد
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے