Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی ہمسائی

علی عباس حسینی

نئی ہمسائی

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    ایک مولوی خاندان کے پڑوس میں ایک طوائف آکر رہنے لگتی ہے۔ مولوی کا خاندان اس نئے پڑوسی سے فاصلہ بنائے رکھتا ہے۔ اتفاق سے مولوی کو کسی ضروری کام سے کہیں باہر جانا پڑا جبکہ ان کا بچہ سخت بیمار تھا۔ اس درمیان بچے کی طبیعت اور خراب ہو گئی۔ ایسی حالت میں نئے پڑوسیوں نے مولوی کے گھر والوں کی جس طرح مدد کی وہ قابل تعریف تو تھی ہی مولوی کے اخلاق و کردار کا آئینہ بھی تھا۔

    نئی ہمسائی جب سے بغل والے مکان میں تشریف لائیں میں نے اپنے اور ان کے مکان کی درمیانی کھڑکی بند کرا دی۔ میں یہ نہیں پسند کرتا تھا کہ میری بیوی ان کی طرح کی عورتوں سے میل جول بڑھائیں۔ میں خود ان کے ’’میاں‘‘ سے ملنے میں زیادہ قباحت نہیں سمجھتا تھا۔ مردوں کی ’’علیک سلیک‘‘ سینکڑوں قسم کے آدمیوں سے ہوتی ہے۔ مردکپڑوں میں لپیٹ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ چاقو کی طرح رگڑ سے اس میں تیزی بڑھتی ہے۔ وہ اونی کپڑا ہے جسے دھوپ نہ دکھائیے تو کیڑے چاٹ جائیں۔ مگر عورت پھول ہے ’’نازک، لطیف، خوشبودار، جہاں ہمسایہ خراب ملا، بو باس میں فرق آیا۔ جہاں ہم نشیں برے ہوئے اور رنگ روپ بدل گیا۔‘‘

    پھر میں اشرف صاحب سے ایک زمانے سے واقف تھا۔ وہ ایک رنگیلے مزاج کے آدمی تھے، وہ ہر سال ’’تقویم پارینہ‘‘ علیحدہ کر دیتے اور نئی جنتری سے دل بہلاتے۔ اب کے نظرِ انتخاب بی ہمسائی پر پڑی اور وہ بغل والے مکان میں لاکر اتار دی گئیں۔ اشرف صاحب کا خود گھر موجود تھا۔ بزرگوں میں کوئی مرد اور عزیزوں میں کوئی عورت نہ تھی۔ مگر اپنا مکان چھوڑ کے یہ عنایت میرے ہی ہمسائے پر کیوں کی گئی، اس کی حقیقت سے نہ میں واقف تھا اور نہ میری بیوی۔ وہ اشرف صاحب سے مجھ سے بھی زیادہ خفا تھیں۔ وہ کہتیں ’’اگر انہوں نے یہ مکان نہ لیا ہوتا تو کوئی بھلا مانس اس میں آکے اترتا اور مجھ نگوڑی کا ہمسائی سے دل بہلتا۔ مگر ان نئی بی صاحبہ کو تو رات دن سوائے گانے بجانے کے کوئی کام ہی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ڈھاریوں اور کسبیوں کا گھر ہے۔‘‘

    ان کا غصہ بجا تھا۔ اس لیے کہ گھر میں جتنے سمجھ دار تھے وہ سب نماز کے عادی تھے ہم میاں بیوی کی دیکھا دیکھی سہی، مگر مامائیں بھی نماز پڑھتی تھیں اور ملازم بھی ۔ بچوں میں صرف ایک منیر تھا۔ جو پیار سے ’’بھیا‘‘ پکارا جاتا تھا۔ اس کی عمر اس وقت مشکل سے چار برس کی ہوگی۔ بیگم سوائے بھیا کے کھلانے اور ماماؤں کو حدیث قرآن پڑھ کے سنانے کے اور کوئی کام نہ کرتیں۔ ان کے ہاں مذہبیت کا وفور تھا۔ اب ہمسایہ ملا اس طرح کا، بالکل ہی ان کا ضد! ایک طرف تو تہلیل و تسبیح کا دور اور دوسری جانب سا۔رے۔گا۔ماپا دھا۔ نی کی رٹ!

    پھر مفتیوں کے خاندان سے ہونے کی وجہ سے ہم قدامت پسند بھی تھے۔ ہماری معاشرت وہی تھی جس پر ہمارے بزرگ کاربند رہ چکے تھے۔ ہم لوگوں سے عام طور پر ملنا جلنا پسند نہ کرتے تھے اور ہماری عورتیں ان گھروں میں نہیں آتی جاتی تھیں جن پر جدید تعلیم کا رنگ چڑھ چکا تھا اور جہاں دنیاوی ترقی کی غرض سے مغرب پرستی کی شدت تھی۔

    اب تک جو بی بی پڑوس میں رہتی تھیں، ان کے میاں کسی دوکان پر کام کرتے تھے، وہ سیدھے سادھے نیک مسلمان تھے۔ دنیا کے جھگڑوں سے انہیں کوئی مطلب نہ تھا، مقررہ وقت پر اپنے کام سے جاتے۔ مقررہ وقت پر واپس آتے۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ جو دال دلیا میسر آتا خوش خوش کھاتے اور خدا کا شکر بجا لاتے۔ خود بی ہمسائی کی یہ حالت تھی کہ گھر کے کام کاج سے جہاں فرصت پاتیں ٹوپیاں لے کر بیٹھ جاتیں، ایسے ایسے گل بوٹے کاڑھتیں کہ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ دس بارہ آنے کی روزانہ، میاں کے علاوہ، مزدوری کرلیتی تھیں۔ اس پر ملنسار ایسی کہ دن میں دو مرتبہ محض بھیا کی خریت دریافت کرنے کے لیے ہمارے ہاں آیا کرتیں۔ جب ہمارے ہاں کوئی کام ہوتا تو اس میں بیگم کا اس طرح کا ہاتھ بٹاتیں کہ محسوس ہوتا کہ کوئی غیر نہیں بلکہ اپنی قریب ترین عزیز ہیں۔ بیگم انھیں ’’بہن‘‘ پکارتی تھیں اور ننھا منیر اپنی تتلی زبان میں انھیں ’’کھالا جان‘‘ کہنا اچھی طرح سیکھ گیا تھا۔

    وہ جب سے چلی گئی تھیں ہم لوگوں کو خاصی تکلیف تھی۔ بچہ بھی کڑھتا تھا اور بیگم بھی اداس رہتی تھیں۔ تسکین صرف اتنی تھی کہ ممکن ہے نئی ہمسائی ویسی ہی یا ان سے بہتر مل جائے اور اب آئیں یہ ذات شریف۔ معاملہ بالکل ہی برعکس ہو گیا۔ وہ تو کہیے کہ بڑی خیریت ہوئی کہ میں نے اشرف صاحب کو اس وقت دیکھ لیا جب کہ وہ مکان کا معائنہ کرنے آئے تھے، ان کی جھیپی جھیپی باتوں سے میں تاڑ گیا کہ کچھ دال میں کالا ضرور ہے۔ میں نے اس لیے نئی ہمسائی کے ورود کے پہلے ہی کھڑکی میں فقل ڈلوا دیا تھا۔ اگر کہیں بے تکلفی بڑھنے کے بعد بیگم کو معلوم ہوتا کہ نئی ہمسائی کس قماش کی عورت ہیں تو حددرجہ بےلطفی ہوتی۔

    جب نئی ہمسائی آئیں تو انھوں نے ایک دن کھڑکی پر آکر خوب کھٹکھٹایا۔ ماما سے کہلا دیا گیا کہ ’’میاں کا حکم نہیں کہ کھڑکی کھولی جائے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’اچھا بیگم صاحبہ سے سلام کہو اور کہو ذری کھڑکی تک کھڑی کھڑی ہو جائیں۔ ہم تو ان سے ملنے آئے ہیں اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں۔‘‘

    بیگم نے صاف صاف کہلا بھیجا کہ ’’مجھے نہ ان سے ملنے کی فرصت ہے اور نہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس تلخ جواب پر وہ بہت آزردہ ہوئیں اور یہ کہتی ہوئی چلی گئیں کہ ’’اچھا تو ان سے کہہ دینا بی بی اگر آپ نہیں ملنا چاہتیں تو یہاں کس کی جوتی کو غرض ہے، نہ ہم ان کے بسائے ہوئے ہیں اور نہ ہم ان کا دیا کھاتے ہیں۔ ہونھ، کیا مزاج پایا ہے ۔۔۔ اے ہم نے کہا پڑوس میں آکے ٹکے ہیں، چلو اپنی ہمسائی سے مل لیں۔ مگر معلوم ہوا وہ تو بڑی نک چڑھی ہیں۔اے ہونگی خاص رسول اللہ کے گھرانے کی۔ ہماری پاپوش کو غرض!‘‘

    اسی درمیان میں مجھ سے اور اشرف صاحب سے ایک دن سامنا ہو گیا۔ صاحب سلامت کے بعد انھوں نے جس قدر تپاک برتا، میں اتنی ہی رکھائی سے پیش آیا۔ بالآخر وہ گھبراکے بولے ’’کیوں مشہود صاحب، مجھ سے کیا قصور ہوا ہے جو آپ خاص طور سے خفا معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

    میں فطرتاً سیدھا آدمی ہوں اور گفتگو میں صفائی زیادہ پسند ہے، مجھے طعن و تشنیع و طنز سے کوئی لگاؤ نہیں۔ لیکن اشرف صاحب کی حرکتوں سے اس قدر جلا ہوا تھا کہ اس دن میں نے ان سے کچھ اسی طرح کی باتیں کیں۔ ان کے جواب میں میں نے کہا ’’آپ اور قصور واللہ آپ کیا فرماتے ہیں اجی حضرت آپ نے تو مجھ پر وہ احسان کیا ہے کہ میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ آپ کے صدقے میں مجھے سرود ہمسایہ اور حسن رہگذرے دونوں میسر ہیں، بھلا میں آپ سے خفا ہو سکتا ہوں۔ میری اور یہ مجال۔‘‘

    وہ مسکراکر بولے۔ ’’اچھا تو یہ بات ہے۔ مگر آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں اسے آپ کے ہمسائے میں محض اس لیے لایا ہوں کہ میں اسے ایک بیسوا کی جگہ ایک نیک اور پارسا عورت بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’مجھے آپ کی ذات سے یہی امید ہے۔ مگر میری یہ نہیں سمجھ میں آیا کہ میرے ہمسائے میں ایسی کون سی خصوصیت ہے؟‘‘

    وہ بولے۔ ’’بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ میں نےاس حسن، اس گلے اور اس مزاج کی رنڈی آج تک نہیں دیکھی۔ میں نے اسی لیے اس سے یہ خواہش کی کہ وہ مجھ سے نکاح کرلے مگر وہ آزادی کی زندگی کی اس قدر عادی ہو گئی ہے اور گھریلو زندگی سے اس قدر گھبراتی ہے کہ کسی طرح راضی نہیں ہوتی ہیں۔ اسی لیے اسے آپ کے ہمسائے میں لایا ہوں کہ وہ آپ کے گھر کی زندگی اور آپ میاں بیوی کی محبت و آشتی کو دیکھ میری بات مان لے۔‘‘

    میں نے کہا ’’تو اتنا بڑا شہر ہے، آپ کو سینکڑوں اس طرح کے میاں بیوی مل جاتے۔ یہ مجھ ہی پر کرم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

    وہ بولے۔ ’’آپ لوگ مولویوں کے گھرانے سے ہیں نا، آپ کا اثر دوسروں سے زیادہ جلد اور گہرا پڑےگا۔‘‘

    میں نے اپنی فطری صاف گوئی سے کام لے کر ان سے کہہ دیا۔ ’’تو حضرت اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں کسی حالت میں اپنی بیوی کو آپ کی رنڈی سے ملنے دوں گا تو آپ بڑی غلطی کرتے ہیں۔ اگر آپ میرے ہمسایہ سے نہ اٹھ جائیں گے تو میں خود اس مکان کو چھوڑ دوں گا۔‘‘ میں نے اس کے بعد ان کی کوئی بات نہ سُنی اور جھلایا ہوا گھر واپس چلا آیا۔

    اس دن سے میں نے محسوس کیا کہ شور و ہنگامے میں بہت کمی ہو گئی۔ گانا ہوتا ضرور تھا مگر مقررہ اوقات پر اور ٹھٹھے اب بھی لگتے تھے مگر اس طرح کی آوازوں میں جو ہمارے کاموں میں مخل نہ ہوں۔ البتہ بیگم سے یہ معلوم ہوا کہ ہر روز ’’بھیا‘‘ شام کے وقت گود سے اتر کر اپنے ’’صندلی‘‘ پاؤں سے کھڑکی تک ضرور جاتا اور لاکھ منع کیا جاتا مگر وہ کھڑکی خوب پیٹ پیٹ کے ’’ہمچائی، ہمچائی‘‘ کہہ کے ضرور پکارتا۔ وہ بھی کھڑکی پر آتیں اور اسے غالب کی مشہور غزل آشیاں کیوں ہو۔ آسماں کیوں ہو، گاکے سناتیں اور ذیل کا شعر بار بار دہراتیں،

    وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا

    تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟

    بیگم یہ بھی کہتی تھیں کہ آواز میں اس بلا کی کشش ہے کہ بیساختہ دل کھینچتا ہے اور ان کا بھی یہ جی چاہنے لگتا ہے کہ وہ بھی کھڑکی کے پاس جاکے کھڑی ہو جائیں۔ بلکہ کھڑکی کھول کر گانے والے کو کلیجہ سے لگا لیں۔ میں نے طے کیا کہ اس نئی چھیڑ کا فوری تدارک ضروری ہے۔ اس لیے میں نے اشرف صاحب کو اسی وقت خط لکھا۔

    ’’مکرمی۔ تسلیم۔ بی صاحبہ سے میری جانب سے عرض کر دیجیے کہ میرے گھر کے لوگوں کو ہر روز کھڑکی پر آکے پریشان نہ کریں۔ میں ممنون ہوں گا۔‘‘ انھوں نے جواب میں لکھا، ’’وہ کہتی ہیں انھیں آپ کے بچے سے محبت ہے۔ دن میں تھوڑی دیر کے لیے وہ اسے بند کھڑی کے دراڑوں سے جھانک لیتی ہیں۔ اگر آپ اس بچے کو ہر روز میرے ہاں آدھ کھنٹے کے لیے بھیج دیا کریں تو وہ وعدہ کرتی ہیں کہ وہ آج سے کھڑکی پر ہرگز ہرگز نہ جائیں گی۔‘‘ مجھے ان کی اس شرط پر حد سے زیادہ غصہ آیا۔ میں نے جھلا کے لکھ بھیجا ’’میرا بچہ نہ اس طرح کے ناشائستہ گھروں میں جا سکتا ہے اور نہ اس طرح کی ناپاک گودوں میں!‘‘

    اسی دن کھڑکی میں دوسری جانب سے بھی فقل پڑ گیا اور دراڑوں میں کاغذ کے ٹکڑے بھی چپکا دیے گئے۔ نہ کھڑکی کے پاس پھر گانا ہواور نہ بھیا کے چیخنے اور پکارنے پر کسی نے اعتنا کی۔ مجھ سے اور اشرف صاحب سے بھی صاحب سلامت بند ہو گئی۔ غرص بائیکاٹ پورے طور پر ہو گیا۔

    مگر بھیا ہر روز کھڑکی پر جانے کے لیے مچلتا ضرور تھا اور رو کے جانے پر فیل لاتا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ ماندہ سا بھی رہنے لگا۔ لیکن میں نے کسی امر کی پروا نہیں کی۔ میں اپنے ناسمجھ معصوم بچے کو گانے بجانے کا عادی نہیں بنا سکتا تھا اور نہ میں اس کی ضد پر اسے ہمسائی کی سی عورت کے پاس بھیج سکتا تھا۔ میں نے اس لیے یہ طے کر لیا کہ مہینہ ختم ہوتے ہی اس مکان اور اس ہمسائے کو خود ہی چھوڑ دوں گا۔

    اس فیصلے کے دو ہی چار دن بعد مجھے دفعتاً ایک سرکاری کام سے دیہات جانا پڑا۔ گو تقریباً میل کا سفر تھا مگر میری فٹن کا گھوڑا کافی تیز اور مضبوط تھا اور مجھے یقین تھا کہ میں شام تک واپس چلا آؤں گا۔ بھیا کی طبیعت حسب معمول سست تھی۔ میں نے کوئی وسوسہ دل میں نہ آنے دیا اور اطمینان سے اپنا فرض ادا کرنے چلا گیا۔ وہاں قصبہ میں خلاف معمول دیر ہو گئی اور رات کے آٹھ بج گئے۔ شہر سے پندرہ میل کافاصلہ تھا اور نصف کے قریب سڑک خام تھی، مگر بھیا کی ماندگی کا خیال، جو اب تک فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں بالکل ذہن میں نہ تھا، آتے ہی دل گھبرا اٹھا اور گو اہل قریہ مجھے روکتے رہے مگر میں اسی وقت روانہ ہو گیا۔ ابھی گاؤں سے مشکل سے ایک میل کے فاصلے پر پہنچا ہونگا کہ دفعتاً شمال و مشرق کی جانب سے گھٹا اٹھی۔ سائیس نے گھبراکر کہا ’’ہجور۔ پانی آن والا ہے۔ گاؤں پلٹ چلیں۔‘‘ میں نے گھوڑے کو تیز کرکے کہا ’’نہیں جی برسے گا نہیں۔ پھر ہم لوگ ڈیڑھ گھنٹے میں تو گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘

    مجھے خیال تھا کہ اس گھٹا کی بھی وہی حالت ہوگی جو اس سال لکھنؤ کے لیے روایت ہو گئی تھی۔ تین تین چار چار دن متواتر ابر آتا تھا مگر بلا تامل سیدھا پچھم بھاگتا چلا جاتا تھا۔ گویا منزلِ مقصود کہیں مغرب میں تھی اور لکھنؤ محض گذرگاہ تھا۔ لیکن میرے اس یقین کو چند ہی منٹ بعد پانی کی چادر نے پاش پاش کر دیا۔ پانی برسا اور اس طرح سے برسا کہ جسم پر چوٹ لگتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے کسی آسمانی دریا میں سیلاب آ گیا ہے اور اس نے سارے بند تور ڈالے ہیں۔ بجلی علیحدہ چمکتی تھی اور گرج اس آفت کی تھی کہ الامان والحفیظ۔

    اب آپ ہی خیال فرمائیے کہ رات کا وقت، کچی سرک، بھڑکنے والا گھوڑا۔ سنسان میدان اور پانی کا یہ شور۔ مزید مصیبت یہ آئی کہ گھوڑے کے جھٹکوں اور ہوا کے جھونکوں نے فٹن کی لالٹینیں بھی بجھا دیں۔ بس کچھ نہ پوچھیے کہ راستہ کیونکر طے ہوا اور جان کیونکر بچی، موت خود ہی حفاطت کر رہی تھی۔ ورنہ مر جانا یقینی تھا۔

    خیر خدا خدا کرکے پختہ سڑک پر پہنچے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر بیڑی سگریٹ بیچنے والوں نے کچھ پھونس کے چھپر لبِ راہ ڈال رکھے تھے۔ جب ہم لوگ ان کے قریب پہنچے تو سائیس نے سردی اور خوف سے کانپتے ہوئے کہا ’’ہجور! یاں دم لے لیجیے، جرا پانی رکے تو پھر چلیں‘‘۔ میرا بھی سردی سے برا حال تھا۔ دوسرے گھوڑے کی منہ زوریوں سے دونوں ہاتھ شل ہو گئے تھے۔ میں نے اب کے سائیس کی رائے پر عمل کیا اور فٹن روک کے اتر پڑا اور ایک چھپر کے نیچے جہاں پانچ سات دیہاتی آگ جلائے بیٹھے تھے، میں بھی جاکے کھڑا ہو گیا۔ سائیس بھی گھوڑے کو ایک پاس ہی کے درخت میں اٹکا کے جلدی سے بھاگ آیا۔ دیہاتی میرے متعلق سائیس سے یہ معلوم کرکے کہ میں سرکاری افسر ہوں تھوڑا بہت سہم گئے اور سمٹ کے مجھ سے تھوڑی دور پر بیٹھ گئے، دوکاندار نے ایک چھوٹی سی تپائی لاکے مجھے بیٹھنے کے لیے دی اور آگ کو لکڑیاں بڑھاکر تیز کر دیا۔ میں اپنا کوٹ اتار کر اسی پر سکھانے لگا۔

    پانی کی شدت میں کسی طرح کمی نہ ہوئی، یہاں تک کہ رات کے بارہ بج گئے۔ دیہاتیوں میں کئی ایک وہیں گٹھڑی بن کے پڑے رہے اور ان کے خراٹوں کی آوازیں پانی کی آوازوں میں مل کر اسے اور بھیانک بنانے لگیں۔ دوکاندار بھی اونگھ رہا تھا۔ بھوک اور نیند سے میری خود بری حالت تھی۔ مگر پانی کی وجہ سے سب محبور تھے، نہ کسی طرح کھلتا تھا اور نہ رکتا تھا۔ بالآخر ایک بجے کے بعد کچھ کم ہوا۔ میں نے سائیس سے کہا، ’’بھئی گاڑی کی لالٹینیں جلالو، اب ہم چلیں گے۔‘‘ غرص ہم لوگ پھر بھیگتے ہوئے گھر چلے۔ گھوڑے نے بھی اب کی تیزی نہیں کی، بظاہر وہ بھی تھک گیا تھا یا نیند کی غنودگی میں تھا۔ بہرنوع ہم نے ہلکی دلکی کی رفتار سے بقیہ راستہ طے کیا اور کوئی تین بجے صبح کو گھر پہنچے۔

    خیال تھا کہ وہاں سب خراٹے لے رہے ہوں گے اور دروازہ کھلوانے کے لیے کافی چیخنا پڑےگا۔ مگر مجھے دیکھ کر تعجب ہوا کہ مردانے کمرے میں روشنی ہو رہی تھی اور دروازے کھلے ہوئے تھے۔ میں نے کمرے میں جاکر دیکھا تو اشرف صاحب بیٹھے ہوئے ایک ناول پڑھ رہے ہیں۔ میں اپنے گھر میں انھیں اس طرح دیکھ کے حد درجہ گھبرا گیا۔ میں نے ان سے پوچھا ’’کیوں آپ اس وقت یہاں کہاں؟ خیریت تو ہے؟‘‘ انھوں نے کہا ’’ہاں سب خیریت ہے، آپ اندر جاکے فوراً کپڑے بدل ڈالیے۔‘‘

    میں بھی گھبرایا ہوا زنانخانے میں چلا گیا۔ وہاں جاکے دیکھا تو سارے گھر کی روشنیاں جل رہی ہیں، بیگم اپنے پلنگ پر لیٹی ہیں۔ ماما ظہورن پاؤں سہلا رہی ہیں اور بھیا کو ایک بیس برس کی حسین دوشیزہ گود میں لیے کلیجے سے لگائے بیٹھی ہے۔ میں ایک اجنبی عورت کو اپنے گھر میں بے نقاب دیکھ کر پہلے تو جھجھکا۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ اس کی ساری توجہ بچہ کی طرف مبذول ہے، تو میں استعجاب اور گھبراہٹ کا بری طرح شکار ہوکر بیگم کے پلنگ کی طرف بڑھ گیا۔ وہ بھی گھبراکے اٹھ بیٹھی تھیں، میں نے ان سے پوچھا ’’کیوں خیریت تو ہے؟‘‘ میرے اس معمولی سے سوال پر وہ ’’بھیا‘‘ کہہ کے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

    ماما نےکہنا شروع کیا ’’نا بی بی نا! آج شام سے رو رو کے بے فضول کو اپنے کو ہلکان کر رہی ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ بچہ اچھا ہے۔ دل کو سنبھالیے، آنکھیں لال انگارہ ہو رہی ہیں۔‘‘

    میں نے دیکھا کہ بیگم کے منہ سے اس وقت پورا واقعہ سن لینا محال ہے، اس لیے ماما ظہورن سے کہا ’’تم ہی بتاؤ کہ ہوا کیا۔ کیا بھیا بیمار ہو گیا تھا؟ کیا بات ہوئی آخر؟‘‘ اس نے کہا ’’اے حضور، کوئی بات نہیں، بی بی بی ماشاء اللہ خود ہی بچا ہیں، اسی لیے ذرا سی بات سے گھبرا اٹھتی ہیں۔ بھیا کی طبیعت ماندی تھی، مجھے حکم ہوا کہ ڈاکٹر کو بلواؤ، وہ موا امن گیا تو ڈاکٹر نہ ملے۔ وہ کہیں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اپنی پھیری پر۔ میں ابھی باہر ہی تھی کہ لڑکے کے چیخنے کی آواز سنائی دی، اب جو آکے دیکھتی ہوں تو لڑکا تو خیر لڑکا ہی ہے، بیگم صاحبہ بھی بچپنا کر رہی ہیں۔ بھیا مچلا تھا کہ ہم کھڑکی ہی پر جاکے دم لیں گے اور یہ اڑی تھیں کہ اپنا اور تیرا خون ایک کردوں گی، مگر کھڑکی پر نہ جانے دوں گی۔ بچا زمین پر لوٹ رہا تھا اور یہ اسے گھڑک رہی تھیں۔ جب وہ کسی طرح نہ مانا تو انھوں نے حضور کو دھوئیں دھوئیں پیٹ ڈالا۔‘‘

    میں نے دیکھا کہ میرے ہی چہرے پر آثار غم و غصہ نہ تھے بلکہ اجنبی دوشیزہ نے بھی ایک بار بیگم کو بہت ہی غصے سے دیکھا اور پھر گردن نہوڑالی۔ بیگم نے دیکھا کہ ظہورن بچے کی صفائی میں ان کے سر سارا الزام منڈھے دیتی ہے۔ تو جھڑک کر بولیں ’’تمہیں بات کا بتنگڑ بنانا خوب ہی آتا ہے۔ میں نے تو اسے ایک ہلکا سا طمانچہ مارا اور تم کہتی ہو کہ میں نے اسے پیٹ کے رکھ دیا۔ بالشت بھر کا تو لونڈا ہے لیکن ایسے ایسے فیل لاتا ہے اور ایسی ایسی ضدیں کرتا ہے کہ جان عذاب ہو گئی ہے۔۔۔‘‘

    ظہورن نے بات کاٹی۔ ’’ہاں تو بی بی اب روتی کیوں ہو؟ اب جب اس کے دشمنوں کا یہ حال ہے تو دونوں آنکھوں سے گنگا جمنا کیوں بہہ رہی ہیں؟‘‘

    میں نے دیکھا ان دونوں میں لڑائی چھڑی اور ظہورن نے دایہ ہونے کی حیثیت سے ماں کی زیادتیاں گنوانا شروع کیں۔ میں نے ڈانٹ کے کہا ’’اچھا ظہورن تم خاموش رہو، ہاں جی بیگم۔ خدا کے لیے بیان کرو کہ کیا ہوا؟‘‘

    انھوں نے کہا ’’ارے ہوا کیا، میں کیا جانتی تھی کہ آج یہ کھڑکی پر جانے کے لیے ایسا شور مچائےگا۔ میں نے اسے کھڑکی پر نہ جانے دیا۔ بس اس نے چیختے چیختے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ڈاکٹر کو بلوایا۔ وہ ملا نہیں جب شام ہونے کو آئی تو سارا پنڈا اس طرح جلنے لگا کہ معلوم ہوتا کہ اگر دانہ ڈال دو تو بھن جائےگا، میری کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں کیا کروں، ظہورن کے طعنوں نے دل پکا رکھا تھا۔ میں سوائے دعائیں دم کرنے اور رونے کے کرہی کیا سکتی تھی۔‘‘

    ظہورن نے پھر بات کاٹی۔ ’’اے تو میں طعنے کیوں نہ دیتی، خود ہی بچے کو مارپیٹ کے اس حال کو پہنچایا اور خود ہی بیٹھ کے ٹسوے بہاتی تھیں، میں نے کہا اب بی بی بسورنے سے کیا فائدہ، جب نہ سونچا جب دھوئیں دھوئیں اسے پیٹ رہی تھیں۔۔۔‘‘

    میں نے غصہ میں کہا۔ پھر تم لڑنے لگیں۔ میں واقعہ پوچھتا ہوں اور تمہیں طعنوں سے ہی فرصت نہیں ملتی، صرف واقعہ بیان کرو اور کچھ نہیں۔

    ظہورن نے آرزدہ ہوکر کہا۔ ’’ارے تو ہوا کیا بچے کی ایک چیخ آسمان پر تھی تو ایک زمین پر۔ کچھ نہ سمجھ میں آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اتنے میں خدا بھلا کرے ان کا، یہ جو بی ہمسائی بیٹھی ہیں، ان کے میاں کو، انھوں نے باہر آکے آواز دی اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے ان سے داستان کہہ سنائی۔ انھوں نے کہا، گھبراؤ نہیں، میں ابھی ڈاکٹر کو لیے آتا ہوں۔ وہ یہ کہہ کے جانے کو ہی تھے، کہ یہ نگوڑا مینہ پھٹ پڑا اور ٹھٹک کے کھڑے ہو گئے کہ ذرا پانی رکے تو میں جاؤں۔ ایسے عالم میں تو ڈانکٹر حکیم کوئی نہ ملےگا۔ ادھر بھیا کی یہ حالت تھی کہ جب کوندا لپکتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے کوئی اسے کوڑے لگاتا ہے۔ بس ایک چیخ اوپر ایک نیچے۔ بس اسی سے سمجھ لیجیے کہ ان ہمسائی سے اس کی چیخ نہ سنی گئی اور بیتاب ہوکر اسی پانی برستے میں، چھتری لگاکے کھڑکی پر آئیں اور چیخ چیخ کر کھڑکی کھلوائی۔ ان کو دیکھتے ہی بھیا ان کی گود میں چلا گیا اور اس طرح سسک سسک کر رونے لگا، جیسے مدتوں کے بچھڑے مل کے روتے ہیں۔ انھوں نے لیتے ہی جیسے جادو کر دیا۔۔۔‘‘

    بی ہمسائی اب تک خاموش تھیں، جادو کے لفظ پر چمک کے بولیں۔ ’’تو بی بی میں نے کوئی جادو نہیں کیا، بیگم صاحبہ کی مار دھاڑ، کھینچا تانی میں بچے کی کلائی کی رنگیں کھنچ گئی تھیں۔ تم میں سے کسی نے ادھر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔۔۔‘‘

    ظہورن نے پھر بات کاٹی۔ ’’اے اللہ جیتا رکھے۔ بیٹا تم نے میرے منہ کی بات لوک لی۔ میں تو خود یہی کہنے والی تھی کہ بچے کھلاتے کھلاتے میرا چونڈا سفید ہونے کو آیا اور اتی بات نہ سوجھی۔ تم نے جو ذرا سا تیل کلائی میں کل کے اسے سینک کے لپیٹ دیا تو گویا جان میں جان آگئی۔ پھر بھی جب سے تم ہی لیے بیٹھی ہو، چیخ تو بالکل کم ہو گئی، مگر بخار اسی طرح ہے پھر تم نے کیسا کیسا بہلایا کیسا کیسا گانا سنایا۔۔۔‘‘

    گانےکا نام سنتے ہی مجھے بی ہمسائی کا پیشہ یاد آ گیا اور بیساختہ میرے چہرے پر ان جذبات حقارت و نفرت کے آثار نمایاں ہو گئے، جو میرے دل میں اس پیشے کی عورتوں کی طرف سے بھرے پڑے تھے۔ اللہ اللہ میں اور ایک قحبہ کا احسانمند! میرا گھر اور ایک بازاری رنڈی، میرا بچہ اور ایک فاحشہ کی گود۔۔۔

    ہمسائی نے میرے چہرے کو بغور دیکھا۔ نظریں نیچی کرلیں اور بچے کو آہستہ سے اٹھاکر ماں کی گود میں دے دیا، ایسا معلوم ہوا جیسے پھولوں کی سیج سے اٹھاکر اسے کانٹوں کے بستر پر لٹا دیا گیا۔ اس لیے کہ بھیا نے ایک بار آنکھیں کھول کر ماں کا چہرہ دیکھا اور پھر چیخنے لگا۔ بیگم نے لاکھ جتن کیے، چمکارا پیار کیا۔ گلے سے لگائے اٹھ کے کھڑی ہوگئیں، ٹہلا ٹہلا کے لوری دیتی رہیں، مگر بقول ظہورن کے اس کی چیخ ’’ایک اوپر تھی تو ایک نیچے۔‘‘

    ہمسائی اپنی جگہ سے اٹھ کے کمرے کے باہر دالان کے کنارے آکر کھڑی ہوگئی تھیں، گویا اس انتظار میں تھیں کہ پانی کم ہو تو وہ گھر واپس چلی جائیں۔ میں اب تک اسی طرح بھیگا کھڑا تھا۔ مجھے غصہ بھی تھا اور ڈر بھی۔ استعجاب بھی تھااور تکلیف بھی، غرض اتنے قسم کے جذبات بیک وقت میرے دل میں جمع تھے، کہ مجھے اپنی جسمانی اذیتوں کا خیال تک نہ تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ہمسائی کی خوشامد کرکے بھیا کو گود میں لے لینے پر راضی کرلوں۔ مگر اپنے معصوم کو ایک معصیت پرورآغوش میں دینے سے کراہت معلوم ہوتی تھی، میں اسی حیص بیص میں تھا کہ مامتا نے خودداری پر فتح پائی اور بیگم نے ہمسائی سے گڑگڑا کے کہا۔ ’’بہن تم پھر لے لو، یہ تمہاری ہی گود میں چپ رہےگا۔‘‘

    ہمسائی نے میری طرف ایک بار دیکھا۔ میرا چہرہ بھی بجائے حقارت و نفرت کے اب عاجزی اور خوشامد کے آثار ظاہر کر رہا تھا۔ انھوں نے اپنا آغوش پھیلاکے بھیا کو لے لیا اور انبساط سے گنگناکے اسے چمکارنا شروع کیا۔ بچے کی چیخ میں آہستہ آہستہ کمی ہونے لگی، وہ آنکھیں کھول کے ہمسائی کا منہ اس طرح تکنے لگا جیسے وہ ان کی زبان سے کسی خاص چیز کا سننے کا مشتاق ہے، ہمسائی اس پر مسکرائیں اور کرسی پر بیٹھ کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غالب کی وہی غزل گانے لگیں،

    کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِ فغاں کیوں ہو

    نہ جو جب دل ہی پہلو میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

    بچہ اطمینان سے مسکرایا اور آنکھیں جھپکانے لگا۔

    میں خود فراموشی کی حالت میں یہ سب دیکھ رہا تھا کہ بیگم نے میرا شانہ ہلاکے کہا ’’یہ بھیگے کپڑے کب تک پہنے رہیےگا؟‘‘ میں اس طرح چونک پڑا جیسے میں گہری نیند سے جگایا گیا ہوں، مجھے اس وقت اپنی حالت کا خیال آیا۔ یہ دوسری بار ایک ہی شب میں بری طرح بھیگا تھا اور دونوں بار سارے کپڑے جسم ہی پر قریب قریب خشک ہو گئے تھے۔ سویا بھی نہ تھا۔ دن بھر کا تھکا ماندہ بھی تھا اور بھوکا بھی۔ مجھےاس وقت یاد آیا کہ مجھے بڑی دیر سے ایک غیرمعمولی ٹھنڈک سی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ میں جلدی سے دوسرے کمرے میں کپڑے اتارنے چلا گیا۔

    میں کپڑے بدل ہی رہا تھا کہ مجھے سخت سردی معلوم ہوئی۔ ساتھ ہی کچھ چکر سا بھی محسوس ہوا۔ میں جلدی سے اپنے پلنگ پر آکے کمبل اوڑھ کے پڑ رہا۔ سردی بڑھتی ہی گئی۔ میرے جسم پر گھر بھر کی رضائیاں، دلائیاں اور کمبل لاکے ڈال دیے گئے۔ مگر میری سردی کم نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ بیگم کو بجائے ’’بھیا‘‘ کے ساری توجہ میری طرف مبذول کرنا پڑی اور وہ ہمسائی کے سامنے ہی ساری دلائیاں اور کمبل دباکے میری پیٹھ سے لگ کے بیٹھ گئیں۔ آدھ گھنٹے کے سخت لرزے کے بعد مجھے تیز بخار آ گیا اور میں بیہوش ہو گیا۔

    مجھے نہیں معلوم کہ تین دن تک میں کس عالم میں تھا۔ کسی وقت ایک سو چھ ڈگری سے بخار کم نہیں ہوا۔ سر سامی بک جھک علیحدہ تھی۔ بار بار یہی کہتا تھا ’’میرا بچہ اور بیسوا کی گود! بھیا اور ناپاک آغوش میں! میرا پھول اور میلے کے ڈھیر پر! یہ اشرف سے ذلیل شخص سے ملنے کا نتیجہ ہے! ہائے ابا جان زندہ ہوتے تو کیا کہتے! گانے بجانے والی رنڈی اور میرا گھر۔ مولویوں کا خاندان، مفتیوں کا گھرانا!‘‘ ہمسائی اور اشرف دونوں نے یہ سرسامی بڑبار بار سنی، مگر باہر اور اندر یہ دونوں میری اور بچے کی خدمت میں حد درجہ خلوص سے منہمک و مشغول رہے۔ اشرف صاحب ڈاکٹر کو بلاتے تھے۔ دوائیں لاتے تھے اور روپیوں کا بندوبست کرتے تھے، اس لیے کہ گھر میں جتنے روپے تھے وہ سب خرچ ہو چکے تھے اور بنک سے بغیر میرے دستخط کے نکل نہ سکتے تھے۔ اندر ہمسائی کی یہ حالت تھی کہ دن بھر بھیا کو لیے رہتیں اور تیمارداری اور خدمت میں بیگم کا ہاتھ بٹاتیں۔ بیگم تو کبھی کبھی تک کے میرے پاس والے پلنگ پر سو جاتی مگر ان کا بیان ہے کہ بی ہمسائی خواہ دن میں سوئی ہو تو سوئی ہوں۔ لیکن تین راتیں تو اس اللہ کی بندی نے پلک سے پلک نہیں ملائی۔

    چوتھے دن مجھے ہوش آیا اور سول سرجن جس کا علاج ہو رہا تھا بولا اب ’’کوئی خطرے کا بات نہیں۔‘‘ دودن اور اشرف صاحب باہر اور ہمسائی اندر دونوں میرے مکان میں آتے جاتے رہے۔ تیسرے دن ہمسائی تھوڑی دیر کے لیے آئیں۔ جب وہ جانے لگیں تو بیگم اتفاق سے ان سے باتیں کرتی کھڑکی تک چلی گئیں۔ جب ہمسائی اپنے مکان میں پہنچ گئیں تو انھوں نے کھڑکی اپنی جانب سے بند کرکے فقل ڈال دیا اور کواڑوں کی آڑ سے بولیں۔ ’’بیوی اب ماشاء اللہ بھیا جی اچھا ہے اور اس کے باپ بھی۔ مولوی صاحب کو ضعف البتہ ہے، وہ بھی دوچار دن میں چلا جائے گا۔ مگر میری اتی بات یاد رکھیےگا کہ جس دن ان کا غسلِ صحت ہو، تو بیسن اور صابون کا ذرا زیادہ انتظام کیجیےگا اور ان سے کہہ دیجیےگا کہ اپنے کو اور بھیا کو اچھی طرح سے پاک کر لیں۔ ایک میری ناپاک گودوں میں ہفتہ بھر رہا ہے اور دوسرے کو میں نے اپنے نجس ہاتھوں سے کئی بار چھوا ہے۔‘‘

    بیگم ’’بہن، بہن، ارے کھڑکی تو کھول بہن!‘‘ کہتی ہی رہی، مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔ یہ بھی وہاں سے حد درجہ رنجیدہ پلٹ آئیں اور گھر کے کسی کام میں لگ گئیں۔

    اس واقعے کے دوسرے ہی دن صبح کو، جب میں اٹھا تو طبیعت چاق تھی،محض ضعف تھا اور کسی قسم کی کوئی شکایت نہ تھی، میں نے اس دن بیگم سے گھر کی حالت اور بیماری کی ساری کیفیت سنی، جب مجھے اپنی سرسامی بک جھک کی خبر ملی اور یہ معلوم ہوا کہ اشرف اور ہمسائی نے باوجود ان تمام باتوں کے، عزیزوں سے زیادہ محبت و موانست برتی، تو مجھے حد سے زیادہ خجالت و ندامت ہوئی۔ مجھے اس روز محسوس ہوا کہ رذیل و شریف کا فرق حد سے زیادہ مشکل ہے اور سوسائٹی کے قوانین کی پابندی میں افراط بعض وقت خود ہمیں بداخلاق و بدتہذیب بنا دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے حد درجہ شرمسار و منفعل ہوکے بیگم سے کہا ’’للہ ہمسائی کو بلاؤ۔ میں ان سے معافی مانگوں گا۔ میری اخلاقی حالت ان سے پست تر ہے۔ مجھے ان کو ذلیل کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔‘‘

    بیگم نے کھڑکی خوب خوب کھٹکھٹائی اور ’’بہن بہن’’ کہہ کے پکارا مگر صدائے نہ برخاست۔ میں نےظہورن سے کہا کہ امامن کو بھیج کے اشرف صاحب کو بلواؤ۔ وہ تھوڑی دیر میں واپس آیا۔ معلوم ہوا وہ لوگ کل شام ہی کو اس مکان سے اٹھ گئے۔

    میں اپنے ضعف کی وجہ سے مجبور تھا، ورنہ اسی وقت ان لوگوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا۔ دو دن اور اسی مجبوری میں گرفتار رہا۔ تین دن کے بعد ڈاک سے ایک لفافہ ملا۔ چاک کرکے پڑھا تو لکھا تھا،

    ’’مکرم مولانا۔ تسلیم۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج اب بالکل اچھا ہوگا، بخار تو ہمارے سامنے ہی اتر گیا تھا۔ صرف ضعف تھا۔ یقین ہے کہ اب جب کہ ہمسائے سے ناپاک ہستیاں اٹھ گئیں ہیں تو وہ بھی جاتا رہا ہوگا۔ بھیا البتہ اپنی خالہ کے لیے کڑھتا ہوگا۔ مگر میں کیا کروں، مجھے اِس سے زیادہ تکلیف ہے وہ تو بچہ ہے بہل ہی جائےگا مگر خود میرے پہلو میں ایسا ناسور ہے کہ جس کا اندمال محال ہے، مجھے اس کی ’’خالہ‘‘ اور آپ کی ’’نئی ہمسائی‘‘ سے اس سے کہیں زیادہ محبت ہے۔ اور اس نے محض آپ کی وجہ سے ہم دونوں کو چھوڑ دیا۔ میں نے آپ سے درمیان گفتگو میں ایک بار کہا تھا کہ میں نے اس صورت کی، اس گلے کی اور اس دل کی رنڈی نہیں دیکھی، صورت توآپ نے دیکھ لی ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں، گلے بازی کی حالت آپ کیا جانیں۔ مولوی آدمی، مگر اتنا تو شاید آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ بھیا کیسی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہو کتنا غصہ ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں ’’خالہ‘‘ نے کچھ گنگنا دیا اور وہ خاموش ہو جاتا تھا۔ رہا دل! ہائے کیسے کہوں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئےگا۔ مگر اس نے آج تک باقاعدہ پیشہ نہیں کیا، وہ محبت کی بھوکی اور اپنے مادری پیشے سے متنفر ہے۔ پھر اتنی ملنسار۔ اتنی خوش خلق، اتنی فطرتاً نیک ہے کہ شاید ہی کوئی ’’شریف زادی‘‘، اس کے مقابلہ میں پیش کی جا سکے۔ بس اسی سے سمجھ لیجیے کہ آپ کی اور بھیا کی بیماری میں میں نے روپے نہیں خرچ کیے ہیں۔ میرے پاس اتفاق سے ایک پیسہ نہ تھا۔ اسی نے کئی سو روپے اپنے زیورات رہن رکھ کر دیے ہیں۔ اس طرح کی عورت اور اس کے ساتھ آپ کا یہ ظالمانہ برتاؤ کہ اٹھتے بیسوا، بیٹھتے قحبہ، واللہ دل پھٹ گیا! جس دن وہ آپ کے ہاں سے آئی ہے، اسی دن شام کو وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرکے ماں کے ہاں چلی گئی۔ میں نے ہاتھ جوڑے، قسمیں دیں کہ مجھ سے نکاح کر لے مگر اس نے کہا ’’نہیں میں بیسوا کے گھر میں پیدا ہوئی، بیسوا ہی بن کے رہ سکتی ہوں۔ شریف نہیں بن سکتی! خدا توبہ قبول کر سکتا ہے مگر انسان نہیں بخش سکتا ہے، وہ اور اس کے قانون، خدائی قانون سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ میں نے غلطی کی کہ میں نے شریف بننے کی کوشش کی۔ مجھے اپنے کئے کا پھل ملا۔ مجھے مولوی صاحب کے بچے سے محبت ہے۔ میں تم دونوں کو کبھی نہ بھولوں گی۔ مگر میں تم دونوں کو اب کبھی گلے نہیں لگا سکتی۔ اس لیے کہ میں رذیل ہوں اور تم شریف، میں ناپاک ہوں اور تم پاک۔‘‘

    میں اس دن کے بعد سے اس وقت تک اس کی ماں کے کوٹھے کے کوئی دس پھیرے کر چکا ہوں۔ مگر وہ مجھ سے نہ ملی، اس نے کہلا دیا ’’سمجھ لیں کہ مر گئی۔ میں ان سے زندگی بھر نہ ملوں گی!‘‘ میں نے اسی لیے یہ حتمی قصد کر لیا ہے کہ چونکہ آپ میرے لیے اس ’’عذاب الیم‘‘ کا باعث ہوئے ہیں لہٰذا میں بھی آپ سے زندگی بھر نہ ملوں گا۔ میں یہ خط آپ کو اسی لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آئندہ آپ مجھ سے ملنے کی کوشش فرماکر رنج نہ پہنچائیں۔ زیادہ والسلام۔ خیر طلب ’’اشرف‘‘۔

    میں نے اسی وقت فٹن کسوائی اور بھیا کو ساتھ لے کر اشرف صاحب کے ہاں پہنچا۔ جب اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہلا بھیجا میں نہیں مل سکتا۔ جو لڑکا پیغام لایا تھا اس کے ہاتھ میں بھیا کا ہاتھ دے دیا اور کہا اسے ان کے پاس لے جاؤ۔ بھیا جانے کے لیے تیار نہ تھا مگر میں نے سمجھا بجھاکے اسے اندر بھجوا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اشرف صاحب بچہ کو گود میں لیے ہوئے باہر آئے اور مجھ سے منھ پھیر کے حد درجہ غصے سے بولے۔ ’’فرمائے کیا ارشاد ہے؟ میں نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور ان کے قدموں کی طرف بڑھاکر کہا۔ ’’بھئی معاف کر دو!‘‘ اور ہم آبدیدہ ہوکے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

    جب آنکھوں میں مچلتے ہوئے آنسو پی چکا تو میں نے کہا ’’بھئی میں اس کی کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ غلطیوں کی تلافی ہو جائے اور بچھڑے مل جائیں۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’مگر اس کے لیے آپ کو اس کی ماں کے کوٹھے پر چلنا ہوگا۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’میں اس کے لیے تیار ہوکے آیا ہوں۔ آپ میری رہنمائی کریں، انشاء اللہ ناکامیاب نہ پلٹوں گا، آخر بی ہمسائی یہ تو دیکھ لیں کہ میں نرامولوی ہی نہیں ہوں، بلکہ انسان بھی ہوں!‘‘ غرض ہم لوگ فٹن پر سوار ہوئے اور چوک پہنچے اور عمر میں پہلی بار میں سارے بازار کے سامنے دن دھاڑے میں اپنےمعصوم بچے کو لیے ہوئے ایک رنڈی کے مکان پر چڑھ گیا۔ پاؤں میں رعشہ ضرور تھا اور میری پیشانی پر پسینے کے قطرے یقینی طور پر موجود تھے اور میری آنکھیں شرم سے بلاشبہ جھکی جاتی تھیں، مگر میرا دل ہرذلت کے لیے آمادہ تھا، میں خوش تھا کہ آج میں محبت و انسانیت کی دیوی کے حضور میں اپنی خود بینی و خودداری کی قربانی چڑھا رہا ہوں۔

    ہم لوگ ایک تنگ زینے سے ہوکر ایک چھوٹے سے صحن میں پہنچے۔ سامنے والے کمرے میں ایک ادھیڑ عورت بیٹھی تھی اور اس کے گلے سے چمٹی ہوئی بی ہمسائی رو رہی تھیں۔ ہم لوگوں کے پاؤں کی آواز سن کے ہمسائی ماں کے سینہ سے آنسو پونچھتی علیحدہ ہوئیں اور مجھے دیکھ کے گھبرا کے کھڑی ہو گئیں، میں نے جلدی سے بھیا کو گود میں اٹھاکے ان کی طرف بڑھایا۔ ان کا ہاتھ فطرتاً پھسل گیا، مگر وہ کچھ سوچ کے جھجھکیں۔ میں نے کہا ’’یہ اپنی خالہ کی تلاش میں یہاں تک آئے ہیں۔‘‘ بچے نے بھی دونوں باہیں پھیلا دیں۔ بڑی محبت سے ’’خالہ! خالہ‘‘ کہا اور ہمسائی نے روتے ہوئے اسے آغوش میں لے کے گلے سے چمٹا لیا۔

    بڑی بی نے اشرف صاحب سے کہا ’’اشرف میاں، بٹیا نے جب آپ سے کہہ دیا کہ وہ اب آپ سے نہیں ملنا چاہتی تو پھر آپ کیوں اسے پریشان کرتے ہیں؟‘‘

    میں نے آگے بڑھ کے کہا ’’آپ پہلے میری دو باتیں سن لیجیے۔ پھر اشرف صاحب سے کچھ کہیےگا۔‘‘

    بڑی بی بولیں۔ ’’فرمائیے۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’یہ تو آپ شاید جانتی ہوں گی کہ اشرف صاحب اور آپ کی صاحبزادی سے محبت ہے۔ وہ ان سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ ماشاء اللہ رئیس ہیں، صاحب جائداد ہیں، بن بیاہے ہیں، ایک سے ایک لڑکی انہیں مل سکتی ہیں۔ لیکن وہ انہیں کے گرویدہ ہیں اور انھیں کے عاشق اور وہ بھی غالباً ان سے محبت کرتی ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ان دونوں کا عقد بہتر اور ضروری نہیں؟‘‘

    بڑی بی بولیں۔ ’’میاں میں نے کب کہا کہ بہتر نہیں، مگر خدا جانے کیوں وہ اب ان سے نہیں ملنا چاہتی، حالانکہ انھیں کے لیے روتی بھی ہے، کڑھتی بھی ہے۔۔۔‘‘

    ہمسائی نے کہا۔ ’’اماں، اماں۔۔۔‘‘

    بڑی بی بولیں۔ ’’چل چھوکری، میں نے دھوپ میں بال سفید نہیں کیے ہیں۔ اس وقت میری باتوں میں دخل نہ دے۔۔۔‘‘

    میں نے کہا۔ ’’آپ کی صاحبزادی کو میری ذات سے بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ اسی لیے وہ اشرف صاحب سے بھی خفا ہو گئی ہیں۔ میں نے انھیں بیسوا اور قحبہ کہا اور انھیں اپنی عورتوں سے نہ ملنے دیا، وہ اسی پر آزردہ ہیں۔۔۔‘‘

    بڑی بی بولیں۔ ’’تو میاں آپ نے بڑی زیادتی کی، آپ مجھے یہ سب کہہ سکتے تھے مگر اسے نہیں۔ قسم لے لیجیے جو سوائے اشرف میاں کے ۔۔۔‘‘

    میں نے گھبراکر بات کاٹی اور کہا۔ ’’تو میں اسی لیے تو آج معافی مانگنے آپ کے کوٹھے پر آیا ہوں۔۔۔‘‘

    میں یہ کہہ کے ہمسائی کی طرف پلٹ پڑا۔ وہ اس وقت تک بھیا کو کلیجے سے لگائے تھیں، وہ بھی ان کی صورت دیکھ دیکھ کر کھلا جاتا تھا اور بس ایک بات کی رٹ لگائے تھا۔ ’’کھالا گھر چلو! کھالا گھر چلو۔‘‘

    میں نے ہمسائی سے بہت ہی لجاحت سے کہا۔ ’’بی ہمسائی اب خدا کے لیے میرا قصور معاف کر دو، واللہ تم میرے ایسے لاکھ شریفوں سے بہتر ہو! دیکھو بھیا تم سے کس کس طرح گھر چلنے کو کہہ رہا ہے۔ تمہاری بہن سخت انتظار کر رہی ہیں۔ مجھے حکم ہے کہ میں تمہیں لے ہی کے پلٹوں۔ میں خالی ہاتھ واپس نہیں جا سکتا، پھر اپنی اور اشرف صاحب کی زندگی۔ میری غلطیوں کی وجہ سے کیوں برباد کرو؟ تم ہمسائے میں نہیں۔ میرے گھر چلو، تمہاری بہن اپنے ہاتھوں سے تمہیں دلہن بنائیں گی۔ میرے ہی گھر سے تمہاری شادی ہوگی۔ میرے ہی پڑوس میں تم دونوں ہمیشہ رہوگے اور میں زندگی بھر تمہیں اپنی حقیقی سالی اور چھوٹی بہن سمجھوں گا اور تمہاری خدمت کروں گا۔‘‘

    ہمسائی نے میرے طرف تعجب سے دیکھا۔ بھیا نے پھر کہا ’’کھالا گھر چلو۔‘‘ میں نے کہا،

    ’’دیکھو تمہارا بھانجا کیا کہہ رہا ہے۔ اگر میری بات نہیں مانتیں تو اس کی بات مان لو۔‘‘ ہمسائی نے گھبراکے ماں کا منہ دیکھا۔ وہ بولیں ’’بی بی میں تمہاری باتوں میں دخل دینا نہیں چاہتی مگر اتنا کہے بغیر بھی جی نہیں مانتا کہ اشرف میاں کا ساچاہنے والا میاں اور مولوی صاحب کے ایسے شریف ہمسائے رنڈیوں اور کسبیوں کو نصیب نہیں ہوتے!‘‘

    میں نے کہا ’’اشرف صاحب! خاموش کھڑے ہم لوگوں کا منھ کیا دیکھ رہے ہو۔ کسی سے کہہ کے ڈولی منگواؤ۔‘‘ انھوں نے ہمسائی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کی مسکراتی ہوئی آنکھوں پر بھیا نے اپنا پھول سا ہاتھ رکھ دیا۔ وہ اس کی اس شوخی پر کھل کھلاکے ہنس پڑیں۔

    میں نے اشرف صاحب سے پھر کہا۔ ’’ارے یار ڈولی منگواؤ۔ تم اب تک کھڑے منہ دیکھ رہے ہو!‘‘

    بڑی بی نے کہا ’’اے تو یونہی، نہ سر میں کنگھا، نہ بال میں تیل، نہ زیور پہنے، نہ کپڑے بدلے۔

    میں نے کہا۔ ’’ہاں، ہاں یونہی! میرے گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے! اور پھر میں تو بی ہمسائی کا قرض دار بھی ہوں۔‘‘

    بڑی بی نے گھبراکے میرے طرف دیکھا۔ ہمسائی نے جلدی سے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے مجھے کچھ کہنے سے منع کیا اور جلدی سے بولیں ’’تو ڈولی تو منگوائیے۔‘‘

    بھیا نے خوش ہوکے اپنی خالہ کے منہ پر منہ رکھ دیا۔ گویا گلاب پر گلاب رکھا تھا۔ کس کی مجال تھی کہ کہتا ایک نجس ہے، دوسرا طاہر، ایک ناپاک ہے، دوسرا پاک؟ محبت کی شعاعیں دونوں کے چہروں کو نورانی کر رہی تھیں اور دونوں کی آنکھیں روحانی مسرت سے چمک رہی تھیں۔

    میں نے دل میں کہا ’’مولویانہ پن ان پر سے قربان اور قدامت پرستی ان پر سے نچھاور۔

    مأخذ:

    باسی پھول (Pg. 86)

    • مصنف: علی عباس حسینی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے