Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

CANCEL DOWNLOAD SHER

Pakeeza Aurat

Fatima Imran

Pakeeza Aurat

Fatima Imran

MORE BYFatima Imran

    میں ایک نفسیاتی مریض ہوں دو بیویاں رکھ کر بھی فیس بک پر ایسی پاکیزہ(شادہ شدہ بھی ہو سکتی ہیں) عورتوں کی تلاش میں سرگردہ رہتا ہوں جن سے جنسی اور دل کی باتیں کر سکوں۔ مخاطب چاھے صرف سنتی رہے۔اب ایسی مہربان دوست اس زمانے میں کہاں،لیکن میری نادان تلاش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔میری اسی حرکت کی وجہ سے فیس بک پر میری صرف چند دوست باقی رہ گئی ہیں اکثر بلاک اور انفرینڈ کر چکی ۔کون ہے جو میری نادانیوں اور غلطیوں کو مسلسل برداشت کرے؟ایک دو نے مجھ پر رحم ضرور کیا لیکن آخر کب تک؟آپ سے بھی درخواست ہے کہ پہلی فرصت میں مجھے انفرینڈ کریں اور پریشانیوں سے بچ جائیں۔(ہاہاہاہا)۔نوا­زش ہوگی۔اگر انفرینڈ نہیں کیا تو یہ سب برداشت کر سکتی ہو؟؟؟؟؟

    وہ کافی دیر سکرین پر اس میسج کو پڑھتی رہی۔میسج پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں عجیب سی سوچوں نے یلغار کر رکھی تھی۔ کوئی بھی انسان کتنا پچیدہ ہو سکتا ہے اس میسج کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ میسج پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی خیالات اور سوالات نے جنم لیا۔ اسکی نظر لفظ پاکیزہ پر ٹک سی گئی۔ یہ پاکیزہ عورت کا معیار سب کیلئے کتنا الگ ہے۔ بہت سے لوگ اس میسج کا جواب دینے والی عورت کو پاکیزہ کے درجے سے یقیناً گرا دیں گے تو پھر اس آدمی کی پاکیزہ عورت کی شرط کیسے پوری ہو گی؟ اور جنسی باتوں کیلئے پاکیزہ کی ہی شرط کیوں؟ یہ کام تو کوئی بھی عورت کر سکتی ہے۔ کسی بھی انسان کو جب ہر چیز گھر میں میسر ہے تو پھر وہ اسے باہر سے کیوں حاصل کرنا چاہے گا وہ بھی پاکیزہ جیسی کڑی شرائط پر؟ دو بیویاں؟ کیسے ان میں توازن برقرار رکھ پاتا ہو گا؟

    ان تمام خیالات کے ساتھ اس کی انگلیاں مسلسل کی بورڈ پر ٹکی تھیں۔ اس کا کردار بس انگلیوں کی چند حرکات پر منحصر تھا۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ تو تنہا بیٹھی ہے۔ اگر اس کا جواب دے بھی دے گی تو کیا ہوا؟ اسے کون سا کوئی دیکھ رہا ہے جو اسکو کردار کی کسوٹی پر پرکھے گا۔ ایک جواب تو دیا ہی جا سکتاہے۔ ویسے بھی تنہائی بری چیز ہے۔ کاٹے نہیں کٹتی۔ چند لمحے کی شش و پنج کے بعد اس نے میسج کا جواب دے دیا۔ آپ مجھ سے کس قسم کی باتیں کرنا چاہتے ہیں؟

    میسج بھیج کر اسکا دل دھک سے رہ گیا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی سے ایسی ویسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ نہ ہی کسی نے یوں سیدھا اسے ان باتوں کیلئے آفر کی تھی۔

    میسج بھیجتے ہی فوراً جواب آ گیا یعنی میں اجازت سمجھوں؟

    اجازت؟ نہیں نہیں میں نے آپ کو اجازت نہیں دی۔ میں نے تو بس یہ پوچھا ہے کہ آپ کس قسم کی باتیں کرناچاہتے ہیں؟

    تو یہ ایک طرح سے اجازت ہی تو ہے؟

    مگر یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں

    میں آپ سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ باتیں جو میں اپنی دونوں بیویوں سے بھی نہیں کر سکتا۔کیونکہ مجھے ان کے سامنے ہر حال میں ایک اچھا اور شریف انسان ہونے کا بھرم قائم رکھنا ہے۔ جو پہلے ہی دو دو نکاح کرنے کی وجہ سے ڈانواں ڈول ہے. آپکو میری باتوں کے جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں ۔ بس آپ سنتی رہیں گی تب بھی میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا رہے گا

    ایک ہی منٹ میں تسلسل سے اتنے میسج ہو گئے کہ اسے دھیان ہی نہ رہا۔اس نے گھبرا کر ہاتھ کی بورڈ سے ہٹا لیا۔ وہ ایک پاکیزہ عورت تھی۔اسے کبھی کسی غیر نے چھوا تو کیا دیکھا تک نہیں تھا۔

    کیا ہوا؟ آپ چپ کیوں ہیں؟ اگر برا نہ مانیں تو آپکی تصویر میں نے سیو کر رکھی ہے۔ میں بتاؤں گا نہیں کہ میں اس تصویر کا کیا کرتا ہوں۔ مگر سچ کہوں تو دل ہی دل میں مجھے آپ سے محبت سی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کاش اس تصویر سے نکل کر آپ مجسم وجود ہو جائیں

    میسج پھر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔

    آپ چاہتے کیا ہیں؟

    اس نے صاف صاف پوچھ لیا۔

    سچ کہوں تو آپ کو چھونا اور محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ بات کا بہانہ نکالنا تھا سو نکال لیا۔ آپ نے مجھے اپنے دوستوں کی لسٹ سے فورا باہر نہیں نکال پھینکا لہذا میں سمجھ گیا کہ آپ اجازت دینے میں ہچکچا رہی ہیں مگر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

    افف اس کے ہاتھ کپکپائے۔ جیسے کسی نے اچانک اسکی چوری پکڑ لی ہو۔

    ارے نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں تو بس

    اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا جواب لکھے۔

    اچھا بس اب رہنے دیجیے۔ اور اپنی کوئی تصویر دکھائیے جس میں آپ نے دوپٹہ نہ اوڑھ رکھا ہو۔

    اچانک اس ڈیمانڈ پر وہ سٹپٹا سی گئی۔

    کیا کریں گے اس کا؟

    آہستہ آہستہ وہ بھی جیسے اس چنگل میں پھنس گئی۔

    دیکھوں گاکہ آپ کو بانہوں میں بھرنے کے لیے مجھے بازو کتنے کھولنے پڑیں گے؟

    وہ ہنس پڑی ۔اسے اچھا محسوس ہوا۔

    مجھے بانہوں میں لے کر کیا کریں گے۔ آپ کی دو بیویاں تو پہلے سے ہی موجود ہیں۔

    لیکن ان دونوں کو میری پرواہ کہاں۔ پرواہ تو میری آپ کرتی ہیں۔ جس نے میری باتوں کو اتنے پیار اور دھیان سے سنا۔ ان دونوں کے پاس تو بچوں اور گھر کے کام کاج سے ہی فرصت نہیں ۔ جیسے ہی کسی کو بانہوں میں بھرتا ہوں۔ اسے پہلے کوئی سودا سلف یا بل یاد آ جاتا ہے اور میرا سارا غبار بس حساب کتاب کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں فضا میں اڑنے والا ایک آزاد پنچھی ہوں جسے کوئی پنجرے میں قید نہیں کر سکتا۔

    آزادی۔۔۔ یہی تو وہ بھی محسوس کر رہی تھی۔ ان دونوں کے خیالات کتنے ملتے جلتے تھے۔ اسے اطمینان سا محسوس ہوا۔ اب ڈر کی جگہ اپنائیت نے لے لی تھی۔

    یہ لیجئیے میری تصویر۔

    اس نے ذرا دیر نہ لگائی ۔

    افف آپ کتنی کمال کیعورت ہیں۔بالکل ایسے جیسے فلم اداکارہ صائمہ۔ آپ کو پتہ ہے وہ میری پسندیدہ ہیروئین ہے.نوجوانی میں جب بھی اسکی فلم دیکھتا تھا دل چاہتا تھا کہ اسے دبوچ لوں۔ یہی حال آپ کی تصویر دیکھ کر ہو رہا ہے۔ کاش میں آپ سے مل سکتا

    باہر ملنا تو مشکل ہے۔ مگر اس انٹرنیٹ کی دنیا پر تو ہم مل ہی سکتے۔ بلکہ مل رہے ہیں۔

    لیکن آپ کو بانہوں میں بھر کر آپ کی گداز نرمیاں اپنے اندر بھرنے اور ہاتھوں سے ماپنے کی خواہش تو ادھوری ہی رہے گی نا۔

    اس نے میسج بھیجا تو وہ پڑھ کر شرما سی گئی۔

    اس کے بعد اسکا اپنے جذبات اور احساسات پر کنٹرول نہ رہا اور وہ دونوں باتوں کے سمندر میں بہتے ہی چلے گئے۔ نہیں نہیں صرف باتوں نہیں بلکہ جنسی باتوں کا سمندر کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

    ---- ----- ------

    اگلے ہی دن وہ سرشاری کی کیفیت میں پھر انٹرنیٹ پر آن موجود ہوئی۔ اسکے بدن میں سنسناہٹ سی ہو رہی تھی۔

    لیکن دوسری طرف سے کوئی میسج نہیں تھا۔ اس نے فورا لکھ بھیجا اسلام علیکم

    مگر جواب ندارد۔ دو چار میسجز کے بعد بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ تو وہ سٹپٹا سی گئی۔

    کیا ہوا؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے یا آپ کو کچھ برا لگا ہے

    آپ جواب نہیں دے رہے۔ کیا مجھ سے کوئی خطا ہو گئی یے؟

    بتائیں نا۔ کیا ہوا ہے۔ چپ کیوں ہیں آج۔

    اس نے کئی میسجز کیے۔ مگر دیکھے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں آیا۔

    اس نے پھر سے کل کی گئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر ایک سحر، ایک نشہ اور پھر ایک جھنجھلاہٹ سی طاری ہو گئی۔

    آپ بات نہیں کرنا چاہتے کیا؟ تو پھر کل کیوں کی تھی؟

    اس کی جھنجھلاہٹ اس کے میسج سے صاف عیاں تھی۔

    تبھی اس نے دیکھا کہ اسے مزید میسج بھیجنے سے بلاک کر دیا گیا ہے۔

    میں ایک نفسیاتی مریض ہوں دو بیویاں رکھ کر بھی فیس بک پر ایسی پاکیزہ(شادہ شدہ بھی ہو سکتی ہیں) عورتوں کی تلاش میں سرگردہ رہتا ہوں جن سے جنسی اور دل کی باتیں کر سکوں۔ مخاطب چاھے صرف سنتی رہے۔اب ایسی مہربان دوست اس زمانے میں کہاں،لیکن میری نادان تلاش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔میری اسی حرکت کی وجہ سے فیس بک پر میری صرف چند دوست باقی رہ گئی ہیں اکثر بلاک اور انفرینڈ کر چکی ۔کون ہے جو میری نادانیوں اور غلطیوں کو مسلسل برداشت کرے؟ایک دو نے مجھ پر رحم ضرور کیا لیکن آخر کب تک؟آپ سے بھی درخواست ہے کہ پہلی فرصت میں مجھے انفرینڈ کریں اور پریشانیوں سے بچ جائیں۔(ہاہاہاہا)۔نوا­زش ہوگی۔اگر انفرینڈ نہیں کیا تو یہ سب برداشت کر سکتی ہو؟؟؟؟؟

    وہ کافی دیر سکرین پر اس میسج کو پڑھتی رہی۔میسج پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں عجیب سی سوچوں نے یلغار کر رکھی تھی۔ کوئی بھی انسان کتنا پچیدہ ہو سکتا ہے اس میسج کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ میسج پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی خیالات اور سوالات نے جنم لیا۔ اسکی نظر لفظ پاکیزہ پر ٹک سی گئی۔ یہ پاکیزہ عورت کا معیار سب کیلئے کتنا الگ ہے۔ بہت سے لوگ اس میسج کا جواب دینے والی عورت کو پاکیزہ کے درجے سے یقیناً گرا دیں گے تو پھر اس آدمی کی پاکیزہ عورت کی شرط کیسے پوری ہو گی؟ اور جنسی باتوں کیلئے پاکیزہ کی ہی شرط کیوں؟ یہ کام تو کوئی بھی عورت کر سکتی ہے۔ کسی بھی انسان کو جب ہر چیز گھر میں میسر ہے تو پھر وہ اسے باہر سے کیوں حاصل کرنا چاہے گا وہ بھی پاکیزہ جیسی کڑی شرائط پر؟ دو بیویاں؟ کیسے ان میں توازن برقرار رکھ پاتا ہو گا؟

    ان تمام خیالات کے ساتھ اس کی انگلیاں مسلسل کی بورڈ پر ٹکی تھیں۔ اس کا کردار بس انگلیوں کی چند حرکات پر منحصر تھا۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ تو تنہا بیٹھی ہے۔ اگر اس کا جواب دے بھی دے گی تو کیا ہوا؟ اسے کون سا کوئی دیکھ رہا ہے جو اسکو کردار کی کسوٹی پر پرکھے گا۔ ایک جواب تو دیا ہی جا سکتاہے۔ ویسے بھی تنہائی بری چیز ہے۔ کاٹے نہیں کٹتی۔ چند لمحے کی شش و پنج کے بعد اس نے میسج کا جواب دے دیا۔ آپ مجھ سے کس قسم کی باتیں کرنا چاہتے ہیں؟

    میسج بھیج کر اسکا دل دھک سے رہ گیا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی سے ایسی ویسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ نہ ہی کسی نے یوں سیدھا اسے ان باتوں کیلئے آفر کی تھی۔

    میسج بھیجتے ہی فوراً جواب آ گیا یعنی میں اجازت سمجھوں؟

    اجازت؟ نہیں نہیں میں نے آپ کو اجازت نہیں دی۔ میں نے تو بس یہ پوچھا ہے کہ آپ کس قسم کی باتیں کرناچاہتے ہیں؟

    تو یہ ایک طرح سے اجازت ہی تو ہے؟

    مگر یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں

    میں آپ سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ باتیں جو میں اپنی دونوں بیویوں سے بھی نہیں کر سکتا۔کیونکہ مجھے ان کے سامنے ہر حال میں ایک اچھا اور شریف انسان ہونے کا بھرم قائم رکھنا ہے۔ جو پہلے ہی دو دو نکاح کرنے کی وجہ سے ڈانواں ڈول ہے. آپکو میری باتوں کے جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں ۔ بس آپ سنتی رہیں گی تب بھی میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا رہے گا

    ایک ہی منٹ میں تسلسل سے اتنے میسج ہو گئے کہ اسے دھیان ہی نہ رہا۔اس نے گھبرا کر ہاتھ کی بورڈ سے ہٹا لیا۔ وہ ایک پاکیزہ عورت تھی۔اسے کبھی کسی غیر نے چھوا تو کیا دیکھا تک نہیں تھا۔

    کیا ہوا؟ آپ چپ کیوں ہیں؟ اگر برا نہ مانیں تو آپکی تصویر میں نے سیو کر رکھی ہے۔ میں بتاؤں گا نہیں کہ میں اس تصویر کا کیا کرتا ہوں۔ مگر سچ کہوں تو دل ہی دل میں مجھے آپ سے محبت سی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کاش اس تصویر سے نکل کر آپ مجسم وجود ہو جائیں

    میسج پھر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔

    آپ چاہتے کیا ہیں؟

    اس نے صاف صاف پوچھ لیا۔

    سچ کہوں تو آپ کو چھونا اور محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ بات کا بہانہ نکالنا تھا سو نکال لیا۔ آپ نے مجھے اپنے دوستوں کی لسٹ سے فورا باہر نہیں نکال پھینکا لہذا میں سمجھ گیا کہ آپ اجازت دینے میں ہچکچا رہی ہیں مگر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

    افف اس کے ہاتھ کپکپائے۔ جیسے کسی نے اچانک اسکی چوری پکڑ لی ہو۔

    ارے نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں تو بس

    اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا جواب لکھے۔

    اچھا بس اب رہنے دیجیے۔ اور اپنی کوئی تصویر دکھائیے جس میں آپ نے دوپٹہ نہ اوڑھ رکھا ہو۔

    اچانک اس ڈیمانڈ پر وہ سٹپٹا سی گئی۔

    کیا کریں گے اس کا؟

    آہستہ آہستہ وہ بھی جیسے اس چنگل میں پھنس گئی۔

    دیکھوں گاکہ آپ کو بانہوں میں بھرنے کے لیے مجھے بازو کتنے کھولنے پڑیں گے؟

    وہ ہنس پڑی ۔اسے اچھا محسوس ہوا۔

    مجھے بانہوں میں لے کر کیا کریں گے۔ آپ کی دو بیویاں تو پہلے سے ہی موجود ہیں۔

    لیکن ان دونوں کو میری پرواہ کہاں۔ پرواہ تو میری آپ کرتی ہیں۔ جس نے میری باتوں کو اتنے پیار اور دھیان سے سنا۔ ان دونوں کے پاس تو بچوں اور گھر کے کام کاج سے ہی فرصت نہیں ۔ جیسے ہی کسی کو بانہوں میں بھرتا ہوں۔ اسے پہلے کوئی سودا سلف یا بل یاد آ جاتا ہے اور میرا سارا غبار بس حساب کتاب کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں فضا میں اڑنے والا ایک آزاد پنچھی ہوں جسے کوئی پنجرے میں قید نہیں کر سکتا۔

    آزادی۔۔۔ یہی تو وہ بھی محسوس کر رہی تھی۔ ان دونوں کے خیالات کتنے ملتے جلتے تھے۔ اسے اطمینان سا محسوس ہوا۔ اب ڈر کی جگہ اپنائیت نے لے لی تھی۔

    یہ لیجئیے میری تصویر۔

    اس نے ذرا دیر نہ لگائی ۔

    افف آپ کتنی کمال کیعورت ہیں۔بالکل ایسے جیسے فلم اداکارہ صائمہ۔ آپ کو پتہ ہے وہ میری پسندیدہ ہیروئین ہے.نوجوانی میں جب بھی اسکی فلم دیکھتا تھا دل چاہتا تھا کہ اسے دبوچ لوں۔ یہی حال آپ کی تصویر دیکھ کر ہو رہا ہے۔ کاش میں آپ سے مل سکتا

    باہر ملنا تو مشکل ہے۔ مگر اس انٹرنیٹ کی دنیا پر تو ہم مل ہی سکتے۔ بلکہ مل رہے ہیں۔

    لیکن آپ کو بانہوں میں بھر کر آپ کی گداز نرمیاں اپنے اندر بھرنے اور ہاتھوں سے ماپنے کی خواہش تو ادھوری ہی رہے گی نا۔

    اس نے میسج بھیجا تو وہ پڑھ کر شرما سی گئی۔

    اس کے بعد اسکا اپنے جذبات اور احساسات پر کنٹرول نہ رہا اور وہ دونوں باتوں کے سمندر میں بہتے ہی چلے گئے۔ نہیں نہیں صرف باتوں نہیں بلکہ جنسی باتوں کا سمندر کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

    ---- ----- ------

    اگلے ہی دن وہ سرشاری کی کیفیت میں پھر انٹرنیٹ پر آن موجود ہوئی۔ اسکے بدن میں سنسناہٹ سی ہو رہی تھی۔

    لیکن دوسری طرف سے کوئی میسج نہیں تھا۔ اس نے فورا لکھ بھیجا اسلام علیکم

    مگر جواب ندارد۔ دو چار میسجز کے بعد بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ تو وہ سٹپٹا سی گئی۔

    کیا ہوا؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے یا آپ کو کچھ برا لگا ہے

    آپ جواب نہیں دے رہے۔ کیا مجھ سے کوئی خطا ہو گئی یے؟

    بتائیں نا۔ کیا ہوا ہے۔ چپ کیوں ہیں آج۔

    اس نے کئی میسجز کیے۔ مگر دیکھے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں آیا۔

    اس نے پھر سے کل کی گئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر ایک سحر، ایک نشہ اور پھر ایک جھنجھلاہٹ سی طاری ہو گئی۔

    آپ بات نہیں کرنا چاہتے کیا؟ تو پھر کل کیوں کی تھی؟

    اس کی جھنجھلاہٹ اس کے میسج سے صاف عیاں تھی۔

    تبھی اس نے دیکھا کہ اسے مزید میسج بھیجنے سے بلاک کر دیا گیا ہے۔

    0
    COMMENTS
    VIEW COMMENTS

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    Speak Now