Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پارکنگ ایریا

غضنفر

پارکنگ ایریا

غضنفر

MORE BYغضنفر

    محلے میں پہنچ گیا تھا مگر اسے خالہ کا مکان نہیں مل رہا تھا۔

    چار پانچ سال پہلے جب وہ بٹلہ ہاؤس آیا تھا تو گھر آسانی سے مل گیا تھا۔ خالونے اسے بس اتنا بتایا تھا کہ مکان مسجد کے پاس ہے اور آنگن میں اشوک کا ایک پیڑ کھڑا ہے۔

    مسجد کے پاس پہنچ کر آنگن میں پیڑ والا مکان وہ چاروں طرف ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر اس علاقے میں کوئی بھی ایسا مکان نظر نہیں آ رہا تھا جس کے آنگن میں پیڑہو۔ پیڑ کیا، وہاں تو اسے کوئی آنگن بھی دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔

    اسے پریشان دیکھ کر ایک بزرگ شخص جو کرتا پاجامامہ اور ٹوپی پہنے ایک عمارت کے گیٹ کے پاس لوہے کی کرسی ڈالے بیٹھے تھے، اسے مخاطب کر کے بولے

    ’’صاحبزادے آپ کو کس کے گھر جانا ہے؟‘‘

    ’’خلیل اللہ صاحب انجینئر کے یہاں۔‘‘ اس نے انجینئرپر زور دے کر جواب دیا۔

    ’’وہی خلیل اللہ نا جو ایم۔سی۔ ڈی۔ میں ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں، وہی۔‘‘ اسے کچھ اطمینان سا محسوس ہوا۔

    ’’آپ تو ان کے فلیٹ کے سامنے ہی کھڑے ہیں ۔اس بلڈنگ کی دوسری منزل کا داہنی جانب والا فلیٹ انھی کا ہے۔‘‘

    ’’یہ ہے ان کا مکان؟ پہلے تو یہ ایک منزلہ مکان تھا اور اس کے آنگن میں اشوک کا ایک پیڑ کھڑا تھا۔ میں تو اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے اس عمارت کو گھورنے لگیں۔

    ’’میاں! اس مکان کو فلیٹ میں تبدیل ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا۔ لگتا ہے آپ کافی دنوں بعد ادھر تشریف لائے ہیں۔‘‘

    ’’جی، میں کوئی چارپانچ سال بعد آیا ہوں۔‘‘

    ’’چار پانچ سال! یہاں تو روز کچھ نہ کچھ بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘ اس کی نگاہیں ایک لمحے میں چاروں طرف دوڑ گئیں ۔محلے کے بدلاؤ کا نقشہ اور بھی نمایاں ہو گیا۔

    ’’چچا میاں! کون سی منزل پر بتلایا تھا؟‘‘ آس پاس میں ہوئی غیرمعمولی تبدیلی اور حیرت و استعجاب کی شدت نے اس کے دماغ میں ایسی اتھل پتھل مچا دی تھی کہ کچھ دیر پہلے کی سنی ہوئی بات بھی ذہن کے پردے سے محو ہو گئی تھی۔

    ’’دوسری منزل پر دا ہنی جانب والا فلیٹ۔‘‘

    ’’شکریہ! ‘‘وہ سامنے والی عمارت کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے داہنی طرف والی کال بیل کا بٹن دبا دیا۔

    کوئی آٹھ دس منٹ بعد دروازہ کھلا۔ وہ بھی آدھا۔ ادھ کھلے دروازے کی اوٹ سے ایک لڑکی بولی۔

    ’’کس سے ملنا ہے؟‘‘

    ’’جی، خلیل اللہ صاحب سے۔‘‘

    ’’وہ تو ابھی آفس سے نہیں آئے ہیں۔ شام کے وقت پہنچتے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ لڑکی دروازہ بند کرنے لگی۔

    ’’سنیے تو۔۔۔‘‘ اس نے روکا۔

    ’’جی، کہیے۔‘‘ لڑکی کے لہجے میں کسی قدر سختی در آئی تھی۔

    ’’خالہ، مرامطلب ہے ان کی بیگم صاحبہ ہیں؟‘‘

    ’’ہیں تو مگر وہ لیٹی ہوئی ہیں۔ شام میں آئیےگا۔‘‘

    ’’دیکھیے۔ میں دیوریا سے آیاہوں اور میرا نام اشف۔۔۔‘‘ قبل اس کے کہ وہ اپنا پورا نام بتاتا دروازہ بند ہو گیا۔

    اسے ایک دھکا سا لگا۔ وہ نیچے سے اوپر تک ہل گیا۔ ایسا محسوس ہو اجیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کچھ ہوگا۔ بلکہ اس کے ذہن میں تو کچھ اور ہی نقشہ تھا۔ بٹوخالہ کے گھر والا تازہ تازہ رسپشن بسا ہوا تھا۔ بٹوخالہ اور خلیل اللہ خالو کی بیوی شبو خالہ دونوں سگی بہنیں تھیں۔ بٹوخالہ ضلع دیوریا کے ایک قصبہ زیرا دیئی میں بیاہی گئی تھیں۔ کچھ دنوں پہلے اسے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ دستک دیتے ہی بچے باہر آکر اس سے لپٹ گئے تھے۔ وہ ایک دن کے لیے گیا تھا مگر خالہ اور بچوں نے ضد کر کے اسے کئی دنوں تک روک لیا تھا۔ بار بار اسے اپنا قصبہ بھی یاد آ رہا تھا جہاں پہلی دستک میں دروازہ کھل جاتا ہے اور پٹوں کے کھلتے ہی آنے والے کو اندرآنے کے لیے کہا جاتا ہے اور بنا کچھ پوچھ تاچھ کے پانی پیش کر دیا جاتاہے اور پھر۔۔۔ کچھ دیر تک وہ اس لو ہے کے بند دروازے کو دیکھتا رہا اور اپنے قصبے اور بٹو خالہ کے گھر کو یاد کرتا رہا۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ زینے سے اتر کر سیدھے اسٹیشن چلا جائے مگر خالو سے ملنا ضروری تھا۔ جی کڑا کر کے وہ دکھی من اور بوجھل پیروں سے نیچے اتر آیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟ وقت کس طرح بتائے؟ شام ہونے میں ابھی ایک سوا گھنٹہ باقی تھا۔گیٹ سے نکل کر وہ سڑک پر پہنچا ہی تھا کہ اس بزرگ شخص کی آواز جس نے خالو کے مکان کا پتا بتلایا تھا، کانوں سے آٹکرائی۔

    کیا بات ہے؟ آپ بہت جلدی واپس آ گئے۔‘‘

    ’’جی دروازہ بند ہے۔‘‘

    ’’آپ نے کھٹکھٹایا نہیں؟‘‘

    ’’کھٹکھٹایا تھا۔ شاید گھر والے گہری نیند سو رہے ہیں۔‘‘

    ’’کمال ہے! اس وقت تک سو رہے ہیں؟‘‘بزرگ شخص نے اس کی طرف اس طرح دیکھا جیسے انھوں نے اس کا جھوٹ پکڑ لیا ہو۔ کھٹاک کی آواز دوبارہ اس کے ذہن میں گونج پڑی۔

    قدرے توقف کے بعد اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بزرگ بولے

    ’’تو کیا آپ لوٹ جائیں گے؟‘‘

    ’’نہیں، خالو سے ملنا ضروری ہے۔اس لیے انتظار کروں گا۔‘‘

    ’’آئیے ،میرے پاس بیٹھ جائیے ۔آپ کے ساتھ کچھ میرا بھی وقت کٹ جائےگا؟‘‘

    آگے بڑھ کر وہ ایک اور کرسی اٹھا لائے۔

    ’’خلیل صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘اس کی طرف کرسی بڑھاتے ہوئے بولے

    ’’میں ان کی بیوی کی ممیری بہن کا بیٹا ہوں۔میرا مطلب ہے خلیل صاحب میرے خالو لگتے ہیں‘‘

    ’’اچھا ہوا کہ آپ نے دوسرا جملہ بھی بول دیا ورنہ اس طرح کے درمیانی حوالے اکثر راستے کی دیوار بن جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو منزل۔۔۔۔ خیر چھوڑیے، یہ بتائیے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟کہاں کے رہنے والے ہیں اور یہاں کیوں کر آنا ہوا ہے؟‘‘

    ’’ایک ساتھ تین تین سوال؟ اسے کچھ عجیب سا لگا۔ پھر یہ سوچ کر کہ وقت گزارنے کے لیے یہ سوال برے نہیں ہیں۔ اس نے جواب دینا شروع کر دیا۔

    ’’میں ضلع دیوریا کے پاس کے ایک قصبے کا رہنے والا ہوں۔ ابھی ابھی ایم۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا ہے۔ رزلٹ نکلنے ہی والا ہے۔ جامعہ سے رسرچ کرنے کا اردہ ہے، اسی سلسلے میں یہاں آنا ہو ا ہے۔ خلیل اللہ خالو سے رہائش وغیرہ کے متعلق بھی کچھ بات کرنی ہے اور ابو کا ایک خط بھی ان تک پہنچا نا ہے،لہٰذا ان کا انتظار کرنا ضروری ہے،‘‘

    ’’ہاں، تب تو انتظار کرنا ہی پڑےگا، جامعہ میں تو ہاسٹل کی قلّت ہے، اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کو باہر رہنا پڑے۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں، گھر سے جب نکلنا ہے تو ہاسٹل کیا اور باہر کیا۔البتہ ایک بات کی خوشی ضرور ہے کہ یہاں خالو کا گھر ہے تو کبھی کبھار گھر کا مزا بھی مل جایا کرےگا۔ چچا میاں کیا آپ یہیں رہتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، میں اسی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتا ہوں، میرا فلیٹ کافی اوپر ہے۔ اترنے چڑھنے میں سانس پھول جاتی ہے، اس لیے بار بار اوپر نہیں جاتا۔ یہاں وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کے گھر میں اور کوئی نہیں ہے کیا؟‘‘

    ’’ہے کیوں نہیں؟ ماشااللہ دو دو بیٹے ہیں۔ بہوئیں ہیں۔ پوتے پوتیاں ہیں۔‘‘

    ’’تو ماشاء اللہ بھرا پورا گھر ہے۔ مکان آپ کا اپنا ہے یا کر ائے پر لیا ہے؟‘‘

    ’’ہے تو اپنا ہی مگر مکان نہیں ،فلیٹ ہے۔‘‘

    ’’مکان اور فلیٹ میں کوئی فرق ہے کیا؟ میں تو دونوں کو ایک ہی سمجھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’آپ دہلی میں نہیں رہتے نا، اس لیے ایسا سمجھ رہے ہیں۔ اگر دہلی یا کسی اور بڑے شہر میں رہ رہے ہوتے تو آپ کو مکان اور فلیٹ کا فرق ضرور معلوم ہوتا۔‘‘

    ’’کیا فرق ہے؟‘‘فرق جاننے کا اس میں تجسّس پیدا ہوا۔

    ’’مکان اسے کہتے ہیں جس کی زمین اورچھت دونوں اپنی ہوتی ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہوتا اور فلیٹ میں نہ فرش اپنا ہوتا ہے نہ ہی چھت اپنی ہوتی ہے۔ بس دونوں کے درمیانی حصّے پر مالکانہ اختیار یا قبضہ ہوتا ہے۔

    ’’پھر تو واقعی دونوں میں کافی فرق ہے۔‘‘

    ’’ایک فرق اور ہے میاں۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’فلیٹ تو مل جاتا ہے مگر مکان ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا اور اب تودلی کا یہ حال ہے کہ یہاں مکان کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھتا اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ مکان رکھنے کے لیے قلب و ذہن میں کشادگی ضروری ہے جو بد قسمتی سے رخصت ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’کوئی ایک وجہ ہو تو بتاؤں۔‘‘

    ’’پھر بھی، ایک آدھ تو بتاہی دیجیے۔‘‘

    ’’ایک تو یہی ہے کہ ادھر ادھر کا دباؤ ہمارے دل و دماغ کو اپنے شکنجوں میں کستا جا رہا ہے۔دوسری یہ کہ ہم الگ تھلگ رہنے کے عادی بنتے جارہے ہیں اور ایک یہ بھی کہ فطری آب و ہوا کے بجائے ہمیں کو لر اور اے۔سی کی ہوا زیادہ بھانے لگی ہے۔‘‘

    جس شخص کو تھوڑی دیر پہلے وہ چوکیدار یا چوکیدار جیسا آدمی سمجھ رہا تھا ،وہ اچھا خاصا دانشور لگنے لگا تھا۔ اس کی باتیں سن کر وہ اپنے اس دباؤ کو بھولتا جا رہا تھا جو خالو کے فلیٹ کے پٹوں کے’’ کھٹا ک‘‘ سے اس کے دل و دماغ پر طاری ہو گیا تھا۔ اس میں اب اس کی دلچسپی بڑھنے لگی تھی ۔اس نے اس بزرگ کے سراپے کا جائزہ لینا شروع کیا تو آنکھوں میں بہت سے سائے لہرانے لگے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان کے چہرے کے پیچھے کوئی اور بھی چہرہ چھپا ہوا ہے۔

    ’’چچا میاں! آپ نے اپنے مشغلے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ اس نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میاں آپ نے پوچھا ہی کب کہ بتاتا۔ اب جبکہ آپ کی دلچسپی میری جانب بڑھی ہے تو بتاتا ہوں کہ میں جامعہ میں درس وتدریس سے منسلک تھا۔ پینتس سال تک خدمت انجام دینے کے بعد اب سبکدوشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘

    ’’ آپ سے ایک ایسا سوال بھی کرنے کو جی چاہ رہا ہے جو خود مجھے بھی اٹ پٹا لگ رہا ہے۔ اگر آپ برانہ مانیں تو پوچھوں ؟‘‘

    ’’ضرور پوچھیے۔ میں بالکل برانہیں مانوں گا۔ آپ کے اس طرح کے سوال کے لیے میرا ذہن پہلے سے تیار بھی ہے کہ آپ کی نظریں آلریڈی اس کا اشارہ مجھے دے چکی ہیں۔‘‘

    ’’آپ اس پارکنگ ایریا میں اپنا زیادہ وقت صرف اس لیے بتاتے ہیں کہ آپ کو اوپر چڑھنے اترنے میں پریشانی ہوتی ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے؟

    یہ سوال سن کر اس بزرگ نے اپنی آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کر دیں جیسے اس نے اس کی اصل وجہ جان لی ہو۔ کچھ دیر تک وہ اسے گھور تے رہے، پھر بولے۔

    ’’صاحب زادے! آپ کافی ذہین معلوم ہوتے ہیں اور قیافہ شناس بھی۔ اس لیے اب آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا اور بولوں گا بھی تو آپ یقیناً اس جھوٹ میں چھپے سچ کو جان لیں گے۔ سچ یہ ہے برخوردار کہ تنگی نے مجھے فلیٹ سے اتار کر اس پارکنگ میں پہنچا دیا ہے۔ اگر دیر تک میں اوپر کمرے میں رہتا ہوں تو میرے پوتے پوتیوں کی پڑھائی اور ان کی پرائیویسی دونوں متاثر ہوتی ہیں اور میں نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتا ہوں۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں جو کہنے کے لیے تو مرا کمرہ ہے مگر وہ ڈرانگ روم بھی ہے اور اسٹڈی روم بھی، بہت کم جاتا ہوں اور اس وقت جاتا ہوں جب میرا وہاں جانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور زیادہ وقت یہاں بتاتا ہوں۔ مانا کہ یہاں صفائی کم ہے۔ آس پاس میں کوڑا کباڑ بھی پڑا ہوا ہے جس کی طرف آپ کی نظریں بار بار چلی جارہی ہیں، پھر بھی یہاں دم نہیں گھٹتا بلکہ کھلا پن محسوس ہوتا ہے اور اوپر کے مقابلے میں یہاں بیٹھنا بھی اچھا لگتا ہے کہ آتے جاتے کچھ لوگوں سے سلام دعا بھی ہوجاتی ہے۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ ایک دم سے خاموش ہو گئے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان کی آنکھوں میں کچھ اتر آیا ہو۔

    اسے اس کے دادا یاد آگئے۔ ان کی بیٹھک میں دن بھر محلے کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور رات میں گھر کے بچے انھیں گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دیر تک کہانی سننے اور سنانے کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ بیچ بیچ میں مونگ پھلی اور چائے وغیرہ کا دور بھی چلتا رہتا ہے۔

    ’’چچا میاں آپ کہاں کھو گئے؟‘‘ اس نے بزرگ کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی اس کے سوال پر وہ ایک لمبی سانس لے کر بولے۔

    ’’میاں! کبھی ہمارے پاس بھی اپنا مکان تھا۔ یہ پوری زمین ہماری تھی۔ گھر کے تمام افراد کے پاس ان کے اپنے کمرے تھے۔ بلکہ ایک آدھ کمرے ضرورت سے زیادہ بھی تھے۔

    ’’پھر آپ نے اسے فلیٹ میں کیوں بدل دیا؟‘‘ اس کا تحسّس بڑھنے لگا

    ’’میں نے نہیں بدلا۔ یہ کام میرے بیٹوں نے کیا۔ انھوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اسے کسی بلڈر کو سونپ دوں کہ وہ اس زمین کی اچھی قیمت کے ساتھ ساتھ مفت میں ہمیں ایک فلیٹ بھی دےگا۔ انھوں نے مجھے اس طرح بھی سمجھا یا کہ یہ کام سبھی کر رہے ہیں۔ کوئی اکیلامیں نہیں کروں گا اور کچھ ایسی ضرورتیں بھی میرے سامنے رکھ دیں کہ اپنے دل و دماغ کے دباؤ کے باجود میں نا نہ کہہ سکا۔ اس طرح ہمارا مکان جو کافی کشادہ تھا دو کمروں کے فلیٹ میں تبدیل ہو گیا۔

    ’’دیر تک آپ کا یہاں رہنا آپ کے بچوں کو کیا اٹ پٹا نہیں لگتا؟‘‘

    ’’پتا نہیں، ویسے کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ وہ اور ان کے بچے مجھ سے پوچھیں کہ میں یہاں کیوں پڑا رہتا ہوں مگر آج تک کسی نے بھی یہ سوال مجھ سے نہیں کیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میری بیوی یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی یہاں سے رخصت ہوگئیں، ورنہ پتا نہیں ان بیچاری کا کیا حال ہوتا؟ ‘‘

    ان کی آواز بند ہو گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔یہ آنسو بیوی کی جدائی کے غم کے تھے یا بچوں کی بے اعتنائی کے یا اس کی کوئی اور وجہ تھی ٹھیک سے مجھ پر واضح نہ ہو سکا۔

    کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد میری طرف دیکھتے ہوئے انھوں نے پھر بولنا شروع کیا’’ بعد میں جب میں نے اپنے بیٹوں سے تنگی کی شکایت کی تو انھوں نے میرے سامنے ایک نئی منطق رکھ دی۔

    ’’وہ کیا منطق تھی؟‘‘

    ’’میں نے جب ان سے کہا کہ دوسو گز کا مکان اب 100 گز میں سمٹ کر رہ گیا ہے تو بولے۔

    ’’ابا ہماری زمین تنگ نہیں ہوئی ہے بلکہ اور کشادہ ہو گئی ہے۔ پہلے اس کا رقبہ صرف دوسو گز یعنی اٹھارہ سو اسکوائرفٹ تھا۔ اب وہ رقبہ دوسو گز سے بڑھ کر ہزار گز یعنی اٹھارہ ہزار اسکوائرفٹ ہو گیا ہے۔پہلے اس جگہ صرف ہمارا یعنی ایک کنبہ رہتا تھا، اب کئی خاندان آباد ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’ان کی منطق سن کر میرے منہ سے تو کچھ نہیں نکلا البتہ میری آنکھیں ان کی طرف مرکوز ہو گئیں۔ دھیرے دھیرے ان کے دیدوں میں اس منظق کا کھوکھلا پن سمٹ آیا تھا اور ان کی پلکیں کسی بوجھ سے جھکتی چلی گئی تھیں۔‘‘

    ’’چچا میاں! چاہے ان کی نیت صاف نہ رہی ہو مگر یہ منطق کوئی غلط تو نہیں لگتی؟‘‘

    ’’منطق صحیح بھی ہو تب بھی اس سے تنگی تو دور نہیں ہو جاتی ۔ہاں کسی کو بسانے کا احساس ضرور کچھ خوشی دے سکتا ہے مگر اس طرح کی خوشی ایسے میں کب تک قائم رہ سکتی ہے جب کہ دُکھ کا شکنجہ روز بہ روز جسم و جان کو کستا جا رہا ہو۔ میاں سچ تو یہی ہے کہ ہماری زمین ہم پر تنگ ہو گئی۔ ہماری گھٹن برھ گئی۔ ایک ہماری ہی کیا، یہاں جتنے لوگ رہتے ہیں زیادہ تراس گھٹن اور تنگی کے شکار ہیں۔ آدھے فلیٹس تو ایسے ہیں جہاں سورج کی روشنی پہنچتی ہی نہیں۔ ہوا کا گزر بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ کچھ کمروں میں تو بالکنی تک نہیں ہے اور جن کمروں میں ہے بھی تو وہ اتنی تنگ اور پتلی ہے کہ اس میں ٹھیک سے لوہے کی ایک فولڈنگ کرسی بھی نہیں پڑپاتی۔ برسات میں کپڑے آئرن سے سکھانے پڑتے ہیں اور بجلی اتنی پھنکتی ہے کہ اللہ کی پناہ! اکثر بالکنیوں سے بجلی کے موٹے موٹے تار چپک کر گزرتے ہیں جن کا خوف کسی سانپ کے خوف کی طرح ہر وقت سروں پر مسلط رہتا ہے۔ پتا نہیں ان میں سے کوئی کب پھنکار مار دے اور ہم میں سے کوئی پیلا پڑ جائے۔‘‘

    ’’چچا میاں! آخر اس علاقے کو یہاں کے لوگوں نے اتنا گنجان کیوں بنا دیا؟ کسی نے دباؤ تو ڈالا نہیں ہوگا کہ آپ اپنی کشادہ زمینوں کو اپنے اوپر قبر کی طرح تنگ کر لیں؟

    ’’میاں! جب میں اس کرب سے دوچار ہوا تو اس مسئلے پر بہت سوچا۔یہ سوال جو ابھی آپ نے مجھ سے کیا ہے میرے ذہن میں بھی ابھرا اور بار بار ابھرا اور اس کا جواب مجھے یہ ملا کہ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ کسی نے فورس کیا ہو یا دباؤ ڈالا ہو لیکن جو لوگ اس علاقے میں رہتے ہیں یا رہنا پسند کرتے ہیں ان پر اور اپنی زمینی حقیقت پر غور کیا جائے تو کوئی نہ کوئی دباؤ بھی ضرور نظر آ جائےگا۔‘‘

    ’’آپ کو تو وہ دباؤ نظر آیا ہوگا؟‘‘

    ’’ہاں ، آیا تو ہے؟

    ’’تو اس پر کچھ روشنی ڈالیے نا۔‘‘

    ’’میاں!آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہوگی ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ۔یعنی جتنی چادر ہو پاؤں اتنا ہی پھیلانا چاہیے، ادھر جو لوگ رہتے ہیں یا رہنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں اس حقیقت کا احساس ہے کہ ان کے پاس جو چادر ہے وہ چھوٹی ہے۔اتنی چھوٹی کہ پورے پاؤں پھیلا نہیں سکتے ۔نتیجتاً انھیں اپنے پیروں کو موڑ کر یا سکوڑ کر رکھنا پڑتا ہے۔پیروں کو موڑنے میں گھٹنے اور ناک تو ٹکرائیں گے ہی اور جب یہ صورت حال پیدا ہوگی تو گھٹن تو ہوگی ہی۔پھر یہاں کی تنگی نے مزید تنگی پیدا کر دی ہے۔‘‘

    ’’اس کا مطلب کیا ہوا، چچا میاں؟‘‘

    ’’مطلب یہ ہے میاں کہ کم زمین ہونے کے سبب ہر آدمی اپنی زمین کو دائیں بائیں سے کچھ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ہوڑ میں لوگ ایک دوسرے سے سبقت بھی لے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ نتیجے میں روشن دان کھلے ہونے کے باوجود بند رہتے ہیں۔کھڑکیاں بےمصرف ہو جاتی ہیں۔ مکانوں کے چھجے راستوں پر آ جاتے ہیں اور ان چھجوں پر بالکنیاں بن جاتی ہیں اور اس طرح وہ راستہ جو نیچے چوڑا ہوتا ہے اوپر آتے آتے اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ ہوا اور روشنی دونوں کا گلا بھنچ جاتا ہے۔

    تنگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں وہ لوگ بھی اب آنا پسند کرنے لگے ہیں بلکہ اس طرف بھاگنے لگے ہیں جو کشادہ علاقوں میں بسے ہوئے ہیں یا جو ادھر بسنے کی سکت رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں میں ترقی پسند خیال اور سیکولر مزاج والے لو گ بھی شامل ہیں۔‘‘

    ’’ایسے لوگ بھی ؟‘‘

    ’’ہاں ، ایسے لوگ بھی۔دہشت کا گردباد جب لہراتا ہے تو مضبوط سے مضبوط فلسفے کا پیڑ بھی اکھڑ جاتا ہے۔یہاں تک کہ ایمان و یقین کا برگد بھی گر پڑتا ہے۔‘‘

    ’’ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ حالات کو سمجھنے میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔

    ’’اس لیے کہ لوگ اُدھر خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔‘‘

    ’’محفوظ کیوں نہیں سمجھتے؟‘‘

    ’’اس لیے کہ دھمک کہیں بھی ہو، ان کی کھڑ کیاں لرز جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو ایسی لرزتی ہیں کہ ہفتوں دل و دماغ پر لرزہ طاری رہتا ہے۔

    ’’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

    ’’اس کیوں کو جاننے کے لیے یہاں کی تاریخ اور جغرافیہ میں دور تک جانا ہوگا اور کئی سو سالہ تہذیب و معاشرت کے سردو گرم کو سمجھنا ہوگا۔ یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا جواب جاننے میں ذہن جھلسنے اور دل بیٹھنے لگتا ہے ۔اس کا جواب ایک دو جملے میں دیا بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے فی الحال تو ہمیں لوگوں کے ادھر آنے کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑی اور صاف ستھری کالونیوں میں ہمارے لیے مرنے کے بعد کا انتظام نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کالونیاں اکثریت کی آبادی کو ذہن میں رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ چونکہ ہماری اکثر یت کو مرنے کے بعد کے قیام کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، انھیں مرنے کے بعد کوئی جگہ نہیں چاہیے اس لیے قبرستان کا پر وزن نہیں رکھا جاتا لیکن ہمیں تو اسکے بعد بھی دو گز زمین چاہیے، وہ ادھر نہیں ملتی۔ اس ضمن میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ بھی سن لیجیے۔ میرے ایک جاننے والے بتارہے تھے کہ ان کی کالونی میں کسی کی وفات ہوئی۔ ان کی میّت آس پاس کے کسی گاؤں کے قبرستان میں لوگ دفنا نے کے لیے لے گئے تو اس گاؤں کے لوگوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ہماری جگہ تو پہلے ہی سے چھوٹی ہے، ہم اگر دوسروں کو بھی اس میں جگہ دینے لگے تو ہمارا کیا ہوگا۔ لوگ اس میت کو لے کر ادھر ادھر گھومتے رہے، کہیں جگہ نہ ملی تو آخرکار بڑی مشکل سے کسی علاقے میں زمین خرید کر اس میت کو ٹھکانے لگایا گیا۔ ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ میّت کے گھر والے رو رو کر کہہ رہے تھے کہ کاش ان کے گھرمیں کوئی آنگن ہوتا یا کم سے کم ان کے کمروں کا فرش ہی مٹی کا ہوتا! یہ مسئلہ ابھی اس طرف پیدا نہیں ہوا ہے۔ ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ زمینی صورت حال نے ہمیں تنگ دامانی پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیسے‘‘؟

    وہ اس طرح کہ وسعت کے لیے وسائل چاہییں۔ وسائل وراثت میں ملتے ہیں یا پیدا کیے جاتے ہیں۔ہم میں سے بیشتر کے پاس وراثت نام کی کبھی کوئی چیز رہی نہیں، جن کے پاس رہی بھی تو ان میں سے کچھ کی کب کی چھن گئی یا کچھ کی کھوکھلی ثابت ہوگئی اور کچھ کی بک بکا گئی۔ رہی وسائل پیدا کرنے کی بات تو پیدا کرنے میں صرف خود کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں اور وہ بہت ساری چیزیں بہت سی ناگفتہ بہہ صورتوں اور بہت سی مصلحتوں کی شکار ہیں۔ لہٰذا اس راستے سے بھی ہم وسائل کا حصول نہیں کر پاتے۔ ایسی صورت میں ہم وہیں جا سکتے ہیں جہاں ہمارے محدود وسائل ہمیں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘

    ’’آپ کا مشاہدہ کتنا سچا لگ رہا ہے چچا میاں!‘‘

    ’’ایک مشاہدہ میرا اور بھی ہے بر خوردار؟‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’وہ یہ کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی اور سمٹتی ہوئی زمین نے جامعہ جیسے تعلیمی علاقے میں بھی تاجرانہ ذہنیت پیدا کرنی شروع کر دی ہے۔‘‘

    ’’بھلا وہ کیسے؟‘‘ اس کا لہجہ اور بھی متجسّس ہو گیا۔

    ’’وہ اس طرح کہ فلیٹوں کی مانگ اور نئی زندگی کے مطالبوں نے درس وتدریس سے جڑے اساتذہ تک کو بھی زمینی کاروبار اور مکان کے لین دین کے دھندے میں لگا دیا ہے۔ اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی بھی پراپرٹی کی دلالی کے پیشے میں کود پڑا ہے۔ اپنی زمین کا رقبہ بڑھا کر خود کی رہائش کو تنگ کرنے، آس پاس کی زمینوں کو قبضانے یا انھیں بلڈروں کو دلاکر کمیشن کھانے کے چکر میں پڑ گیا ہے اور اس تجارتی ذہنیت نے ہم سے ہمارا وہ سب کچھ چھین لیا ہے جن سے ہماری پہچان وابستہ تھی۔ اس نے ہماری اس شے کو کچل کر رکھ دیا ہے جس کی بدولت دل گداز اور آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ اس کام میں ہمارے محلے کے بھی کافی لوگ لگے ہوئے ہیں۔ خود آپ کے خالو کا بھی یہ سائڈ بزنس بن گیا ہے۔ وہ سامنے جو کام ہو رہا ہے وہ سائڈ بھی آپ کے خالو کا ہی ہے۔ دوسری طرف طلبہ سے کرائے کی موٹی رقم وصولنے کے چکر میں فلیٹ کے لوگ ایک کمرے میں سمٹتے جا رہے ہیں اور باقی کمرے لڑکوں کو کرائے پر دے رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی نہیں خیال رہتا کہ گھر میں جوان بہو، بیٹیاں بھی رہتی ہیں۔ اس کے جوبرے نتائج سامنے آ رہے ہیں وہ آئے دن آپ بھی اخباروں میں پڑھتے ہوں گے مگر پوچھنے اور ٹوکنے پر وہ بھی وہی منطق پیش کر دیتے ہیں جو میرے سامنے میرے بیٹوں نے پیش کی تھی اس ذہنیت سے ایک خرابی اور بھی پیدا ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’وہ کیا؟

    ’’وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پانچ پانچ چھ چھ لڑکے رہتے ہیں اور تقریباً دس دس بارہ بارہ افراد ایک Toilet استعمال کرتے ہیں۔اس سے آئے دن سنڈاسوں کا برا حال ہوتا رہتا ہے اور ماحول میں جو بدبو پھوٹتی ہے سو الگ۔ مکان اور محلے کا جو حشر ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے خود ان لڑکوں کا بھی بیڑا غرق ہو رہا ہے جو ایسی حالت میں رہ کر اپنا کیرئیر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جن کا مقابلہ ان سے ہوتا ہے جو کشادہ علاقوں اور صاف ستھرے گھروں میں رہتے ہیں اور جو باقائدہ اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھ کر تیاری کرتے ہیں۔ معاف کیجیےگا میں آپ کو چائے بھی نہیں پلا سکتا۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں، چائے میں زیادہ پیتا بھی نہیں۔‘‘

    ’’آج آپ کا قیام رہےگا یا آج ہی واپسی ہے۔‘‘

    ’’ابھی کوئی طے نہیں ہے، خالو سے ملنے کے بعد ہی کوئی پروگرام بنےگا۔‘‘

    ’’برخوردار برا مت ماننا مگر میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ خلیل صاحب کے گھروالے سوئے نہیں ہوں گے۔ انھوں نے جان بوجھ کر دروازہ نہیں کھولا ہوگا یا کھولا بھی ہوگا تو اندر بلانا ضروری نہیں سمجھا ہوگا اور لگے ہاتھوں ایک تلخ بات اور کہہ دوں کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ رات میں وہ آپ کو۔۔۔ خیر چھوڑیے۔ معاف کیجیےگا میں ذرا صاف گو آدمی ہوں، اس لیے میں نے جو محسوس کیا، اسے بنا لاگ لپیٹ کے کہہ دیا۔‘‘

    ’’نہیں نہیں، اس میں معافی مانگنے کی کیا بات ہے۔ آپ نے جیسا محسوس کیا، بتا دیا۔ اچھا چچا میاں! اب میں چلوں گا۔ میں نے آپ کا کافی وقت لے لیا۔‘‘

    ’’کہاں جائیں گے، خلیل صاحب تو ابھی آئے نہیں؟‘‘

    ’’ذرا جامعہ تک جا رہا ہوں پھر آ جاؤں گا۔‘‘

    ’’ارے! لیجیے، وہ تو آ بھی گئے۔ خلیل صاحب! آپ کے یہ مہمان میرے پاس کب سے بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’خلیل صاحب ان کی طرف مڑے ہی تھے کہ وہ اٹھ کر تیزی سے ان کے پاس چلا گیا۔‘‘

    ’’اسلام علیکم خالو جان!‘‘

    ’’وعلیکم اسلام۔تم کب آئے اشفاق؟‘‘ اس کے سلام کے جواب کے ساتھ ہی ان کے منہ سے یہ سوال اچھل پڑا۔ شاید اس کا وہاں بیٹھنا خلیل صاحب کو اچھا نہیں لگا تھا۔

    ’’بس تھوڑی ڈیر پہلے‘‘۔ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔

    ’’دہلی یوں اچانک ! پہلے سے کوئی اطلاع نہیں؟‘‘

    ’’اچانک ہی پروگرام بن گیا۔‘‘

    ’’کوئی خاص کام؟‘‘

    ’’جی، سب کی یہی رائے بنی کہ میں ریسرچ جامعہ سے کروں سو کچھ ضروری معلومات کے سلسلے میں آنا پڑا۔‘‘

    ’’ اچھا، آؤ گھر چلیں۔‘‘

    ’’جی‘‘

    وہ خالو کے پیچھے ہولیا۔ خالو کا برتاؤ دیکھ کراسے اچھا لگا کہ اس سے پارکنگ ایریا والے بزرگ کا impression غلط ثابت ہو رہا تھا۔

    وہ خالو کے ساتھ جیسے جیسے ان کے فلیٹ کے قریب پہنچ رہا تھا ایک عجیب طرح کی الجھن سے دو چار ہوتا جا رہا تھا۔ من ہی من میں دعا کر رہا تھا کہ صفیہ سے فوراً سامنا نہ ہو، خواہ مخواہ بےچاری کو سب کے سامنے شرمندہ ہونا پڑےگا اور خود وہ بھی embarrassing situation میں آ جائےگا۔

    ’’میں ابھی آیا‘‘ اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خلیل صاحب اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کی طرف آتے ہوئے ایک سے زیادہ پیروں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اس کے دل کی کیفیت دگر گوں ہونے لگی۔ ایسا لگنے لگا جیسے غلطی صفیہ کی بجائے اس سے ہوئی ہو۔ وہ آنے والی سچویشن کے لیے اپنے کو تیار کر ہی رہا تھا کہ ایک دم سے خالو اور خالہ اندر آ گئے۔ ان کے ساتھ صفیہ کو نہ دیکھ کر اس نے اطمینان کی سانس لی۔

    اس کے خالہ کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی۔ خالہ نے اس ٹرے کو میز کے اوپر رکھ دیا ۔ٹرے اتنی بڑی تھی کہ اس کا ایک طرف کا کنارہ میز سے تھوڑا باہر نکل گیا۔ ٹرے میں تین خوبصورت پیالیاں تھیں جن کے اندر سے گرم چائے کی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ ایک تشتری میں نمکین اور دوسری میں بسکٹ تھے۔ ٹرے میں کانچ کا ایک گول سا ڈبا بھی تھا جس میں کئی خانے بنے ہوئے تھے اور ان خانوں میں اوپر تک کاجو، کشمش، بادام، اخروٹ اور پستہ بھرے ہوئے تھے۔

    ’’لو کھاؤ‘‘ خالہ کانچ کے ڈبّے سے ڈھکن اتارتی ہوئی بولیں۔

    اس نے بادام کی ایک گری اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لیا

    چائے کے دوران خالہ نے اس کی خیریت معلوم کی۔ امی ابو کا حال پوچھا اور اس کے آنے کا مقصد دریافت کیا ۔اس کے خوشگوار تا ثرات میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔

    چائے پیتے ہوئے بار بار اس کی نگاہیں سامنے کی دیوار پر آویزاں قد آئینے پر مرکوز ہو جاتی تھیں جس میں کمرے کی ایک ایک چیز دکھائی دیتی تھی۔

    ایک طرف ڈائننگ ٹیبل، اس کے ارد گرد چھ کرسیاں، کرسیوں پرکشن ،ٹیبل پر چند ایک اسٹینڈ، کچھ برتن، دو چار مرتبان، اور کچھ ڈبے۔

    ٹیبل کے دائیں طرف کی دیوار سے لگی ایک بڑی سی شیشے کی الماری جس سے کھڑکی کا تقریباً آدھے سے بھی زیادہ حصہ ڈھک رہا تھا۔ اس الماری کے مختلف خانوں میں تلے اوپر رکھے ہوئے چینی مٹی، اسٹیل اور کچھ دوسرے مٹیریل کے برتن، ہوٹ پاٹ، کیتلی، تھرمس، کیٹلری، شیشے کے گلاس، ٹی سیٹ وغیرہ۔

    ٹیبل کے بائیں جانب والی دیوار سے سٹی ایک ریک، جس کے دو خانے بند تھے اور ایک میں کئی ایک رجسٹر اور کچھ بہی کھاتے رکھے ہوئے تھے۔ جس جگہ پر صوفہ سیٹ بچھا ہوا تھا اس کے ایک طرف ایک وال ماؤنٹ تھا جس کے اوپری خانے میں میوزک سسٹم اور درمیان کے خانے میں ٹیلی وژن رکھا ہوا تھا ۔کنارے کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں کچھ دوسرے الیکٹرانک سامان سجے ہوئے تھے۔ پاس ہی میں ایک پتلی سی میز تھی جس پر کمپیوٹر پڑا تھا۔ کمرے کے کونوں میں کورنر اور خالی جگہوں میں کئی چھوٹے چھوٹے اسٹول تھے جن پر طرح طرح کے شو پیسز پڑے ہوئے تھے ۔ایک طرف ایک بڑا سا فرج تھا جس کے اوپر بھی کچھ ڈبّے نظر آرہے تھے۔ اس کا انہماک دیکھ کر خالو بول پڑے۔

    ’’روم ذرا چھوٹا ضرور ہے مگر اس کی capicity بہت ہے۔ دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے اپنے اندر کیا کیا سمیٹ رکھا ہے۔‘‘

    ’’کچھ الیکٹرونک گڈس تو ابھی ڈبّوں میں بند ہیں۔ بچو ں کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ کھول کر انھیں سجا دیں‘‘خالہ بھی بول پڑیں۔

    صفیہ کے نہ آنے سے اس کی الجھن تو دور ہو گئی تھی مگر یہ توقع موجود تھی کہ وہ آئےگی اور اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرےگی اور خالہ بھی اس کی اس حرکت کی صفائی دیں گی۔‘‘

    اس نے جب بتایا کہ اس کا جامعہ سے رسرچ کرنے کا ارداہ ہے تو خالہ بولیں،

    ’’یہ تو اچھی بات ہے کہ تم نے ایم۔ اے۔ کر لیا اور اب جامعہ میں پڑھنا چاہتے ہو مگر کم بخت اس یونیورسٹی کا برا حال ہو گیا ہے۔ داخلہ بڑی مشکل سے ملتا ہے اور نئے وی۔ سی۔ اتنے سخت ہیں کہ کوئی کسی کی سفارش بھی نہیں سنتا اور اگر کسی طرح داخلہ مل بھی گیا تو ہاسٹل نہیں ملتا۔ بڑی مصیبت کا کام ہے یہاں پڑھنا بھی۔‘‘ خالہ نے ایک عجیب سے اضطراب کے ساتھ یہ جملے ادا کیے۔

    یکایک اس کی آنکھوں کے سامنے ابّو کا وہ خط کھل گیا جو خالو کے نام لکھا گیا تھا اور جو اب تک اس کی جیب میں پڑا ہوا تھا:

    بھائی جان! آداب

    ہماری دلی خواہش ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اشفاق اللہ کی تربیت بھی ہوجائے۔ اس کام کے لیے جامعہ سے بہتر جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے اور وہاں آپ کی سرپرستی بھی حاصل ہو جائےگی۔

    کوشش کیجیے گا کہ ہاسٹل میں جگہ مل جائے۔ نہیں تو کچھ دنوں کے لیے آپ کو زحمت کرنی پڑےگی۔ اشفا ق اللہ ذرا شرمیلا ہے۔ وہ اس بابت خود سے کچھ نہ کہہ سکےگا اس لیے یہ بات میں آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔

    آپا کو سلام اور بچوں کو پیار۔

    فقط والسّلام

    آپ کا بھائی

    نعیم اللہ

    ’’ہمیں پتا ہے خالہ! اسی لیے تو ابّو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ دنوں تک میں کرائے کے مکان میں رہوں۔ بعد میں کوئی مکان، میرا مطلب ہے فلیٹ خرید لیں گے۔ تب تک چھوٹے چچا کا بیٹا عرفان اللہ بھی میٹرک کر لےگا اور اس کا بھی داخلہ جامعہ میں کرا دیا جائےگا۔‘‘بغیر کسی توقف کے وہ فوراً بول پڑا۔

    اس کا یہ جملہ سُن کر خالہ بولیں:

    ’’نعیم کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے‘‘ خالہ کے لہجے میں اضطراب کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔

    خلیل صاحب جو کسی خیال میں کھوئے ہوئے تھے جھٹ سے وہ بھی بول پڑے۔

    ’’تمہارے ابو کا یہ فیصلہ واقعی بہت اچھا ہے۔ ان سے بولنا کہ ہماری جو نئی بلڈنگ بن رہی ہے اس میں جلد سے جلد ایک فلیٹ بک کرا لیں۔ ابھی گنجائش ہے۔ بعد میں مشکل ہو جائے گی۔ اس وقت مناسب ریٹ میں بھی مل جائےگا۔ اچھا اشفا ق میں تو چلوں گا ایک زمین کے سودے کے سلسلہ میں کسی سے ملنا ہے۔ اپنے ابو امی کو میرا سلام کہنا۔ پھر خالہ سے مخاطب ہوکر بولے،

    ’’اسے نئی بلڈنگ کا ایک بروشر ضرور دے دیجیےگا۔ چلتا ہوں‘‘

    خلیل صاحب ایک دو قدم آگے بڑھ کر اچانک پیچھے پلٹ آئے اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے،

    ’’اشفاق! یہ تو بتاؤ کہ تمہارے بس اڈے والے مکان میں کون رہ رہا ہے؟ اب تو وہ کافی بوسیدہ ہو گیا ہوگا؟‘‘

    ’’ہاں کافی خستہ حالت میں ہے۔ اوپر کا حصہ خالی ہے۔ نیچے ایک دو کرائے دار ہیں اور ایک طرف جمو اور اس کے بال بچے رہتے ہیں۔ وہی مکان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘‘

    ’’کرایا تو بہت nominal آتا ہوگا ؟‘‘

    ’’ہاں بہت ہی کم۔ دادا کے جان کے زمانے میں جو کرایہ تھا وہی آج بھی ہے۔‘‘

    ’’تم لوگ کرایہ بڑھاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’ابو کہتے ہیں کہ کیا بڑھانا۔ ہمارے گھر میں کچھ بے گھر لوگوں کا خاندان پل رہا ہے، یہ احساس ہی ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘

    اس نے اپنے ابو کی سوچ اور ان کے رویے کو دہرا دیا۔

    ’’تمھارے ابو غلط سوچتے ہیں۔ اتنی اچھی جگہ پر اور اتنا بڑا مکان یوں بےمصرف پڑا ہو ا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں اس کے متعلق کچھ اور سوچنا چاہیے۔ اچھا، اس سلسلے میں خود کسی دن آکر ان سے ملتا ہوں۔ اچھا اب میں چلوں گا خدا حافظ۔‘‘

    ؒ

    خلیل صاحب کمرے سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی خالہ اٹھیں اور سامنے کی الماری کے پاس پہنچ گئیں۔

    خلیل صاحب خدا حافظ کہہ کر جا چکے تھے۔ خالہ بروشر لانے کے لیے اٹھ گئی تھیں لیکن اسے صفیہ کا اب بھی انتظار تھا۔ اسے پتا نہیں کیوں یقین سا تھا کہ وہ آئےگی اور شرمندگی کا اظہار کرےگی۔ ممکن ہے شرمندگی کی وجہہ سے ہی وہ نہ آ رہی ہو۔ اس کے دل کے کسی کونے سے آواز ابھری۔ اپنی اس سوچ پر اسے قدرے اطمینان محسوس ہوا۔

    خالہ الماری کے پاس سے لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں چکنے پیپر کا ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا۔ وہ اس کتابچے کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئی بولیں۔

    ’’لو، یہ بروشر رکھ لو اور اسے اپنی بٹو خالہ کو بھی دکھلا دینا کہ وہ بھی ایک فلیٹ بُک کرالے‘‘

    ہاتھ میں بروشر لیتے ہی اس کے سامنے خالو کا وہ سائڈ سمٹ آیا جس کی طرف پارکنگ ایریا والے بزرگ نے کچھ دیر پہلے اشارہ کیا تھا اور جس کا نقشہ اس وقت اس بروشر میں بند تھا۔

    اس کے دیدوں میں اینٹ، پتھر، ریت اور سمینٹ کا ڈھیر لگ گیا۔ کچھ دیر بعد پارکنگ والے بزرگ بھی ابھر آئے اور ساتھ ہی ان کا یہ جملہ بھی:

    ’’تنگی نے مجھے اس پارکنگ میں پہنچا دیا ہے۔‘‘

    اسے محسوس ہوا جیسے تنگی نے وسعت پالی ہو اور اس پارکنگ ایریا میں کچھ اور کرسیاں پڑ گئی ہوں۔

    (مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 91)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے