Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمن پوش

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ اس شخص کی کہانی ہے، جو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اس کی بیوی بھی اسے دل و جان سے چاہتی ہے۔ ایک روز جب وہ اپنی بیوی کو اپنے دوست کی بانہوں میں دیکھتا ہے تو حقیقت جانے بغیر ہی اس کا قتل کر دیتا ہے۔ بیوی کے قتل کے بعد وہ خود بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا اور اس کی جدائی کے غم میں وہ خودکشی کر لیتا ہے۔‘‘

    ’’شہید زخم شمشیر تغافل اجرہا دارد‘‘

    ناہید سے میرا تعارف لکھنؤ میں ہوا جب میں نے پہلی بار اس کی تصویر اپنے ایک عزیز دوست ناصری کے کمرے میں دیکھی تھی۔ ناصری کو فن نقاشی سے خاص شغف تھا، جو جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ کوئی دلکش تصویر اس کی نظر سے گزر جاتی پھر ناممکن تھا کہ وہ اس کو کسی نہ کسی ذریعہ سے حاصل کر کے اس کی نقل نہ اتارتا۔ اس کو اس فن میں کافی مہارت ہو گئی تھی اور مبصرین کی نگاہ میں وہ ایک ممتاز حیثیت کا مالک تھا۔ میں نے یہ جاننا چاہا کہ یہ کس کی تصویر ہے اور اس کا نام کیا ہے۔ مگر خود ناصری کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ وہ ایک ممتاز حیثیت کا مالک تھا۔ میں یہ جاننا چاہا کہ یہ کس کی تصویر ہے اور اس کا نام کیا ہے۔ مگر خود ناصری کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ وہ ایک مشہور دکان سے خرید کر لایا تھا۔ اس سے مجھ کو معلوم ھوا کہ وہ ھند وستان کے ایک ماہر فن کی صنعت تھی۔ مصور کے نام کا مجھ پر کوئی اثر نہ ھوا، میں اس پیکر جمال میں محو ہو گیا جو صفحہ قرطاس سے مجھ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک خاموش مگر بلیغ تبسم تھا۔ چنبیلی کا ایک ہار اس کے سینے پر لٹک رہا تھا۔ انداز سے وہ ایکٹرس معلوم ہوتی تھی۔ مے ھو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس کو میں پہلے سے جانتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں ایک غیرمعمولی کشش تھی جس نے میری آنکھوں کو مبہوت کر لیا، گویا وہ کہہ رہی تھی ’’ٹھہرو! اور آغاز سے انجام تک میری داستان سن لو۔‘‘ اس کے رخسار گلابی تھے، بکھرے ہوئے ہال اس کے نیم برہنہ سینے سے کھیل رہے تھے اور میں خواب میں تھا یا واقعی ہوا میں چنبیلی کی مہک پھیلی ہوئی تھی؟ میں اپنے عالم محویت سے چونکا۔ ایک لرزش خفی میرے تمام اعصاب میں دوڑ گئی۔ میں وہاں سے رخصت ہونا چاہتا تھا کہ ناصری جو اپنا سامان نقاشی لینے دوسرے کمرہ میں چلا گیا تھا، واپس آ گیا اور ناہید کی تصویر سامنے رکھ کر اس کا خاکہ کھینچنے لگا۔ میں رک گیا۔ ناصر کا قلم اپنی قدرت دکھا رہا تھا۔ البتہ جس صناع کا نام مجھے بتایا گیا تھا۔ وہ اس باب میں کامیاب ہوا تھا۔ اگر یہ واقعی اس کی صنعت تھی جس کا نہ مجھ کو اس وقت یقین تھا، نہ اب ہے۔ میں ناصری کے مکان سے خاموش روانہ ہو گیا۔ باہر برآمدہ میں پہنچ کر پیچھے دیکھا تو وہی دلفریب اور جاذب نظر صورت سامنے تھی، جو مجھ کو پکارتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ مسکراہٹ جس میں تاثرات کی ایک دنیا پوشیدہ تھی، میرے حواس میں خلل پیدا ہو رہا تھا عجیب عجیب خیالات ذہن میں آ رہے تھے۔ آخر کار خود اپنے توہمات سے خائف ہو کر برآمدہ سے نیچے اتر آیا اور اپنی اقامت گاہ کی طرف چلا۔ میں قیصر باغ کی طرف سے جا رہا تھا، یکایک میرے قلب کی حرکت خوفناک طریقہ پر تیز ہو گئی۔ میں حیران ہو کر جہاں تھا وہیں رک گیا، مجسمہ کے پاس بینچ پر بیٹھا ہوا کون پڑھ رہا تھا وہی سفید پوش عورت یہاں بھی سرنگوں بیٹھی تھی! اس کے گلے میں وہی چنبیلی کا ہار تھا۔ جس کے ساتھ وہ بلا ارادہ شغل کر رہی تھی۔ رعشہ براندام میں اس کی جانب بڑھا۔ میرے قدموں کی آہٹ سے وہ چونکی اور کی خمار آ گیں آنکھوں نے ایک المناک تبسم کے ساتھ میری طرف دیکھا، باوجود دماغ کی پریشانی کے میں نے اس قدر جائزہ لے لیا کہ اس کا چہرہ زرد تھا جسم کی ساخت نازک تھی، رنگ میں صباحت تھی، دوش تک وہ عریاں تھی، اس کی بلوری گردن دیکھنے والی کی آنکھوں میں تازگی پیدا کر رہی تھی۔ ہوا کے ہلکے جھونکے اس کی شبنمی ساری میں شکن پر شکن ڈال رہے تھے، اور وہ ان کو برابر کرتی جارہی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا راستہ چلنے والوں میں سے کوئی اور بھی اس زہرہ ارضی کو دیکھ رہا تھا یا نہیں؟ لیکن کوئی ہماری طرف متوجہ نہیں تھا۔ مجھے حیرت ہوئی، اس لیے ہوئی کہ یہ کوئی ایسی صورت نہ تھی جو بغیر اپنا خراج لیے ہوئے کسی کو گزر جانے دیتی۔ میں کانپنے لگا، کیا اس کو میرے علاوہ کوئی اور نیہں دیکھ رہا تھا؟ کیا میرے مرکزی نظام عصبی میں کوئی اختلال رونما ہو چلا تھا؟ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں نے نفسیات، عضویات اور دیگر علوم جدیدہ کا غائر مطالعہ کیا ہے۔ جس نے مجھ کو مشکک بنا کر چھوڑ دیا ہے۔

    اس منظر سے مجھ پروہ ہیبت طاری ہوئی کہ میں بے ساختہ چلا اٹھا پھر دیکھا تو نشست خالی تھی۔ وہ عجیب الخلقت عورت وہاں سے جا چکی تھی اور چنبیلی کی شامہ ناز مہک بھی اپنے ساتھ لیتی گئی تھی۔ میں رگ رگ میں تکان محسوس کر رہا تھا۔ جدج جد قدم اٹھاتا ہوا قیصر باغ سے باہر نکلا اور ایک تانگہ پر بیٹھ کر فرنچ ہوٹل میں کسی نہ کسی صورت سے پہنچ گیا۔ جہاں میں اپنے احباب کے ساتھ مقیم تھا۔ اپنی داستان اگر بیان کرتا مضحکہ کا نشانہ بنتا، لہٰذا میں نے اس تصویر کا بھی کوئی ذ کر نہیں کیا۔ جس کو ناصری کے ’’نگار خانہ‘‘ میں دیکھ آیا تھا اور جس کی اثر آفرینیوں نے اس حد تک مجھ کو بے قابو کر دیا تھا۔ میرے احباب کی لغت میں زندگی نام تھا۔ صرف شاد کیشی کا، ہمارے بیشتر اوقات خوش باشیوں میں گزر جاتے۔ سیر و تفریح کی لذتوں اور مختلف دلچسپیوں نے ’’سمن پوش نازنین‘‘ کا تصور میرے ذہن سے مٹا دیا اور اگر کبھی اس کی یاد تازہ ہو جاتی تو میں اس سے پہلو بچا جاتا اس طرح دس بارہ روز گزر گئے۔

    ایک روز ہم سب کو معلوم ہوا کہ الفریڈ تھیٹر آیا ہے۔ بالاتفاق یہ طے پایا کہ پہلی رات کا کھیل ضرور دیکھنا چاہیے، چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں تھیٹر دیکھ رہا تھا۔ مگر نہ تو تماشہ کی غایت کی طرف دھیان تھا، نہ اس پر تنقید کرنے کا ہوش، میں بس ایک چیز دیکھ رہا تھا، یعنی وہی عورت چنبیلی کا ہار زیب گلو کیے ہوئے ارچسٹرا میں بیٹھی ہوئی تھی اور محویت کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی، وہ تنہا تھی، اس کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی، میں نے اپنے دوست کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’اس کو دیکھتے ہو جو سامنے شبنمی ساری زیب تن کیے ہوئے بیٹھی ہے؟‘‘ وہی جس کے گلے میں ہار ہے۔

    میرے دوست نے نگاہ اٹھائی اور سر ہلا کر جواب دیا ’’نہیں تو! کہاں بیٹھی ہے؟‘‘

    ’’بالکل سامنے۔‘‘ میں نے کسی قدر متحیر ہو کر پھر کہا ’آرچسٹرا میں دیکھو وہ ہم کو دیکھ رہی ہے۔‘‘

    میرا مخاطب تعجب سے مجھ کو دیکھنے لگا۔ ’’خواب تو نہیں دیکھ رہے ہو؟ آرکسٹرا میں کوئی عورت نیک ہے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا، ’’کوئی عورت نہیں!‘‘ اب مجھے ہوش آیا۔ میں نے مکسرکانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’شاید مجھ کو مغالطہ ہوا‘‘ اور فوراً مبحث بدل دیا۔ جب تک میں تھیٹر ہال میں تھا میرے احباب سمجھ رہے تھے کہ تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی نظر اس جگہ سے ہٹا ہی نہیں سکتا تھا۔ جہاں وہ اس متانت اور خاموشی کے ساتھ بیٹھی دردمند نگاہوں سے میری قوتوں کو سلب کر رہی تھی، آج اس کے سامان آرائش میں ایک چیز کا اضافہ نظر آ رہا تھا۔ یعنی ایک خوبصورت پنکھا جس کو کبھی کبھی جنبش دے دیتی تھی۔ رہ رہ کر اسی پر حسرت انداز سے مسکراتی جس میں پوشیدہ تو بہت کچھ تھا لیکن جو اپنے راز کو افشا نہ ہونے دیتا تھا۔ جب تماشہ ختم ہوا اور سب چلنے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ بھی اٹھی اور ساری کا آنچل ایک معصومانہ ادا سے سنبھالتی ہوئی، ہجوم میں غائب ہو گئی۔ چند لمحوں کے بعد میں نے شاہراہ پر پھر اس کی جھلک دیکھی، اس کا جسم اس قدر نازک تھا، وہ اس قدر کم عمر اور ناآزمودہ کار معلوم ہوتی تھی کہ مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ میں ڈر رہا تھا کہ لوگوں کے اس طوفان میں کہیں اس کو کوئی صدمہ نہ پہنچ جائے ’’کیا یہ کوئی روح ہے جس کو کسی خاص غرض سے از سر نو اس دنیا کا قالب عطا کیا گیا ہے یا محض میرا واہمہ ہے جو مجھے پریشان کر رہا ہے۔‘‘ میں اپنے دل سے سوال کر رہا تھا۔ ’’لیکن اس کی صورت اس قدر غمگین اور آزردہ ہے کہ میرا دل اس کے لیے دکھ رہا ہے۔ خواہ وہ خواب ہی کی مخلوق کیوں نہ ہو۔‘‘

    اسی کشمکش میں مبتلا اپنے دوستوں کے ساتھ مجمع کو پہاڑتا ہوا جا رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے چھو کر مجھے چونکا دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک نازک ہاتھ میرے شانہ پر تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا۔ آج میرے ذہن میں ایک تغیر رونما ہوا۔ یعنی میری وہشت دور ہو گئی اور مجھے خیال ہو گیا کہ یہ دلکش ہستی خیالی ہو یا مادی، عالم ارواح سے تعلق رکھتی ہو یا عالم اجسام سے، کسی نہ کسی غرض سے میراتعاقب کر رہی ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اب اس کو دیکھ کر ڈروں گا نہیں بلکہ ہمت کے ساتھ واقعات کا ترتیب وار مطالعہ کروں گا اور مجھے اطمینان تھا کہ اگر استقلال سے کام لیا تو حقیقت کو ضرور بے نقاب کر سکوں گا۔

    لکھنؤ میں پندرہ روز اور قیام رہا لیکن ’’سمن پوش‘‘ اس دوران میں پھر نظر نہ آئی۔ البتہ ناصری کے ساتھ جا کر میں نے اس کی تصویر کی ایک کاپی خرید لی جو میرے لیے ایک خاص اہمیت رکھنے لگی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ تصویر کو اصل سے کوئی مناسبت نہیں اور اس سے ناہید کی رعنائیوں اور دلربائیوں کا صحیح انداز کرنا محال تھا۔ اس کے بعد میں بارہ بنکی چلا آیا اور اپنی روزانہ مصروفیتوں میں ناہید کو پھر بھول گیا۔ میں نے اسی سال بی۔ اے کیا تھا اور دور تعطیل سے گزر رہا تھا جس سے سکول اور کالج کا زمانہ ختم کر کے کم و بیش ہر شخص کو گزرنا ہوتا ہے یعنی ابھی یہ فیصلہ نہ کر سکا تھا کہ مجھے کرنا کیا ہے۔

    میرے ایک چچا کی لڑکی سائرہ ضلع سیتاپور کے ایک باوقار رئیس عبدالعلی کے لڑکے شمیم سے بیاہی ہوئی تھی۔ شمیم نے بھی اسی سال ایم۔ ایس سی کیا تھا اور چونکہ سرمایہ دار تھے اور کسب معاش کی فکر سے بے نیاز، اس لیے ان کا ارادہ تھا کہ اپنی زمینداری کا انتظام کریں گے۔

    ایک دن میری ماں کے نام سائرہ کی تحریر آئی جس سے معلوم ہوا کہ عبدالعلی صاحب نے حال ہی میں ایک نیا گاؤں مع ایک عالی شان عمارت کے خریدا ہے اور ان لوگوں کی خواہش ہے کہ ہم سب ان کی مسرتوں میں شرکت کریں۔ سائرہ کا اصرار تھا کہ کم از کم میں ضرور اپنی کیفیتوں سے اس کے لطف میں اضافہ کروں ورنہ وہ مجھے کبھی نہ معاف کرےگی۔ میں کہہ نہیں سکتا سائرہ کو میری مصاحبت میں کیا لطف ہو سکتا تھا جب کہ اکثر احباب کا خیال ہے کہ میری ہنسی مصنوعی ہوا کرتی ہے اور فی الحقیقت میرا خمیر المناکیوں سے ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میں ہر قسم کی صحبت میں شریک ہو جایا کرتا ہوں، بہر حال سائرہ کو میری طرف سے حسن ظن تھا جو غلو کی حد تک پہنچا ہوا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ زندگی کے بیشتر فرحت ناک لمحے میری معیت میں گزریں۔ مجھے عذر ہی کیا ہو سکتا تھا۔ وقت کاٹنے کے لیے کوئی بہا نہ تلاش کر رہا تھا۔ میں نے فوراً سامان درست کر لیا، میری ماں البتہ چند اسباب کی بنا پر نہ جا سکیں۔

    ’’جمال منزل‘‘ واقعی نہایت خوبصورت اور شاندار عمارت تھی۔ جو ایک وسیع احاطہ سے گھری ہوئی تھی۔ شمیم کی گاڑی نے جس وقت مجھے پیش گاہ میں لاکر اتارا تو میں اس کی شوکت سے مرعوب ہو گیا، جس نے ایسے دیہات میں اس ’’فردوسی ارضی‘‘ کو اپنے لیے تعمیر کرایا ہوگا۔ اس میں ذوق سلیم او ر حسن لطیف کہاں تک رچا ہوگا۔ اس کے علاوہ ’’جمال منزل‘‘ سے اس کے اصل مالک کی مالی استطاعت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ چونکہ میں شام کو پہنچا تھا اس لیے احاطہ اور باغ کی سیر صبح تک ملتوی رکھی گئی۔

    عبدالعلی اور ان کی بیوی نے نہایت خلوص سے میرا خیرمقدم کیا۔ شمیم ضرورت سے زیادہ ہنس رہا تھا اور پھر بھی ان کو سیری نظر نہیں آئی تھی۔ سائرہ نے سنجدنگی اور متانت سے اپنی خوشی کا اظہار کیا جیسا کہ اس کا دستور تھا۔ الغرض میرے آنے سے ہر شخص اپنی جگہ کافی مسرور تھا۔

    جب ہم رات کے کھانے پر بیٹھے تو ہماری گفتگو کا موضوع وہی گاؤں اور مکان تھا اور اس میں شک نہیں کہ موضوع دلچسپ ثابت ہوا۔ شمیم نے کہا، ’’تم اس مکان پر اس حیثیت سے غور کرو کہ جس بدنصیب نے اس کو حوصلوں کے ساتھ تعمیر کرایا تھا وہ مصنف تھا، شاعر تھا، نقاش تھا، اور آج بیس برس سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ اس نے خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تم اس کا نام جاننے کے لیے بے تاب ہو گے، اس کا نام ’’جمال الدین‘‘ تھا۔‘‘

    ’’جمال الدین‘‘ میں چونک پڑا۔ میں نے اس کے کچھ منتشر اشعار کا مطالعہ کیا تھا اور اس کا ایک ڈرامہ ’’ہذیان محبت‘‘ بھی پڑھا تھا جس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا تھا، یہ نہ جانتا تھا کہ وہ نقاش بھی ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ اس نے اپنے ہاتھوں اپنی جان دی۔

    سائرہ غور سے مجھے دیکھ رہی تھی، اور خوب واقف تھی کہ میرے اعصاب کتنے سریع الحس اور اثر پذیر ہیں۔ اس نے شمیم سے ناپسندیدگی کے لہجہ میں کہا۔ ’’آپ نے برا کیا۔ سہیل بھائی کے لیے تمام رات کروٹیں بدلتے رہنے اور سر دھننے کا سامان فرا ہم کر دیا۔ ابھی وہ سفر سے ماں دہ و خستہ چلے آ رہے ہیں۔ آپ نے ان کو راحت شب سے بھی محروم کر دیا۔‘‘

    ’’میں نے مسکراکر کہا، ’’نہیں! نہیں! قصہ سننے کے لائق ہے۔ ہاں تو شمیم! یہ نہیں معلوم کہ ہمارا شاعر نقاش اپنی زندگی سے بیزار کیوں ہو گیا۔‘‘

    ’’میں ٹھیک نہیں کہہ سکتا، سنا ہے اس کو اپنی بیوی سے بےانتہا محبت تھی جس کو کسی نے واللہ علم کیوں قتل کر دیا۔ جمال الدین اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکا اور غالباً ڈیڑھ سال کے بعد اس نے بھی اپنا عنصری جامہ اتار پھینکا۔ شاعر یوں بھی خفقانی اور اپنے دل کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا کسی رو میں خودکشی کر لینا کوئی حیرت انگیز نہیں۔‘‘

    شروع سے آخر تک شمیم کے لہجہ سے تمسخر و استہزاء پایا جاتا تھا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ انسان اس قدر بے حس ہوتا ہے۔ میں نے جواب دیا، ’’شمیم! تمہاری گفتگو نے تو مجھے بہت دکھ پہنچایا لیکن تم سے اس کے سوا امید ہی کیا ہو سکتی تھی، یہ کوئی تمہارا اپنا خیال نہیں، یہ مرض عا لمگیر ہے، جوساری دنیا میں وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ جو انسانیت اور الوہیت دونوں کو کائنات سے مفقود کر رہا ہے۔ لیکن تمہارے ذہن میں تو شاید ان الفاظ کے کوئی معنی بھی نہ ہوں۔ تم جو دل کو ایک پارہ گوشت سمجھتے ہو جو پمپ کا کام دیتا ہے، تم جو انسان کو ایک آلہ سمجھتے ہو، بتاؤ تم نے اتنی عمرضائع کر کے کون سی نئی بات حاصل کی؟

    آنچہ دل نام کردہ ای بہ مجاز

    رو بہ پیش سگان کو انداز

    شاید ہر شخص جو انسانوں اور حیوانوں کو متواتر چیرتا رہے اور کچھ دونوں تک برابر مشاہدہ کرتا رہے۔ اس قدر جان سکتا ہے کہ دل صنوبری شکل کا ایک ٹکڑا ہے جو غلاف قلب (pericardium)میں ملفوف ہے اور جس کا کام خون کو اندر کھینچنا اور باہر پھینکنا ہے، مگر تم کو کیا کہوں، بڑے سے بڑا فلسفی اور بڑے سے بڑا حکیم انہی خود فریبیوں میں مبتلا ہے۔ وہ عقل کی رہنمائی مٰں چلتا ہے اور وجدانیت و بداہت کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کار لائل نے اسی لیے ایسے لوگوں کا نام ’’منطق تراش‘‘ (logic chopper) رکھا ہے۔ اسی لیے کسی چیز کی بابت کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ عقل کی افراط نے اس کی ربوبیت چھین لی اور اس کے ارتقا کا سد باب ہو گیا۔ وہ اپنا نصب العین بھول گیا بلکہ اپنی اصلیت بھی اس کو یاد نہ رہی۔ بیدل نے ہم کو بہت صائب رائے اس بارے میں دی ہے۔

    ہر چند عقل کل شدہ بے جنوں مباش

    خیریت یہ ہے کہ دنیا میں چند ایسے نفوس ہمیشہ رہے جو کبھی کبھی حقیقت کی جھلک دیکھ لیا کرتے ہیں اور ہم کو اپنے آغاز و انجام سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، ورنہ آج میمتھ کی طرح یہ مخلوق بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی جو ’انسان‘ کہلاتی ہے۔

    میرے ہیجان کا دور شرع ہو گیا۔ میں انسان کا ’’جہل مرکب‘‘ نہیں برداشت کر سکتا یہ بیماری شاید انسان کے علاوہ کسی دوسرے جانور میں نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنی جہالت کو علم سمجھنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے اور اپنی اس دانستہ فریب کاری پرناز کرتا ہے۔

    شمیم بےکیف ہونے لگا تھا۔ میرا مباحثہ اکثر تلخ ہوا کرتا ہے اس لیے جہاں سوئی سے کام لینا چاہیے۔ وہاں میں نیزوں اور بھالوں کے وار کرنے لگتا ہوں اور سننے والے میری صحبت سے لطف اٹھاتے ہیں مگر میرا مقابل ہمیشہ مجھ سے متفرے ہو جایا کرتا ہے، چنانچہ میرے چاہنے والوں سے وہ لوگ تعداد میں زیا دہ ہیں جو میری طرف سے اپنے دلوں میں غبار لیے ہوئے ہیں۔ شمیم نے میری رگوں میں چنگاریاں بھر دی تھیں اور میں آگ برسانے لگا تھا جس کا سلسلہ نہ جانے کہاں ختم ہوتا اگر ان کی والدہ درمیان میں نہ بول دی ہوتیں۔ ’’اچھا اب بےکار بحث کو جانے دو، ایک لطیفہ اور سنو گانے والوں میں مشہور ہے کہ ’جمال منزل‘روحوں کا مسکن ہے اور میرا خیال ہے کہ بیچنے والوں نے اسی وہم سے اس کو جدا بھی کیا تھا مگر ہم لوگوں پر اس قسم کے جاہلانہ معتقدات کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔‘‘

    میں نے اپنے دل میں کہا، ’’نہ جانے گانے والے جاہل ہیں یا آپ۔‘‘ شمیم سے پھر نہ رہا گیا اور مجھ پر حملہ کر ہی بیٹھے، انہوں نے کہا، ’’مگر اب مجھے اطمینان ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسا محقق موجود ہے جو ہم کو اصلیت سے خبردار کر سکےگا۔‘‘

    ’’غلط خیال ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا میری تحقیق و تدقیق سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت تم میں نہیں ہے، اگر کوئی راز مجھ پر منکشف بھی ہوگا تو میں اس کو تم سے مخفی رکھوں گا۔‘‘

    رات زیادہ ہو چکی تھی ہم ایک دوسرے کو ’’شب بخیر‘‘ کہہ کر اپنی اپنی خواب گاہ کو رخصت ہوئے۔ چلتے ہوئے سائرہ نے کہا، ’’آپ کا چہرہ دھند لا ہو گیا ہے، دیکھیے سونا نصیب ہوتا ہے یا نہیں، آج کے مبحث پر زیادہ تبصرہ نہ کیجئےگا۔‘‘

    میں نے ہنس کر جواب دیا، ’’سائرہ، بچوں کی سی باتیں نہ کرو‘‘ اور آکر بستر پر لیٹ رہا، نیند کی کوئی علامت میری آنکھوں میں نہ تھی۔ میں دو بجے رات تک پڑھتا رہا، گرمی کی سہانی رات تھی، پچھلے پہر ہوا میں ایک سکون بخش خنکی پیدا ہوئی تو میری آنکھ لگ گئی۔ لیکن پانچ ہی بجے کسی کے قدموں کی آہٹ سے جاگ گیا۔ دیکھا تو شمیم تھے۔ میں اٹھ بیٹھا، شمیم نے کہا، ’’ہوا خوشگوار ہے چلو باغ میں تفریح کر آئیں، یا رات کی کیدں گی ہنوز باقی ہے؟‘‘

    ’’کہیں سائرہ نے رات بھر تمہارے کان تو گرم نہیں کیے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    شمیم ہنس دیئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، ’’تم شاید رات بھر سوئے نہیں؟ اچھا چلو ہوا کسل دور کر دےگی۔‘‘

    ’’ہاں! اس وقت کی سیر ضرور روح میں بالیدگی پیدا کرےگی‘‘ یہ کہہ کر میں شمیم کے ساتھ ہو لیا۔

    باغ کو میں نے امیدوں سے زیادہ دلکش اور فرحناوک پایا۔ احاطہ کے وسط میں ایک خوبصورت تالاب تھا۔ قسم قسم کے درخت اور مختلف رنگ و بو کے پھول روشوں کے کنارے علوئے تخئیل کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔ ہر چند کہ قرآئن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مدت سے ان کی پرداخت کرنے والا وہاں کوئی نہیں، تالاب کے چاروں طرف چنبیلی کی کیاریاں تھیں جن سے فضا مہک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار اپنی ’’سمن پوش‘‘ یاد آگئی تھوڑی دیر کے لیے میں پھر عالم خیال میں گم ہو گیا۔ شمیم نے یہ دیکھ کر پوچھا، ’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

    ’’کوئی خاص بات نہیں‘‘، میں نے جواب دیا۔

    شمیم نے کہا، ’’اب آؤ میں تم کو جمال الدین کی بیوی کی قبر دکھاؤں۔‘‘ میں سراپا اشتیاق بن کر شمیم کے ساتھ آ گے بڑھا چنبیلی کی ایک کیاری میں ایک پختہ قبر تھی جس کی شکستگی کہہ رہی تھی کہ اب ایسا بھی کوئی نہیں جو اس کی مرمت کرانے کی زحمت گوارا کرے۔ لوح ٹوٹ کر علیحدہ زمین میں پیوست تھی اس پر گھاس اگ آئی تھی۔ اس سے پیشتر شمیم یا کسی اور کی نگاہ بھی اس پر نہیں پڑی تھی، میں نے بیٹھ کر اس کو صاف کیا تو اس پر ناہید لکھا ہوا پایا۔ شمیم نے میرے ایماء پر ایک خدمت گار کو بلایا جس نے لوح کو زمین سے باہر نکالا، دوسری طرف بھی کچھ کتبہ نظر آیا۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ کوئی فارسی شعر ہے مگر باوجود سعی بسیار کے صحیح پڑھا نہ جا سکا اس لیے کہ وہ حصہ تقریباً ایک بالشت زمین کے اندر تھا اور زمانے کی رگڑنے نقوش کو کافی مٹا رکھا تھا میری رگ رگ بے چین ہو رہی تھی کہ کسی طور سے اس کتبہ کو پڑھ لوں۔ لیکن کچھ بس نہ چلا۔ شعر بھی کوئی ایسا نہ تھا جو عام طور پر مشہور ہوتا تاکہ قیاس سے پڑھ لیا جاتا، آخر کار مایوس لوٹنا پڑا۔

    یہاں عبدالعلی صاحب سائرہ وغیرہ کے ساتھ چائے پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ آج کی گفتگو کا مرکز ’’ناہید کا مزار‘‘ رہا۔ مجھے رہ رہ کر اسی کتبہ کا خیال آتا تھا۔ جس نے مجھے تاریکی میں رکھ چھوڑا تھا۔ سارا دن ہار مونیم، فوٹوگراف، تاش اور دیگر مشاغل میں ضائع ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ کچھ لکھوں، مگر یہاں اس کی کوشش کرنا ’’بت پرستوں کے شہر میں نماز‘‘ کے لیے جہاد کرنے سے کم نہ تھا۔ شام کو شمیم نے گاڑی تیار کرائی اور مجھے لے کر ہوا کھانے نکل گئے۔ مختصر یہ کہ مجھے اس قدر موقع نہ ملا کہ ایک بار پھر ناہید کی قبر پر جاتا اور لوح پر نظر ثانی کرتا۔ جب کھانے کے بعد اپنے بستر پر گیا تو کسی قدر سکون میسر ہوا۔ دل بہلانے کی غرض سے گھنٹوں مثنوی مولانا روم دیکھتا رہا۔

    نیند کے آثار اس دن بھی غائب تھے، رات کا سناٹا بڑھ رہا تھا۔ میرا مطالعہ بدستور جاری تھا، کبھی کبھی کتاب بند کرکے کچھ سوچنے لگتا تھا۔ تقریباً ایک بجے بستر سے اٹھا اور سامنے کے کمرہ سے سگرٹ لے کر واپس ہو رہا تھا کہ مجھے چار پانچ گز کے فاصلے پر ایک عورت کی شکل دکھائی دی جو دیکھتے دیکھتے میرے مقابل تھی۔ یہ کون؟ وہی ’’سمن پوش‘‘ اس وقت میں نے حیرت کو اعصاب پر قابو پانے دیا نہ ہر اس کو۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں اپنے حواس قائم رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ میری نگاہیں اس کی نگاہوں سے جس وقت ملیں تو اس نے ہاتھ سے کچھ اشارہ کیا گویا مجھ سے کیم بات کی التجا کر رہی ہے۔

    ’’تم یہاں کس لیے آئی ہو‘‘ میں نے آہستگی سے پوچھا، ’’اور میرا تعاقب کیوں کر رہی ہو؟‘‘

    اسی طرح اس نے پھر ہاتھ کو حرکت دی اور کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ’’اس لیے کہ آپ کو مجھ سے ہمدردی ہے۔‘‘

    ’’کیا تم سکون سے محروم ہو؟‘‘

    ’’یک قلم۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کا دم پھولنے لگا جیسے تشنج کا دورہ پڑ رہا ہو۔ میں گھبرا سا گیا تاہم سلسلے کو منقطع نہ ہونے دیا۔

    ’’اچھا تو بتاؤ مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔

    اس نے اپنی ہیجانی آنکھیں اوپر اٹھا دیں جونم آلود تھیں۔ ’’میرے لیے دعا کیجئے، جب سے میں مری ہوں کسی نے میرے لیے دعا نہیں کی۔ بیس برس سے کسی نے مجھ پر ترس نہیں کھایا۔‘‘ اس نے کچھ ایسے لہجہ میں کہا کہ میرا جی بھر آیا۔

    ’’تمہاری موت کا سبب کیا ہوا تھا۔‘‘ میں نے سوال کیا۔

    اب ’’سمن پوش‘‘ قریب کی ایک کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے ایک غمگین انداز سے مسکراتے ہوئے اپنے سینہ سے ہار ہٹایا اور میں نے دیکھا اس جگہ اس کے کپڑے پر خون کے گہرے دھبے تھے۔ اس نے دھبوں کی طرف اشارہ کیا اور پھر ان کو اپنے ہار سے چھپالیا میں سمجھ گیا۔

    ’’قتل؟‘‘ میری زبان سے بےساختہ نکل گیا۔

    ’’کسی کو اس کا صحیح علم نہیں‘‘ اس نے کہا، ’’آپ میرا پورا افسانہ حیات سننا چاہتے ہیں تو سنئے! میں وہی ناہید ہوں جس کا مدفن آپ نے اس احاطہ میں دیکھا ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔!‘‘

    ’’تم کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟‘‘ میں نے بات کاٹ کر پھر پوچھا۔ میرے اعصاب پھر بےقابو ہو چلے تھے، میں سب کچھ اسی ایک منٹ میں جان لینا چاہتا تھا۔ خود ناہید کے بشرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایک اندرونی کرب سے بے بس ہو رہی ہے، گویا اپنی داستان کو دہرانا اس کے لیے بڑی آزمائش کا کام تھا۔

    ’’ذرا صبر کیجئے تو میں کوشش کر کے اپنی زندگی کے واقعات آپ سے بیان کر دوں۔‘‘ اس نے کہا ’’میرا قاتل میرا شوہر ہے لیکن اس سے یہ حرکت ایک زبردست غلط فہمی میں سرزد ہوئی تھی۔ اس کو دھوکا ہوا، جس کا مرتے دم اس کو علم نہ ہو سکا۔ وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ ایسی محبت جس کی مثال اس دور مادیات میں کم ملے گی۔ مبالغہ نہ سمجھئے، وہ مجھ کو پوجتا تھا۔۔۔

    آپ خاموش سنتے جائیے۔ میرے لیے وہ اپنے عزیزوں سے کنارہ کش ہو گیا اور اس ویرانہ کو آباد کر کے بیٹھ گیا۔ وہ کہا کرتا تھا، میرے دونوں جہاں تیری آنکھوں میں ہیں۔ ’جمال منزل‘ اس نے میرے لیے بنوائی تھی اور میں! میں تو یہ سمجھتی تھی کہ زمین، آسمان، چاند، سورج، دن رات سب اس کی تجلیاں ہیں۔ مجھے یقین تھا اور اب بھی ہے کہ مجھے زندگی اس کے طفیل ملی ہے۔ اگر انسانی دنیا کی تمام زبانیں میرے جذبات کو معرض اظہار میں لانے کی متفقہ کوشش کریں تو عہدہ بر آ نہیں ہو سکتیں۔‘‘

    ناہید کی زبان میں کاں ٹے پڑ گئے تھے، وہ دم لینے کے واسطے رک گئی، میں بے خودی کی حالت میں اس کو دیکھ رہا تھا۔

    ’’میں پارسی تھی یعنی’آتش پرست‘۔‘‘ اس نے آخری الفاظ پر زور دیتے ہوئے پھر بیان شروع کر دیا ’’اور ایکٹنگ میرا ذریعہ معاش لیکن اگرچہ مردوں کا ساتھ شب و روز رہتا تھا، مجھے کسی سے بھی عق نہ ہوا تھا۔ جمال نے مجھے ایک نئی لذت سے آشنا کیا۔ اس کو مجھ سے محبت پیدا ہو گئی۔ اس کے ایک ایک لفظ، اس کی ایک ایک ادا سے خلوص و صداقت کی بو آتی تھی۔ میں بھی اس کو دیوانوں کی طرح چاہنے لگی۔ اس کی ہستی مجھ کو دنیا سے نرالی نظر آئی۔ اس کی ہنسی میں ہمیشہ دکھ بھرا ہوتا تھا۔ اس کی آواز میں پپیہے کی سی دلدوز تاثیر تھی، سوز و گداز اس کے خمیر میں تھا۔ وہ سراپا تصویر درد تھا۔ میرا میلان ٹریجڈی کی طرف تھا اس لیے جمال نے مجھے آسانی سے جیت لیا۔‘‘

    وہ پھر اس مرتبہ زبان تر کر نے کو رکی، میں نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ ترتیب وار اپنا سارا قصہ بیان کر جائے لہٰذا خاموش منتظر رہا۔

    ’’میں آپ کے آرام میں مخل تو نہیں ہوں؟‘‘ اس نے نہ جانے کس حال سے پوچھا، اس کا چہرہ اس کے واردات قلب کا آئینہ بن رہا تھا۔

    ’’بالکل نہیں! میں اس گھڑی کا مشتاق تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’میں سمجھتی تھی کہ آپ میری غم خواری کریں گے۔‘‘ اس نے مترحمانہ لہجہ میں کہا، ’’ورنہ آپ کا تعاقب نہ کرتی۔‘‘

    ’’ہاں تو ہماری محبت خوش آئند ثابت ہوئی۔ جمال نے مخالفتوں اور انگشت نمائیوں سے بے پروا ہو کر مجھ سے شادی کرلی اور ہم دونوں نے ہنگاموں سے دور اس جنگل میں ایک جنت بسائی۔ دونوں کی زندگی ایک مسلسل لمحہ مسرت تھی۔ جمال نے اپنی ساری دولت میرے لیے وقف کردی۔ وہ متمول آدمی تھا۔ ادبیات اور مصوری سے اس کو انہماک تھا۔ مصوری کا وہ ماہر ہو چلا تھا۔ اس نے میری تصویریں کھینچیں اور ان میں سے اکثر کی پبلک میں نمائش بھی کی جن سے اس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ چنبیلی کی کیاریاں میری محنتوں کا نتیجہ ہے۔ شام کو جب ہم باغ میں گلگشت کرتے ہوتے تو وہ پھول توڑ توڑ کر مجھے دیای۔ میں ہار گوندھ کر خود پہنتی اور اس کو پہناتی۔ اسی طرح دو سال گزر گئے۔ یکایک زمانے نے ایسی گردش کی کہ بات کی بات میں ہمارے خواب کا طلسم ٹوٹ گیا۔ جمال نے اگرچہ تنہائی اختیار کرلی تھی، تاہم کبھی کبھی اس کے احباب اس سے ملنے آ جایا کرتے تھے اور وہ ان سے مل کر خوش ہوتا تھا۔ اس کے رشتہ داروں میں فیروز جو اس کا شیدا مشہور تھا، ہم کو دیکھنے اکثر آتا تھا اور ہفتوں آ کر رہا کرتا تھا۔ فیروز کی طبیعت مبتذل اور عامیانہ تھی، اس کی نفسانیت کی داستانیں اکثر سنی گئی تھی مگر جمال اس کی ہولناکیوں سے واقف نہ تھا۔ وہ معلوم نہیں کیوں فیروز کی قدر کرتا تھا، شاعر یا صناع انسان کو بحیثیت مجموعی کتنا ہی صحیح کیوں نہ سمجھ لے لیکن جہاں افراد سے سابقہ پڑتا ہے وہ اکثر دھوکا کھا جاتا ہے۔ فیروز کی نگاہیں مجھے گراں گزرتی تھیں، اس کی مسکراہٹ مجھے ناگوار ہوتی تھی۔ میں نے متعدد بار چاہا کہ جمال کو ہوشیار کر دوں مگر پھر یہ خیال ہوا کہ بیکار بد مزگی پیدا کرنا غلطی ہے۔ مجھے اپنی اخلاقی قوت پر اس درجہ غرور تھا کہ میں سمجھتی تھی فیروز مجھ سے مذاق کرنے کی بھی ہمت نہ کرےگا، اور چونکہ وہ عموماً میرے سامنے مہذب اور شائستہ رہا کرتا تھا اس لیے اور بھی مطمئن تھی اور جمال کو بھی مجھ پر اعتماد تھا۔

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ فیروز ہمارا مہمان تھا۔ جمال کو کسی اشد ضرورت سے سیتاپور جانا پڑا، رات کو آٹھ بجے جب کہ اس کی واپسی کا وقت تھا، میں اس کمرے میں جو آپ کے کمرے کے متصل ہے، بیٹھی کچھ دھیمی آواز میں گا رہی تھی، دفعتاً مجھ کو کمرہ تایک ہوتا معلوم ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو فیروز تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’یہ روشنی کم کیوں کر دی؟‘‘ میں سوال ختم کرنے نہ پائی تھی کہ میرا بازو اس کی آہنی گرفت میں تھا اور وہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ بعض ساعتیں ہوتی ہیں جو کمزور دل میں خوفناک مجرمانہ جسارت پیدا کر دیتی ہے۔ میں نے اپنے تمام جسم کی قوت صرف کر کے ایک بار اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا مگر کم بخت پر بہیمیت کا دیو مسلط تھا۔ دوسرے منٹ میں میں اس کی تنگ آغوش میں تھی۔ میں نے ابھی تک کسی نوکر کو اس لیے نہیں بلایا تھا کہ ان میں اس واقعہ کے متعلق خواہ مخواہ سرگوشیاں ہوں گی۔ اب میں نے ایک بار پھر فیروز کے مہلک پنجوں سے آزاد ہو کر خادمہ کو آواز دی۔ اس کے آنے میں تاخیر ہوئی۔ فیروز پھر میری سمت بڑھا لیکن اتنے میں جمال نے مجھے پکارا فیروز کمرے سے باہر نکل گیا اور میں جمال کے پاس دوڑی۔ میرا ارادہ تھا کہ اس سے بےکم و کاست سب ماجرا کہہ کر فیروز کو اسی وقت نکلوا دوں گی، مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔ اس نے اپنی آنکھوں سے مجھے فراوز کی آغوش میں دیکھ لیا تھا اور اپنی رائے قائم کر چکا تھا۔ معلوم ہوتا ہے جس وقت اس نے یہ دیکھا اسی وقت میں نے اپنے کو فیروز کو گرفت سے چھڑایا تھا۔ جمال اف! اف! کرتا ہوا اپنے سٹوڈیو میں ٹہل رہا تھا۔ میں نے اس کو کبھی غضبناک نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں خون کی مانند سرخ ہو رہی تھی۔ صورت جوش غضب میں مسخ ہو گئی تھی۔ میں کمرے میں داخل بھی نہ ہونے پائی تھی اس نے مجروح شیر کی طرح میرے کلائی پکڑ لی اور کہا ’’دغاباز! تیری زندگی کا ایک ایک پل اب میری روح کو ناپاک کر رہا ہے۔‘‘ مجھ میں پندار ایسا تھا کہ ’دغاباز‘ خطاب پا جانے کے بعد میں نے اپنی بریت کے لیے ایک حرف بھی نہ کہا اور وہ کچھ ایسے عالم میں تھا کہ اگر میں کچھ کہتی بھی تو وہ مجھے جھوٹا سمجھتا۔ جمال بے انتہا مغلوب الجذبات اور ذکی الحس واقع ہوا تھا۔ اس کے عضلات پھڑک رہے تھے، اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ اس نے ایک نگاہ میری اس نامکمل تصویر پر ڈالی جس کے لیے وہ ان دنوں بڑی محنت کر رہا تھا اور میز کی دراز سے پیش قبض نکال کر میرے سینے میں اتار دیا۔ یہ سب ایسی غیر متوقع سرعت کے ساتھ ہوا کہ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ’’تباہی کا شیطان‘‘ فیروز پانچ منٹ کے اندر مجھ کو میری جنت سے محروم کر گیا۔ اس کے بعد ہر چند کہ جمال پر کوئی الزام نہ آیا اور مشہور ہو گیا کہ مجھے کسی دشمن نے قتل کر دیا ہے۔ لیکن اس کی زندگی اس قدر المناک ہو گئی کہ چھ مہینے کے بعد اگر اس نے خودکشی نہ کر لی ہوتی تو وہ جاکر قتل کا اقبال کر لیتا۔‘‘

    ناہید کے آنسو گرنے لگے۔ میں تڑپ گیا، چاہتا تھا کہ اس کے آنسو پونچھوں لیکن اس نے ہاتھ کے اشارہ سے منع کر دیا اور پھر سلسلہ یوں شروع کیا۔

    ’’آپ جمال کو خو نخوار اور وحشی کہیں گے۔ مگر میرا ایمان یہ ہے کہ اس کو میرے ساتھ شدید قسم کی محبت تھی۔ یہ محبت کی انتہا تھی کہ اس نے محبت کے فنا ہو جانے کے ڈر سے مجھے ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس نے شیکسپئیر کے مشہور ڈرامہ ’’اتھیلو‘‘ کا ترجمہ کر کے سنایا تھا۔ میں گھنٹوں ’’ڈسڈیمونا‘‘ پر رشک کرتی رہی۔ میں نے جمال سے کہا تھا کہ کاش! مجھے اس کا پارٹ ہی کرنا نصیب ہوتا۔ اس پر اس نے مجھے بہت پیار کیا تھا!‘‘

    ناہید تھک گئی تھی لیکن اب اس کے چہرے سے آسود گی ٹپک رہی تھی۔ صبح کی سپیدی نمودار ہو چلی تھی۔ وہ رخصت ہونے کے لیے اٹھی، چلتے چلتے اس نے کہا، ’’ہاں ایک بات بھول گئی۔ جمال نے ایک ظلم مجھ پر کیا ہے۔ مجھے مار کر اسے تسکین نہ ہوئی اس نے میرے مزار کی لوح پر یہ شعر کنندہ کرا دیا،

    وفا آموختی از ما بکار دیگران کردی

    ربودی گوہرے از ما نثار دیگران کر دی

    اس کو آخر وقت تک مغالطہ رہا۔ اب اس شعر کو مٹا کر یہ شعر کنندہ کرا دیجئے،

    من کہ جز با تو نہ پرداختہ ام

    گر بخود ساختہ ام ساختہ ام

    بس مجھے اطمینان کلی میسر ہو جائےگا اور میں سکون کا سانس لے سکوں گی۔ آپ کو پھر کبھی تکلیف نہ دوں گی۔ ہاں! اگر آپ کا جی چاہے تو جا کر اس پیش قبض کو بھی دیکھ لیجئے جس نے دو ہستیوں کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا اور جو ’اسٹوڈیو‘ میں ابھی تک ایک بوسیدہ صندوق میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ناہید نے الوداع کہا۔ میں نے سمن مزار تک اس کو جاتے دیکھا، جہاں وہ نگاہ سے غائب ہو گئی۔

    میں ہاتھ منہ دھو کر چائے کے وقت سے پہلے ہی سائرہ سے تنہائی میں ملا۔ اس کو لے کر سیدھا اس کمرے میں گیا جو جمال کا ’اسٹوڈیو‘ رہ چکا تھا۔ سب سے پہلے میری نگاہ جس چیز پر ٹھہری وہ ایک شکستہ صندوق تھا۔ اس میں کرم خوردہ کاغذات کا ایک انبار تھا جس کے درمیان مجھے وہ پیش قبض ملا جو باوجود زنگ آلود ہونے کے اپنی خون آشامی کا اقرار آپ کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے سائرہ سے کہا اس گھر میں جتنے افراد ہیں ان میں سے ایک تم ایسی ہو جس کے سامنے میں اپنے مشاہدات بیان کر سکتا ہوں اس لیے کہ تم مجھ کو کبھی دیوانہ یا فاترالعقل نہیں سمجھوگی۔

    میں نے سائرہ کو حقیقت سے آگاہ کیا تو وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگی۔ وہ مجھ کو جھوٹا تو سمجھ سکتی تھی اور ایسی باتوں کو آسانی سے صحیح مان لینا بھی کوئی معمولی کام نہیں۔ سائرہ نے عبدالعلی اور شمیم وغیرہ سے اس کا تذکرہ کیا اور بہت اصرار کے ساتھ کہا کہ مزار کی لوح پر وہ دوسرا شعر کندہ کرایا جائے جو ناہید مجھے بتا گئی تھی۔ لیکن اس کا جواب وہی ملا جس کی مجھے امید تھی۔ یعنی میرے ساتھ ساتھ اس کا بھی خوب مضحکہ اڑایا گیا۔ مجھ کو افسوس ضرور ہے کہ ناہید کی آخری خواہش پوری نہ کر سکا مگر میرے امکان میں جو کچھ تھا وہ کیا اور اب بھی اس سے غافل نہیں ہوں۔ میں اس کے لیے برابر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ کیوں کہ میرا دعائی اعتقاد یہ ہے کہ روحواں کے تعلقات اس دنیا سے کبھی منقطع نہیں ہوتے۔

    یہ واقعہ مدتوں میرے غور و فکر کا موضوع رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا۔ محبت بھی کیا معمہ ہے۔ کوئی ایسا دماغ آج تک پیدا نہ ہوا جو اس طلسم کو توڑ سکتا۔ منطقی اپنے اصول، موضوع اور علوم متعارفہ لیے ہوئے بیٹھا رہ جاتا تھا۔ اور ہم دیکھ لیتے تھے کہ ’’ضدین‘‘ کا اجتماع اور ’’نقیفین‘‘ کا تطابق نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہستی کا اصل راز ہے۔ ہم اس گتھی کومل، اسپنسر یا سینا اور فارابی کی مدد سے نہیں سلجھا سکتے۔ اب آخر میں علمائے نفسیات اور ماہرین عصبیات کو بھی اصل واقعہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ وہ اس کو خواب یا التباس نظر بتا کر غیر ذمہ دارانہ طور پر اپنے فرض سے سبکدوشی حاصل کر لیں گے، لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی اطمینان ہے کہ خود ان کو اپنی اس رائے پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ وہ خود فریبیوں کے ذریعے سے اپنے اس کرب و اضطراب کو دور کرنا چاہتے ہیں جو تشکیک کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ کیسی مسرت کی بات ہے کہ علم انسانی کی تنگ مائیگی کا پردہ اب فاش ہو رہا ہے۔

    افسانہ کو ختم کرتے ہوئے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ناہید کی جو تصویر ناصری کے پاس تھی وہ اس مشہور مصور کی صناعی نہیں ہے جس کا نام مجھے بتایا گیا۔ بلکہ جمال کی سحر طرازی ہے جس کا علم میرے سوا کسی کو نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے