aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شگوفہ

MORE BYمسز عبدالقادر

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو جوانی میں سیاحی کے شوق میں امرناتھ کی یاترا پر نکل پڑا تھا۔ وہاں راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے وہ ایک کشمیری گاؤں میں جا پہنچا۔ اس گاؤں میں اس نے اس خوبصورت لڑکی کو دیکھا جس کا نام شگوفہ تھا۔ شگوفہ کو گاؤں والے چڑیل سمجھتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے۔ گاؤں والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ شگوفہ کے پاس گیا، کیونکہ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ لیکن اس کی محبت کا جواب دینے سے قبل شگوفہ نے اسے اپنی وہ داستان سنائی، جس کے اختتام میں اسے اپنی جان دینی پڑی۔

    (۱)

    ہماری پارٹی سیر و سیاحت کی غرض سے امرناتھ جا رہی تھی۔ ہم لوگ خوشیاں اور رنگ رلیاں مناتے ہوئے پانچ بجے کے قریب چندن داڑھی جاپہنچے۔ یہاں صرف ایک دوکان تھی جو ایک سکھ نے مسافروں کے لیے خیمہ میں کھول رکھی تھی۔

    سہ پہر کا سہانا سماں، پہاڑ کی سیر، دلکش فضا، پاک و صاف ہوائیں، ندی کا شور و غل، برفانی پل پر آفتاب کی ناچتی ہوئی کرنیں جھلملا رہی تھیں۔ جن سے معلوم ہوتاتھا کہ تمام دنیا کا حسن سمٹ کر اس لاثانی مقام پر جمع ہوگیا ہے۔ ہم لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ آج رات یہاں ضرور قیام کریں گے۔ ہمارے بار برداری کے ٹٹو اور قلی ابھی پیچھے تھے۔ ہم نے دوکاندار کو چائے کا آرڈر دیا اور خود انتظار کی زحمت سے بچنے کے لیے برف کے پل کی طرف نکل گیے۔ نوعمری کا زمانہ تھا، طبیعت جولانیوں پر تھی۔ تازہ امنگیں، نئے جذبے، زندہ ولولے پوری صحت و تندرستی، سچی خوشیاں، حقیقی مسرتیں، جو اس بے فکری کی عمر کے لوازم شمار ہوتے ہیں اور جن کے زیر اثر دنیا کی ہر ایک چیز ایسی خوبصورت دکھائی دیتی ہے، گویا ہر شے سے خوشیوں اور جوانیوں کا رس ٹپک رہا ہو۔ اس پر یہ قدرتی اور دلفریب ماحول ایک انوکھا اور طلسمی رنگ چڑھا رہا تھا۔

    ہم لوگ قدرت کی ان آرائشوں اور دلآویزیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے برفانی پل پر چلنے لگے۔ پل کے پار ایک کاہی آلود چٹان پر ایک عجیب الہیت انسان بیٹھا تھا۔ اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ شکل و صورت سے بھی کچھ برانہ تھا مگر اس نے وضع انوکھی بنا رکھی تھی۔ یعنی سیاہ رنگ کا ایک لمبا کشمیری طرز کا گرم خرقہ پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں سیاہ فوجی بوٹ تھے، ہاتھوں میں چرمی دستانے اور سر پر سیاہ چرمی کنٹوپ اور اس پر طرہ یہ کنٹوپ پر سولہ ہیٹ لگا رکھا تھا۔ آنکھوں پر دوہری عینکیں چڑھی ہوئی تھی اور مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔

    اس کی ہیئت کذائی پر ہم بے اختیار ہنسنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہمارے قہقہوں کی زبردست یورش سے پہاڑ گونج اٹھے اور ندی کا شور دب کر رہ گیا۔ ہمیں شوخیوں اور شرارتوں کا اچھا موقع ہاتھ آیا تھا، ہم نے اس پر انگریزی زبان میں بھی آوازے کسے، پھبتیاں اڑائیں اور خوب دل کھول کر مذاق کیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جوانی کی سرمستیوں کے سامنے بھوت بھی بھاگتے ہیں مگر اس خدا کے بندے کے کان پر جوں تک نہ رینگی بلکہ ہماری طرف آنکھ اٹھاکر دیکھا ہی نہیں اور بڑے اطمینان سے سگریٹ کا دھواں بکھیرتا رہا، البتہ ہمارے انتہائی مذاق سے قدرے متاثر ہوکر وہ ہلکے سے مسکرا دیتا۔ اس سےہماری ہنسی میں مزید اضافہ ہوتا کہ یہ جانگلو کیوں ہنستا ہے؟ اسے کیا کچھ سمجھ آتی ہے اور اس کی اس حرکت پر ہم اتنے ہنستے کہ ہمارے پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے اور گلے خشک ہوکر کھانسی ہونے لگتی۔

    اسی ہنسی مذاق میں جب کچھ وقت گز رگیا تو ہمیں چائے یاد آئی اور وہاں سے لوٹے۔ چاء سے فارغ ہوئے تو بار برداری کے ٹٹو اور قلی وغیرہ پہنچ گیے تھے اور خیمے نصب کرانے میں مشغول ہو گیے۔ الاؤ لگواکر، بستر وغیرہ تیار کرواکر، فارغ ہوئے تو شام ہو چکی تھی۔ اب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔

    کشمیر کی بھوک تو مانی ہوئی ہے۔ اس سرزمین میں آکر قوت ہاضمہ اس قدر تیز ہوجاتی ہے کہ بغیر منہ چلائے کسی وقت بھی گزارا نہیں ہوتا۔ قدرتی چشموں اور بہتی ہوئی ندیوں کے پانی جو کیمیائی نباتاتی اور جڑی بوٹیوں کی آمیزش سے اکسیر کا جواب رکھتے ہیں، ثقیل سے ثقیل غذا بھی فوراً بھسم ہو جاتی ہے اور بے اختیار الجوع الجوع زبان پر آتا ہے۔ چنانچہ کھانے کی غرض سے دوکان پر پہنچے۔ یکایک ایک کونے میں نظر پڑی تو ہم سب چونک اٹھے کیونکہ کونے میں بچھے ہوئے سٹول پر وہی خرقہ پوش صاحب بیٹھے انگریزی اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے، جسے چاء کے وقت ہم لوگ ہی یہاں بھول گیے تھے۔ انہیں دیکھ کر پھر ہمیں مذاق کی سوجھی۔ ہمارے ایک شریر ساتھی نے آگے بڑھ کر کہا، ’’آپ انگریزی تو خوب جانتے ہوں گے۔ ہمیں بھی کچھ سکھائیے۔‘‘

    اس نے سنجیدگی سےجواب دیا، ’’آپ کو کیا سکھاؤں گا، کیونکہ میں تو خود ضرورت کے مطابق جانتا ہوں۔‘‘

    ’’ایں آپ انگریزی جانتے ہیں، تو گویا آپ بھی تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’شاید ایسا ہی ہو!‘‘ خرقہ پوش نے جواب دیا۔

    ’’تو کہاں تک تعلیم ہے آپ کی؟‘‘ ہم لوگوں نے برائے تمسخر کہا۔

    ’’صرف ایم اے تک‘‘اس نے طنزاً کہا۔

    ’’پشیمان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، ہنسو اور کھیلو، تمہاری چھیڑ چھاڑ سے میں بہت خوش ہوں کیونکہ ایک عرصہ کے بعد مجھے یہ دلچسپ موقع میسر آیا ہے۔ اس اتفاقیہ ملاقات سے میرا چلوؤں خون بڑھ گیا ہے۔ دوسرے میری ہیئت کذائی ہی ایسی تھی کہ خواہ مخواہ ہنسی آتی ہے مگر میں مجبور ہوں کیونکہ عرصہ درازسے میں اس پہاڑی علاقہ میں رہتا ہوں اور یہ سورج کی چمکیلی کرنیں جو برف پر جگمگا کر دلکش سین پیش کرتی ہیں، آنکھوں کے لیے سخت مضر ہیں، اسی لیے میں نےدوہری عینکیں چڑھا رکھی تھیں اور سولہ ہیٹ بھی اس سلسلے میں بہت مفید ہے۔ یہ چہرے کو برفانی عکس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس طرح جسم کے دوسرے حصے بھی ڈھانپنے پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کروں تو اس برفانی ہوا سے میرےمسام پھٹ جائیں اور مجھے بھی خارش کی بیماری لگ جائے۔ جو ان علاقوں میں عام ہے۔‘‘

    ’’اس کی طرز گفتگو اتنی سادہ اور موثر تھی کہ ہم سب اس سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گیے۔ وہ ایک نیک دل انسان تھا۔ بہت جلد ہم لوگوں سے مانوس ہو گیا۔ کھانے کے بعد ہم نے اس کو اپنے خیمہ میں لے جانا چاہا کہ ہمیں اپنی سیاحت کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ ہمیں ایک دلچسپ اور سچی کہانی سنائےگا۔ لیکن چونکہ وہ رات کو تلخہ پینے کا عادی تھا، اس لیے اس نے کہا آپ لوگ خیمے میں جائیں، میں ابھی تلخہ پی کر آتا ہوں۔‘‘ ہم خیمہ میں واپس آئے اور اسی خرقہ پوش کا ذکر کرتے ہوئے اس کے انتظار میں بستروں میں پڑگیے۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہ ہمارے خیمہ میں آتا، ہم سب سو گیے۔

    صبح سویرے جب ہم لوگ بیدار ہوئے تو خرقہ پوش یاد آیا۔ ہم نے اپنے ملازم کو اسے بلانے کے لیے دوکان پر بھیجا۔ تھوڑی دیر میں وہ اکیلا ہی واپس آ گیا مگر اس کے ہاتھ میں کاغذوں کا ایک پلندا تھا۔ اس نے ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’وہ خرقہ پوش خود تو چلا گیا ہے، البتہ کاغذات آپ کے لیے دوکاندار کے پاس چھوڑ گیا ہے۔‘‘ ہم سب اس پلندے پر ایک ساتھ ٹوٹ پڑے۔ بیرونی کاغذ لفافہ کی صورت میں پلندے پر لپٹا ہوا تھا جس پر لکھا تھا؛

    ’’میرے نوعمر اور نووارد دستو! رات میں نے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں کوئی دلچسپ واقع سناؤں گا۔ لہٰذا جب میں تمہارے خیمہ میں آیا تو تم لوگ جوانی کی راحت آمیز نیند کا مزا لے رہے تھے۔ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہ سمجھا لیکن یہ داستان جس کے سنانے کا میں تہیہ کرکے آیا تھا۔ تم لوگوں کو سوتا ہوا دیکھ کر بار گراں کی طرح محسوس ہونے لگی۔ میرے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ صبح تک ٹھہر سکتا، کیونکہ میں ان گھوڑے والوں کے ساتھ، جو منہ اندھیرے ہی ادھر سے گزرتے ہیں، جانےکا وعدہ کرچکا تھا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو یہ دشوار گزار راستہ پیدل طے کرنا پڑتا، اس لیے اپنےدل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کہانی قلم بند کر رہا ہوں یہ میری آپ بیتی ہے!‘‘

    (۲)

    میں ایک سیاح ہوں۔ صرف سیاح ہی نہیں بلکہ سیاح اکبر کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ یہ خبط مجھے بچپن سے تھا جو کسی وقت چین نہ لینے دیتا تھا۔ میں باپ کے ڈر سے، اپنے دل پر جبر کرکے تعلیم میں مصروف رہا۔ تعلیم کے ختم ہوتے ہی میرے والدین بھی جنت کو سدھار گیے۔ میں اکیلا رہ گیا۔ وہ مردہ جذبات وقت کے تقاضوں سے پھر بیدار ہوئے۔ سیلانی طبیعت نیا رنگ لائی لہٰذا آج سے بارہ سال پیشتر سیزن گزارنے کی خاطر پہلگام آیا۔ میرے ساتھ دو کلا س فیلو عنایت اور مرزا بھی تھے جو کہ میری طرح دلدادۂ سیاحت تھے، جن کی صحت گویا سمند شوق پر تازیانہ تھی۔ ہم دن رات پہاڑوں اور جنگلوں میں گھومنے لگے۔

    آخر ایک دن ہم نے اپنے پہاڑی ملازم سے امرناتھ کی تعریف سنی۔ بس پھر کیا تھا فوراً کیل کانٹے سے لیس ہوکر چل پڑے۔ اتوار کا دن تھا، چمکدار دھوپ سیلاب نور کی طرح نشیب و فراز پر بہہ رہی تھی۔ تمام لدھر ویلی پر نور کا عالم تھا۔ دس بجے ہم پہلگام سے چلے اور ایک بجے تک چندن واڑی جا پہنچے۔ ہمارے ساتھ چھ قلی اور تین بار برداری کے ٹٹو تھے۔ تھوڑی دیر ہم نے چندن واڑی میں دم لیا اور کھانا جو ساتھ پکاکر لائے تھے، کھاکر آگے روانہ ہوئے۔ ہمارا خیال تھا کہ غروب آفتاب تک شیش ناگ پہنچ جائیں گے مگر ابھی چند میل ہی کا سفر طے کیا تھا کہ سایہ بادلوں نے چاروں طرف سے غول بیابانی کی طرح پھیلنا شروع کیا تو قلی نے کہا، ’’جتنی جلد ہوسکے اس حدسے نکل جانا چاہیے۔ کیونکہ اس مقام پر بارش اکثر خطرناک اور شدید ہوتی ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی رفتار تیز کر دی لیکن آدھ گھنٹہ کے اندر ہر طرف اس قدر دھند چھا گئی کہ ہاتھ پسارے دکھائی نہ دیتا تھا اور ساتھ ہی طوفان باد وباراں نے آ لیا۔ ہوا کا زور دم بدم بڑھ رہا تھا۔ جس کی گونج سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ ندی کا مدو جزر ہوا کے غضبناک تھپیڑوں کے ساتھ ہر لحظہ بڑھ رہا تھا، گویا اس کی خوف ناک لہریں اچھل اچھل کر ہمیں نگلنا چاہتی ہوں۔ ہم چٹانوں اور جھاڑیوں کا سہارا لے کر چلنے لگے اور اسی حالت میں اس حد کو عبور کر لیا۔ اب راستہ کافی کھلا تھا اور ندی بھی دور ہوتی جا رہی تھی لیکن بدقسمتی سے ژالہ باری ہونے لگی۔ اولوں کی بوچھار سے اپنے پرائے کی تمیز نہ رہی۔ ہم نے بے تحاشا دوڑنا شروع کیا۔ گو ژالہ باری سے ہماری برساتیاں اور ٹوپیاں سینہ غربال بن گئی تھیں پھر بھی ہم نے ہمت نہ ہاری اور بڑھتے چلے گیے۔ کچھ دیر بعد ژالہ باری تو ختم ہو گئی مگر مینھ بدستور جاری رہا۔ آخر ایک لمبے اور دشوار سفر کے بعد ہمیں دور سے جھونپڑی دکھائی دی۔ ہم گرتے پڑتے وہاں تک جاپہنچے۔

    یہ گھاس پھوس کی جھونپڑی بالکل غیر آباد تھی۔ شاید کسی سیاح نے یہاں کبھی قیام کیا تھا، جس کے کونے میں ایک شکستہ چولہا تھا اور قریب ہی سوکھے پتوں کا ایک ڈھیر لگا تھا اور ایک طرف پیال بچھی تھی۔ ہم نے آگ جلاکر کپڑے خشک کیے اور قلیوں کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے حتی کہ شام ہو گئی اور وہ نہ آئے۔ اب اس ویران جھونپڑی میں رات گزارنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ چنانچہ ہم تینوں بھوکے پیاسے دوستوں نے خشک پتے اور پیال وغیرہ جلاکر رات کاٹ دی، گو تمام رات ہمیں ریچھوں کی غراہٹ اور دوسرے جنگلی جانوروں کی آوازیں آتی رہیں، مگر آگ روشن ہونے کی وجہ سے ہم ان کی دست برد سے محفوظ رہے۔

    خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ مطلع بالکل صاف ہو چکا تھا اور قرص آفتاب سنگ پارس کی طرح بے رنگ دنیا کو جلا دے رہا تھا۔ ہم اس تاریک جھونپڑی سے نکلے ہی تھے کہ ہمارے قلی بھی ہمیں تلاش کرتے ہوئے آ پہنچے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم لوگ راستہ بھٹک کر اس جگہ آ گیے تھے۔ وہ تمام رات ہمیں تلاش کرتے رہے اور یہ جگہ چندن واڑی اور شیش ناگ سے بہت دور دوسری طرف واقع ہے۔ اس خبر سے ہم بہت افسردہ ہوئے۔ لیکن اس وقت ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، ہم نے قلیوں سے پوچھا، ’’کیا اس جنگل کے قرب و جوار میں کوئی گاؤں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہاں، یہاں قریب ہی ایک خوبصورت وادی ہے جس میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر تین گاؤں آباد ہیں جن میں کرور اور ہاری تو دونوں گاؤں چھوٹے چھوٹے ہیں مگر نگ پوہ بڑا گاؤں ہے۔‘‘ ہم بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے۔ یہ مشورہ کیا ادھر چلیں اور شکم پری کریں۔ غرض یہ کہ ہم سیدھے راستے پر آگے کی طرف روانہ ہوئے۔

    فجر کا پہلا نورانی سماں تھا اور خوشنما راستہ پہاڑی کے دامن میں بل کھاتی ہوئی دندانہ دارسڑک، کھڈ میں بہتی ہوئی منہ زور برفانی ندی، دیو زاد چٹانیں، منیو سواد وادیوں کی فردوسی شان اور قدرت کے حقیقی جلوے تروتازگی بخش رہے تھے۔ قریباً ایک میل کے فاصلہ پر جاکر بلند پہاڑ کےنیچے ایک خوبصورت اور شاداب وادی دکھائی دی۔ ہم ایک برساتی نالے کے ڈھلوان راستے کے ذریعے وادی میں اتر گیے۔

    یہ وادی سچ مچ سراپا حسن تھی جس کی خاموش سرزمین سے حسن کی کرنیں پھوٹی پڑتی تھیں۔ اردگرد کے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں سورج کی شفاف اور بھڑکیلی کرنوں کی بدولت نہایت آب و تاب سے جلوہ ریز تھیں۔ سبزے کانکھرا ہوا رنگ آنکھوں میں کھب رہا تھا، دھان کے مختلف رنگوں کے کھیت نور آگیں بہار دکھا رہے تھے۔ زرشک کی بیلیں پھولی ہوئی تھیں جن کی کھٹ مٹھی خوشبو سےتمام وادی مہک رہی تھی۔ ان قدرتی رنگینیوں سے ہماری روح تک مسکرانے لگی۔ تھوڑی دور ایک چھوٹی سی بلوریں ندی چمکیلے سنگریزوں سے کھیلتی اور ان کی سنگ دلی پر اشک حسرت بہاتی ہوئی آہستہ آہستہ بہہ رہی تھی، جس کے پار درختوں کاایک زبردست جھنڈ تھا جہاں سے گانے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ درختوں کے درمیان ایک قبرستان ہے جس میں گھنی گھاس کھڑی تھی۔ اس کے آخری سرے پر ایک طویل و عریض احاطہ تھا۔ قبرستان اور احاطہ کو جدا کرنے کی غرض سے زر شک کی بیلوں کی اونچی باڑ باندھی گئی تھی۔ جس کے دوسری طرف پتھر کی عمارت تھی جہاں کوئی دھیمے سروں میں گا رہا تھا۔

    ہم لوگ باڑ پھاند کر عمارت کی طرف گیے۔ عمارت کے دروازے بند تھے۔ اس عمارت کے سامنے ایک وسیع چمن تھا جس کے آخری سرے پر دور سےایک خوبصورت، کشمیری طرز کا دو منزلہ جھونپڑا دکھائی دیا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھے، گانے کی آواز صاف اور بلند ہوتی گئی۔ گانےوالے کی آواز میں اتنا رس تھا اور لے اتنی دلنشیں تھی کہ ہم لوگوں سےضبط نہ ہو سکا۔ ہم بےتابی سے چمنستان میں گھس کر گانے والے کو تحیر زا نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ یہاں ایک چھوٹے سے جھرنے کے قریب اور خوش رنگ پھولوں کی کیاریوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تعزیہ نما چھپر تھا جس کے نیچے ایک پری زاد لڑکی کی بیٹھی اردو زبان میں ایک فراقیہ گیت گا رہی تھی۔

    یہ گانے والی حسینہ نہایت نازک اندام تھی۔ اس کے شب رنگ اور دراز بال تن نازک کے گرد حصار کیے ہوئے تھے۔ چونکہ وہ ہماری طرف پشت کیے بیٹھی تھی اس لیے اسے ہماری موجودگی کاعلم نہ ہو سکا۔ ہم اس نغمہ کے نشے میں سرشار دیر تک چپ چاپ کھڑے رہے لیکن جونہی گانا ختم ہوا ہم اس کے قریب چلے گیے۔ ہمارے پاؤں کی چاپ سن کر اس نے رباب پرے رکھ دیا اور چہرے سے بکھرے ہوئے بالوں کی لٹیں ہٹائیں۔ آہ کیا بتاؤں وہ کس قدر حسین تھی۔ حسن کی تجلیوں سےہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کی نورانی جھلک سے گمان ہوا جیسے چاند یکایک کالی بدلیوں سے نکلا ہوا، اس کی سرخ و سفید رنگت بالکل اس طرح تھی جیسے میدہ اور شہاب سمویا ہوا ہو۔ اس کے خوشخط ہلالی ابرؤں کے نیچے بڑی بڑی مست آنکھوں میں میخانوں کی بستیاں آباد تھیں۔ اس کے گیسوؤں سے مصور کی دعا لپٹی ہوئی تھی۔ اس کاگول اور درخشاں چہرا آفتاب کو شرما رہا تھا اور گداز بازوؤں میں بت کدے کی راگنی سوئی ہوئی تھی، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے وہ تخلیق کی پہلی سحر معلوم ہوتی تھی۔

    وہ سرخ پشمنے کا ایک لمبا پیرہن پہنے تھی اور سر پر سرخ رنگ کا ہلکا پھلکا رومال اوڑھ رکھا تھا جس کے نیچے سے شبرنگ بال کمر تک لٹکتے ہوئے نہایت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ اس کی کمر میں بندھا ہوا سیاہ ریشمی پٹکا اس طرح تھا جیسے صندل کے درخت کے ارد گرد مار سیاہ۔ ایسا بے مثال حسن دیکھ کر ہمارے دل پہلوؤں میں دھڑکنے لگے۔ وہ اس زمردیں خطہ کی لال پری تھی یا سرخ بیر بہوٹی۔

    ہم نے مختصر لفظوں میں اسے اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔ پہلے تو وہ چند منٹ تک ہمیں تعجب سے دیکھتی رہی، پھر معصومانہ انداز سے مسکرائی۔ ہمیں محسوس ہوا کہ شاید شب یلدا میں بجلی آسمان کا سینہ چیر کر کوند رہی ہے۔ اس کی مسکراہٹ سے ہم سب کے مضمحل چہرے کھل گیے۔ وہ ہمیں دو منزلہ جھونپڑے کے اندر لے گئی۔ ایک بڑے کمرے میں پھول دار نمدے اور خوبصورت گدے بچھے ہوئے تھے اور کھونٹیوں کے ساتھ جابجا پھولدار آبی نباتات کے لمبے لمبے ہار لٹک رہے تھے جو مینڈھیوں کی طرز پر گوندھے گیے تھے۔ غرض یہ کہ کمرے کی ہر ایک چیز صاف ستھری اور قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔

    وہ ہمارے لیے کھانا لینے گئی اور ہم اس کی بابت آپس میں باتیں کرنے لگے۔ میں نے کہا، ’’شاید وہ یہاں اکیلی رہتی ہے۔ کیونکہ سوائے اس کے کوئی دوسرا آدمی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ مرزا نے کہا ’’ایسا نہیں ہو سکتا، اس کا ساتھی کہیں باہر کھیت پر ہوگا۔‘‘ اتنےمیں وہ کھانا لے آئی جو لکڑی کے خوبصورت کاسوں میں رکھا ہوا تھا۔ یہ کھانا بھی عجیب طرح کا تھا یعنی ابلے ہوئے سیب جن میں دہی ملا ہوا تھا۔ دودھ کی روٹیاں، شہد، انڈے، پنیر، زرشک، کچے اخروٹ اور ایک خاص قسم کی گھاس جو پانی میں اگتی ہے اور مغز اخروٹ کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں بافراط تھیں۔ ایسے مفلس علاقہ میں ایسا کھانا یقیناً کسی جاگیردار کو بھی میسر نہ آسکتا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’آپ نے اردو زبان کس سے سیکھی؟‘‘ اس نے کہا ’’اپنے والدین سے۔ وہ پشاور کے رہنے والے تھے۔‘‘ ہم نے پوچھا، ’’آپ کا اسم شریف؟‘‘ اس نے کہا، ’’میرا نام شگوفہ ہے!‘‘ کیا پیارا نام تھا۔ وہ خود تو ابھی شگوفہ تھی ہی لیکن اپنے حسن نورستہ سے دوسروں کے دلوں کے شگوفے کھلا دینے کا اعجاز بھی رکھتی تھی۔ ہم لوگوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اس غیرمہذب علاقہ میں آپ کیسے آئیں؟‘‘ اس نے کہا، ’’قسمت لے آئی!‘‘ ہم نے پوچھا، ’’آپ کا شریک زندگی غالبا کام پر گیا ہوگا۔‘‘ اس نے شرماکر جواب دیا، ’’نہیں میں توکنواری ہوں۔‘‘ ہم نے کہا، ’’لیکن آپ کے لواحقین؟‘‘ اس نے کہا، ’’میراکوئی بھی نہیں ہے۔ میں بالکل اکیلی ہوں۔‘‘

    ’’اکیلی؟‘‘ ہم سب نے بے اعتباری سےکہا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنےلگے۔

    ’’ہاں بالکل اکیلی۔‘‘ اس نے متانت سےکہا۔

    ’’مگر یہ سازوسامان؟‘‘ ہم نے کہا۔

    ’’سب گاؤں والے میرےلیے مہیا کرتےہیں۔‘‘ اس نے فخر سے کہا۔ اس کے بعد ہم نے کئی ایک سوال کیے مگر اس نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا بلکہ ٹالتی رہی۔

    کھانے کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور راستہ بھر شگوفہ کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ اس وادی کی رنگینیوں اور شگوفہ کی پرلطف ملاقات کا ہم پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ ہم نے کچھ دن یہاں قیام کرنے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ ہم نے واپس آکر اسی ویران جھونپڑی کے قریب ڈیرے ڈال دیے اور روزانہ ’’شگوفہ‘‘ کے گھر جاکر اس کی پاکیزہ صحبتوں سےدل بہلانےلگے۔ مگر میرے دل پر ان ملاقاتوں کا خاص اثر ہو رہا تھا۔ تاہم مجھے کوئی ایسا موقع نہ ملا کہ کبھی تنہائی میں مل کر اس سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ شگوفہ بھی مجھ پر بہت مہربان تھی اور میرے دوستوں کی نسبت میری باتوں سے بہت خوش ہوتی تھی۔ لیکن دل کا حال خدا کو معلوم ہوگا۔ میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا تھا۔ البتہ خود دل و جان سے اس پر فدا ہونے لگا۔ چند دن بعد میرے دوستوں نے واپسی کا ارادہ کیا اور مجھے بھی ان کی انگشت نمائی کے ڈر سےمجبوراً ان کے ساتھ واپس آنا پڑا۔

    (۳)

    شگوفہ کے حسن و جمال کی کشش کوئی معمولی نہ تھی۔ اس کی بھر پور جوانی محشر خیز شباب، مستانہ چال، شیریں کلامی اور ان سب سے بڑھ کر معصومیت میرے دل میں گھر کر چکی تھی۔ میرا دل اس کی پرستش کرتا تھا تاہم دن رات اس کی یاد میں تڑپنے کے باوجود میں تین سال تک کشمیر نہ جا سکا۔ آخر چوتھے سال بدقسمتی پھر مجھے وہاں لے گئی۔ شگوفہ کے اشتیاق میں جو میرے دل کی ملکہ اور میری خوشیوں کا گہوارہ تھی، میں دوبارہ پہلگام پہنچا، لیکن وہاں بمشکل ایک رات ٹھہرا اور دوسرے دن صبح شفق کے رنگین سایوں میں روانہ ہو کر چار بجے تک اپنی کھوئی ہوئی جنت میں پہنچ گیا، جس کی وسیع آغوش میں پاکیزگی اور معصومیت پرورش پاتی تھی، جس کے دراز دامنوں میں مستیاں اور رعنائیاں کھیلتی تھیں، جس کی چوڑی چھاتی پر بلوریں ندیاں مچلتی تھیں، جہاں دھان کے کھیتوں پر حسن ازلی لہلہاتا تھا، جہاں زمردیں درختوں کی نورانی سج دھج شادابیوں کامنہ چڑاتی اور جہاں کے سجیلے پھولوں کی نزاکت پر خود قدرت رشک کرتی تھی۔

    میں والہانہ انداز سے مسکن محبوب میں داخل ہوا۔ چمنستان پھولوں سے پٹا پڑا تھا۔ وہ ایک کنج میں سورج مکھی کے پھولوں کے درمیان بیٹھی ایک خاص قسم کی نرم و نازک گھاس کے تنکوں سے اپنے لیے پاپوش تیار کر رہی تھی۔ اس وقت وہ آفتابی رنگ کے لباس میں تھی۔ اس کا گلابی چہرہ سورج کی خوشگرامی سے قندھاری انار کے خوشنما دانے کی طرح سرخ ہو رہا تھا اور سر کے بال کالی ناگن کی طرح ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس دلفریب نظارے سے متاثر ہوکر میں وہیں مبہوت کھڑا رہ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے کام سے اکتاتے ہوئے، انگڑائی لی تو اچانک اس کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ میں دوڑ کر اس کے قریب گیا۔ مجھے پہچان کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ اس نے بڑے تپاک سے میرا خیرمقدم کیا اور نہایت خلوص سے جھونپڑے میں لے گئی۔

    سفر کی تکان سے میری طبیعت مضمحل ہو رہی تھی، اس لیے میں کھانا کھاکر سو گیا۔ شام کے قریب میری آنکھ کھلی تو باہر نکل کر دیکھا کہ کشمیری عورتوں کا ایک میلہ سالگا تھا جن کے درمیان شگوفہ نہایت وقار سے اس طرح بیٹھی تھی جیسے ستاروں کے حلقہ میں چاند کے سامنے ایک بہت بڑے سماوار میں چائے ابل رہی تھی۔ میں اسے مصروف پاکر چمنستان کی طرف چل دیا۔ سورج اس وقت پہاڑوں کی عین برفانی چوٹیوں پر چمک رہا تھا اور نورانی شعاعوں کے عکس سے برف پر جابجا قوس قزح کے رنگ جھلک رہے تھے۔ ان رنگین سایوں سے وادی کی شان دوبالا ہو رہی تھی۔ ادھر زرشک کی کھٹ مٹھی خوشبو دل کو لبھا رہی تھی۔

    میں ان فطری تجلیات کی بہاریں لوٹتا ہوا نہایت سکون و اطمینان سے گلگشت چمن کرنے لگا۔ اسی حالت میں جب کہ میں چکر کاٹ کر زرشک کی بیلوں سے گزر رہا تھا تو سامنے مجھے خرقہ پوش کشمیری کھڑا دکھائی دیا جس نے کشمیری زبان میں آہستہ سےکہا،’’یہاں سے بھاگ جا!‘‘

    اس نے کوئی جواب نہ دیا اور بھاگ گیا۔

    ابھی میں اس شخص کی حرکت پر غور کر رہا تھا کہ پیچھے سے سیٹی کی آواز آئی میں نے پلٹ کر دیکھا تو پگڈنڈی پر کھڑا ہوا ایک بوڑھا کشمیری مجھے وہاں سے بھاگ جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میں اس کی طرف بڑھنے لگا۔ مگر اس نے اشارے سے مجھے روک دیا اور پھر جھونپڑے کی طرف اشارہ کرکے اس نے انگلی اپنے لبوں پر رکھ لی۔ جس کا مطلب ظاہر تھا کہ خاموش رہو، وہ سن لےگی۔ ان لوگوں کی ایسی حرکات نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا۔ میں نہ سمجھ سکا کہ یہ لوگ مجھے کس خطرے سے آگاہ کرتے ہیں، اتنے میں سورج کی سنہری شعاعیں ایک ایک کرکے روپوش ہو گئیں، جنگلی درخت، خوش رنگ پھول، پہاڑی کھیت، خود روبیل بوٹے، کشادہ وادی، غرض یہ کہ ہر ایک چیز سہم کر رات کے تاریک دامن میں سونے لگی۔ مگر میں عالم استعجاب میں وہیں کھڑا رہا۔

    یکایک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے چونک کر دیکھا تو اپنے قریب ایک بوڑھی عورت کو کھڑا پایا۔ جس نے مجھے کشمیری زبان میں کہا، ’’تم یہاں کیوں آئے ہو اور کہاں سے آئے ہو۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’میں پنجابی ہوں اور سیرو سیاحت کی غرض سے آیا ہوں۔‘‘ اس نے کہا، ’’تو کیا تمہیں رات گزارنے کے لیے گاؤں میں کوئی جگہ نہ مل سکی تھی۔ جو یہاں اس بلا کے دام میں آپھنسے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگی مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا،’’سچ سچ بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ ورنہ ابھی شگوفہ کو بلاکر سب کچھ بتاتا ہوں۔ ‘‘

    اس دھمکی سے بڑھیا کانپ گئی اور قبرستان کی باڑ کے قریب سنگین عمارت کے پیچھے لے جاکر مجھ سے کہنے لگی، ’’تم نے دیکھا کہ وہ اس جنگل میں کس شان و شوکت سے رہتی ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں۔‘‘ بڑھیا کہنے لگی، ’’یہ بھی جانتے ہو کہ ہمارا علاقہ بہت مفلس ہے۔ ہم خود چیتھڑے پہنتے ہیں مگر اس کے لیے پشمنے کے زردوز لباس بناتے ہیں، خود روکھا سوکھا کھاتے ہیں اور اس کے لیے روزانہ اچھی اچھی خوراکیں بہم پہچانتے ہیں۔ خود’’ کانگڑیوں ‘‘کے سہارے بیٹھ کر رات گزارتے ہیں مگر اس کے گھر میں ہمارے بنائے ہوئے نمدے اور قالین موجود ہیں۔ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ‘‘

    میں نےکہا، ’’میں کیا جانوں؟‘‘

    بڑھیا نے کہا، ’’اچھا سنو، شگوفہ ڈائن ہے۔ انسانی خون اس کے منہ لگ چکا ہے۔ ہم یہ سب چیزیں اپنے بچاؤ کی خاطر اسے بطور نذرانہ دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے پیشتر وہ گاؤں والوں پر ہاتھ صاف کیا کرتی تھی۔ مگر اب صرف بھولے بھٹکے مسافروں کو ہی شکار بناتی ہے یا قبروں سے مردے نکال کر کھاتی ہے۔ اس کا حسن و جمال صرف فریب نظر ہے۔‘‘

    اس انکشاف نے مجھے حواس باختہ کر دیا۔ آسمان پر سیاہی اورسفیدی دست وگریباں ہو رہی تھی۔ تمام وادی پر دھندلکے کا غلاف چڑھ رہا تھا۔۔۔ ہوائیں کالے چور کی طرح کائنات سے داؤ گھات کر رہی تھیں۔ سیاہ پوش فضا میں جھاڑوں کی جنبش سے روحوں کے چلنے پھرنے کا گمان ہو رہا تھا، اس پریشان کن ماحول میں بڑھیا کے اس بیان کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں واہمہ کا شکار ہوکر کانپنے لگا۔ سچ ہے۔ جان بہت عزیز ہوتی ہے چنانچہ میں نے بڑھیا سے التجا کی کہ آج رات مجھے اپنے گھر میں پناہ دے لیکن بڑھیا نے کانوں پر ہاتھ رکھے۔

    میں نے کہا، ’’کیا گاؤں میں کوئی سرائے بھی ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’کوئی نہیں اور اگر ہوتی بھی تو تو تمہیں کوئی پتہ نہ دیتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ بڑھیا نے کہا، ’’گاؤں والے ایک مسافر کی خاطر شگوفہ کو دشمن کیسے بناتے۔ ‘‘

    عین اسی وقت پاؤں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی جھاڑیوں سے خفیف سی سرسراہٹ۔ بڑھیا تو فوراً دم دباکر بھاگی، لیکن میں بدحواسی کے عالم میں وہیں کھڑا رہ گیا۔ کچھ دیر بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ محض وہم تھا تو میری جان میں جان آئی اور چہرے پر بناوٹی بشاشت پیدا کرتے ہوئے جھونپڑے کی طرف چلا گیا۔

    جھونپڑے کو خالی پاکر مجھے سخت فکر ہوئی اور یقین ہوگیا کہ اس نے ضرور ہماری باتیں سنی ہوں گی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میں چپ چاپ کمرے میں بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں وہ اندر داخل ہوئی اور سست انداز سے کھانا لائی اور نہایت خاموشی سےمیرے سامنے چن دیا۔ اس کے اس رویہ سے میں بہت پریشان ہوا اور اس سے گھل مل کر باتیں کرنے لگا۔ اس نے کچھ توجہ نہ کی اور ٹالنے کی غرض سے اٹھ کر میرا بستر تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اب تو میں بہت گھبرایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا، جسے وہ تاڑ گئی اور اپنے مغموم چہرے پر عارضی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی، ’’آپ نےکھانا کیوں چھوڑ دیا۔‘‘ میں نے اداسی سے کہا، ’’آپ کی بے رخی دیکھ کر۔‘‘ میرے اس جواب پر اس نے سرجھکا لیا اور اس کی شرابی آنکھوں سے اس طرح آنسو برسنے لگے جیسے ساون بھادوں کی جھڑی۔

    خدا جانے اتنے بڑے بڑے شفاف اور نورانی آنسو اس نے کہاں جمع کر رکھے تھے کہ میں حیران رہ گیا۔ مگر فوراً ان مست آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں نے ایسا اعجاز دکھایا کہ میرے تمام شکوک ان کی دلفریب رو میں بہہ گئے۔ میں اپنی غلطی پر سخت نادم ہوا اور اس کا بھولا بھالا چہرہ دیکھ کر میرا دل موم ہو گیا۔

    ’’شگوفہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں کہا۔ وہ خاموش رہی۔ میں نے دوبارہ یہی الفاظ دہرائے۔

    ’’لیکن تمہاری محبت‘‘اس نے رکتے ہوئے کہا اور پھر خاموش ہو گئی۔

    ’’لیکن کا کیا مطلب، شگوفہ کیا تمہیں میری محبت ناپسند ہے؟‘‘ میں نے کہا

    اس نے کچھ جواب نہ دیا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اس کے خاموشی سے میری بے قراری دم بدم بڑھنے لگی۔ مگر وہ کسی ایسے خیال میں محو تھی جیسے اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔

    ’’جلدی بولو شگوفہ اب میں صبر نہیں کر سکتا۔‘‘ میں نے منت کرتے ہوئے کہا۔

    ’’لیکن تمہاری محبت ناجائز ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

    ’’نہیں نہیں شگوفہ، میں کسی ناجائز محبت کا خواہش مند نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں تمہیں شریک زندگی بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’ہاں میں نے سمجھا، مگر میرے اور تمہارے درمیان ایک بیکراں خلیج حائل ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’خلیج کیسی‘‘ میں نے پوچھا۔

    شگوفہ نے جواب دیا، ’’مذہب۔‘‘

    ’’تو کیا تم مسلمان نہیں ہو؟‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔

    ’’لیکن مسلمانوں میں تو کئی فرقے ہوتے ہیں۔‘‘ شگوفہ نے جواب دیا۔

    ’’نہیں مسلمان سب ایک رشتہ میں منسلک ہیں۔ فرقہ واری ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی۔‘‘ میں نے فیصلہ کن لہجہ میں کہا۔

    ’’مگر میں اپنے فرقہ کے قوانین کسی صورت میں بھی نہیں توڑ سکتی۔‘‘ شگوفہ نے متانت سے جواب دیا۔

    ’’اچھا تو مجھے بھی اپنے فرقہ میں شامل کرو۔ کیا تم ایسا بھی نہیں کر سکتیں۔‘‘ میں نے منت سے کہا۔

    وہ ایک لمبے سکوت کے بعد بولی، ’’ہاں، ایسا ہو سکتا ہے بشرطیکہ پہلے میرے فرقہ میں شامل ہونے کی رسوم اداکرو۔‘‘

    چنانچہ میں نے منظور کر لیا۔

    (۴)

    آدھی رات کا وقت تھا۔ چاند کی سیمیں کرنیں زیتون کے چراغ کی لو سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ بال چھل کی نشیلی خوشبو سے مستی برس رہی تھی۔ میں کمرے میں اکیلا بیٹھا اپنی قسمت کے آخری فیصلہ کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں شگوفہ اندر آئی۔ اس نے سیاہ کمخواب کالباس پہن رکھا تھا اور سیاہ ہی موتیوں کے زیورات نورانی جسم کے زینت بن رہے تھے۔ یہ سوگوار علامت دیکھ کر میں نے آزردگی سے کہا، ’’شگوفہ شب عروسی کے لیے کالا لباس بہت منحوس ہے۔‘‘

    شگوفہ نے جواب نہ دیا اور نہایت خاموشی سے میرے قریب بیٹھ کر حسرت ناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی، ’’اچھا تمہیں میری شرط منظور ہے۔ بعد میں پچھتاؤگے تو نہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہرگز نہیں۔ قول مرداں جان دارد۔‘‘ اس منظوری کے بعد اس نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک ریشمی چادر میرے ہاتھ میں دے دی اور ایک منتر بتاکر مجھے ہدایت کی کہ میں شگوفہ کی صورت کا تصور کرکے یہ منتر پڑھوں اور منتر پڑھتے وقت یہ چادر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھیلائے رکھوں۔ چند بار عمل کرنے سے ایک پرندہ آکر میرے ہاتھوں پر گرےگا۔ جسے میں اس چادر میں لپیٹ کر بغل میں داب لوں۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ جس کے عمل سےچند سیکنڈ ہی میں ایک پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا میرے ہاتھوں میں آ گیا اور میں نے فوراً اسے چادر میں لپیٹ کر بغل میں داب لیا۔

    بعد ازاں اس نے میری آنکھوں سے پٹی کھولی اور میرے قریب بیٹھ کر کہنے لگی، ’’اچھا میری داستان حیات سنو تاکہ میری سچائی کے اظہار کےساتھ ہی میری داستان ختم ہو جائے۔‘‘ پرندہ بیچارہ میری بغل سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ اس لیے میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’پہلے اس بے زبان کی قسمت کا فیصلہ تو کرو جو میری بغل میں تڑپ رہا ہے۔ داستان حیات سنانے کو تو تمام عمر پڑی ہے۔‘‘ اس نے بےپروائی سے جواب دیا، ’’اس کا کچھ خیال نہ کرو۔ اسے تڑپنے دو۔ کیونکہ میرے مذہب کا یہی فرمان ہے۔‘‘ میں بےدلی سے خاموش ہو گیا۔

    شگوفہ نےکہا، ’’آہ! میں بہت ہی بدقسمت ہوں۔ ابھی میں نے دہر ناپائدار میں قدم ہی رکھا تھا کہ میری ماں مر گئی۔ جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو سوتیلی ماں کی جھڑکیوں اور ملامتوں کے سوا کبھی میرے کانوں نے نرم الفاظ نہ سنے۔ میں جب چھ برس کی ہوئی تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ گو باپ نے کبھی مجھ سے محبت نہ کی تھی تاہم ایک ٹھکانہ تو تھا سو وہ بھی جاتا رہا۔ مگر خدا مسبب الاسباب ہے۔ اس نے میرا ٹھکانا اس طرح بنایا کہ ہمارے محلہ کی ایک نیک دل اور امیر عورت نے میری پرورش کاذمہ لے لیا۔ اس نیک دل خاتون کا ایک ہی لڑکا تھا جس کو گھر سے نکلے ہوئے دس سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔‘‘

    خدا کی قدرت مجھے ابھی ان کے گھر آئے تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ بھائی عثمان یعنی اس نیک دل خاتون کا اکلوتا بیٹا واپس آ گیا۔ ماں مجھے پہلے ہی بہت پیار کرتی تھی مگر اب مجھے اپنے لیے مبارک خیال کرتے ہوئے زیادہ قدر کرنے لگی۔ حتی کہ ان کی ناز برداریوں نے مجھے بہت شوخ اور شریر بنا دیا۔ لیکن جہاں گل ہوتا ہے وہاں خار بھی ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی بھائی عثمان کو میری شوخیاں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ وہ اکثر مجھے ایسی قہرآلود نگاہوں سے دیکھتے کہ میراخون خشک ہوکر رہ جاتا ہے۔

    بھائی عثمان زرد رو اور اور لاغر اندام تھے۔ ان کے متین چہرے سے عزم و استقلال ٹپکتا تھا اور پیشانی کی شکنیں دانائی اور بزرگی کی شاہد تھیں۔ ان کی عمرتیس سال کے قریب تھی۔ طبیعت میں حکومت کا مادہ تھا۔ وہ اپنی ہر جائز و ناجائز بات منوانے کے عادی تھے۔ بھائی عثمان نے ماں کو بتایا کہ وہ کشمیر کے علاقہ میں ایک دور دراز وادی میں دس سال تک مقیم رہے اور آئندہ بھی اپنی زندگی وہیں گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ماں نے ہرچند منع کیا مگر وہ نہ مانے، بلکہ ماں کو بھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے اصرار کرنا شروع کیا، آخرکار ماں کو انہوں نے رضامند یا مجبور کر لیا۔ اس طرح ہمارا آٹھ افراد کا قافلہ اس وادی میں پہنچا، یعنی ایک عثمان بھائی خود، دوسری میں، تیسری ماں، چوتھا چچا، دو بوڑھی خادمائیں اور دو غلام۔ کچھ دن تک تو ہم لوگ بہت اداس رہے۔ لیکن قدرت نے اس وادی کو حسن و دلکشی کا وافر حصہ دے رکھا تھا۔ اس لیے ہم چند ہی دن میں اس قدرتی زندگی کے عادی ہو گیے۔

    بھائی عثمان فطرتاً خشک طبیعت اور خلوت پسند واقع ہوئے تھے۔ اس احاطہ کے دوسرے سرے پر جو عمارت کھڑی ہے، یہ ان کی لائبریری تھی۔ وہ دن میں ایک مرتبہ ماں سے ملنے آتے، باقی تمام وقت اسی لائبریری میں گزارتے اور رات کو بہت دیر سے گھر آتے۔ مجھے اس تجربہ گاہ کی طرف جانے کا حکم نہ تھا۔ بلکہ گھر میں بھی جب کبھی میرا ان کا سامنا ہو جاتا تو خواہ مخواہ ایسی ڈانٹ بتاتے جس سے میں سہم جاتی اور ہمیشہ ان کی نظروں سے دور رہنے کی کوشش کرتی۔

    دن گزرتے گیے۔ میری ماں نے مجھے اردو فارسی کی کتابیں پڑھائیں اور تھوڑا بہت لکھنا بھی سکھایا۔ لیکن بدقسمتی نے ساتھ نہ چھوڑا، جب بارہ سال کی ہوئی تو ماں نے انتقال کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد چچابھی مر گیا اور پھر دونوں ملازم اور ایک خادمہ بھی یکے بعد دیگرے ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گیے۔ اب بھائی عثمان کے علاوہ صرف میں اور بوڑھی خادمہ گھر میں باقی رہ گیے۔ بھائی عثمان بدستور اپنی لائبریری میں رہتے تھے۔ گو اب انہوں نے اپنی سخت گیری سے ہاتھ اٹھا لیا تھا مگر مجھے منہ بھی نہ لگاتے تھے۔ میں مجبوراً تنہائی کی زندگی بسر کرتی رہی۔ آخر جوں جوں میری عمر برھتی گئی، مجھے احساس ہونے لگا کہ میں اس گھر میں غیر ہوں اور اسی وجہ سے بھائی عثمان مجھ سے کھنچےکھنچے سے رہتے ہیں۔ حالانکہ میری ذات سے کبھی انہیں تکلیف نہیں پہنچی۔

    عمر کے ساتھ حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے تہیہ کر لیا کہ آج ضرور بھائی عثمان سے اس شدید اور نامعلوم نفرت کی وجہ دریافت کروں گی۔ اگر میرا وجود ہی ان کے کسی دکھ کا باعث ہو تو میں اس گھر سے رخصت ہو جاؤں گی۔ اسی خیال سے میں رات کو دیر تک ان کا انتظار کرتی رہی۔ انہوں نے اس دن کھانا بھی نہ کھایا۔ بوڑھی خادمہ بیچاری ان کا کھانا آتش دان کے قریب رکھے دیوار کے سہارے خراٹے بھرتی رہی۔ ادھر میں ان کے انتظار میں بستر پر کروٹیں لے رہی تھی۔ حتی کہ یہ انتظار کی گھڑیاں میرے لیے ناقابل برداشت ہو گئیں، ناچار میں لائبریری کی طرف چلی گئی۔ مگر دروازہ پر پہنچ کر کچھ جھجکی۔ بھائی عثمان کی خفگی کے خیال سے کانپ گئی۔ تاہم میں نے فوراً ہی اپنے دل کو مضبوط کیا کہ بھائ عثمان بھی تو آخر انسان ہی ہیں، کوئی ہوا تو نہیں۔ میں نے دستک دینے کے ارادے سے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو دروازے کا پٹ ہاتھ لگتے ہی چو سے کھل گیا۔ میں بوکھلاکر پیچھے ہٹی۔ میرا خیال تھا کہ ابھی عثمان بھائی اپنی بھاری بھرکم آواز میں للکار کر کہیں گے، کون ہے۔ لیکن جب خلاف امید کوئی آواز نہ آئی تو میں نے جھانک کر اندر دیکھا۔

    کمرہ خالی تھا۔ میں چپکے سے اندر داخل ہوئی۔ طاقچہ پر موم بتی جل رہی تھی۔ میز پر کتابیں بےترتیبی سے بکھری ہوئی تھیں۔ قریب ہی بھائی عثمان کی ٹوپی پڑی تھی اور کوٹ ایک طرف کھونٹی پر لٹک رہا تھا۔ کمرے میں کسی دوا کی ہلکی ہلکی بو پھیل رہی تھی۔ میں حیران تھی کہ بھائی عثمان ایسے بےسروسامانی سے کہاں جا سکتے ہیں۔ یک دم میری نظر دیوار سے لگے ہوئے ایک بڑے قطعہ پر پڑی جو مجھے کچھ عجیب سا معلوم ہوا۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس پر لکھی ہوئی سطروں میں حروف کے بجائے اعضاء کی صورتیں دی گئیں تھیں۔ مثلاً کان، ناک، آنکھیں، زبان، دانت، دل، معدہ، تلی، کلیجہ، پھیپھڑے، گردے وغیرہ۔ ہر ایک عضو کی تصویر دے کر عبارت کے طریقہ پر سطریں لکھی گئی تھیں۔ نہ جانے یہ کون سی زبان تھی۔ میں دیر تک اسے سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ مگر کامیاب نہ ہوئی۔

    قریب ہی ایک الماری تھی جس کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا۔ اتفاقاً میری نظر اس کے اندرونی حصہ تک پہنچی۔ یہ الماری دراصل ایک چھوٹا سا صندوق نما کمرہ تھا جس کے اندر ایک زینہ تھا۔ جونیچے گہرائی میں جا رہا تھا۔ معاً مجھے خیال آیا کہ ہو نہ ہو ضرور بھائی عثمان نے اپنی تفریح کی کوئی جگہ بنا رکھی ہے، لہٰذا یہ اسرار کھولنے کے لیے میں دبے پاؤں نیچے اترنے لگی تو بہت سی سیڑھیاں اترنے کے بعد کچھ روشنی دکھائی دی۔

    تحت الثری میں ایک چھوٹا سا تہ خانہ تھا جس میں عجیب قسم کی روشنی ہو رہی تھی۔ سیڑھیوں کے قریب ہی لکڑی کا ایک بڑا سا شیلف پڑا تھا جس میں پتھر کے بڑے بڑے مرتبان اور ٹین کے بڑے بڑے ڈبے رکھے ہوئے تھےمیں رینگتی ہوئی اس شیلف کے پیچھے چھپ گئی اور شیلف کے کونے سے جھانک کر اندر کا نظارہ کرنے لگی۔ تہ خانہ کے کونے میں آگ جل رہی تھی۔ اس آگ کا رنگ بالکل سبز تھا اور یہ تہ خانہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا مگر اس دھوئیں سے دم گھٹنے کی بجائے ایک طرح کی فرحت حاصل ہوتی تھی۔ تہہ خانے کا اندرونی حصہ اس دھوئیں کی کثیف چادر میں لپٹا ہوا بالکل ایک سبز غبارے کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ اس غبارے میں سامنے لکڑی کا ایک بڑا سا میز رکھا تھا جس پر پھولوں کی سیج بچھی ہوئی تھی اور اس سیج پر کوئی سفید چادر اوڑھے سو رہا تھا۔ سونے والے کی پائنتی کی طرف دو تین شیشے کے پیالے پڑے تھے جن میں کوئی سیاہ سی چیز پڑی ہوئی ہل رہی تھی، کونے کے قریب ہی آگ سے تھوڑی دور دیوار کے ساتھ ویسا ہی ایک قطعہ لٹک رہا تھا جیسا کہ میں اوپر ابھی دیکھ چکی تھی۔ اس قطعہ کے سامنے بھائی عثمان بت بنے کھڑے تھے۔ ان کی پشت میری طرف تھی۔

    یک لخت وہ میز کی طرف پلٹے تو ان کے ہاتھ میں پھیپھڑوں سمیت ایک کلیجہ دکھائی دیا جو انہوں نے سانس والی نالی کے اوپر والے سرے سے پکڑ رکھا تھا۔ اسے دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں بھاگ جانا چاہتی تھی مگر طاقت نے جواب دے دیا اور لرزاں براندام شیلف کے سہارے بیٹھی ہوئی سب کچھ دیکھتی رہی۔ بھائی عثمان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا کلیجہ پوری طرح تڑپ رہا تھا جسے انہوں نے شیشے کے خالی پیالے میں ڈال دیا۔ اس کلیجہ کی حرکت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ اچھل اچھل کر پیالے سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ بھائی عثمان نے اب جیب سے گھڑی نکالی اور دیر تک اس کی حرکت کا گھڑی کی رفتار سے مقابلہ کرتے رہے۔

    اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ سونے والے کے سرہانے پہنچے اور اس کے منہ سے کپڑا ہٹاکر اس پر جھک گیے اور بہت دیر تک اسے دیکھتے رہے۔ وہ کبھی آہستگی سے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے، کبھی ہلکی ہلکی جنبش دے کر اسے جگانے کی کوشش کرتے مگر سونے والے نے کوئی حرکت نہ کی۔ آخر اس کی بیداری سے مایوس ہوکر بھائی عثمان نے اس پر سے چادر اتار دی۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ ایسی گہری نیند سونے والی ایک نیم برہنہ عورت تھی۔ گو اس کا چہرہ بھائی عثمان کے سائے کی اوٹ میں ہونے سے مجھے دکھائی نہ دیا مگر اس کے جسم کا باقی حصہ، جو سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا، صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی مریضہ ہے۔

    بھائی عثمان نے اس مریضہ کو گود میں اٹھا لیا اور جلتی آگ کے پاس کھڑے ہوکر اس کے جسم کو آگ کی گرمی پہنچانے لگے۔ دفعتاً مجھے اس مریضہ کے چہرے کی تھوڑی سی جھلک دکھائی دی۔ جس سے مجھ پر دہشت طاری ہو گئی۔ آہ وہ ایک لاش تھی۔ جس کی ٹانگیں ایک طرف لٹک رہی تھیں۔ سر اور بازو دوسری طرف، اس کی لاش کے لمبے لمبے بکھرے ہوئے بال بھائی عثمان کے پاؤں کو چھو رہے تھے۔ خوف و ہراس سے مجھ پر ایک تشنجی دورہ پڑا اور تہہ خانہ ایک سبز غبارے کی طرح ہوا میں اڑتا ہوا معلوم ہوا۔ ایک ہولناک چیخ میرے منہ سے نکلی اور بیہوش ہو گئی۔

    شگوفہ یہاں تک پہنچ کر یک دم رک گئی۔ وہ کچھ تھکی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور ادھر پرندہ میری بغل میں دم توڑ رہا تھا۔ میں نے مضطرب ہوکر کہا، ’’خداکے لیے جلد کہانی ختم کرو۔ تمہاری اس طویل کہانی سے اس جانور کا خواہ مخواہ خون ہو جائےگا۔‘‘ شگوفہ نے بری طرح ہانپ کر کہا، ’’پھر اسی پرندے کا ذکر۔‘‘

    ’’ایک دفعہ میں کہہ چکی ہوں کہ یہ مارنے کی خاطر تمہاری بغل میں دیا گیا ہے۔‘‘

    مجھے اس کی سنگ دلی پر افسوس ہوا۔ تھوڑے وقفے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا، ’’اس پر ہول واقعہ کے بعد جب میں ہوش میں آئی تو خود کو اپنے بستر پر پڑا ہوا پایا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ سب کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ چونکہ سردی سے میرے بدن میں کپکپی ہو رہی تھی لہٰذا میں نے بوڑھی خادمہ کو آواز دی تاکہ آتش دان میں آگ سلگائے مگر میری متعدد آوازوں پر بھی جب بڑھیا نے کوئی جواب نہ دیا تو میں گھبراہٹ میں اٹھ کر اس دروازے تک گئی جو میری اور بڑھیا کی خواب گاہ کے درمیان تھا۔

    بڑھیا کو کمرے میں نہ پاکر میں بدحواسی سے باہر برآمدے میں نکل آئی۔ خدا کی پناہ تحت الثریٰ کی تاریک رات میں مہیب سرخ روشنی کے شعلے بڑھتے پھیلتے دکھائی دیے۔ فضا دھوئیں سے بھرپور تھی۔ میں کانپتی ہوئی آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ بھائی عثمان کی لائبریری دھڑا دھڑ جل رہی ہے۔ جسے دیکھ کر اس تہہ خانے کا سارا سین میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور مجھے یقین کرنا پڑا کہ جو کچھ میں نے دیکھا وہ خواب نہ تھا۔ مگر یہ آگ کیسے لگی کیا بھائی عثمان نے خود لگائی؟ لیکن کیوں؟ کہیں انہوں نے خود کشی نہ کر لی ہو۔ یہ خیال آتے ہی میرا دل زو رزور سے دھڑکنے لگا اور میں نے بےتحاشا چیخیں مارنی شروع کیں۔ میری اس چیخ و پکار پر بوڑھی خادمہ بھائی عثمان کے کمرے سے نکلی۔ میں دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے پوچھا کہ بھائی عثمان کہاں ہیں؟

    اس نے کہا، اپنے کمرےمیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو کیا ان کو آتش زدگی کی خبر نہیں؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا، ’’کیوں نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو وہ پھر اسے بجھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔‘‘ بڑھیا نے کہا، ’’ناممکن بات کی کوشش سے کیا فائدہ؟‘‘ میں نے پھر کہا، ’’مگر کم از کم وہ باہر آکر اسے دیکھ ہی لیتے۔ ‘‘بڑھیا نے روکھے پن سے کہا، ’’یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ تم فوراً اپنے کمرے میں جاؤ۔ یہاں دھوئیں میں بیمار ہو جاؤگی۔‘‘ میں نے مچلتے ہوئے کہا، ’’مجھے بھائی عثمان کے پاس لے چلو۔‘‘ بڑھیا نے سختی سے کہا، ’’نہیں، تمہیں اپنے کمرے میں جانا ہوگا۔ اس وقت وہ تمہیں نہیں مل سکتے۔‘‘

    میں مایوس ہوکر اپنے کمرے میں آ گئی۔ اس وقت میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے اٹھ رہے تھے۔ جن کا میں نے بوڑھی خادمہ پر بھی اظہار کیا۔ اس نے کہا، ’’نادان لڑکی اگر وہ سلامت نہ ہوتے تو تمہیں یہاں اٹھاکر کون لاتا؟‘‘

    ’’تو کیا بھائی عثمان مجھے اٹھاکر لائے ہیں؟‘‘ میں نے متعجب ہوکر کہا۔ بڑھیا نے کہا، ’’تو کیا میں لائی ہوں۔ اب زیادہ باتیں نہ بناؤ اور سو جاؤ۔‘‘ میں بڑھیا کے اصرار پر بستر پر پڑ رہی۔ مگر ایسی حالت میں سوکون سکتا ہے۔ وہ آگ تمام رات بھڑکتی رہی۔ اتفاقاً صبح کے قریب بارش شروع ہو گئی جس سے یہ منحوس آگ فرو ہوئی۔

    اس واقعہ کے بعد میں دوماہ تک بھائی عثمان کو نہ دیکھ سکی لیکن بوڑھی خادمہ کا ان کے کمرے میں آنا جانا بتاتا تھا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں اور گوشہ نشیبی اختیار کر چکے ہیں۔ کئی بار مجھے خیال آیا کہ جاکر ان سے معافی مانگوں۔ مگرمیں مجرم تھی اور وہ انتہائی سخت گیر واقع ہوئے تھے، اس لیے جرات نہ ہوئی اور میں اپنی اس بیوقوفانہ حرکت پر بہت نادم تھی۔

    خزاں کا آغاز تھا۔ نہایت اداس اور خشک دوپہر تھی۔ میں آتش دان کے قریب سرنگوں بیٹھی تھی کہ بوڑھی خادمہ نے آکر مجھ سے کہا، ’’شگوفہ جان تمہیں آغا بلا رہے ہیں۔‘‘ اس اچانک بلاوے نے مجھے کسی حدتک خوفزدہ کر دیا۔ نہ جانے بھائی عثمان اب مجھے کیا سزا دیں۔ چنانچہ میں سہمی ہوئی ان کے کمرہ میں گئی۔

    آج پہلی دفعہ میں نے ان کا کمرہ دیکھا تھا۔ اس نیم تاریک کمرہ میں گہرے سبز رنگ کے اونی پردے پڑے تھے اور چھت میں ایک بہت بڑی پیتل کی قندیل لٹک رہی تھی جس میں رکھے ہوئے ایک پیتل کے چومکھے چراغ میں بیروزہ کی بتیاں جل رہی تھیں اور بیروزہ کی تیز بو تمام کمرہ میں پھیل رہی تھی۔ آتش دان میں ایک خاص قسم کی لکڑی سلگ رہی تھی جس کی روشنی بالکل سبز تھی۔ بیروزہ کی گہرے بادامی رنگ کی روشنی اس سبز روشنی کے گرد دھوئیں کی تہہ کی طرح لپٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ جس سے یہ کمرہ بھی ایک سبز غبارے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہاں بھی وہی تصویروں کی زبان میں لکھے ہوئے قطعے لٹک رہے تھے اور قالین پر بھی کچھ ویسے ہی نشانات تھے۔ اس انوکھے ماحول سے میں بہت گھبرائی۔ بھائی عثمان بستر پر نیم دراز تھے، میں ان کو دیکھ کر ٹھٹکی۔

    ’’آ جاؤ شگوفہ بہن‘‘ انہوں نےنرمی سے کہا۔ ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میری جان میں جان آ گئی، میں خوشی اور تعجب کے ملے جلے احساس سے کانپتی ہوئی آگے بڑھی، انہوں نے مجھے اپنے قریب ایک تپائی پر بٹھا لیا۔ وہ بہت لاغر ہو رہے تھے اور ان کی کلائیوں پر بہت بڑے بڑے سفید داغ دکھائی دیتے تھے۔ ان کو مہربان پاکر میں نے دبی زبان سے پوچھا، ’’یہ آپ کی کلائیوں پر نشان کیسے ہیں؟‘‘

    ’’یہ جل گئی ہیں تمہاری مہربانی سے شگوفہ۔‘‘ انہوں نے اداسی سے کہا۔ مجھے افسوس ہوا اور میں نے معافی کی غرض سے اپنا سر ان کے پاؤں پر رکھ دیا۔ انہوں نے میرا سر آہستہ سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، ’’شگوفہ میں تمہیں ملامت نہیں کرتا۔ بلکہ اچھا ہوا کہ تم اس راز سے واقف ہوگئیں۔ مجھے تم سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ‘‘

    میں نے حیرت سے بھائی عثمان کا منہ دیکھا کیونکہ میں نہ جانتی تھی کہ کون سا راز مجھ پر ظاہر ہوا ہے۔ آخر میں نے حوصلہ کرکے کہہ دیا، ’’میں تو کسی راز سے بھی واقف نہیں ہوئی۔‘‘ بھائی عثمان نے کہا، ’’تو پھر تم تہہ خانے میں کیوں گئی تھیں؟‘‘ جس پر میں نے ان سے وہاں جانے کا سارا ماجرا بیان کیا۔ بھائی عثمان کہنےلگے، ’’اچھا تو میرا خیال تھا کہ تم اکثر وہاں جایا کرتی ہو۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’اگر میں پہلے کبھی گئی ہوتی تو اتنی خوف زدہ کیسے ہوتی۔‘‘ بھائی عثمان نے کہا، ’’بیشک۔ ‘‘

    پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے، ’’شگوفہ اب تم سیانی ہوگئی ہو اور یہ بھی جانتی ہو کہ تمہارا میرے سوا اس دنیا میں کوئی عزیز نہیں ہے اور نہ تمہارے سوا میرا۔ اس لیے بہن بھائی کی حیثیت سے ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنا ہمارا فرض ہے۔‘‘میں نے کہا، ’’ضرور۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اچھا مجھے قول دو۔‘‘

    ’’آہ میں نے انہیں بےسمجھے بوجھے قول دے دیا۔‘‘

    بعد ازاں بھائی عثمان نے مجھے بتایا کہ اس واقعہ کے اٹھارہ سال پیشتر وہ ایک پارٹی کے ساتھ اس علاقہ میں آئے تھے تو ایک غریب لاغر پہاڑی گوالے کی لڑکی کو دل دے بیٹھے۔ فرحہ گو ایک گوالے کی لڑکی تھی مگر اتنی خودار اور قانع واقع ہوئی تھی کہ انتہائی کوششوں کے باوجود ان سے مانوس نہ ہوئی۔ آخر انہوں نے اس کے باپ کو کسی نہ کسی طرح رام کر لیا اور اس نے اس شرط پر ان کا نکاح فرحہ سے کر دیا کہ وہ اسی گاؤں میں سکونت اختیار کریں۔ مگر آہ ان کی قسمت میں سکھ نہ تھا۔ شادی کے بعد جلدی ہی ان کے سہانے خوابوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ کیونکہ فرحہ دق کی مریض تھی اور وہ ان کی ان تھک کوششوں کے باوجود جانبر نہ ہو سکی۔

    انہیں اس کی موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ زندگی دوبھر ہو گئی۔ وہ فرحہ کے علاج کے دوران میں کئی ایک ایسی جڑی بوٹیوں سے واقف ہو چکے تھے جن کی عجیب و غریب خاصیتیں تھیں، چنانچہ ایک ایسی جڑی کا بھی انہیں علم تھا جس کے پھولوں پر اگر لاش رکھ دی جائے تو وہ خراب ہونے سے محفوظ رہتی ہے اور یہ بیروزہ کی بتیاں بھی دق کے جراثیم کو ہلاک کرتی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فرحہ کی لاش کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے کتب خانہ کے نیچے ایک تہہ خانہ بنایا اور اس خاص بوٹی کے پھولوں کی سیج بناکر اس پرفرحہ کو لٹا کر تہہ خانہ میں بند کر دیا اور خود بیراگی بن کر جنگلوں اور بنوں میں آوارہ گردی کرنے لگے۔ کبھی مہینے میں ایک آدھ دفعہ یہاں آتے اور لاش پر تازہ پھول ڈال جاتے۔

    اسی دوران میں اتفاقاً انہیں ایک ایسا سنیاسی مل گیا جو ایک خاص علم جانتا تھا۔ جسے ڈائنوں کا علم کہا جاتا ہے۔ یہ علم ایک خاص زبان میں پڑھا جاتا ہے اور اس کی عبارت اعضاء کی صورت میں لکھی جاتی ہے جس کا عمل انسانی یا حیوانی اعضاء کو آسانی سے بدل سکتا ہے یا بالکل علیحدہ کر سکتا ہے۔

    چنانچہ سنیاسی سے یہ علم حاصل کرکے انہیں اتنی خوشی ہوئی جیسے انہوں نے کونین کی دولت پالی۔ محبت کی رنگینیاں، زندگی کی دلچسپیاں اور امیدوں کا ہرا بھرا باغ ان کی آنکھوں کے سامنے لہلہانے لگا۔ انہیں یقین تھا کہ اس عمل کے ذریعہ فرحہ کو دوبارہ زندگی دے سکیں گے۔ غرض یہ کہ وہ انہیں ارمانوں کو دل میں لیے واپس آئے اور اس علم کے ذریعہ انہوں نے بغیر کسی قسم کے آپریشن کے اس کے ناکارہ پھیپھڑے کلیجہ سمیت نکال دیے اور بکری کے تازہ پھیپھڑے اس کے جسم میں داخل کیے، لیکن چونکہ اس کو مرے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے اس کا جسم سڑ کر ضائع ہو چکا تھا اور گوشت بالکل سوکھ کر لکڑی بن گیا تھا اس لیے وہ زندہ نہ ہوسکی۔ گو اس نے چند سانس لیے مگر پھر جلدی ختم ہو گئی۔

    گو اب انہیں اس کی زندگی سے بالکل مایوسی ہو گئی تھی لیکن خبط کاکیا علاج، جس کے زیر اثر وہ بار بار ناکارہ پھیپھڑے نکال کر نئے ڈالتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید بار بار ایسا کرنے سے اس کا جسم بھی تازہ ہو سکے۔ اس جدوجہد میں ان کی صحت خراب ہو گئی، اب انہیں محسوس ہوا کہ غور پرداخت کرنے والا ضرور کوئی ان کے پاس ہونا چاہیے لہٰذا اسی لیے والدہ کو یہاں لے آئے۔ جن کے آنے سے ان کی حالت بہت سنبھل گئی اور اسی طرح انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیا۔ مگر تھوڑے عرصہ سے وہ خود کو دق کا مریض تصور کرنے لگے۔ چونکہ وہ کئی جڑی بوٹیاں جانتے تھے اس لیے ان کے ذریعہ انہوں نے مرض کو دبا دیا مگر مرض جڑ سے نہ گیا۔

    اب ان کے لیے ضرور تھا کہ فرحہ کو زندہ کرنے کا خیال چھوڑ دیں، وہ خود بھی اس کام سے بیزار ہو چکے تھے۔ مگر نہ معلوم کیوں اس کام سے باز نہ آئے۔ آخر خدا نے ان کی مدد کی کہ اس روز تہ خانے میں میری چیخ سن کر ایسے بوکھلائے کہ فرحہ کی لاش ہاتھوں سے چھوٹ کر جلتی آگ میں جاپڑی جس سے شعلے بھڑکنے لگے۔ وہ بدحواسی سے بھاگ رہے تھے کہ راستہ میں مجھ پر نظر پڑی، مجھے وہاں سے اٹھا لائے لیکن خدا جانے ان کی کلائیاں کیسے جل گئیں۔

    اب وہ کئی دن سوچ رہے تھے کہ یہ بیماری جو انہیں لگ چکی ہے کس طرح رفع ہو۔ کہاں تک وہ اسے جڑی بوٹیوں کے ذریعے قابو میں رکھ سکیں گے، اگر ذرا بھی بےاحتیاطی ہو گئی تو جان کے لالے پڑ جائیں گے لہٰذا اس دن ایک تدبیر ان کے ذہن میں آئی کہ اگر میں یہ علم ان سے سیکھ کر ان کے پھیپھڑے بکری کے تازہ پھیپھڑوں سے بدل دوں تو ان کی زندگی محفوظ ہو سکتی ہے۔ میں نے حامی بھر لی۔

    غرض یہ کہ کچھ دن بعد مجھے اسی تہ خانہ میں لائے جس میں کبھی فرحہ کی لاش رکھی گئی تھی جو آتش زدگی کے بعد انہوں نے ازسرنو تعمیر کیا تھا۔ میز پر لیٹ کر انہوں نے مجھے دو طلسم سکھائے اور بکری کے تازہ پھیپھڑے جو خاص طور پر اس کام کے لیے تیار رکھے تھے، مجھے دیے اور ہدایت کی کہ پہلے طلسم کے اثر سے جب ان کے پھیپھڑے باہر نکل آئیں تو دوسرا طلسم بکری کے پھیپھڑوں پر پڑھنے سے یہ ان کے جسم میں خودبخود داخل ہو جائیں گے۔ آہ میں نے اس کام کو معمولی سمجھ رکھا تھا۔ لیکن جونہی میں نے طلسم پڑھا تو بھد سے کوئی چیز میرے پاؤں کے قریب آ گری۔ میں نے جھک کر دیکھا کہ ایک پھیپھڑا معہ جگر کے میرے پاؤں میں تڑپ رہا تھا۔

    میرا دل دہل گیا۔ میں نے گھبراکر بھائی عثمان کی طرف دیکھا۔ ان کا رنگ اس وقت ایسا زرد ہو رہا تھا کہ میں حواس باختہ ہو گئی۔ میری حالت دیکھ کر انہوں نے مجھے اشارہ سے بلایا۔ مگر میں بت بنی کھڑی رہی آخر انہوں نے اونچی آواز سے کہا، ’’شگوفہ کیا دیکھ رہی ہو۔ اپنا کام شروع کرو۔ بیماری نے پہلے ہی مجھے نڈھال کر رکھا ہے۔ میں اس حالت میں زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکوں گا۔‘‘

    نہ جانے مجھے اس وقت کیا ہو گیا کہ انتہائی کوشش کے باوجود میں حرکت نہ کر سکی اور متوحش نگاہوں سے ان کے زرد اور مدقوق چہرے کو دیکھتی رہی ’’آہ بدبخت لڑکی۔‘‘ بھائی عثمان نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا اور پوری طاقت سے اٹھ کر بیٹھ گیے۔ اف! اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک لاش اٹھ رہی ہے۔ خوف و ہراس سے خون میری رگوں میں جم گیا اور بیہوش ہو گئی۔

    جب میں ہوش میں آئی تو تہ خانہ میں مکمل خاموشی تھی اور بھائی عثمان چند قدم پر اوندھے پڑے تھے۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بےتحاشا سیڑھیوں کی طرف بھاگی اور اوپر جاکر کتب خانہ سے باہر نکلتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اسی وقت بوڑھی خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور مجھے پچکارتے ہوئے رونے کی وجہ پوچھنے لگی۔ میں نے سارا ماجرا اس سے بیان کر دیا۔ پہلے تو اس نے مجھے بہت ملامت کی پھر اپنے فرض سے آگاہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام دینے کے لیے منت سماجت کرنے لگی۔ اب کھلی ہوا میں میرے حواس بھی کچھ بجا ہوئے۔ مجھے اپنی کمزوری پر سخت ندامت ہوئی اور بوڑھی خادمہ کے سمجھانے سے میں دوبارہ تہہ خانہ میں جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

    اس دفعہ مجھے دلیری بھی تھی کیونکہ بوڑھی خادمہ میرے ساتھ تھی۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بھائی عثمان ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ ہم دونوں نے اٹھاکر انہیں میز پر لٹایا اور میں نے بکری کے پھیپھڑے پر طلسم پڑھنا شروع کیا۔ چند منٹ کے بعد وہ پھیپھڑا حرکت کرنے لگا۔ میں نے اپنا عمل جاری رکھا۔ آہ !وہ پھیپھڑا صرف حرکت ہی کرتا تھا۔ مگر بھائی عثمان کے جسم میں داخل نہ ہوتا تھا۔ میں حیران تھی کہ یہ طلسم اپنا اثر پوری طرح کیوں نہیں کرتا۔ لیکن مجھے جلدی ہی معلوم ہو گیا کہ میں طلسم پورا نہیں پڑھ رہی اس کا ایک آخری حرف بھول چکی ہوں۔ اپنی غلطی سے آگاہ ہوکر میں نے سرپیٹ لیا۔ آہ اگر میں دل کو مضبوط رکھتی تو اپے عمل میں کامیاب ہوسکتی تھی۔ اب وہ مر چکے تھے۔ بھولا ہوا حرف کون یاد دلاتا۔ اس کے بعد جب تک ان کی لاش ٹھیک تھی، میں نے انہیں زندہ کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔

    بھائی عثمان کے مرنے کے بعد گاؤں کے آوارہ لڑکے میرے پیچھے پڑگیے اور ایک دن رات کے وقت نہ جانے کس طرح میرے جھونپڑے میں گھس آئے، میں اس وقت ایک بندر کے نکالے ہوئے پھیپھڑے اور کلیجے پر اپنا عمل کر رہی تھی۔ بندر کی لاش بھی سامنے پڑی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر وہ اتنے خوف زدہ ہوئے کہ بجائے سیدھے راستے بھاگنے کے کھڑکی سے کود گیے، جن میں سے ایک تو نیچے گرتے ہی مر گیا اور دوسرے بھاگ نکلے اور انہوں نے گاؤں میں جاکر مجھے ڈائن مشہور کر دیا۔ اس دن سے کسی نے بھی میرے جھونپڑے کی طرف آنے کی جرات نہ کی۔

    ایک سال گاؤں میں وبا پھیل گئی۔ یہ ایک نئی بیماری تھی یعنی پہلے زکام کی شکایت ہوتی، ساتھ ہی سر میں درد ہوتا، دوسرے دن ناک اور منہ سے خون آتا جس سے مریض فوراً مر جاتا۔ لہٰذا ان لوگوں نے اپنی جہالت کی وجہ سے وبا کا خالق مجھے ہی قرار دیا اور میرے قتل کے منصوبے ہونے لگے۔ اکیلی عورت کو مارنا بھلا کون سی بڑی بات ہے کیونکہ اب میری بوڑھی خادمہ بھی مرچکی تھی۔ چونکہ میں ان کی نظروں میں عورت نہ تھی بلکہ ایک ڈائن تھی اس لیے وہ اس سازش کو عملی جامہ پہنانے سے ہچکچاتے رہے۔

    نوری ایک یتیم لڑکی تھی جو کبھی کبھی مجھ سے پھٹا پرانا کپڑا یا بچا کھچا کھانا لے جایا کرتی۔ ایک دن اس نے مجھے گاؤں والوں کے ارادے سے آگاہ کیا۔ اسی دن میں شام کو خود گاؤں میں گئی۔ نمبردار کی حویلی میں اس وقت محفل جم رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ میں نے گرج کر کہا، ’’مجھے اپنے علم کے زور سے معلوم ہوا ہے کہ گاؤں میں میرے خلاف ہنڈیا پک رہی ہے۔ اس لیے میں تمہیں آگاہ کرنے آئی ہوں کہ ڈائن کسی کے مارے نہیں مرتی اور اگر وہ مر بھی جائے تو اس کی بدعا کبھی نہیں مر سکتی۔‘‘ میرا یہ حربہ کارگر ثابت ہوا۔ گاؤں والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ میری منتیں کرنے لگے وباء سے انہیں بچاؤں۔

    میں نے بھائی عثمان سے سن رکھا تھا کہ یہاں ایک خاص قسم کا لہسن پیدا ہوتا ہے جس کے کھانے سے ہر قسم کے زکام کے جراثیم مرجاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ کل گاؤں کے معززین میرے ڈیرے پر آئیں اور فلاں قسم کا لہسن کا ایک ٹوکرا بھر کر ساتھ لائیں۔ دوسرے دن وہ لوگ لہسن کا ٹوکرا لے کر میرے گھر آئے تو میں نے یہ شرط پیش کی کہ ان تینوں گاؤں کے لوگ اگر مجھے اپنا پیر بنائیں اور نذرانہ دیا کریں تو میں وباء دور کردوں گی۔ انہوں نے میری شرط منظور کر لی۔

    سمجھوتہ ہونےکے بعد میں نے لہسن پر جھوٹ موٹ دم کر دیا اور حکم دیا کہ یہ لہسن وبا زدہ لوگوں کو کھلایا جائے۔ جب اس لہسن کے کھانے سے وبا زدہ لوگ اچھے ہونے لگے تو میرا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ اس دن سے یہ لوگ مجھے نذرانہ دینے لگے اور فارغ البالی سے میری گزراوقات ہوتی رہی حتی کہ وہ دن بھی آ پہنچا کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور آپ کی محبت میرے من میں بس گئی، مگر پھر جب آپ مجھے چھوڑ کر چلے گیے تو میرا برا حال ہوا۔ میں زندگی میں بیزار رہنے لگی۔ آخر ایک مدت کے بعد میری محبت کی کشش پھر آپ کو یہاں کھینچ لائی تو ظالموں نے آپ کو بہکانا شروع کیا۔ آخر آپ انسان تھے۔ دھوکے میں آ گیے۔ اب اگر میں لاکھ صفائی پیش کروں، پھر بھی آپ کی محبت اور ہمدردی حاصل نہیں کر سکتی۔ آپ ہمیشہ مشکوک رہیں گے۔

    (۵)

    شگوفہ نے اپنی کہانی ختم کرتے ہی نہایت غمگین ادا سے سر جھکا لیا اور کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔ میری بغل میں بدنصیب پرندے کی تڑپ بھی دم بدم کم ہو رہی تھی۔ میں نے اس کی لمبی خاموشی سے اکتاکر کہا، ’’بس کہانی تو ختم ہو گئی۔ اب مجھے اجازت دو کہ اس پرندے کو رہا کروں تاکہ یہ کم از کم آخری سانس تو کھلی ہوا میں لے سکے۔ ‘‘ شگوفہ نے کچھ جواب نہ دیا اور بےحس و حرکت بیٹھی رہی، یکایک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کانپ رہی ہے، میں نے محبت سے اس کے سیمیں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اف !وہ برف کی طرح سرد ہو رہے تھے۔ میں بےاختیار اس سے لپٹ گیا۔ مگر اس کی حالت بدستور رہی، میں نے اسے جھنجھوڑ کر زور سے پکارا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا خوشنما سر اونچا کیا۔ اس کا چہرہ بالکل سفید ہو چکا تھا اور اس کی شرابی آنکھیں سچ مچ بدمستیوں کی طرح نیم باز تھیں۔

    اس نے آہستہ آہستہ اپنی کانپتی ہوئی مرمریں بانہیں اٹھاکر میرے گلے میں ڈال دیں۔ میں نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا، ’’شگوفہ تمہارا جسم اتنا سرد کیوں ہے، کیا کچھ بیمار ہو؟‘‘ وہ خاموش رہی۔ میں نے پھر پکارا، ’’شگوفہ۔‘‘

    ’’میرے آقا۔‘‘ اس نے رکتے ہوئے کہا، ’’میں نے ڈائن کا ذلیل لفظ اپنے نام سے ہمیشہ کے لیے مٹادیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کا سرخودبخود میری چھاتی سے لگ گیا اور اس کے پھول سے لب ہمیشہ کے لیے کمھلا گیے۔ میں نے سمجھا کہ وہ عشق کی حالت میں ہے لیکن میری انتہائی کوششوں کے باوجود اس کی دائمی غشی دور نہ ہو سکی۔ شگوفہ کی اس اچانک موت سے میرا کلیجہ پھٹنے لگا اور میں تمام رات گریہ وزاری کرتا رہا۔

    صبح جب گاؤں والے اس کی تجہیز و تکفین کی تیاری کرنے لگے تو مجھے اس پرندے کا خیال آیا جو رات کو شگوفہ نے میری بغل میں دیا تھا۔ دیکھا تو وہ بدستور ٹپکے میں لپٹا ہوا ایک طرف پڑا تھا۔ میں نے بیتابی سے اٹھاکر اسے کھولا۔ آہ! یہ پرندہ دراصل شگوفہ کے پھیپھڑے اور کلیجہ تھا۔

    مأخذ:

    خواتین افسانہ نگار (Pg. 14)

      • ناشر: نیاز احمد
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے