دیوالی کے دیے
اس کہانی میں انسان کی امیدیں اور آرزویں پوری نہ ہونے کا بیان ہے۔ چھت کی منڈیر پر دیے جل رہے ہیں۔ ایک چھوٹی بچی، ایک جوان، ایک کمہار، ایک مزدور اور ایک فوجی یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ سب اپنی اپنی فکروں میں غلطاں ہیں، دیے سب کو چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے بجھ جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
کشمکش
اخلاقی قدروں کے زوال کا نوحہ ہے۔ بڈھا موہنا دو ہفتوں سے بیمار ہے، اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ مر جائے گا لیکن پھر جی اٹھتا ہے۔ اس کے تینوں بیٹے چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مر جائے۔ دو ہفتے بعد جب وہ مر جاتا ہے تو اس کا جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے جلوس سے میٹھے چنے اٹھا کر ایک عورت اپنے بیٹے کو دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کھا لے تیری بھی عمر اتنی لمبی ہو جائے گی۔ عورت کو دیکھ کر ٹرام کا ڈرایئور، چیکر اور ایک بابو بھی دوڑ کر بوان سے چھوہارے وغیر لے کر کھاتے ہیں۔